سوال
السلام علیکم حضرت امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔
مجھے اس بارے میں جاننا تھا کہ قبر کے عذاب کے بارے میں جو آتا ہے کہ آپس میں سینہ کے پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاںٔیگی تو یہ سزا سبھی کو ہوگی کیا؟ چاہےوہ نیک ہو یا بد یا صرف برے لوگوں کو ہوگی جو اس عذاب کے مستحق انکو؟
ساںٔل:۔ محمد انس انڈمان
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
یہ بات مسلم ہے انسان کے مرنے کے بعد اس کا تعلق اس ظاہری اور دنیوی عالم سے نہیں رہتا، بلکہ اس کا تعلق ایک اور عالم سے ہوجاتاہے، جس کوعالمِ برزخ (اورعرفِ عام میں عالمِ قبر) کہتے ہیں، اب جوکچھ اس پرگزرتاہے وہ دنیوی عالم میں نہیں، بلکہ اس دوسرے عالم میں ہوتاہے اوراس دوسرے عالم کواللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے عام انسانوں سے مخفی رکھاہوا ہے؛ لہٰذا اس پر اچھا یابُرا جو کچھ گزرتا ہے، اس کا اس دنیا میں مشاہدہ عام طور پرنہیں ہوتا۔
اوراہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک یہ مسئلہ متفقہ ہے کہ احادیث کی روشنی میں مرنے کے بعد عالمِ برزخ میں کفار، منافقین، اور گناہ گار مسلمانوں کو عذاب دیا جاتا ہے ، اور نیک لوگوں کو اللہ قبر کے عذاب سے محفوظ فرماتا ہے نیز ہر شخص سے مرنے کے بعد تین سوالات ہوں گے:
(۱) من ربك؟ (۲)من نبیك؟ (۳)ما دینك؟
ہر ایک کو ان کا جواب دینا ہوگا جواب نہ دینے یا غلط دینے کی صورت میں قبر میں عذاب ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عذابِ قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی تعلیم فرماتے تھے۔
البتہ مسؤلہ صورت میں جہاں بھی احادیث میں وارد ہے کہ اس پر قبر تنگ ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں۔‘‘ اور بعض روات میں یہاں تک بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کیفیت کر کے دکھائی کہ آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں، اس کا تعلق احادیث کی روشنی میں کفار، منافقین، اور گناہ گار مسلمانوں سے ہے نیک اور صالحین سے نہیں ہے۔
مسند احمد میں یہ روایت اس طرح سے بیان کی ہے۔
عَنْ أَنَس بْنِ مَالِکَ رضی اللہ عنہ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: (إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِہِ وَتَوَلّٰی عَنْہُ أَصْحَابُہٗ حَتّٰی إِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ أَتَاہُ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِہِ فَیَقُوْلَانِ لَہُ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِی ہٰذَا الرَّجُلِ، لِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَقُوْلُ: أَشْہَدُ أَنَّہُ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ، فَیُقَالُ: اُنْظُرْ إِلٰی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہِ مَقْعَدًا فِی الْجَنَّۃِ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : فَیَرَاہُمَا جَمِیْعًا قَالَ رَوْحٌ فِی حَدِیْثِہِ: قَالَ قَتَادَۃُ: فَذَکَرَ لَنَا أَنَّہُ یُفْسَحُ لَہُ فِی قَبْرِہِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا، وَیُمْلَأُ عَلَیْہِ خَضِرًا إِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی حَدِیْثِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ: قَالَ: وَأَمَّا االْکَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ فَیَقُالُ لَہُ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِی ہٰذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ: لَا أَدْرِی، کُنْتُ أَقُوْلُ مَا یَقُوْلُ النَّاسُ، فَیُقَالُ لَہُ: لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ، ثُمَّ یُضْرَبُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِیْدٍ ضَرْبَۃً بَیْنَ أُذُنَیْہِ فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً فَیَسْمَعُہَا مَنْ یَلِیْہِ غَیْرَ الثَّقَلَیْنِ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: یُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ حَتّٰی تَخْتَلِفَ أَضْلَاعُہُ۔)مسند احمد: ۱۲۲۹۶۔
ترجمہ:
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب انسان کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ (اس کی تدفین کے بعد) واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے، پھر اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارے میں پوچھتے ہیں: تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہے گا؟ مومن میت کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے: تو جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ، اللہ نے تمہارے لیے اس کے عوض جنت میں ٹھکانا تیار کر دیا ہے، وہ اپنے دونوں ٹھکانوں کی طرف دیکھتا ہے اور قیامت کے دن تک اس کی قبرستر ہاتھ تک فراخ کر دی جاتی ہے اور اس کو تروتازہ نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ رہا مسئلہ کافر یا منافق کہا تو اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ تو اس ہستی (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بارے میں کیا کہے گا؟ وہ کہتا ہے: میں تو نہیں جانتا، لوگ جو کچھ کہتے تھے، میں بھی کہہ دیتا تھا، (لیکن اب میرے علم کوئی چیز نہیں ہے)۔ اس سے کہا جاتا ہے: تو نے نہ سمجھا اور نہ پڑھا، پھر اس کے کانوں کے درمیان لوہے کے گرز کی ایک ایسی ضرب لگائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایسا چلّاتا ہے کہ جن وانس کے علاوہ قریب والی مخلوق اس کی چیخ و پکار کو سنتی ہے اوراس قبر کو اس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں۔
مشکوۃ میں یہ روایت اس طرح سے بیان کی ہے۔
وَعَنْ أَبِی سَعِيدٍ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةٍ فَرَأَى النَّاسَ كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ قَالَ: أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَادِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى الْمَوْتُ فَأَكْثِرُوا ذكر هَادِم اللَّذَّات الْمَوْت فَإِنَّهُ لَا يأتِ على الْقَبْر يومٌ إِلَّا تَكَلَّمَ فَيَقُولُ: أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَحَبُّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِي بِكَ . قَالَ: فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوِ الْكَافِرُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِي بِكَ قَالَ: «فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَخْتَلِفَ أَضْلَاعُهُ» . قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِهِ. فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ. قَالَ: «وَيُقَيَّضُ لَهُ سَبْعُونَ تِنِّينًا لَوْ أَنَّ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا فَيَنْهَسْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضِي بِهِ إِلَى الْحِسَابِ» قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: ٥٣٥٢۔
مسند ابی شیبہ میں یہ روایت اس طرح سے بیان کی ہے
(۱۲۱۸۸) حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إنَّ الْمَیِّتَ لَیَسْمَعَ خَفْقَ نِعَالِہِمْ حِینَ یُوَلُّونَ عَنْہُ مُدْبِرِینَ ، فَإِنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَانَتِ الصَّلاَۃُ عِنْدَ رَأْسِہِ وَکَانَتِ الزَّکَاۃُ عَنْ یَمِینِہِ وَکَانَ الصِّیَامُ عَنْ یَسَارِہِ وَکَانَ فِعْلُ الْخَیْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَۃِ وَالصِّلَۃِ وَالْمَعْرُوفِ وَالإِحْسَانِ إلَی النَّاسِ عِنْدَ رِجْلَیْہِ فَیَؤتَی مِنْ قِبَلِ رَأْسِہِ فَتَقُولُ الصَّلاَۃُ مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ وَیَأْتِی عَنْ یَمِینِہِ فَتَقُولُ الزَّکَاۃُ مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ وَیَأْتِی عَنْ یَسَارِہِ فَیَقُولُ الصِّیَامُ مَا قِبَلِی مَدْخَل وَیَأْتِی مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ فَیَقُولُ فِعْلُ الْخَیْرِ مِنَ الصَّدَقَۃِ وَالصِّلَۃِ وَالْمَعْرُوفِ وَالإِحْسَانِ إلَی النَّاسِ مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ ، قَالَ فَیُقَالُ لَہُ اجْلِسْ فَیَجْلِس قَدْ مُثِّلَتْ لَہُ الشَّمْسُ تَدَانَتْ لِلْغُرُوبِ فَیُقَالُ لَہُ أَخْبِرْنَا عَنْ مَا نَسْأَلُک عَنْہُ فَیَقُولُ دَعَوْنِی حَتَّی أُصَلِّیَ فَیُقَالُ لَہُ إنَّک سَتَفْعَلُ فَأَخْبِرْنَا عَمَّا نَسْأَلُک فَیَقُولُ وَعَمَّ تَسْأَلُونِی فَیَقُولُونَ أَرَأَیْت ہَذَا الرَّجُلَ الَّذِی کَانَ فِیکُمْ مَا تَقُولُ فِیہِ وَمَا تَشْہَدُ بِہِ عَلَیْہِ ، قَالَ فَیَقُولُ مُحَمَّدٌ فَیُقَالُ لَہُ نَعَمْ فَیَقُولُ أَشْہَدُ ، أَنَّہُ رَسُولُ اللہِ وَأَنَّہُ جَائَ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللہِ فَصَدَّقْنَاہُ فَیُقَالُ لَہُ عَلَی ذَلِکَ حَیِیتَ وَعَلَی ذَلِکَ مُتَّ وَعَلَی ذَلِکَ تُبْعَثُ إِنْ شَائَ اللَّہُ تَعَالَی ، ثُمَّ یُفْسَحُ لَہُ فِی قَبْرِہِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا وَیُنَوَّرُ لَہُ فِیہِ ، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہُ انْظُرْ إلَی مَا أَعَدَّ اللَّہُ لَکَ فِیہَا فَیَزْدَادُ غِبْطَۃً وَسُرُورًا ، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی النَّارِ ، فَیُقَالُ لَہُ : ذَلِکَ مَقْعَدُک وَمَا أَعَدَّ اللَّہُ لَکَ فِیہَا لَو عَصَیتہ فَیَزْدَادُ غِبْطَۃً وَسُرُورًا ثُمَّ یُجْعَلُ نَسَمَۃً فی النَّسْمِ الطَّیِّبِ وَہِیَ طَیْرٌ خُضْرٌ تَعَلَّقَ بِشَجَرِ الْجَنَّۃِ وَیُعَادُ الْجِسْمُ إلَی مَا بُدِأَ مِنْہُ مِنَ التُّرَابِ فَذَلِکَ قَوْلُ اللہِ تَعَالَی : {یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ، وَفِی الآخِرَۃِ} قَالَ مُحَمَّدٌ ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْحَکَمِ بْنِ ثَوْبَانَ : ثُمَّ یُقَالُ لَہُ نَمْ فَیَنَامُ نَوْمَۃَ الْعَرُوسِ لاَ یُوقِظُہُ إِلاَّ أَحَبُّ أَہْلِہِ إلَیْہِ ، حَتَّی یَبْعَثَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ ، قَالَ مُحَمَّدٌ ، قَالَ أَبُو سَلَمَۃَ ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ ، وَإِنْ کَانَ کَافِرًا فَیؤْتَی مِنْ قِبَلِ رَأْسِہِ ، فَلاَ یُوجَدُ لَہُ شَیْئٌ ، ثُمَّ یَأْتِی عَنْ یَمِینِہِ فَلاَ یُوجَدُ لَہُ شَیْئٌ ، ثُمَّ یَأْتِی عَنْ شِمَالِہِ فَلاَ یُوجَدُ لَہُ شَیْئٌ ، ثُمَّ یَأْتِی مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ فَلاَ یُوجَدُ لَہُ شَیْئٌ ، فَیُقَالُ لَہُ : اجْلِسْ فَیَجْلِسُ فَزِعًا مَرْعُوبًا ، فَیُقَالُ لَہُ : أَخْبِرْنَا عَمَّا نَسْأَلُک عَنْہُ ؟ فَیَقُولُ : وَعَمَّ تَسْأَلُونِی ؟ فَیُقَالُ : أَرَأَیْت ہَذَا الرَّجُلَ الَّذِی کَانَ فِیکُمْ مَاذَا تَقُولُ فِیہِ وَمَاذَا تَشْہَدُ بِہِ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَیَقُولُ : أَیُّ رَجُلٍ ؟ قَالَ : فَیُقَالُ الَّذِی فِیکُمْ فَلاَ یَہْتَدِی لاِسْمِہِ فَیُقَالُ : مُحَمَّدٌ فَیَقُولُ : لاَ أَدْرِی سَمِعْت النَّاسَ یَقُولُونَ قَوْلاً فَقُلْت کَمَا قَالُوا : فَیُقَالُ عَلَی ذَلِکَ حَیِیتَ ، وَعَلَی ذَلِکَ مُتَّ ، وَعَلَی ذَلِکَ تَبْعَثُ إِنْ شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی النَّارِ ، فَیُقَالُ لَہُ ذَلِکَ مَقْعَدُک وَمَا أَعَدَّ اللَّہُ لَکَ فِیہَا ، فَیَزْدَادُ حَسْرَۃً وَثُبُورًا ، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إلَی الجَنَّۃَ فَیُقَالُ لَہُ ذَلِکَ مَقْعَدُک مِنْہَا فَیَزْدَاد حَسْرَۃً وَثُبُورًا ، ثُمَّ یُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ حَتَّی تَخْتَلِفَ أَضْلاَعُہُ ، وَہِیَ الْمَعِیشَۃُ الضَّنْکُ الَّتِی قَالَ اللَّہُ تَعَالَی : {فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنْکًا وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی}۔ (عبدالرزاق ۶۷۰۳) ابن ابی شیبه حدیث نمبر: ۱۲۱۸۸۔
العارض: مفتی آصف بن محمد گودھری
خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں