اتوار، 31 دسمبر، 2023

نئے سال کی تقریبات منانا اور اس میں مٹھائیاں تقسیم کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٤٧

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ نئے عیسوی سال کی مبارکباد دیتے ہوئے "Happy New Year" ہیپی نیوائیر کہنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور ہیپی نیو اِیئر(happy new year.)کے میسیج آنے پر اس کے جواب میں ہیپی نیو اِیئر لکھ کر بھیج سکتے ہیں؟ اسی طرح نئے عیسوی سال کی ”مبارکباد دینا اور دوست احباب کو ”مبارکبادی” کے کارڈ بھیجنا اور نئے سال کی تقریب منانا کیسا ہے؟ اور اس رات مٹھایاں تقسیم کرنا اور اس کا کھانا کیسا ہے؟ اسلام میں نئے سال کے آغاز کے وقت کیا کرنا چائیے؟ اسی طرح اس وقت کے لئے کوئی خاص دعا یا عمل ہے؟ مدلل جواب مطلوب ہے

سائل مولوی عبدالحق قاسمی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


 ہیپی نیو اِیئر(happy new year) منانا یہ یہود و نصارٰی کا ایجاد کردہ مفاسد پر مبنی تہوار ہے جو کسی مسلمان کے لئے منانا درست نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ہر حال میں كتاب وسنت کو لازم پکڑے اور جو لوگ راہ حق سے بھٹک چکے ہیں انکی گمراہیوں میں پڑنے سے بچے، کیونکہ طریقۂ اسلامی دنیا وآخرت میں بندے کی کامیابی کا ضامن ہے، اسی وجہ سے اسلام نے ان تمام نقصان دہ امور سے منع فرمایا ہے جو اس کے دین و ایمان، جان و مال، اس کی عزت و آبرو اور سوچ و عقل کو نقصان پہنچائے۔

اس کے بالمقابل کفار جو کہ اسلام اور اہل اسلام کے بد ترین دشمن ہیں، وہ دین اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے بھر پور جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں اور کفار کی  جد و جہد کا ایک اہم ترین حصہ نظریاتی جنگ ہے جو وہ مسلمانوں سے مختلف محاذوں پرمختلف انداز سے  لڑرہے ہیں، جس کے ذریعے وہ ہمارے افکار، عقائد، دینی وثقافتی اقدار کو ٹارگٹ کررہے ہیں، کفر کے نظریاتی ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار غیر اخلاقی تہوار ہیں جو اپنی تاثیر، فساد اور نقصانات و بگاڑ کے اعتبار سے مسلمانوں کو وہ نقصان دے رہے ہیں جو کہ شاید وہ عسکری جنگ کے ذریعے بھی نہ پہنچا سکے ہوں۔

لہذا اصولی اعتبار سے اتنی بات سمجھ لیں کہ کوئی ایسی چیز جو غیروں کے تہوار یا فاسقوں کے فسق اور ان کے شعائر کے ساتھ خاص ہو اس میں کسی بھی اعتبار سے شامل ہوکر مدد کرنا گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے جس کی قرآن میں ان الفاظ سے ممانعت آئی ہے، وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ اِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب، المائدة 

اسی طرح قرآن پاک میں دوسری جگہ فرمان باری تعالیٰ ہے وَلَا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ یعنی اے مسلمانو! ظالموں کی طرف (ان کے مذہبی امور یا احوال واعمال میں مشارکت و مشابہت سے) مت جھکو کبھی تم کو دوزخ کی آگ لگ جائے، ادنی سے میلان اور مشابہت سے دوزخ میں جانے کا خطرہ ہے۔

اسی طرح آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے دوسری قوموں کی عادات، رسم و رواج، طور طریقے اور مذہبی شعار اپنانے کو دائرہ اسلام سے نکل کر انہی کے مذہب کے دائر ے میں داخل ہونے کے مترادف قرار دیا ہے، جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:”من تشبہ بقوم فھو منھم” ابوداؤد) ترجمہ: جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے۔

اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسلام نے غیروں کی نقالی سے کیوں منع کیاہے؟ علامہ ابن تیمیہ رحمہ ﷲ نے ”اقتضاء الصراط المستقیم” میں غیروں کی نقالی کے ممنوع ہونے کی بہت ساری وجوہات ذکر کی ہیں اور اس پر تفصیلی کلام کیا ہے، اختصاراً اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

۱۔ غیروں کی پیروی کرنے سے یا ان کی نقالی سے آدمی خود بخود صراطِ مستقیم کی پیروی سے ہٹ جاتا ہے۔

۲۔ ان کی پیروی کرنے یا ان کی نقالی سے قلبی موانست ومحبت پیدا ہو جاتی ہے جو سراسر ایمان کے منافی ہے۔

۳۔ ان کی مسلسل مشابہت کرتے رہنے سے شریعت مطہرہ سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے اور ایمان کمزور سے کمزور تر ہوتا چلاجاتا ہے۔

٤۔ اُن کی بُری عادات وصفات بھی اچھی لگنے لگتی ہیں اور آوارگی، بے حیائی اور جنسی بے راہ روی عام ہو جاتی ہے۔

۵۔ مسلمانوں کی اس نقالی کو دیکھ کر کفار دلی خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے کفر پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

٦۔ کفار کے اعمال، عقائد، رسم و رواج اور جشن وتہوار سب کے سب برائیوں کا مجموعہ اور بھلائیوں سے یکسر خالی ہیں۔ (اقتضاء الصراط المستقیم: ص۲۱۲)

مندرجۂ بالا تفصیل سے واضح ہوگیا کہ سوال میں ذکر کردہ رسومات اُن کے دیگر مفاسدِ کثیرہ سے قطعِ نظر غیر اسلامی تہوار ورسومات ہیں، اور غیروں کے تہواروں کو اپنانے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور ان کے ایسے تہوار بھی جس کا تعلق جہالت پرمبنی خوشی سے ہے اس قسم کے تہواروں میں اگرچہ کفر تو نہیں ہے لیکن اس فعل قبیح میں ان کی تعداد کے اضافے کا سبب ہے اور حدیث (من كثر سواد قوم فہو منہم کنزالعمال ۲۲٫۹) کے مصداق ہوکر گناہ گار ہوں گے، لہذا اس فعل سے بچنا ضروری ہے

اور سال کے آغاز کے موقع پر ہیپی نیو اِیئر(happy new year) منانا اور اس کی مبارک باد دینا یہ غیروں کا طریقہ ہے جو درست نہیں ہے اسی طرح اس میں مٹھائیاں تقسیم کرنا اور کیک وغیرہ کاٹنا یہ غیروں کا شیوہ ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے مسلمانوں کے لئے تو ہر آنے والا نیا سال خوشی کے بجائے بے چین کردیتا ہے، کہ اس کی زندگی کے اعمال کے مواقع محدود ہوکر اب ایک اور سال کم ہوگیا اور موت سے ‌مزید قریب ہوگیا۔

جہاں تک مٹھائی کا مسئلہ ہے تو چونکہ مٹھائیاں فی نفسہ حلال ہے اگر ایسے موقع پر کسی جگہ سے آئی ہو اور اس میں کسی قسم کی حرمت والی اشیاء کی ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی کا چڑھاوا ہو بلکہ یقین ہو کہ سیدھے دکان سے خریدی ہوئی ہے تو اس کا قبول کرنا اور کھانا درست ہے لیکن موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے قبول نہ کرنا اور نہ کھانا أولی ہے 

البتہ اگر کسی نے عبادت یا ضروری سمجھے بغیر مبارک باد دی اور خیر و برکت کی دعادیں اور اعمال کی طرف راغب ہونے کی ترغیب دیں تو حرج نہیں لیکن اس سے بھی تشبہ بالاغیار کے اشتباه کی بنا پر اس خاص موقع پر احتراز اولی ہے۔

اس موقع پر ہم مسلمانوں کو دو کام خصوصی طور پر کرنے چاہیئے: (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔ ہر آنے والا نیا سال خوشی کے بجائے ایمان والے شخص کو بے چین کردیتا ہے، کیونکہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے، وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے، آخرت کے لیے کچھ تیاری کر نے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے، اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتاہے، اس لیے مسلمانوں کےلیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا موقع نہیں، بلکہ گزرتے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحاتِ زندگی کے صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے۔

اس موقع پر کوئی خاص دعا یا عمل تو احادیث میں نہیں ملا البتہ نئے مہینے کے رؤیت ہلال پر مندرجہ ذیل دعا کتبِ حدیث میں منقول ہے، جس کو تفاعلاً نئےسال کےداخل ہونے پر بھی پڑھلی جائے تو بہتر ہے۔

اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ۔ ترجمہ: اےاللہ اس چاند کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمان کی رضامندی اور شیطان کےبچاؤ کے ساتھ داخل فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنن ابی داؤد میں ہے

عـن ابـن عـمـر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تشبه بقوم فهو منهم. (سنن أبي داؤد، كتاب اللباس ، باب في لبس الشهرة ٢/۵۵٩ ، دار السلام)


شرح فقه اكبر میں ہے

ولو شبـه نـفـسـه بـاليهود، أوالنصارى: أي صورة أوسيرة على طريق المزاح، والهزل، ولو على هذا المنوال كفر الخ. (شرح فقه اكبر ، جديد اشرفي دیوبند ۲۲۸ ، قديم ٢٢٦)


مجمع الزوائد ومنبع الفوائد  میں ہے:

وعن عبد الله بن هشام قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم  يتعلمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر: "اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجوار من الشيطان. (باب مایقول اذا رأى مایعجبہ،  ۱۰/۱۳۹ مکتبۃ القدسی، القاھرہ)


بخاری شریف میں ہے

حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا محمد بن عبد الرحمن أبو المنذر الطفاوي، عن سليمان الأعمش، قال: حدثني مجاهد، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنكبي، فقال: كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل» وكان ابن عمر، يقول: إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح، وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء، وخذ من صحتك لمرضك، ومن حياتك لموتك۔


فتاوی بزازیہ کی عبارت سے یہی مترشح ہوتا ہے۔

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر۔۔۔ وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ٤/۳۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعہ، 8 دسمبر، 2023

کسی کا اپنی اولاد کو یہ کہنا کہ میری ساری ملکت تمہاری ہے تو وراثت میں اس کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٤٤٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ ایک آدمی نے اپنی حیاتی میں اپنی اولاد کو یہ کہا ہے کہ "میری ساری جائداد تمہاری ہے" اور ان کے انتقال کے وقت سات بیٹیاں پانچ پوتے اور ایک پوتی ہے  اور میت کا ایک بھائی اور دو بہنیں بھی ہیں

اب سوال یہ ہے کہ اس آدمی کا یہ کہنا کہ "میری ساری ملکت تمہاری ہے" تو اس سے وہ مالک ہوجائے گے اسی طرح بعض ملکت ان کی وراثت میں آئی ہوئی تھی جو ابھی غیر تقسیم شدہ ہے اس کا کیا حکم ہے وہ اس جملے میں داخل ہوگی یا نہیں؟ مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی

سائل: قاری عبدالرحمن ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


واضح رہے کہ  زندگی میں اپنی جائیداد اپنی  اولاد کو دینا ہبہ (گفٹ) ہے اور ہبہ کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے لہٰذا جو جائیداد اپنی اولاد کو مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دی تو وہ جائیداد اس کی ملکیت میں آجائے گی اور والدہ کے انتقال کے بعد وہ ترکہ شمار نہیں ہوگی لیکن جو جائیداد صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہ دیا ہو تو وہ بدستور ان کی ملکیت میں رہے گی اور ان کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر وہ جائداد تمام ورثاء میں ضابطۂ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔


لہٰذا جو جائیداد مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دی تو وہ جائیداد اولاد کی ملکیت میں آجائے گی اور بعد انتقال وہ جائیداد اس کا ترکہ شمار نہیں ہوگی لیکن جو جائیداد صرف زبانی طور پر یا تحریری طور پر دی ہے اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہیں دیا تو وہ بدستور ان کی ملکیت میں رہے گی اور ان کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔


صورت مسؤلہ میں چونکہ اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دیا ہے یا پھر مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ نہیں دیا ہے  سوال سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کو اس طرح کے جملےکہدیا کرتے ہیں' یہ اسی طرح کا جملہ ہے۔


اب اس مسئلہ کی دو صورتیں ہوگی۔

"مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دیا ہے" ایسی صورت میں اولاد مالک ہوجائے گی اور بعد انتقال کے  وہ ملکت وراثت میں شمار نہیں ہوگی۔


"مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ نہیں دیا ہے صرف زبانی کہا ہے" ایسی صورت میں اولاد مالک نہیں ہوگی اور بعد وفات کہ ساری ملکت وارثین کے درمیان ضابطۂ شرعی کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔ 


فتاوی شامی میں ہے

وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (۵/٦٩٠) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ۵/٦٩٦)


فتاوی عالمگیری میں ہے

ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولدإذا كان بالغا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية. (الفتاوى الهندية، ٤ /٣٧۷ ٣٧۸ كتاب الهبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

پیر، 4 دسمبر، 2023

بریلوی علماء سے نکاح پڑھوانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٤٥

 سوال

ایسا آدمی جو یے عقیدہ رکھتا ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نور ہیں بشر نہیں اور المدد یا غوث اعظم کے نعرے لگاتا ہے جسکو بریلوی کہا جاتا ہے ایسے آدمی سے نکاح پڑھانا جائز ہے؟

سائل: سیف اللہ سندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی



دین دار مسلمان یا عالمِ دین سے نکاح پڑھوانا مستحب اور بہتر ہے باقی اگر کسی غیر مسلم سے بھی نکاح پڑھوالیا اور مجلس نکاح میں دلہا اور دلہن یا دلہن کا وکیل اورگواہان موجود تھے تو ایسا نکاح منعقد ہوجائے گا اس لیے کہ نکاح خواں کی حیثیت محض معبر اور سفیر  کی ہے۔


جہاں تک بریلوی فرقے کی بات ہے تو ان کے بارے میں تو ہمارے اکابر نے کفر یا شرک کا فتویٰ بھی نہیں دیا ہے ان حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان کے بدعتی اور گم راہ  ہونے کا فتویٰ دیا گیا ہے، مطلقاً ان کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا گیا لہذا ان میں سے جو عملی بدعات میں مبتلا ہیں انہیں بدعتی کہا جائے گا، اور جو جمہور اہلِ سنت والجماعت سے جداگانہ عقائد رکھتے ہیں انہیں بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہ اور اہلِ ہویٰ میں سے کہا جائے گا۔


لہذا بریلوی مسلک کے کسی مولانا سے نکاح پڑھوانا اگرچہ جائز ہے اور حسب شرائط نکاح ہو بھی جائے گا لیکن کسی اہل حق مولانا یا مفتی سے نکاح پڑھوانا چاہیے کیوں کہ بریلوی مسلک والوں پر اگرچہ کفر کا فتوی نہیں ہے لیکن ان میں مختلف عملی واعتقادی گمراہیاں وبدعات پائی جاتی ہیں اور یہ لوگ نکاح کے وقت بھی بعض بدعات کا ارتکاب کرتے اور کراتے ہیں۔


فتاوی محمودیہ میں ہے

سوال [۵۲۹۵] : مولوی احمد رضا خان صاحب نے لکھا ہے کہ اگر برہمن نکاح پڑھا دے تو جائز ہے کہ نکاح نام ہے ایجاب وقبول کا کیا یہ درست ہے؟

الجواب حامداً ومصلياً 

جو شخص نکاح پڑھاتا ہے وہ شرعی قاضی نہیں لہذا اس میں قاضی کی شرائط کا پایا جانا ضروری نہیں وہ شخص محض ایجاب و قبول کی تعبیر کرتا ہے زوجین خود گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرلیں تو نکاح صحیح ہو جاتا ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم (حرره العبد محمود غفر له، دارالعلوم دیو بند ، ۱۲/۱۹ /ھ۸۵

جواب صحیح ہے، غیر مسلم کے ایجاب و قبول نکاح کردینے سے اگر چہ حقیقۃً نکاح منعقد ہوجاتا ہے مگر ایسا کرنا سخت بے غیرتی اور سنت متوارثہ کے خلاف ہے (بندہ نظام الدین عفی عنہ دارالعلوم دیوبند)

الجواب صحیح سید مهدی حسن غفر له ۱۲/۲۲ /ھ۸۵

(فتاویٰ محمودیہ کتاب النکاح، زیرِ عنوان: برہمن سے نکاح پڑھوانا، نیز: شیعہ وغیرہ سے نکاح پڑھوانا، ١٠/ ٥٩٦-٥٩٨ ط: جامعہ فاروقیہ، کراچی)


صورت مسئولہ میں بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص اگر کسی دیوبندی مسلک پر عمل کرنے والے شخص کا نکاح پڑھائے تو نکاح ہوجائے گا اور تجدید کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔


ھدایہ میں ہے

وإذا أذنت المرأة للرجل أن يزوجها من نفسه، فعقد بحضرة شاهدين، جاز ولنا أن الوكيل في النكاح معبر وسفير۔ (الهداية، كتاب النكاح، باب في الأولياء والأكفاء، فصل في الوكالة بالنكاح ۳٤٤/۲، مكتبه رحمانیہ)


بدائع الصنائع میں ہے 

الوكيل في باب النكاح ليس بعاقد، بل هو سفير عن العاقد ومعبر عنه. (بدائع الصنائع كتاب النكاح، فصل في ركن النكاح: ۳۲۴/۳، دار الكتب العلميه بيروت)


فتاوی شامی میں ہے 

وفي النھر: تجوز مناکحة المعتزلة؛ لأنا لا نکفر أحداً من أھل القبلة وإن وقع إلزاماً في المباحث۔

قولہ: وفي النھر إلخ مأخوذ من الفتح حیث قال: وأما المعتزلة فمقتضی الوجہ حل مناکحتھم؛ لأن الحق عدم تکفیر أھل القبلة وإن وقع إلزاماً في المباحث بخلاف من خالف القواطع المعلومة بالضرورة من الدین مثل القائم بقدم العالم ونفي العلم بالجزئیات علی ما صرح بہ المحققون۔ وأقول: وکذا القول بالإیجاب بالذات ونفي الاختیار أھ۔ وقولہ: ”وإن وقع إلزاماً في المباحث“، معناہ وإن وقع التصریح بکفر المعتزلة ونحوھم عند البحث معھم في رد مذھبھم بأنہ کفر، أي: یلزم من قولھم بکذا الکفر ولا یقتضي ذلک کفرھم؛ لأن لازم المذھب لیس بمذھب، وأیضاً فإنھم ما قالوا ذلک إلا لشبھة دلیل شرعي علی زعمھم وإن أخطوٴوا فیہ ولزمھم المحذور علی أنھم لیسوا بأدنی حالاً من أھل الکتاب إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ٤/ ۱۳٤ - ۱۳۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی