جمعرات، 11 ستمبر، 2025

جوب کارڈ یا اسمارٹ کارڈ کا شرعی حکم سوال نمبر ۵.٦

 سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ سرکاری جوب کارڈ کا کیاحکم ہے؟ جوب کارڈ اسمارٹ کارڈ ہوتاہے اب مسٔلہ یہ ہے کہ میں کونٹراکٹر کے ہاتھ کے نیچے مزدوری کرتاہوں اور سرکار روزانہ مجھے جوب کارڈ کے ذریعہ پانسوں روپیہ مزدوری دیتاہے جس میں اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کی شرط ہوتی ہے لیکن میں مزدوری کرنے کے لئے نہیں جاتا بلکہ میں پیسہ نکال کر کونٹراکٹر کو دیتاہوں اور وہ جی سی بی کے ذریعہ کام کروا دیتاہے حالانکہ سرکارنے جی سی بی سے کام کروانے سے منع کیا ہے اور ہاتھ سے کام کرنےکی شرط کے ساتھ جوب کارڈ میرے لئے ایشو کیا ہے لیکن میں خود سے کام نہیں کرتا بلکہ میں پانسوں روپیہ کونٹراکٹر کو دیتاہوں وہ اسمیں سے سو روپیہ مجھے واپس کردیتاہے تاکہ میں سرکار کو شکایت نہ کروں اور اقرار کروں کہ میں نے ہی کام کیا ہے لہذا اس کارڈ کا بنوانا اور اس طریقے سے اس کا استعمال کرنا جائز ہے؟ بینوا وتوجروا

سائل مولانا روح الامین صاحب اسلام پوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مسؤلہ صورت میں اس معاملہ کو فقہ میں "اجارہ" (کرایہ یا مزدوری کا عقد) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔


اس کی اولاً دوقسمیں ہے۔


(۱) اجیر مخصوص بالفعل ہو

اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام مخصوص شخص ہی سے مطلوب ہو جس کو سپرد کیا گیا ہے (یعنی آجر نے خاص اسی مزدور کو شرط کے ساتھ رکھا ہے کہ وہی کام کرے گا) تو اس کو حق نہیں کہ وہ دوسرے سے کام کروائے ایسا کرنا درست نہیں ہے


(۲) اجیر مخصوص بالفعل نہ ہو بلکہ مامور بالفعل ہو

یعنی کام مخصوص شخص کی ذات سے مقصود نہیں ہے بلکہ صرف نتیجہ مطلوب ہے کہ کام ہوجائے چاہے وہ کسی سے بھی کروائے ایسی صورت میں وہ دوسرے سے کام کرواسکتا ہے بشرطیکہ کام اجرت پر دینے والے کی منشا کے مطابق ہو تو دوسرے کو کام دینا جائز ہے۔


جوب کارڈ کا معاملہ پہلی صورت کی قبیل سے ہے جس میں ملازمت کا معاہدہ مخصوص کارڈ ہولڈرسے ہی ہوتاہے اور سرکار کا منشا اسی سے کام کروانے کا ہوتاہے یعنی سرکاری کاغذات میں کارڈ ہولڈر کا نام اس لئے متعین ہوتاہے کہ اس کو روزگار فراہم ہوسکے لہذا سرکاری اجازت کے بغیر کسی اور سے کام لینا یا کروانا درست نہیں ہے اگر سرکار کے علم میں یہ لائیں اورپھر اجازت بھی ہو تو اس صورت میں کسی اور سے کروانا جائز ہے۔


مسؤلہ صورت میں جو صورت حال بیان کی ہے اس میں حکومت نے یہ کارڈ اس لیے جاری کیا ہے کہ مستحق مزدور براہِ راست سرکار سے مزدوری کی رقم وصول کریں اور وہ خود ہاتھ سے کام کریں۔ یہ اسکیم فلاحی ہے تاکہ مزدوروں کو روزگار ملے۔


لیکن کارڈ ہولڈرز کارڈ حاصل کرنے کے بعد خود کام پر نہیں جاتے صرف پیسے نکال کر کانٹریکٹر کو دے دیتے ہیں کانٹریکٹر جی سی بی مشین سے کام کرواتا ہے جبکہ سرکار نے ہاتھ سے کام کرنے کی شرط لگائی ہے کانٹریکٹر آپ کو اس میں سے کچھ رقم (100 روپے) دیتا ہے۔


یہ صورت کچھ وجوہات کی بناء پر جائز نہیں ہے


(۱) جھوٹ اور خیانت

یہ عمل سرکار کو دھوکہ دینا ہے، کیونکہ سرکار نے پیسہ ہاتھ سے کام کرنے کے عوض دیے ہے، نہ کہ جی سی بی یا بغیر کام کے یہ خیانت فی الامانت اور ناجائز ہے۔


(۲) حرام کمائی

جو پیسے آپ کو کانٹریکٹر سے ملتے ہے، وہ حقیقت میں مزدوری کا عوض نہیں، بلکہ غلط بیانی اور اسکیم کی خلاف ورزی کے بدلے میں ہے، اس لیے یہ پیسہ لینا شرعاً حلال نہیں۔


(۳) رشوت و بدعنوانی

آپ کو جو سو روپیہ واپس ملتا ہے، وہ بھی رشوت کی شکل اختیار کرتا ہے تاکہ آپ شکایت نہ کریں۔ یہ بھی ناجائز ہے۔


لہذا شرعی نقطۂ نظر سے کارڈ ہولڈرز کے لئے ضروری ہے کہ یا تو خود اصل کام کرکے مزدوری وصول کریں اور خود کام نہیں کرتے تو فقہی قاعدہ "من أخذ مالاً بغیر حقہ کان حراماً" کی رو سے اس رقم کو لینا درست نہیں ہے لہذا لینا بند کردیں۔


قرآن مجید میں ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ۔

(سورۂ الأنفال: ۲۷)


قرآن مجید میں ہے

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ (سورۂ نساء آیت ۲۹)


سنن أبي داوٴد میں ہے

عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الراشي والمرتشي۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الأقضیة ، باب في کراہیة الرشوة ٢/۵.٤ ط: دار الفکر بیروت،


بدائع الصنائع میں ہے

و للأجير أن يعمل بنفسه وأجرائه إذا لم يشترط عليه في العقد أن يعمل بيده؛ لأن العقد وقع على العمل، والإنسان قد يعمل بنفسه وقد يعمل بغيره؛ ولأن عمل أجرائه يقع له فيصير كأنه عمل بنفسه۔

إلا إذا شرط عليه عمله بنفسه؛ لأن العقد وقع على عمل من شخص معين، والتعيين مفيد؛ لأن العمال متفاوتون في العمل فيتعين فلا يجوز تسليمها من شخص آخر من غير رضا المستأجر (بدائع الصنائع، كتاب الاجارة،فصل في حكم الإجارة۔ ٤/۲۰۸ دارالكتب العلمية)


واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

الغرض: مفتی آصف بن محمد گودھروی


کوئی تبصرے نہیں: