تعزیتی مضمون:
برائے مرشدی ومحبی واستاذی استاذ الاساتذہ حضرت مفتی ابراہیم صاحب آچھودی رحمۃ اللہ علیہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
موت سب سے بڑی سچائی اور سب سے تلخ حقیقت ہے ۔ اس کے بارے میں انسانی ذہن ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے ، لیکن یہ ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی حل ہوتا ہے، موت ایک ایسا بے خبر ساتھی ہے جوہنگامۂ حیات کو لمحۂ آن میں خاموش کر دیتی ہے۔ اس کاآنا جتنا یقینی ہے اس کا وقت اتنا ہی غیر یقینی ہے۔ یہ کب، کیسے، کس کو اور کہاں آتی ہے کسی کو پتہ تک نہیں چلتا۔ لوگ اس تلخ گھونٹ کو پینا بھی نہیں چاہتے۔ مگر پئے بغیر رہ بھی نہیں سکتے، کیوںکہ یہ قانون قدرت ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( کل نفس ذائقة الموت ثم إلينا ترجعون ، ( ٥٧ العنكبوت ) ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھرتم سب کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے، اور دنیائے فانی میں چند دن عارضی زندگی گذارنے کے بعد توشۂ آخرت کے ساتھ ابدی دنیا کی طرف سے رخت سفر باندھنا ہے۔
فراق کسی کا بھی ہو شاق ہوتا ہی ہے، جدائی کسی کی ہو کرب آور ہوتی ہے، اس دنیا کا دستور یہی ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی بچھڑتا ہے، لیکن اس دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی زندگی قوم وملت کی امانت ہو جاتی ہے، جن کے گزرنے سے آنکھوں کی دھارائیں رکنے کا نام نہیں لیتی، اور جنہیں سسکتی آہوں سے بستیاں سپردخاک کردیتی ہے، اور زمانہ مدتوں ان کی کمی اور خلا کو محسوس کرتا ہے، کیوںکہ ایسی منتخب چنیدہ ہستیاں اپنی خداداد صلاحتیوں کے ذریعے رب ذوالجلال کا نور کائنات کی ظلمت میں اس طرح بکھیرتے ہیں کہ تا قیامِ قیامت ان شعاعوؤں میں ضو پاشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
افسوس صد افسوس کہ ایک ایسی ہی عظیم المرتبت شخصیت مؤرخہ ٢٧ دیسمبر ٢٠٢١ کو ہمارے درمیان سے ہندوستان کی سرزمین خصوصاً خطۂ گودھرا پر ابھرتا ہوا گوہر، محدث بے بدیل، اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر بزبان حال یہ کہتے ہوئے۔
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
داعی اجل کی پکار پر دار بقا اور قرار کی جانب ہم سب کو روتا بلکتا اور سسکتا چھوڑ کرداغ فراق دےگئی۔
آج رات بارہ بجکر٥منٹ پر اپنے معمولات سے فارغ ہوکر لیٹا ہی تھا کہ یہ اندوہناک خبر ملی جس سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور پورے بدن پر گویا سکتہ تاری ہوگیا اور دل ترپنے لگا جسم کاایک ایک پور چلا اٹھا کہ کاش ایسی ہستی کے بدلے ہماری خبر آجاتی۔
یہ دن اہلیان گودھرا کے لیے قیامت صغریٰ ثابت ہوا جب کہ اس دن جامعہ رحمانیہ کے شیخ الحدیث اور اہل گودھرا کی ہردلعزیز شخصیت استاد محترم حضرت مولانا مفتی ابراہیم صاحب آچھودی اس جہان فانی سے رخصت ہوکر دارالبقا کی طرف کوچ کر گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت کی وفات پر محبین غم والم کے ایسے بادلوں میں گھر آئے ہے کہ محسوس ہوتاہے کہ اب جلد چھٹنے والے نہ ہو ان کی جدائی پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر بزم اداس ہے، ایسے دیدہ ور کا دنیا سے اٹھ جانا ایک ایسا سانحہ ہے کہ جس سے گلشن کی بہار مسموم بگولوں کی زد میں ہو ہم صمیم قلب سے دعا گو ہے کہ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائیں اور ان کا نعم البدل اہل گودھرا اور جامعہ رحمانیہ کو عطافرمائے۔
آپ کی سادہ زنگی
آپ بہت خوش مزاج اورعمدہ اخلاق تھے، مزاج تنہائی پسند تھا، ہر کسی کے ساتھ بے تکلف رہتے، بڑے ہی منکسر مزاج، صاحب مروت، خوش اخلاق، متقی، عبادت گزار اور سادہ طبیعت انسان تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نفسانیت ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی۔
سادگی ایسی تھی کہ تصنع اور بناوٹ کا نام و نشان نہیں تھا، غیر ضروری آسائشوں، رونقوں اور ٹھاٹ باٹ سے کوسوں دور تھے،
دیکھنے والا اگر ان کی ظاہری زندگی دیکھے تو وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ کوئی بڑے عالم اور بزرگ ہیں۔
زمانۂ طالب علمی میں احقر کو بارہا ان کی خدمت کا موقع ملا ہے اس وقت کھانا مطبخ سے لایا جاتا تھا ایک بار کھانا لاکر حضرت کے سامنے رکھا اتفاق سے دال کا پیالہ ہاتھ سے چھوٹ گیا اور دال رضائی پر گرگئی حضرت رضائی کو ہاتھ میں لیکر پیالے میں نچورنے لگے اور جو دال رہ گئی تھی اس کو چوس نے لگے میں نے درخواست کی کہ اس کو پھینک دیاجائے اور دوسری دال لے آؤں حضرت نے فرمایا کہ یہ امت کا مال ہے اس کو ایسے ضائع نہیں کیا کرتے اور اسی میں کھانا کھالیا۔
ان کی سادہ زندگی پر علامہ اقبال کے یہ اشعار دل و دماغ میں گردش کرنے لگے ہیں۔
جلا سکتي ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کي
الہي کيا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سينوں ميں
تمنا درد دل کي ہو تو کر خدمت اللہ والوں کي
نہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کي، ارادت ہو تو ديکھ ان کو
يد بيضا ليے بيٹھے ہيں اپني آستينوں ميں
ترستي ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کي ہے انہي خلوت گزينوں ميں
انداز تدریس
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ حضرت مرحوم دار العلوم کے طبقۂ اساتذہ میں شان امتیازی کے حامل تھے، انداز تدریس اور مشکل مسائل کی تفہیم میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مربی بھی تھے ،
انکا درس مقبول عام و خاص تھا ایسا سہل المنال کہ عامی شخص بھی درس میں بیٹھ کر مستفید ہو سکے، علم میں سمندر کے مانند گہرائی تھی، ڈھلتی عمر کے باوجودعقل کی پختگی بے مثال تھی۔
حضرت مفتی صاحب کے درس کی خصوصیات میں سے ایک یہ انتہائی بلیغ خصوصیت تھی کہ زیادہ تراہتمام مشکلات کے حل کرنے کا فرماتے تھے، بحثوں کو پھیلانے اور الفاظ بار بار استعمال کرنے پر زیادہ توجہ نہیں فرماتے تھے۔ بلکہ کوشش یہ ہوتی تھی کہ موضوع سامعین کے ذہنوں میں پیوست ہوجائے۔ اس لئے موضوع کی وضاحت کے بعد سامعین سے باربار مطالبہ فرماتے کہ بات سمجھ میں آئی یا نہیں جواب نہ ملنے پر یہ فرماتے ہوئے دوبارہ سمجھاتے کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں جب سامعین کی طرف سے تسلی ہوجاتی تو آگے بڑھتے اور یہ ان کا شروع سے آخر تک انداز تدریس رہاہے اللہ ایسے مخلصین ہمیں بار بار عطافرمائے آمین
متفرق ملاقاتوں میں نصائح عدیدہ
بعد فراغت کے جب کرمالی میں تقرر ہوا تھا اس وقت یہ تین نصیحتیں فرمائی تھی۔
(١) اپنے آپ کو سب سے چھوٹا سمجھیں، اوراپنی زندگی کے لیے کسی ایک بڑے کو اپنا رہنما بنالیں، خود رائی سے پرہیز کریں۔
(٢) دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے مواعظ اور ملفوظات کو تاحیات پڑھنے کا معمول بنالیں، چاہے یہ بات آپ کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
(٣) پڑھانے والے اساتذہ میں باہم جوڑواتفاق سے رہنا
جانے کے وقت حضرت نے ایک نصیحت یہ کی تھی کہ آپ کا سامنا مختلف مزاجوں اور طبیعتوں سے ہونے والا ہے لہذا ہر مدرس سے مخلصانہ اور محبانہ انداز سے پیش آئیں اگراس کے برعکس ہوگا تو افتراق و انتشار ،فتنہ و فساد اور ٹوٹ پھوٹ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا، محنتی اور مخلص استاد ہمیشہ ایثار پیشہ، منکسر النفس اور اعمال صالحہ کا حریص ہوتاہے۔ اس کی ابتدا سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کی ذات ،کردار اور شخصیت؛ ادارے کے مجموعی ماحول کے لیے تکدر اور خرابی کا باعث وسبب نہ بنے۔اس کے کسی قول و عمل سے دوسرے کی دل آزاری اوردل شکنی نہ ہو
جامعہ تحفیظ القرآن سے آنا جانا ہوتا تھا اس وقت متفرق اوقات میں یہ نصیحتیں فرمائیں۔
حضرت کے پاس جب بھی جانا ہوتاتھا تو اہتمام سے یہ نصیحتیں اکثر کیاکرتے تھے
(١) اخلاصِ نیت: یعنی اپنی نیت کو درست کرنا کیونکہ نیت درست ہوگی تواللہ تعالیٰ علم میں بھی برکت دیں گے۔
(٢) سب کے ساتھ اچھابرتاؤ کریں کیونکہ اچھا برتاؤ یہ افادیت کے لئے بے انتہا مفید ہے۔
(٣) ہمیشہ باوضو رہیں اور نمازوں کا اہتمام کریں: اس سے علم میں اضافہ ہوگا، اور کوئی بھی درسی کتاب کو بلاوضو ہاتھ نہ لگائے اس سے علوم وفنون کی راہ ہموار ہوگی اور یہ نصیحت باربارکی ہے۔
(٤) تفہیم سے قبل تفَہّم: حضرت یہ نصیحت بھی کئی بار کرچکے ہیں کہ کسی بھی کتاب کو پڑھانا ہے تو روزانہ خود اچھی طرح سے سمجھ کر جائیں اور دماغ میں پورا سبق اچھی طرح سے بٹھالیں کہاں کونسی بات بتانی ہے اس کو بھی سوچ کر جائیں۔
(٥) ادب بنیاد ہے: اور یہ نصیحت بھی فرمایا کرتے کہ ادب بنیادی شرط ہے، استاذ کابھی ادب کریں،کتاب کا بھی ادب کریں،تپائی اور درس گاہ کا بھی ادب ملحوظ رکھیں۔اس کے ساتھ ساتھ بڑوں کابھی ادب کریں
(٦) اسلوب ِتعلیم: یعنی درسگاہ میں قدم رکھنے سے قبل ہی آپ ذہناً اس بات کو مستحضر کرلیں کہ آج میرے سبق میں کتنی باتیں ،کتنے مباحث ، کتنے فائدے اورکتنے نکات ہوں گے؟اس تعین وتحدید کے بعد عبارت پر ان کو منطبق کردیں۔انشاء اللہ العزیز کامیابی آپ کے قدم چومے گی
(٧) طلبہ کی استعداد کو پختہ کرنے کے لئےمصطلحاتِ فن کو ازبرکروانا: ایک بارطلبہ کی استعداد کو پختہ کر نے کی تجاویز کے بارے میں سوال کرنے پر حضرت نے ارشاد فرمایا کہ اولین اوربنیادی درجات میں اس بات کاالتزام ولحاظ رکھاجائے کہ طلبہ کو صرف ونحو،فقہ واصولِ فقہ ،اصولِ تفسیر وحدیث اورمنطق وبلاغت کے مصطلحات واصطلاحات خوب ازبر ہوں۔شروع میں اس اہم اورطالب ریاضت مرحلے کو نظرانداز کردینے کا نقصان آخرتک نظرآتاہے۔
(٨) دورانِ درس ناصحانہ کلمات: ایک بار یہ بھی فرمایا تھا کہ مشفق ومہربان استاذ اپنے شاگرد کی باطنی اورروحانی تربیت کافریضہ سرانجام دیتاہے، لہذا ہرباصلاحیت معلم اورجوہرشناس استاذکی نظر ہمہ وقت اپنی روحانی اولاد کی سیرت وکردارپر رہنی چاہیے اس لیے کہ حقیقت پسند اورنفسیات شناس مدرس اپنے آپ کو فقط کتاب کی تدریس و تعلیم تک محدود نہیں کرتا؛ بلکہ دورانِ درس کوئی نصیحت آموز کلمہ کہہ کر اپنے زیر تربیت نونہالوں کی عملی زندگی کا دھارا بدلنے کی اور نتیجہ خیز کردار کی طرف کوشاں و سرگرداں رہتاہے۔
(٩) معتدل مزاجی: طلبہ کے سلسلے میں نصیحت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ طلبہ کے ساتھ اعتدال ،میانہ روی اور دوستانہ رویہ ،ان کی فکری، علمی اور ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے اورنکھارنے میں بے حد مفید ومعاون ثابت ہوتاہے۔جہاں خشک مزاجی،بے جاغصے کااظہار اورحدِ اعتدال سے بڑھی ہوئی سختی اور تشدد آپ کو طالب علم سے دور کردیتی ہے ، اسی طرح حد درجہ نرمی ،طبیعت میں عدم سلیقے کا عنصر اورطلبہ سے فضول گپ شپ بھی درس گاہ کے عمومی اور آپ کے پڑھانے کے خصوصی ماحول کومتاثروبدنما کردیگی، لہذا طلبہ کے ساتھ توسط واعتدال کا معاملہ کریں، نہ حد سے زیادہ سختی اور نہ حد سے زیادہ نرمی ہو، ورنہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کمی یا کوتاہی سے پیداہونے والے نتائج کا سدِباب ناممکن اورمحال ہوگا
(١٠) آخری مجلس: حضرت کے پردہ پوش ہونے سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے ملاقات میں ڈھیر گھنٹہ بات چیت ہوتی رہی جس میں انہوں نے والدین کی خدمت کی تاکید کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ والدیں کی حیاتی ایک نعمت ہے اور ان کی خدمت کاموقع اللہ ہر کسی کو نہیں دیتا تمہیں ملا ہے تو اس کی قدر کرنا۔
اس کے بعد میرے ان رسائل کے بارے میں پوچھا جس پر انہوں نے تقریظ لکھی تھی کہ کب اس کو چھپوائیں گے، آخر میں یہ جملے ارشاد فرمائیں کہ اب بخاری پڑھنے کی طاقت نہیں ہے میرا وقت بھی گھر لوٹنے کا ہوچکا تھا اس لئے میں نے تین مرتبہ جانے کی اجازت طلب کی تو حضرت نے بٹھادیا اور فرمایا کہ ابھی وقفہ ہوگا بچہ آئے گا چائے بنائیگا آپ بھی چائے پیکر جائیں کہا معلوم تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات اور آخری چائی ہے کچھ ہی دیر میں بچہ آیا اور چائی بنائی چائی نوشی سے فارغ ہی ہوا تھا کہ حضرت مولانا اختر صاحب تشریف فرماہوئے تھوڑی دیر باتیں ہوئی اور میں حضرت کی ملاقات کے بعد لوٹ آیا۔
آہ وہ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
موصوف کی محبت بھری ملاقاتیں ابھی بھی آنکھوں کے نظارے ہیں اور ان کے محبت بھرے القاب دل ودماغ میں گردش کررہےہیں اوران کی مسکراہٹیں آنکھوں کے سامنے اس طرح سے رواں دواں ہے کہ اس سچائی کے سچ ہونے کے باوجود یقین کرنے کے لئے تیار نہیں۔
لیکن
جانے والا تو بہتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں چل بسا اور اپنی خاموش زباں اور مسکراتے ہونٹوں سے یہ کہتا ہوا چلدیا۔
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا
یہ سب نصائح حضرت کی ہے البتہ اس کو میں نے اپنی تعبیرات میں پیش کیا ہے۔ نیز حضرت کے خصائص اور ان کی زندگی کے سنہرے اوقات مولانا ادریس صاحب کی کتاب (تاریخ دارالعلوم گودھرا ص٨٠) پر مرقوم ہے اسے بھی دیکھنا چاہئے
میں اپنی بات اس شعر پر موقوف کرتاہوں کہ:
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
العارض: آصف گودھروی
خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا
3 تبصرے:
ماشاءاللہ بہت خوب لکھا مفتی آ صف صاحب نے اللہ مفتی صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام نصیب فرماے
ماشاءاللہ یہ تحریر پڑھکر غم بڑا بھی اور کم بھی ہوا اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی مغفرت فرمائے
ماشاء الله قمتي مضمون....
ایک تبصرہ شائع کریں