منگل، 8 جون، 2021

شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کی ڈگری حاصل کرنا مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال ہے کہ ایک شخص بیوی کے تمام حقوق اچھی طرح سےادا کررہا ہے اور کبھی بھی مار پیٹ وغیرہ کچھ بھی نہیں کیا اور بیوی سے طلاق یا خلع کی وجہ پوچھی تو بیوی کہتی ہے کوئی وجہ نہیں ہے میں شوہر کے ساتھ نہیں رہتی۔ بیوی طلاق یا خلع کا مطالبہ کرتی ہے لیکن شوہر ان چیزوں سے انکاری ہے. اگر بیوی طلاق یا خلع کے لئے عدالت چلی جائے اور شوہر وہاں بھی طلاق یا خلع کے لئے انکار کر دے اور بیوی جو بھی الزامات لگائے شوہر اسے ناکام ثابت کردے لیکن عدالت پھر بھی عورت کو خلع کی ڈگری جاری کردے تو کیا ڈگری جاری ہونے سے نکاح ختم ہو جائے گا یا بدستور قائم رہے گا ۔ فقہ حنفی اور مسلک دیوبند کے مطابق رہنمائی فرمائیں ۔ شکریہ 

سائل:مولانا شعیب اسلام پوری

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

عورت یا اس کے گھر والوں کا بلا وجہ شرعی خلع کا مطالبہ کرنا،گناہ سے خالی نہیں ہے۔ 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بلا وجہ خلع کا مطالبہ کرنے والی عورتوں کے بارے میں کہیں تو جنت کی خوشبو سے محرومی تو کہیں ایسی عورتوں کو منافقہ قرار دیا ہے۔


احادیث میں مذکورہ الفاظ 

ایما امرأۃ سألت زوجھا طلاقا فی غیر ما باس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ“


”ایما امرأۃ اختلعت من زوجھا من غیر باس لم ترح رائحۃ الجنۃ“


قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن المختلعات والمنتزعات هن المنافقات، وما من امرأة تسأل زوجها الطلاق من غير بأس؛ فتجد ريح الجنة، أو قال : رائحة الجنة (ترمذی و ابن ماجہ)


خلع خاء کے ضمہ کے ساتھ ، اس کے لغوی معنی اتارنے کے ہیں ، قرآن کریم میں ہے : فاخلع نعلیک، اصطلاح میں خلع عورت سے کچھ لے کر اس کو نکاح سے آزاد کرنے کا نام ہے۔

خالعت المرأۃ زوجہا مخالعۃً إذا افتدت منہ وطلّقہا علی الفدیۃ۔ (حاشیۃ علیٰ رد المحتار / باب الخلع ۵/۸٣ زکریا )  


خلع دگر مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین (عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے اور شوہر نے خلع کے فیصلہ کو تحریری اور زبانی طور پر قبول نہیں کیا تھا تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا۔ لہذا اگر شوہر نے اس خلع کے فیصلہ پررضامندی نہیں دی ہے تو  اس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔


"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول،" (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع كتاب الطلاق، فصل فى ركن الطلاق، ٣/١٤٥، ط:دارالكتب العلمية)

 

إذا کان بعوض الإیجاب والقبول؛ لأنہ عقد علی الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقۃ، ولا یستحق العوض بدون القبول۔ (شامي:کتاب الطلاق / باب الخلع ۸۸/۵، زکریا )


لأنہ أوقع الطلاق بعوض ، فلا یقع إلا بوجود القبول۔ ( المبسوط للسرخسي باب الخلع ،۱۹۴/۶، دار الکتب العلمیۃ بیروت )


البتہ قاضی کو تنسیخِ نکاح کا حق ہے لیکن الحیلۃ الناجزہ میں اس کے لئے چند شرائط کو ذکر کیا ہے جس کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو، توایسی صورت میں  عورت دو گواہوں کے ذریعہ مسلمان جج کے سامنے اپنا دعوی ثابت کرے، جج اپنے ذرائع سے عورت کے دعوی کی تحقیق کرے، اگر دعوی درست ہو تو شوہر کو پیغام بھیجے کہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اگر وہ حقوق ادا کرے تو قاضی دعوی کو خارج کردے گا، لیکن  اگر وہ حقوق کی ادائیگی پر راضی نہیں ہوتا یا اطلاع  ملنے کے باوجود عدالت میں حاضر نہیں ہوا تومسلمان جج دونوں کے نکاح کو ختم کردے گا۔ (مستفاد: الحیلۃالناجزہ ص: ۷۳ ط:دارالاشاعت)

فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا