بدھ، 5 مئی، 2021

روزہ کی حالت میں خروج منی اور اس کا شرعی حکم مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 

حضرت مفتی صاحب کچھ مسائل درپیش ہیں اس کا تحقیقی جواب مطلوب ہے۔

(١) روزہ کی حالت میں احتلام ہو جائے یا روزے کی ابتداء جنوبی کی حالت میں ہو تو روزہ صحیح ہے؟

(٢) شہوت کے ساتھ منی کے نکلنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح بلا شہوت کے منی کے نکلنے سے روزے کا کیا حکم ہے 

(٣) روزے کی حالت میں میاں بیوی کا آپس میں خوش طبعی اور بوس و کنار کرنا، کیسا ہے اور اگر اس سے اِنزال ہوجائے، تو روزے کا کیا حکم ہے

(٤) روزے کی حالت میں گندی تصویریں اور ویڈیوز دیکھ لی اور منی خارج ہوگئی تو روزہ باقی رہا یا نہیں اسی طرح بد نظری اور فلم بینی کی صورت میں روزے کا کیا حکم ہے؟

سائل: محمد بن مولانا عبد الرؤف اسلامپورى

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


(١) احتلام ہونا

روزے کی حالت میں احتلام ہو جانے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، (احتلام یعنی سوتے میں غسل کی حاجت ہوجانا)

أو احتلم لم یفطر۔ (شامی زکریا ۳؍۳٤٧، البحرالرائق٢/٢٧٢)

روزے کی حالت میں کسی شخص  پر غسل واجب ہو اوروہ صبح صادق سے پہلے غسل نہ کرسکا اور سحری کرکے روزہ رکھ لیا تو اس کا روزہ درست ہے، ناپاک ہونے کی وجہ سے  روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ جلد از جلد غسل کرلینا چاہیے، غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ  فجر کی  نماز قضا ہوجائے گناہ کا باعث ہے۔

( أو اصبح جنبا وان بقی کل اليوم شامی ۳/٣٧٢ الفقه الحنفي في ثوبه الجديد- ٤٠٤/۱ )


(٢) منی کے نکلنے کی صورتیں

منی کے نکلنے کی دوصورتیں ہے

(١) خروج: یعنی خود بخود منی کا نکل جانا جس میں اس کے فعل کا کسی قسم کا دخل نہ ہو، یعنی ہاتھ سے رگڑھنے سے یا بوس وکنار سے نہ نکلی ہو تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

(٢) اخراج: یعنی منی کا نکالنا جس میں اس کے فعل کا  دخل ہوتا ہے، جیسے بیوی سے بوس وکنارکرنے سے منی نکل آئے یا مشت زنی کرنے سے یا عضو خاص کو ہاتھ سے رگڑھنے سے منی نکل آئے، تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔


(٣) بیوی سے بوس وکنار کرنا

اگر جماع کا اندیشہ نہ ہو اور اپنے اوپر پورا اعتماد ہو کہ بیوی کے ساتھ خوش طبعی،بوس وکنار اور ملامست کرنے کی صورت میں جماع یا انزال کی نوبت نہیں آئے گی، تو روزے کی حالت میں اس کی اجازت ہے، لیکن احتیاط بہرحال بہتر ہے۔ اور اگر انزال اور جماع کا خطرہ ہوتو ایسے شخص کے لئے بیوی سے بوس وکنار و ملامست مکروہ ہے۔

قال في تنویر الأبصار وکرہ قبلة ومس ومعانقة ومباشرة فاحشة إن لم یأمن المفسد وإن أمن لابأس۔(شامی ۳/۳۹٤)

(يكره للصائم فعل مقدمات الجماع ودواعيه كالقبلة و المعانقة و المس إذا لم يأمن الوقوع في مفسد الصوم وهو الإنزال أو الجماع وفي الصحيحين عن عائشة قالت كان رسول الله لا يقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم ولكنه أملككم لإربه - الفقه الحنفي في ثوبه الجديد-١/٤٢٢ )


بوس وکنار سے انزال ہوجائے

اگر بیوی سے بوس وکنار کی وجہ سے انزال ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، صرف قضا لازم ہوگی، (یعنی اس ایک روزے کے بدلے بعد میں ایک روزہ رکھنا ضروری ہوگا) کفارہ نہیں۔

أو قبّل ولو قبلۃ فاحشۃ بأن یدغدغ أو یمص شفتیہا أو لمس ولوبحائل لایمنع الحرارۃ۔۔فأنزل۔۔قضیٰ فی الصورکلہافقط۔(شامی زکریا ۳؍۳۷۹)


(٤) فحش ویڈیوز اور فلم بینی

جہاں تک روزے کی حالت میں فحش تصویر اور ویڈیوز دیکھنے کی بات ہے، تو یہ شریعت میں بالکل حرام ہے۔ اس قسم کے کبیرہ گناہوں سے روزے کا ثواب پورے طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔ 

اسی طرح فلم بینی مطلقاً ناجائز ہے، اور رمضان میں ہو تو کئی گناہوں کا مجموعہ اور روزے کا اجر وثواب ختم کرنے کا ذریعہ ہے، اس لیے اگر کسی شخص سے واقعۃً مذکورہ افعال سرزد ہوئے ہو تو اسے سچی توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ 

البتہ اگر روزے کی حالت میں فحش  تصویر اور ویڈیوز دیکھنے یا محض تصوّر کی وجہ سے کسی انسان کو انزال ہوجائے، تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

اسی طرح روزے کی حالت میں کسی عورت کو صرف دیکھنے کی وجہ سے انزال ہوجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ البتہ قصداً حالت روزہ میں غیر محرم پر نگاہ کرنے سے روزے کے انوارات اور حقیقی ثمرات ختم ہوجاتے ہیں۔

واذا نظر الی امرأۃ بشھوۃ فی وجھھا او فرجھا کرّر النظر اولا لا یفطر اذا انزل۔ کذا فی فتح القدیر وکذا لایفطر بالفکر اذا امنی۔ فتاوی عالمگیری (۲۰٤/۱):

واذا نظر الی امرأۃ بشھوۃ فی وجھھا او فرجھا کرّر النظر اولا لا یفطر اذا أنزل، وکذا لا یفطر بالفکر اذا امنی۔ فتاوی عالمگیری (۲۰٤/۱):

(أو احتلم أو أنزل بنظر) ولو إلى فرجها مرارا أو بفكر إن طال (در المختارج ٣/ ص٣٦٨)

وإذا نظر إلى امرأة بشهوة في وجهها أو فرجها كرر النظر أو لا لايفطر إذا أنزل كذا في فتح القدير كذا لايفطر بالفكر إذا إمنى هكذا في السراج الوهاج (فتاوی عالمگیری ج۱ ص۲٠٤)

بدنظری کی وجہ سے انزال ہوگیا

کسی عورت یا تصویر کو دیکھ کر اگر انزال ہوجائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ (تاہم بدنظری بہرحال گناہ ہے) او احتلم او انزل بنظر ای لا یفطر۔ (البحر الرائق ۲؍۲۷۲، مجمع الانہر ١/٢٤٤   شامی زکریا ٣/٣٤٧)

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 2 مئی، 2021

عورتوں کے اعتکاف کے کچھ ضروری مسائل مفتی آصف گودھروی

عورتوں کے اعتکاف کے کچھ ضروری مسائل


اعتکاف میں شوہر کی اجازت

اگر عورت کا شوہر ہے، تو اس کی اجازت کے بغیر اعتکاف میں نہ بیٹھے، اس لئے کہ عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہیں کرسکتی، اور اگر شوہر نے بیوی کو اعتکاف میں بیٹھنے کی اجازت دے دی ہے، تو پھر بعد میں اعتکاف سے منع کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ (شامی ٤۲۹/۱ )


عورتوں کے اعتکاف کی جگہ کی تعیین

عورت کے لیے بھی رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے اور ثواب کا باعث ہے، عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہِ تحریمی ہے، عورتوں کے لیے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا نہ صرف جائز  ہے، بلکہ یہی بہتر ہے۔ ان کے لیے اعتکاف کی جگہ  وہ ہے جسے گھر میں نماز، ذکر، تلاوت اور دیگر عبادت کے لیے خاص اور متعین کرلیا گیا ہو، اور عورتوں کے لیے یہ خاص جگہ ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے، اگر گھر میں عبادت کے لیے پہلے سے خاص جگہ متعین نہیں ہے  تو اعتکاف کے لیے گھر کے کسی کونے یا خاص حصے میں چادر یا بستر وغیرہ ڈال کر ایک جگہ مختص کرلے، پھر اس جگہ اعتکاف کرے، اور وہ جگہ عورت کے حق میں مسجد کے حکم میں ہوگی، اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہوگا، یہی ائمہ احناف کا قول ہے۔ (البنايه في شرح الهدایه ٧٤٧ / ۳)


عورت کے لئے اعتکاف کی جگہ سے باہر جانا

عورت اعتکاف کی جگہ سے باہر  کھانے پکانے یا گھر کے کام کاج کے لیے نہیں نکل سکتی، اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اگر اس کو باہر سے اس کے اپنے لیے  کوئی کھانا لاکر دینے والا نہیں ہے تو یہ باہر کھانا اٹھانے کے لیے جاسکتی ہے، کھانا اٹھاکر فوراً اندر آجائے ، باہر نہ رکے، ورنہ اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

البتہ عورت  اپنی اعتکاف گاہ کے اندر  رہ کر گھر کے کام کاج (مثلاً آٹا گوندھنا، کھاناپکانا، کپڑے دھونا وغیرہ) سرانجام دے سکتی ہے،  لیکن بہتر یہ ہے کہ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ان کاموں کے لیے کوئی متبادل انتظام کرلے؛ تاکہ پوری یک سوئی کے ساتھ یہ عبادت اپنی روح اور مقصد کے ساتھ ادا ہوجائے۔ (فتاوی عالمگیری ١/٢١١)


اعتکاف کی حالت میں حیض آجائے

اگر دورانِ اعتکاف عورت کے ایام شروع ہوجائیں تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا، ایسی حالت میں عورت اعتکاف چھوڑدے، اور بعد میں روزہ کے ساتھ ایک دن کے اعتکاف کی قضا کرے، سال کے جن دنوں میں روزے رکھنا منع ہے، اس کے علاوہ کسی دن مغرب سے دوسرے دن کے غروب آفتاب تک ایک دن رات کے اعتکاف کی قضا کرنی ہوگی (عالمگیری ٥٨٤/۱)


حالت اعتکاف میں بچہ پیدہ ہونا

حالت اعتکاف میں معتکفہ کو بچہ پیدا ہو جائے تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا بعد میں ایک دن کی قضاء لازم ہوگی۔ ( كتاب الصوم، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الِاعْتِكَافِ، ١ / ٢١١، ط: دار الفكر)


اعتکاف میں بناؤ سنگار

اعتکاف کے دوران زیادہ وقت ذکر و اذکار،  تلاوتِ کلامِ مجید، عبادات اور اللہ کو راضی کرنے والے دیگر اعمال میں مشغول رہنا چاہیے، فضول بناؤ سنگار اور فیشن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ تاہم حالت اعتکاف میں بناؤ سنگار کریں تو جائز ہے اس سے اعتکاف میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ (حاشیه تاتار خانیہ١/٤٤٥) لیکن بلا ضرورت اچھا نہیں ہے۔


اعتکاف میں بال بچوں کی پرورش

بال بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کا حکم چوں کہ ماں کو ہے اس لئے اگر کوئی اور کرنے والا نہ ہو تو خود  پرورش اور دیکھ بھال کریں جائز ہے۔ (فتاوی تاتار خانیه جلد ٤٤٤/٣)


مریض کی عیادت اور جنازے میں جانا

اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے کسی مریض کی عیادت یا کسی کی میت میں شامل ہونے کی نیت کی ہو تو جانا جائز ہے اور اگر نیت نہیں کی ہے تو نہیں جاسکتی جانے پر اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (فتاوی تاتارخانیه ٤٤٥/۳ ) 


بیوی اعتکاف میں ہوتو شوہر کا ہمبستری کرنا

اعتکاف کے دوران بیوی سے صحبت جائز نہیں ہے، بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی اجازت سے اعتکاف میں بیٹھے، اور اجازت دینے کے بعد شوہر کے لیے پھر اسے اعتکاف سے روکنا یا اعتکاف کے دوران ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہوگا، اگر شوہر ہم بستری کے لیے بلائے تو عورت اعتکاف کا عذر کرکے منع کردے، تاہم اس کے باجود اگر شوہر نے ہم بستری کرلی تو عورت کا مسنون اعتکاف فاسد ہوجائے گا، ایک دن رات کے اعتکاف کی روزہ کے ساتھ قضا کرنا لازم ہوگی۔ (كتاب الصوم، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الِاعْتِكَافِ، ١ / ٢١١، ط: دار الفكر)


عورت کا اعتکاف میں گھریلو کام کرنا

عورت کے اعتکاف کے لیے مختص کی گئی جگہ عورتوں کے حق میں ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے، عورت کے لیے اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہے، لہذا عورت اعتکاف کی جگہ سے باہر  کھانے پکانے یا گھر کے کام کاج کے لیے نہیں نکل سکتی، اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اگر اس کو باہر سے اس کے اپنے لیے کوئی کھانا لاکر دینے والا نہیں ہے تو یہ باہر کھانا اٹھانے کے لیے جاسکتی ہے، کھانا اٹھاکر فوراً اندر آجائے باہر نہ رکے ورنہ اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

البتہ عورت  اپنی اعتکاف گاہ کے اندر  رہ کر گھر کے کام کاج مثلاً آٹا گوندھنا، کھاناپکانا، کپڑےدھونا وغیرہ سرانجام دے سکتی ہے،  لیکن بہتر یہ ہے کہ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ان کاموں کے لیے کوئی متبادل انتظام کرلے تاکہ پوری یک سوئی کے ساتھ یہ عبادت اپنی روح اور مقصد کے ساتھ ادا ہوجائے۔

البتہ عورت کی اگر مجبوری ہو اورگھریلو کام کاج کوئی اور سر انجام دینے والا نہ ہو تو اعتکاف کی حالت میں گھریلو کام کاج سرانجام دے سکتی ہے، اگر دوسرا سرانجام دینے والا ہو تو اپنے معتکف سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ (فتاوی تاتار خانیه ٤٤٥/۳ ) 


گھروالوں کے ساتھ کھانا پینا

عورت کے اعتکاف کی جگہ میں ہو تو اس کے گھر والے اس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، تاہم  کھانے کے دوران گپ شپ کا ماحول بنادینا یا کھانے کے بعد دنیاوی یا فضول باتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہیے؛  تاکہ معتکفہ کی یک سوئی اور عبادت کے اوقات میں خلل واقع نہ ہو۔  

باقی عورت اپنے اعتکاف کی جگہ سے باہر نکل کر گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاسکتی ، اس لیے کہ عورت کے اعتکاف کے لیے مختص کی گئی جگہ عورتوں کے حق میں ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے، عورت کے لیے اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہے۔ (كتاب الصوم، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الِاعْتِكَافِ، ١ / ٢١١، ط: دار الفكر)


معتکفہ کا اوروں سے بات چیت کرنا

معتکفہ ضرورت کی بات چیت خیر اور بھلائی کی باتیں آواز بلند کئے بغیر کرسکتی ہے، نیزپردے کے پیچھے بیٹھا ہوا شخص اگر غیر محرم ہے  تو  آواز میں نرمی پیدا کئے بغیر صاف اور سیدھی بات کرے جس سے مخاطب کے دل میں کسی قسم کی طمع یا میلان پیدا نہ ہو، جائز ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح ٨/١٠٠٠) واللہ اعلم بالصواب۔

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

ہفتہ، 1 مئی، 2021

مردوں کے لئے اعتکاف کے کچھ ضروری مسائل

اعتکاف کی حقیقت

اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ کچھ وقت کے لئے اللہ کے گھر میں اعتکاف کی نیت سے مسجد میں تھہرا جائے اس کے لئے کم زیادہ کی کوئی مدت متعین نہیں کوئی وقت مقرر نہیں جتنی مقدار چاہے اعتکاف کر سکتا ہے صرف رمضان کاسنت اعتکاف دس دن سے کم اور واجب (جس کی نظر مانی ہو) ایک دن سے کم جائز نہیں ہے۔ (احکام اعتکاف مفتی تقی عثمانی صاحب)

اعتکاف کے اقسام

اعتکاف کی تین قسمیں ہے۔

واجب: وہ اعتکاف ہے جو نذر یعنی منت ماننے سے یا مسنون اعتکاف کو فاسد کرنے سے واجب ہوا ہو۔

مسنون: یہ وہ اعتکاف ہے جو صرف رمضان کے مہینے کے آخری عشرے میں اکیسویں شب سے عید کے چاند دیکھنے تک ہے۔ 

نفل: وہ اعتکاف جوکسی بھی وقت کسی بھی گھڑی کیا جاسکتا ہے۔ (شامی ٤۳۰/۳ )

اعتکاف مسنون کے احکام

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جو اعتکا ف کیا جاتا ہے وہ اعتکاف مسنون ہے، اس اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروب آفتاب سے شروع ہوتاہے، اور عید کا چاند ہونے تک باقی رہتا ہے، چونکہ اس اعتکا ف کا آغاز اکیسویں شب سے ہوتاہے اور رات غروب آفتاب سے شروع ہو جاتی ہے اس لئے اعتکاف کرنے والے کو چاہئے کہ بیسویں روزے کو مغرب سے اتنے پہلے مسجد کی حدود میں پہنچ جائے کہ غروب آفتاب مسجد میں ہو، رمضان شریف کے عشرہ اخیرہ کا یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی ایک بستی یامحلے میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو تمام اہل محلہ کی طرف سے سنت ادا ہو جائے گی، لیکن اگر سارے محلے میں سے کسی ایک نے بھی اعتکاف نہ کیا توسارے محلے والوں پرترک سنت کا گناہ ہوگا۔ (البحرالرائق ،باب الاعتکاف ٢/٤۲۱)

اعتکاف کی جگہ کی تعیین

مردوں کیلئے اعتکاف صرف مسجدہی میں ہو سکتا ہے افضل ترین اعتکاف مکہ مکرمہ کی مسجد حرام میں ہے، دوسرے نمبر پر مسجد نبوی میں تیسرے نمبر پر مسجد اقصی میں چوتھے نمبر پر کسی بھی جامع مسجد میں اور جامع مسجد میں اعتکاف کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کیلئے کہیں اور نہیں جانا پڑے گا لیکن جامع مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر اس مسجد میں اعتکاف ہو سکتاہے جہاں پانچ وقت کی جماعت ہوتی ہو البتہ اگر مسجد ایسی ہے جہاں پا نچوں وقت نماز نہیں ہوتی تو اس میں علماءکا اختلاف ہے، تا ہم محققین کے نزدیک ایسی مسجد میں بھی اعتکاف ہوسکتاہے اگر چہ افضل نہیں (شامی٤۲۹/۳ احکام اعتکاف فضائل ومسائل ص ٤٠ مفتی تقی عثمانی صاحب)

رمضان کے آخری عشرے کے تین دن کا اعتکاف

سنت یہ ہے کہ بیسویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مسجد میں داخل ہو جائے لیکن اگر اس کے بعد کسی وقت میں بھی نیت کرکے مسجد میں داخل ہوجائے تب بھی صحیح ہے، لیکن عشرہ کامل کی فضیلت اس صورت میں حاصل نہ ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ کامل (رمضان کے اخیر کے دس دن) کا اعتکاف کیا ہے جو کہ بیسویں تاریخ کی شام سے بیٹھے تب ہی پورا ہو سکتا ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ١٧٧)

اسی طرح آخری عشرہ میں دو یا تین دن اعتکاف کرنےسے نفلی اعتکاف شمار ہوگا سنت اعتکاف شمار نہیں ہوگا (علمگیری ۲۱۱/۱)

لیکن نفلی اعتکاف بھی تو ایک عبادت ہے وہ بھی عشرۂ اخیرہ میں اور رمضان کی کوئی بھی عبادت افضل ترین عبادت ہے لیکن اس کا رمضان کے لئے سنت اعتکاف گرداننا صحیح نہیں ہے ۔

اعتکاف کی حالت میں احتلام ہونا

دوران اعتکاف احتلام ہوجائے اور معتکف کے لئے مسجد سے نکلنے میں کسی قسم کا خوف نہ ہوتو پہلے تیم کرلے پھر مسجد سے باہر آجائے اور اگر کسی قسم کا خوف ہوتو تیمم کرلے اور سوجائے (شامی ٤۱۰/۱)

اعتکاف کی حالت میں بیڑی سگرٹ پینا

اعتکاف کی حالت میں بیڑی سگرٹ مسجد کے احاطے میں پینا صحیح نہیں ہے، اور نہ ہی مسجد کے باہر وہ جاسکتا ہے ، اگر عادت ایسی ہو کہ اس کے بغیر چارہ کار نہیں تو ایسے حضرات استنجاء کے تقاضے سے جائے تو پی لے۔ (فتاوی تاتارخانیه ٤٤٦/٣ )

 اعتکاف میں بیوی یا کسی محرم سے بات چیت کرنا

اعتکاف کی حالت میں اپنی محرمات ابدیہ کے ساتھ بات چیت کرنا ان سے ملنا اسی طرح اپنی بیوی سے ملنا بات چیت کرنا اس وقت جائز ہیں جبکہ اعتکاف کرنے والا مسجد میں رہ کر اوروں سے پردے کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے ملیں یا بات چیز کریں اسی طرح مسجد میں رہ کر باہر چلنے والے آدمی سے بھی بات چیت کرنا جائزہے۔ (تاتار خانیه ٤٤٥/۳)

اعتکاف کی حالت میں نماز جنازہ کے لئے جانا

اعتکاف کی حالت میں نماز جنازہ کے لئے جانا اسی طرح کوئی معتكف اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے دوسری مسجد میں تراویح میں سماعت قرآن کررہا تھا اس مسجد میں پارہ الگ ہے اب اس مسجد سے اس مسجد میں وہ روزانہ تراویح کے لئے جانا چاہتا ہے۔ توان اشیاء کی اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ہی نیت کرلے تو اس کو نکلنا جائز ہے۔ (فتاوی قاسمیہ جلد ۵۹۳ / ۱۱ )

معتکف کا اذان دینے کے لئے باہر جانا

معتکف اذان دینے کے لیےمسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ تاہم اگر معتکف مؤذن نہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی شخص اذان دینے والا موجود ہو تو بہتر ہے کہ وہ اذان کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے۔ (فتاوى عالمگیری ١/٢١٣)

معتکف کا غسل تبرید کے لئے باہر جانا

واجب غسل کے علاوہ جمعہ کے غسل کے لئے اسی طرح بدن کی صفائی یا ٹھنڈک کے لئے غسل کے بارے میں باہر نکلنے میں عام کتب فقہ میں تو اس بات کی صراحت ہے کہ غسل واجب کے علاوہ کسی اور غسل کے لئے مسجد سے نہیں نکل سکتا لیکن بعض فقہی عبارات سے جمعہ کے غسل کا جواز معلوم ہوتا ہے (يخرج للوضوء والاغتسال فرضا كان أو نفلا، تاتارخانیہ ٣٤٦ /٣) اسی طرح تاتارخانیہ میں ہے کہ امام ابو یوسف صاحب کے نزدیک کچھ دیر کے لئے مسجد سے باہر رہنے کی صورت میں اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ (٤٤٤/٣) لہذا ایسا معتكف جو روزانہ غسل کا عادی ہو اور بغیر غسل کے وہ بے چین ہو جائے، نیز موسم گرما میں تو اور پریشانی کا باعث ہے ایسی صورتوں میں ان کے لئے گنجائش ہے کہ غسل تبرید کرلیں، 

اعتکاف کی حالت میں معتکف کا خودکھانا لانا

معتکف حالت اعتکاف میں کھانا لانے والا نہ ہونے کی صورت میں خود جا سکتا ہے لیکن بعد الغروب جا سکتا ہے، اس لئے کی ضرورت اس وقت متحقق ہوگی، اور گھر میں اگر بلاضرورت طعام کے تھوڑی دیر بھی رکا رہاتو اعتکاف فاسد ہو جائے گا اور سحری کا کھانا لانے کے لئے بھی جاسکتاہے، لیکن اس میں بھی اگر گھر میں بلاضرورت طعام کے تھوڑی دیر بھی رکا رہاتو اعتکاف فاسد ہو جائےگا۔ اور اگر کسی ضرورت کی وجہ سے نکلا ہے اور کچھ دیر کے لئے رکا رہا تو امام محمد نے استحسانا عدم فساد اعتکاف کی صراحت کی ہے ۔ (کتاب الاصل للامام الشيبانی۱۸۷ /٢) (النهر الفائق ٤۷/۲)

اعتکاف کی حالت میں موبائل سے بات چیت کرنا

اعتکاف کا مقصد اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا اور اس کی عبادت میں مشغول رہنا ہے، دنیا سے حتی الامکان کٹ کر اللہ تعالیٰ سے لَو لگانا ہے، لہذا معتکف کو چاہیے کہ وہ نماز، تلاوت، ذکر و اذکار، تعلیم و تعلم اور دیگر عبادات میں اپنا زیادہ وقت گزارے، تاہم ضرورت کے وقت اپنی بیوی یا کسی اور شخص سے بذریعہ فون یا میسج گفتگو کرے تو اس کی اجازت ہے، بلاضرورت طویل بات چیت نہ کرے۔ اسی طرح موبائل سے کاروبار کی باتیں کرنا اور موبائل سے عام باتیں کرتا جب کہ اس کی ضرورت ہو جائز ہے۔ (النهر الفائق ٤۸/۲) (التجنيس والمزيد لصاحب الهدایه، ٢/٤٤٤) (عالمگیری ۲۱۳/۱ )

معتکف کے لئے واٹس ایپ اور انٹرنیٹ کے استعمال کا حکم

اعتکاف کا مقصد دنیاوی امور سے یک سو  ہو کر اللہ سے لو لگانا ہے، اس سے مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہوتی ہے، لہذا اعتکاف میں انٹرنیٹ اور واٹس ایپ استعمال کرنے سے حتی الامکان احتراز کیا جائے؛ کیوں کہ اس میں جان دار کی تصاویر سے بچنا بہت مشکل تقریباً ناممکن ہے، اور بہت سی عورتوں اور مردوں کی تصویریں دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی اس سے مسجد کی بے ادبی کے ساتھ اعتکاف کے دوران گناہ بھی ہوگا، 

لہذا  اعتکاف کے دوران واٹس ایپ اور انٹرنیٹ استعمال کرنے سے اگر چہ اعتکاف فاسد نہیں ہوتا، لیکن اس کی روح اور مقصد ضائع ہوجاتا ہے، لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

مسنون اعتکاف کے لئے روزہ

مسنون اعتکاف کیلئے روزہ شرط ہے روزہ کے بغیر صرف نفلی اعتکاف ہی ہے، مسنون اعتکاف نہیں، (فتاویٰ رحیمیہ ج٣ ص ١١٠)

نابالغ بچہ کا اعتکاف

نابالغ لڑکا اگر سمجھدار ہو، نماز کو سمجھتا ہو اور صحیح طریقے سے پڑھتا ہو تو اعتکاف ہو سکتا ہے نفل اعتکاف ہوگا مسنون نہ ہوگا، اگر ناسمجھ ہے تو نہیں بیٹھ سکتا۔ (فتاویٰ رحیمیہ ج٥ ص ٢٠٢)

اجرت دیکر اعتکاف کروانا

اجرت دیکراعتکاف کروانا جائز نہیں کیونکہ عبادات کیلئے اجرت دینا لینا دونوں ناجائزہیں ہاں اگر بغیر اجرت مقرر کئے اعتکاف کرایا اور اعتکاف کراکے اجرت دینا وہاں معروف بھی نہ ہو تو کچھ تحفہ پیش کرنا جائز ہے، (فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ٥١٢)

دوسری جگہ جمعہ کے لئے جانا

اعتکاف ایسی مسجد میں کرنا بہتر ہے جس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہو، اگر کوئی شخص ایسی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھ گیا ہے جس مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تو چوں کہ جمعہ کی نماز کے لیے جانا شرعی ضرورت ہے؛ اس لیے معتکف جمعہ کی نماز پڑھنے جامع مسجد جاسکتا ہے، اس سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا، البتہ معتکف کو چاہیے کہ ایسے وقت جائے کہ دوسری مسجد میں پہنچ کر خطبہ سے پہلے جمعہ کی سنتیں پڑھ سکے، اور جمعہ کی  نماز کی سنتیں  پڑھ کر جلد واپس آجائے، دیر تک وہاں ٹھہرنا مکروہ ہوگا، لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ ایسی جگہ اعتکاف میں ہوجہاں شرعاً جمعہ واجب ہو، اگر ایسی بستی یا گاؤں میں اعتکاف میں ہو‌ جہاں شرعاً جمعہ ہی واجب نہیں، پھر وہاں سے معتکف کے لیے نکلنا جائز نہیں، اگر نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا نیز جمعے کے لیے جاتے اور آتے ہوئے راستے میں کسی اور کام میں مشغول ہونا یا رکنا جائز نہیں ہوگا۔ لہذا نمازِ جمعہ سے فارغ ہوتے ہی اپنے اعتکاف والی مسجد میں واپس آنا ضروری ہوگا۔ (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، باب الاعتكاف، ١/ ٧٠٢)۔ واللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی 

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا