سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرت
کیا فرماتے ہیں آپ حضرات اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص اجتماعی قربانی والے کو کہتا ہے کہ میں اپ کو پیسے دیتا ہوں آپ مجھے 20 کلو گوشت دینا، اور اس جانور میں گوشت کم ہوتا ہے تو اس کا 20 کلو گوشت پورا کرنے کے لیے دوسرے جانوروں سے تھوڑا تھوڑا گوشت لیے کر 20 کلو پورا کرنا کیا یہ جائز ہے یا نہیں، یعنی مختلف جانوروں کا گوشت اکٹھا کر کے ایک حصہ مکمل کرنا یہ جائز ہے یا نہیں۔
سائل: عبد الخالق کراچی
الجواب وباللہ التوفیق
باسم سبحانہ وتعالی
قربانی کرنا عبادت ہے، اور عبادات میں نیت کا خالص ہونا ضروری ہے، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قربانی وہی مقبول ہوتی ہے، جس کا مقصد خالص اللّٰہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرنا ہو،
قربانی کے متعلق اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ اللہ کے پاس قربانی کے جانور کا گوشت پہنچتا ہے نہ ہی اس کا خون، البتہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
لہذا اگر قربانی کے جانور میں کسی نے صرف گوشت حاصل کرنے کی نیت کی ، قربانی ادا کرنے یا ثواب کی نیت نہیں کی تو ایسی صورت میں قربانی صحیح نہیں ہوگی، ایسا آدمی اگر مال دار ہے تو اس پر قربانی کے ایام میں ایک اور قربانی کرنا لازم ہوگا۔
اور اگر مشترکہ قربانی میں حصہ لیا ہے تو معلوم ہوتے ہوئے بھی شریک کرنے کی صورت میں کسی بھی شریک کی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔
مسؤلہ صورت میں سوال کا پس منظر بتارہا ہے کہ اس کی نیت صرف گوشت کی تھی لہذا اس کی قربانی درست نہیں ہوگی اور جس جانور میں اس کا حصہ تھا اس پورے جانور کے شرکاء کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لا يجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لا يتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لا يجوز عندنا- (الفتاوى الهندية (۵/٣٠٥)
البحر الرائق میں ہے
وإن كان شريك الستة نصرانيا ومريد اللحم لم تجز عن واحد منهم، ووجه الفرق أن البقر تجوز عن سبعة بشرط قصد الكل القربة (البحر الرائق ٨/٢٠٢)
مجمع الانھر میں ہے
وفي التنوير وإن كان شريك الستة نصرانيا أو مريد اللحم لم يجز عن واحد منهم (مجمع الانهر ٢/٥٢١)
العارض: مفتی آصف گودھروی