اعتکاف کی حقیقت
اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ کچھ وقت کے لئے اللہ کے گھر میں اعتکاف کی نیت سے مسجد میں تھہرا جائے اس کے لئے کم زیادہ کی کوئی مدت متعین نہیں کوئی وقت مقرر نہیں جتنی مقدار چاہے اعتکاف کر سکتا ہے صرف رمضان کاسنت اعتکاف دس دن سے کم اور واجب (جس کی نظر مانی ہو) ایک دن سے کم جائز نہیں ہے۔ (احکام اعتکاف مفتی تقی عثمانی صاحب)
اعتکاف کے اقسام
اعتکاف کی تین قسمیں ہے۔
واجب: وہ اعتکاف ہے جو نذر یعنی منت ماننے سے یا مسنون اعتکاف کو فاسد کرنے سے واجب ہوا ہو۔
مسنون: یہ وہ اعتکاف ہے جو صرف رمضان کے مہینے کے آخری عشرے میں اکیسویں شب سے عید کے چاند دیکھنے تک ہے۔
نفل: وہ اعتکاف جوکسی بھی وقت کسی بھی گھڑی کیا جاسکتا ہے۔ (شامی ٤۳۰/۳ )
اعتکاف مسنون کے احکام
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جو اعتکا ف کیا جاتا ہے وہ اعتکاف مسنون ہے، اس اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروب آفتاب سے شروع ہوتاہے، اور عید کا چاند ہونے تک باقی رہتا ہے، چونکہ اس اعتکا ف کا آغاز اکیسویں شب سے ہوتاہے اور رات غروب آفتاب سے شروع ہو جاتی ہے اس لئے اعتکاف کرنے والے کو چاہئے کہ بیسویں روزے کو مغرب سے اتنے پہلے مسجد کی حدود میں پہنچ جائے کہ غروب آفتاب مسجد میں ہو، رمضان شریف کے عشرہ اخیرہ کا یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی ایک بستی یامحلے میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو تمام اہل محلہ کی طرف سے سنت ادا ہو جائے گی، لیکن اگر سارے محلے میں سے کسی ایک نے بھی اعتکاف نہ کیا توسارے محلے والوں پرترک سنت کا گناہ ہوگا۔ (البحرالرائق ،باب الاعتکاف ٢/٤۲۱)
اعتکاف کی جگہ کی تعیین
مردوں کیلئے اعتکاف صرف مسجدہی میں ہو سکتا ہے افضل ترین اعتکاف مکہ مکرمہ کی مسجد حرام میں ہے، دوسرے نمبر پر مسجد نبوی میں تیسرے نمبر پر مسجد اقصی میں چوتھے نمبر پر کسی بھی جامع مسجد میں اور جامع مسجد میں اعتکاف کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کیلئے کہیں اور نہیں جانا پڑے گا لیکن جامع مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر اس مسجد میں اعتکاف ہو سکتاہے جہاں پانچ وقت کی جماعت ہوتی ہو البتہ اگر مسجد ایسی ہے جہاں پا نچوں وقت نماز نہیں ہوتی تو اس میں علماءکا اختلاف ہے، تا ہم محققین کے نزدیک ایسی مسجد میں بھی اعتکاف ہوسکتاہے اگر چہ افضل نہیں (شامی٤۲۹/۳ احکام اعتکاف فضائل ومسائل ص ٤٠ مفتی تقی عثمانی صاحب)
رمضان کے آخری عشرے کے تین دن کا اعتکاف
سنت یہ ہے کہ بیسویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مسجد میں داخل ہو جائے لیکن اگر اس کے بعد کسی وقت میں بھی نیت کرکے مسجد میں داخل ہوجائے تب بھی صحیح ہے، لیکن عشرہ کامل کی فضیلت اس صورت میں حاصل نہ ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ کامل (رمضان کے اخیر کے دس دن) کا اعتکاف کیا ہے جو کہ بیسویں تاریخ کی شام سے بیٹھے تب ہی پورا ہو سکتا ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ١٧٧)
اسی طرح آخری عشرہ میں دو یا تین دن اعتکاف کرنےسے نفلی اعتکاف شمار ہوگا سنت اعتکاف شمار نہیں ہوگا (علمگیری ۲۱۱/۱)
لیکن نفلی اعتکاف بھی تو ایک عبادت ہے وہ بھی عشرۂ اخیرہ میں اور رمضان کی کوئی بھی عبادت افضل ترین عبادت ہے لیکن اس کا رمضان کے لئے سنت اعتکاف گرداننا صحیح نہیں ہے ۔
اعتکاف کی حالت میں احتلام ہونا
دوران اعتکاف احتلام ہوجائے اور معتکف کے لئے مسجد سے نکلنے میں کسی قسم کا خوف نہ ہوتو پہلے تیم کرلے پھر مسجد سے باہر آجائے اور اگر کسی قسم کا خوف ہوتو تیمم کرلے اور سوجائے (شامی ٤۱۰/۱)
اعتکاف کی حالت میں بیڑی سگرٹ پینا
اعتکاف کی حالت میں بیڑی سگرٹ مسجد کے احاطے میں پینا صحیح نہیں ہے، اور نہ ہی مسجد کے باہر وہ جاسکتا ہے ، اگر عادت ایسی ہو کہ اس کے بغیر چارہ کار نہیں تو ایسے حضرات استنجاء کے تقاضے سے جائے تو پی لے۔ (فتاوی تاتارخانیه ٤٤٦/٣ )
اعتکاف میں بیوی یا کسی محرم سے بات چیت کرنا
اعتکاف کی حالت میں اپنی محرمات ابدیہ کے ساتھ بات چیت کرنا ان سے ملنا اسی طرح اپنی بیوی سے ملنا بات چیت کرنا اس وقت جائز ہیں جبکہ اعتکاف کرنے والا مسجد میں رہ کر اوروں سے پردے کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے ملیں یا بات چیز کریں اسی طرح مسجد میں رہ کر باہر چلنے والے آدمی سے بھی بات چیت کرنا جائزہے۔ (تاتار خانیه ٤٤٥/۳)
اعتکاف کی حالت میں نماز جنازہ کے لئے جانا
اعتکاف کی حالت میں نماز جنازہ کے لئے جانا اسی طرح کوئی معتكف اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے دوسری مسجد میں تراویح میں سماعت قرآن کررہا تھا اس مسجد میں پارہ الگ ہے اب اس مسجد سے اس مسجد میں وہ روزانہ تراویح کے لئے جانا چاہتا ہے۔ توان اشیاء کی اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ہی نیت کرلے تو اس کو نکلنا جائز ہے۔ (فتاوی قاسمیہ جلد ۵۹۳ / ۱۱ )
معتکف کا اذان دینے کے لئے باہر جانا
معتکف اذان دینے کے لیےمسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ تاہم اگر معتکف مؤذن نہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی شخص اذان دینے والا موجود ہو تو بہتر ہے کہ وہ اذان کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے۔ (فتاوى عالمگیری ١/٢١٣)
معتکف کا غسل تبرید کے لئے باہر جانا
واجب غسل کے علاوہ جمعہ کے غسل کے لئے اسی طرح بدن کی صفائی یا ٹھنڈک کے لئے غسل کے بارے میں باہر نکلنے میں عام کتب فقہ میں تو اس بات کی صراحت ہے کہ غسل واجب کے علاوہ کسی اور غسل کے لئے مسجد سے نہیں نکل سکتا لیکن بعض فقہی عبارات سے جمعہ کے غسل کا جواز معلوم ہوتا ہے (يخرج للوضوء والاغتسال فرضا كان أو نفلا، تاتارخانیہ ٣٤٦ /٣) اسی طرح تاتارخانیہ میں ہے کہ امام ابو یوسف صاحب کے نزدیک کچھ دیر کے لئے مسجد سے باہر رہنے کی صورت میں اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ (٤٤٤/٣) لہذا ایسا معتكف جو روزانہ غسل کا عادی ہو اور بغیر غسل کے وہ بے چین ہو جائے، نیز موسم گرما میں تو اور پریشانی کا باعث ہے ایسی صورتوں میں ان کے لئے گنجائش ہے کہ غسل تبرید کرلیں،
اعتکاف کی حالت میں معتکف کا خودکھانا لانا
معتکف حالت اعتکاف میں کھانا لانے والا نہ ہونے کی صورت میں خود جا سکتا ہے لیکن بعد الغروب جا سکتا ہے، اس لئے کی ضرورت اس وقت متحقق ہوگی، اور گھر میں اگر بلاضرورت طعام کے تھوڑی دیر بھی رکا رہاتو اعتکاف فاسد ہو جائے گا اور سحری کا کھانا لانے کے لئے بھی جاسکتاہے، لیکن اس میں بھی اگر گھر میں بلاضرورت طعام کے تھوڑی دیر بھی رکا رہاتو اعتکاف فاسد ہو جائےگا۔ اور اگر کسی ضرورت کی وجہ سے نکلا ہے اور کچھ دیر کے لئے رکا رہا تو امام محمد نے استحسانا عدم فساد اعتکاف کی صراحت کی ہے ۔ (کتاب الاصل للامام الشيبانی۱۸۷ /٢) (النهر الفائق ٤۷/۲)
اعتکاف کی حالت میں موبائل سے بات چیت کرنا
اعتکاف کا مقصد اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا اور اس کی عبادت میں مشغول رہنا ہے، دنیا سے حتی الامکان کٹ کر اللہ تعالیٰ سے لَو لگانا ہے، لہذا معتکف کو چاہیے کہ وہ نماز، تلاوت، ذکر و اذکار، تعلیم و تعلم اور دیگر عبادات میں اپنا زیادہ وقت گزارے، تاہم ضرورت کے وقت اپنی بیوی یا کسی اور شخص سے بذریعہ فون یا میسج گفتگو کرے تو اس کی اجازت ہے، بلاضرورت طویل بات چیت نہ کرے۔ اسی طرح موبائل سے کاروبار کی باتیں کرنا اور موبائل سے عام باتیں کرتا جب کہ اس کی ضرورت ہو جائز ہے۔ (النهر الفائق ٤۸/۲) (التجنيس والمزيد لصاحب الهدایه، ٢/٤٤٤) (عالمگیری ۲۱۳/۱ )
معتکف کے لئے واٹس ایپ اور انٹرنیٹ کے استعمال کا حکم
اعتکاف کا مقصد دنیاوی امور سے یک سو ہو کر اللہ سے لو لگانا ہے، اس سے مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہوتی ہے، لہذا اعتکاف میں انٹرنیٹ اور واٹس ایپ استعمال کرنے سے حتی الامکان احتراز کیا جائے؛ کیوں کہ اس میں جان دار کی تصاویر سے بچنا بہت مشکل تقریباً ناممکن ہے، اور بہت سی عورتوں اور مردوں کی تصویریں دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی اس سے مسجد کی بے ادبی کے ساتھ اعتکاف کے دوران گناہ بھی ہوگا،
لہذا اعتکاف کے دوران واٹس ایپ اور انٹرنیٹ استعمال کرنے سے اگر چہ اعتکاف فاسد نہیں ہوتا، لیکن اس کی روح اور مقصد ضائع ہوجاتا ہے، لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔
مسنون اعتکاف کے لئے روزہ
مسنون اعتکاف کیلئے روزہ شرط ہے روزہ کے بغیر صرف نفلی اعتکاف ہی ہے، مسنون اعتکاف نہیں، (فتاویٰ رحیمیہ ج٣ ص ١١٠)
نابالغ بچہ کا اعتکاف
نابالغ لڑکا اگر سمجھدار ہو، نماز کو سمجھتا ہو اور صحیح طریقے سے پڑھتا ہو تو اعتکاف ہو سکتا ہے نفل اعتکاف ہوگا مسنون نہ ہوگا، اگر ناسمجھ ہے تو نہیں بیٹھ سکتا۔ (فتاویٰ رحیمیہ ج٥ ص ٢٠٢)
اجرت دیکر اعتکاف کروانا
اجرت دیکراعتکاف کروانا جائز نہیں کیونکہ عبادات کیلئے اجرت دینا لینا دونوں ناجائزہیں ہاں اگر بغیر اجرت مقرر کئے اعتکاف کرایا اور اعتکاف کراکے اجرت دینا وہاں معروف بھی نہ ہو تو کچھ تحفہ پیش کرنا جائز ہے، (فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ٥١٢)
دوسری جگہ جمعہ کے لئے جانا
اعتکاف ایسی مسجد میں کرنا بہتر ہے جس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہو، اگر کوئی شخص ایسی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھ گیا ہے جس مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تو چوں کہ جمعہ کی نماز کے لیے جانا شرعی ضرورت ہے؛ اس لیے معتکف جمعہ کی نماز پڑھنے جامع مسجد جاسکتا ہے، اس سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا، البتہ معتکف کو چاہیے کہ ایسے وقت جائے کہ دوسری مسجد میں پہنچ کر خطبہ سے پہلے جمعہ کی سنتیں پڑھ سکے، اور جمعہ کی نماز کی سنتیں پڑھ کر جلد واپس آجائے، دیر تک وہاں ٹھہرنا مکروہ ہوگا، لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ ایسی جگہ اعتکاف میں ہوجہاں شرعاً جمعہ واجب ہو، اگر ایسی بستی یا گاؤں میں اعتکاف میں ہو جہاں شرعاً جمعہ ہی واجب نہیں، پھر وہاں سے معتکف کے لیے نکلنا جائز نہیں، اگر نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا نیز جمعے کے لیے جاتے اور آتے ہوئے راستے میں کسی اور کام میں مشغول ہونا یا رکنا جائز نہیں ہوگا۔ لہذا نمازِ جمعہ سے فارغ ہوتے ہی اپنے اعتکاف والی مسجد میں واپس آنا ضروری ہوگا۔ (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، باب الاعتكاف، ١/ ٧٠٢)۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں