جمعرات، 31 اکتوبر، 2024

بیوی کو ایک دو تین چھوڑ دیا کہنے سے طلاق کاحکم سوال نمبر ٤٩٧

 سوال

بسم الله الرحمن الرحیم 

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے ہیں۔

کہ مورخہ ١٤ اگست ٢٠٢٤ کو بوقت ۱۱ بجے دن میری بات بیوی سے موبائل پر روپے بھیجنے کے سلسلہ میں ہو رہی تھی ۔ میں نے بیوی سے کہا تمہارے اکاؤنٹ پر بھیج دیتا ہوں ۔ اس نے مجھے بچوں کی قسم دے کر کہا کہ آپ اپنے والد کے اکاؤنٹ پر بھیج دیجئے ۔ اور اس کے بعد مجھ سے بحث کرنے لگی ۔

اس پر مجھے غصہ آگیا، اور میں نے اپنی بیوی سے کہا، ایک دو تین چھوڑ دیا " جبکہ اس جملہ سے میری نیت بیوی کو طلاق دینے یا چھوڑنے کی نہیں تھی ۔ تیری ہوئی چونکہ مجھ سے اور میرے گھر والوں سے ہمیشہ لڑائی جھگڑا کرتی رہتی ہے ۔ اس لئے اس کو ڈرانے دھمکانے کے لئے یہ جملہ بولا ہوں ۔ تا کہ وہ آئندہ اپنے منھ کو بند رکھے ۔ چھوڑنے کی نیت سے میں نے نہیں کہا۔ بتایا جائے کہ اس جملہ سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اسی طرح صریح اور کنایہ کا کیا مطلب ہے اس کو بھی بیان کریں اور اس میں طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کی کیا تفصیل ہے؟ اس کی بھی وضاحت مطلوب ہے۔

سائل: محمد نوشاد سہرسہ


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مذکورہ سوال میں ذکر کردہ صورت میں "ایک دو تین چھوڑ دیا" اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے (چھوڑدیا) کنایہ ہیں مگر عرف کی وجہ سے یہ طلاق کے وقوع کے لیے صریح بن چکے ہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ الفاظ عام طور پر طلاق کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں اس لئے ان الفاظ میں طلاق کی نیت کا ہونا ضروری نہیں، لہذا آپ کے یہ الفاظ ایک دو تین کہنے کے بعد چھوڑدیا یہ ماقبل کی وضاحت ہوگئی جس کی وجہ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائے گی۔


طلاق کی دو قسمیں ہے

طلاق صریح: یعنی لفظ طلاق استعمال کرنا اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا طلاقِ صریح بلا نیت وارادہ واقع ہوجاتی ہے۔


طلاق کنایہ: کنایہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنا جو حقیقت میں طلاق کے لئے وضع نہ ہوں بلکہ طلاق اور غیر طلاق دونوں معنوں کا احتمال رکھتے ہوں مثلا کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ "تیرا میرا کوئی تعلق نہیں" یا یہ کہے کہ توتیرے باپ کے گھر رہ اب تیری ضرورت نہیں ہے"تو ہمیشہ کے لئے تیرے گھر چلی جا وغیرہ وغیرہ"


کنائی الفاظ کا حکم یہ ہے کہ اس میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوگا یا دلالت حال سے یہ معلوم ہو کہ شوہر نے یہ لفظ طلاق کی نیت سے استعمال کئے ہے جیسے بیوی کہے کہ مجھے طلاق دیدو اور اس کے جواب میں یہ جملے استعمال کرے وغیرہ وغیرہ تو اس سے طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔


اور اگر کوئی خاص کنائی لفظ طلاق صریح میں بکثرت استعمال ہو تو فقہی عبارات سے اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔


(۱) اس کنائی لفظ میں حرمت یا مکمل علیحدگی کا معنی ہو جیسے لفظِ حرام اس سے طلاق بائن واقع ہوگی کیونکہ اس لفظ کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کے بعد جماع یا دواعی جماع دونوں حلال نہ رہیں اور یہ تب ہو سکتا ہے جب طلاق بائن واقع ہو۔


(۲) اوردوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کنائی لفظ عُرف کی وجہ سے صرف طلاق ہی میں متعارف ہو لیکن اس میں مکمل علیحدگی اور حرمت کا معنی نہ ہونیز وہ لفظ بولتے وقت ایسا کوئی لفظ یا جملہ بھی نہ بولا جائے جو اس کے معنی میں شدت اور سختی پیدا کرے تو صریح کے ساتھ لاحق ہوکر طلاق صریح کی طرح امس سے بھی ایک اور دو مرتبہ کہنے سے طلاق رجعی واقع ہوگی تیسری مرتبہ میں مغلظہ ہوجائے گی جیسے کہے میں نے تجھے چھوڑ دِیا یا میں نے تجھے آزاد کردیا وغیرہ وغیرہ۔


فتاوی شامی میں ہے

قال فی الشرنبلالیة: وقع السوٴال عن التطلیق بلغة الترک ھل ھو رجعي باعتبار القصد أو بائن باعتبار مدلول ”سن بوش“ أو ”بوش أول“ ؛ لأن معناہ خالیة أو خلیة؟ فینظر۔ قلت: وأفتی الرحمتي تلمیذ الخیر الرملي بأنہ رجعي، وقال: کما أفتی بہ شیخ الإسلام أبو السعود، ونقل مثلہ شیخ مشایخنا الترکماني عن فتاوی علی آفندي مفتی دار السلطنة وعن الحامدیة۔

ایضاً 

فإن ”سرحتک“ کنایة، لکنہ في عرف الفرس غلب استعمالہ فی الصریح، فإذا قال: ”رھا کردم“ أي: ”سرحتک“ یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضاً، وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الناس استعمالہ فی الطلاق، وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا فی الطلاق من أي لغة کانت۔ (فتاوی شامی کتاب الاطلاق باب الصریح ٤/٤۵۸ //باب الکنایات ٤/۵۳۰ مطبوعہ: دار عالم الکتب)

 

فتاوی عالمگیری میں ہے

والاصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية انه اذا كان فيھا لفظ لا يستعمل الافي الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غيرنية اذا أضيف إلى المرأة وما كان بالفارسية من الالفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الاحكام كذا في البدائع۔ (فتاوی عالمگیری ۱/۳۷۹ الفصل السابع في الطلاق بالالفاظ الفارسية مطبوعہ: مکتبہ دار الکتاب دیوبند)


اللباب في شرح الكتاب میں ہے

والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح۔ (اللباب في شرح الكتاب، كتاب الطلاق ۱/٤٤۵ مطبوعہ المکتبۃ العمریۃ دمشق)

واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

اتوار، 27 اکتوبر، 2024

عورتوں کا سواری پر محارم سے چِمَٹۡ کر بیٹھنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٩٦

سوال 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مفتی صاحب آج کل جوان لڑکیاں اپنے محرم رشتہ داروں کے ساتھ ٹو ویلر یعنی بائیک پر سفر کرتی ہے اور اپنے باپ، بھائی، بیٹے کے ساتھ اس طرح بے جھجک بیٹھ جاتی ہے کے جوان لڑکی کا پورا بدن بلکہ اس کا سینہ(چھاتی)بھی اپنے باپ بھائی بیٹے کے ساتھ لگ جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ چپکا ہوا رہتا ہے تو کیا اس طریقے سے بیٹھنا صحیح ہے ؟کیا لڑکی کے بیٹھنے کی وجہ سے باپ کے نکاح میں کوئی فرق ائے گا ؟قران اور حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائے !

سائل: محمد الیاس شیخ کالول گجرات انڈیا 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


شریعتِ مطہرہ نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے بلاضرورت شدیدہ کہ وہ گھروں سے باہر نہ جائیں جیسے  زمانۂ جاہلیت میں  بلا ضرورت بے پردگی گھومنے پھرنے کا دستور تھا۔


اور فی الحال تو فتنہ و فساد اور بے حیائی عام ہے اور مرد و زن میں دینی بے زاری  کا عنصر غالب ہے عورتوں میں فیشن اور بن سنور  کر باہر نکلنے کا رواج ہے اس لئے عام حالات  میں بلا ضرورت عورت گھر سے نہ  نکلے۔


البتہ شرعی وطبعی ضروریات جس کے بغیر عورت کے لئے چارۂ کار نہ ہو تو عورتوں کو گھر سے محارم کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت ہیں، لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ عورت مکمل پردہ میں ہو۔


اور فی زماننا ٹو ویلر اور فور ویلر یہ جدید سواریاں ہے جیسے پہلے زمانے میں اونٹ گاڑی گھوڑا گاڑی وغیرہ ہواکرتی تھی عورتیں اپنے محارم کے ساتھ اسی پر سواری کرتیں تھی اسی طرح خواتین کا پردہ کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے اپنے محارم یا شوہر کے ساتھ ضرورت کے موقع پر موٹرسائیکل پر بیٹھنا جائز ہے البتہ بیٹھنے کی جو ہئیت زیادہ پردہ والی اور محفوظ ہو اس کو اختیار کرنا ضروری ہے۔


اس لئے اگر ایک طرف دونوں پاؤں کرکے سِمَٹۡ کر بیٹھ سکتی ہو تو زیادہ مناسب ہے، اگر ایک طرف پاؤں کرکے بیٹھنا مشکل ہو تو دونوں طرف پیر رکھ کر بیٹھنا بھی جائزہے بشرطیکہ ان کے اعضاء مستورہ ظاہر نہ ہو جیسے کہ پیر اوپر کرنے میں پنڈلی وغیرہ کا کھل جانا اسی طرح شوہر کے علاوہ دوسرے محارم کے ساتھ اس طرح چِمَٹۡ کر بیٹھنا بھی درست نہیں ہے کہ جس سے مخصوص اعضاء کی حس محسوس ہو فتنے کے اندیشہ کی وجہ سے اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو بھی احتیاط بہتر ہے اور فتنے کا اندیشہ یا یقین ہو تو جائز نہیں ہے۔


جہاں تک باپ بیٹی کا مسئلہ ہے تو ان میں بھی اس طرح سے چِمَٹۡ کر بیٹھنا کہ مخصوص اعضاء کی حس محسوس ہو خوف فتنہ کی بناء پر احتیاط بہتر ہے البتہ چونکہ اس طرح سے چِمَٹۡ کر بیٹھںے سے نکاح کی حرمت کے جو شرائط ہے وہ نہیں پائے جاتے ہیں اس لئے اس کے نکاح میں کوئی فرق نہیں آئے گا ان کا نکاح برقرار رہے گا


قرآن کریم میں ہے

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔ (الأحزاب: ۳۳)


المحيط البرهاني ميں ہے

وقوله: ولا تركب امرأة مسلمة على سرج بظاهره، نهى النساء عن الركوب على السرج وبه نقول وإنه خرج موافقا لقوله عليه السلام لعن الله الفروج على السروج  والمعنى في النهي من وجهين أحدهما أن هذا تشبه بالرجال وقد نهين عن ذلك الثاني أن فيه إعلان الفتن وإظهارها للرجال وقد أمرن بالستر قالوا وهذا إذا كانت شابة وقد ركبت السرج والفرج فأما إذا كانت عجوزا أو كانت شابة إلا أنها ركبت مع زوجها بعذر بأن ركبت للجهاد وقد وقعت الحاجة إليهن للجهاد أو للحج أو للعمرة فلا بأس إن كانت مستترة فقد صح أن نساء المهاجرين كن يركبن الأفراس ويخرجن للجهاد فكان رسول الله عليه السلام يراهن و لا ينهاهن وكذلك بنات خالد بن الوليد كن يركبن ويخرجن للجهاد يسقين المجاهدين في الصفوف ويداوين الجرحى۔ (المحيط البرهاني فی فقہ النعمانی ۵/٣٨٤ كتاب الاستحسان والكراهية ط دار الكتب العلميه ، بيروت)


فتاوی شامی میں ہے

ولو لحاجۃ غزو … أي بشرط أنہ تکون متسترۃ، وأن تکون مع زوج أو محرم۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء ٩/٤٠٤ زکریا)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وما حل النظر إليه حل مسه ونظره وغمزه من غير حائل ولكن إنما يباح النظر إذا كان يأمن على نفسه الشهوة، فأما إذا كان يخاف على نفسه الشهوة فلا يحل له النظر، وكذلك المس إنما يباح له إذا أمن على نفسه وعليها الشهوة، وأما إذا خاف على نفسه أو عليها الشهوة فلا يحل المس له، ولا يحل أن ينظر إلى بطنها أو إلى ظهرها، ولا إلى جنبها، ولا يمس شيئا من ذلك، كذا في المحيط. وللابن أن يغمز بطن أمه وظهرها خدمة لها من وراء الثياب كذا في القنية۔ (فتاوی عالمگیری میں ہے ۵/۳۲۸)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی