سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب آج کل جوان لڑکیاں اپنے محرم رشتہ داروں کے ساتھ ٹو ویلر یعنی بائیک پر سفر کرتی ہے اور اپنے باپ، بھائی، بیٹے کے ساتھ اس طرح بے جھجک بیٹھ جاتی ہے کے جوان لڑکی کا پورا بدن بلکہ اس کا سینہ(چھاتی)بھی اپنے باپ بھائی بیٹے کے ساتھ لگ جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ چپکا ہوا رہتا ہے تو کیا اس طریقے سے بیٹھنا صحیح ہے ؟کیا لڑکی کے بیٹھنے کی وجہ سے باپ کے نکاح میں کوئی فرق ائے گا ؟قران اور حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائے !
سائل: محمد الیاس شیخ کالول گجرات انڈیا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شریعتِ مطہرہ نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے بلاضرورت شدیدہ کہ وہ گھروں سے باہر نہ جائیں جیسے زمانۂ جاہلیت میں بلا ضرورت بے پردگی گھومنے پھرنے کا دستور تھا۔
اور فی الحال تو فتنہ و فساد اور بے حیائی عام ہے اور مرد و زن میں دینی بے زاری کا عنصر غالب ہے عورتوں میں فیشن اور بن سنور کر باہر نکلنے کا رواج ہے اس لئے عام حالات میں بلا ضرورت عورت گھر سے نہ نکلے۔
البتہ شرعی وطبعی ضروریات جس کے بغیر عورت کے لئے چارۂ کار نہ ہو تو عورتوں کو گھر سے محارم کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت ہیں، لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ عورت مکمل پردہ میں ہو۔
اور فی زماننا ٹو ویلر اور فور ویلر یہ جدید سواریاں ہے جیسے پہلے زمانے میں اونٹ گاڑی گھوڑا گاڑی وغیرہ ہواکرتی تھی عورتیں اپنے محارم کے ساتھ اسی پر سواری کرتیں تھی اسی طرح خواتین کا پردہ کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے اپنے محارم یا شوہر کے ساتھ ضرورت کے موقع پر موٹرسائیکل پر بیٹھنا جائز ہے البتہ بیٹھنے کی جو ہئیت زیادہ پردہ والی اور محفوظ ہو اس کو اختیار کرنا ضروری ہے۔
اس لئے اگر ایک طرف دونوں پاؤں کرکے سِمَٹۡ کر بیٹھ سکتی ہو تو زیادہ مناسب ہے، اگر ایک طرف پاؤں کرکے بیٹھنا مشکل ہو تو دونوں طرف پیر رکھ کر بیٹھنا بھی جائزہے بشرطیکہ ان کے اعضاء مستورہ ظاہر نہ ہو جیسے کہ پیر اوپر کرنے میں پنڈلی وغیرہ کا کھل جانا اسی طرح شوہر کے علاوہ دوسرے محارم کے ساتھ اس طرح چِمَٹۡ کر بیٹھنا بھی درست نہیں ہے کہ جس سے مخصوص اعضاء کی حس محسوس ہو فتنے کے اندیشہ کی وجہ سے اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو بھی احتیاط بہتر ہے اور فتنے کا اندیشہ یا یقین ہو تو جائز نہیں ہے۔
جہاں تک باپ بیٹی کا مسئلہ ہے تو ان میں بھی اس طرح سے چِمَٹۡ کر بیٹھنا کہ مخصوص اعضاء کی حس محسوس ہو خوف فتنہ کی بناء پر احتیاط بہتر ہے البتہ چونکہ اس طرح سے چِمَٹۡ کر بیٹھںے سے نکاح کی حرمت کے جو شرائط ہے وہ نہیں پائے جاتے ہیں اس لئے اس کے نکاح میں کوئی فرق نہیں آئے گا ان کا نکاح برقرار رہے گا
قرآن کریم میں ہے
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔ (الأحزاب: ۳۳)
المحيط البرهاني ميں ہے
وقوله: ولا تركب امرأة مسلمة على سرج بظاهره، نهى النساء عن الركوب على السرج وبه نقول وإنه خرج موافقا لقوله عليه السلام لعن الله الفروج على السروج والمعنى في النهي من وجهين أحدهما أن هذا تشبه بالرجال وقد نهين عن ذلك الثاني أن فيه إعلان الفتن وإظهارها للرجال وقد أمرن بالستر قالوا وهذا إذا كانت شابة وقد ركبت السرج والفرج فأما إذا كانت عجوزا أو كانت شابة إلا أنها ركبت مع زوجها بعذر بأن ركبت للجهاد وقد وقعت الحاجة إليهن للجهاد أو للحج أو للعمرة فلا بأس إن كانت مستترة فقد صح أن نساء المهاجرين كن يركبن الأفراس ويخرجن للجهاد فكان رسول الله عليه السلام يراهن و لا ينهاهن وكذلك بنات خالد بن الوليد كن يركبن ويخرجن للجهاد يسقين المجاهدين في الصفوف ويداوين الجرحى۔ (المحيط البرهاني فی فقہ النعمانی ۵/٣٨٤ كتاب الاستحسان والكراهية ط دار الكتب العلميه ، بيروت)
فتاوی شامی میں ہے
ولو لحاجۃ غزو … أي بشرط أنہ تکون متسترۃ، وأن تکون مع زوج أو محرم۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء ٩/٤٠٤ زکریا)
فتاوی عالمگیری میں ہے
وما حل النظر إليه حل مسه ونظره وغمزه من غير حائل ولكن إنما يباح النظر إذا كان يأمن على نفسه الشهوة، فأما إذا كان يخاف على نفسه الشهوة فلا يحل له النظر، وكذلك المس إنما يباح له إذا أمن على نفسه وعليها الشهوة، وأما إذا خاف على نفسه أو عليها الشهوة فلا يحل المس له، ولا يحل أن ينظر إلى بطنها أو إلى ظهرها، ولا إلى جنبها، ولا يمس شيئا من ذلك، كذا في المحيط. وللابن أن يغمز بطن أمه وظهرها خدمة لها من وراء الثياب كذا في القنية۔ (فتاوی عالمگیری میں ہے ۵/۳۲۸)
واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں