جمعہ، 8 دسمبر، 2023

کسی کا اپنی اولاد کو یہ کہنا کہ میری ساری ملکت تمہاری ہے تو وراثت میں اس کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٤٤٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ ایک آدمی نے اپنی حیاتی میں اپنی اولاد کو یہ کہا ہے کہ "میری ساری جائداد تمہاری ہے" اور ان کے انتقال کے وقت سات بیٹیاں پانچ پوتے اور ایک پوتی ہے  اور میت کا ایک بھائی اور دو بہنیں بھی ہیں

اب سوال یہ ہے کہ اس آدمی کا یہ کہنا کہ "میری ساری ملکت تمہاری ہے" تو اس سے وہ مالک ہوجائے گے اسی طرح بعض ملکت ان کی وراثت میں آئی ہوئی تھی جو ابھی غیر تقسیم شدہ ہے اس کا کیا حکم ہے وہ اس جملے میں داخل ہوگی یا نہیں؟ مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی

سائل: قاری عبدالرحمن ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


واضح رہے کہ  زندگی میں اپنی جائیداد اپنی  اولاد کو دینا ہبہ (گفٹ) ہے اور ہبہ کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے لہٰذا جو جائیداد اپنی اولاد کو مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دی تو وہ جائیداد اس کی ملکیت میں آجائے گی اور والدہ کے انتقال کے بعد وہ ترکہ شمار نہیں ہوگی لیکن جو جائیداد صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہ دیا ہو تو وہ بدستور ان کی ملکیت میں رہے گی اور ان کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر وہ جائداد تمام ورثاء میں ضابطۂ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔


لہٰذا جو جائیداد مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دی تو وہ جائیداد اولاد کی ملکیت میں آجائے گی اور بعد انتقال وہ جائیداد اس کا ترکہ شمار نہیں ہوگی لیکن جو جائیداد صرف زبانی طور پر یا تحریری طور پر دی ہے اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہیں دیا تو وہ بدستور ان کی ملکیت میں رہے گی اور ان کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔


صورت مسؤلہ میں چونکہ اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دیا ہے یا پھر مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ نہیں دیا ہے  سوال سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کو اس طرح کے جملےکہدیا کرتے ہیں' یہ اسی طرح کا جملہ ہے۔


اب اس مسئلہ کی دو صورتیں ہوگی۔

"مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دیا ہے" ایسی صورت میں اولاد مالک ہوجائے گی اور بعد انتقال کے  وہ ملکت وراثت میں شمار نہیں ہوگی۔


"مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ نہیں دیا ہے صرف زبانی کہا ہے" ایسی صورت میں اولاد مالک نہیں ہوگی اور بعد وفات کہ ساری ملکت وارثین کے درمیان ضابطۂ شرعی کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔ 


فتاوی شامی میں ہے

وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (۵/٦٩٠) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ۵/٦٩٦)


فتاوی عالمگیری میں ہے

ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولدإذا كان بالغا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية. (الفتاوى الهندية، ٤ /٣٧۷ ٣٧۸ كتاب الهبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: