سوال
ایسا آدمی جو یے عقیدہ رکھتا ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں بشر نہیں اور المدد یا غوث اعظم کے نعرے لگاتا ہے جسکو بریلوی کہا جاتا ہے ایسے آدمی سے نکاح پڑھانا جائز ہے؟
سائل: سیف اللہ سندی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
دین دار مسلمان یا عالمِ دین سے نکاح پڑھوانا مستحب اور بہتر ہے باقی اگر کسی غیر مسلم سے بھی نکاح پڑھوالیا اور مجلس نکاح میں دلہا اور دلہن یا دلہن کا وکیل اورگواہان موجود تھے تو ایسا نکاح منعقد ہوجائے گا اس لیے کہ نکاح خواں کی حیثیت محض معبر اور سفیر کی ہے۔
جہاں تک بریلوی فرقے کی بات ہے تو ان کے بارے میں تو ہمارے اکابر نے کفر یا شرک کا فتویٰ بھی نہیں دیا ہے ان حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان کے بدعتی اور گم راہ ہونے کا فتویٰ دیا گیا ہے، مطلقاً ان کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا گیا لہذا ان میں سے جو عملی بدعات میں مبتلا ہیں انہیں بدعتی کہا جائے گا، اور جو جمہور اہلِ سنت والجماعت سے جداگانہ عقائد رکھتے ہیں انہیں بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہ اور اہلِ ہویٰ میں سے کہا جائے گا۔
لہذا بریلوی مسلک کے کسی مولانا سے نکاح پڑھوانا اگرچہ جائز ہے اور حسب شرائط نکاح ہو بھی جائے گا لیکن کسی اہل حق مولانا یا مفتی سے نکاح پڑھوانا چاہیے کیوں کہ بریلوی مسلک والوں پر اگرچہ کفر کا فتوی نہیں ہے لیکن ان میں مختلف عملی واعتقادی گمراہیاں وبدعات پائی جاتی ہیں اور یہ لوگ نکاح کے وقت بھی بعض بدعات کا ارتکاب کرتے اور کراتے ہیں۔
فتاوی محمودیہ میں ہے
سوال [۵۲۹۵] : مولوی احمد رضا خان صاحب نے لکھا ہے کہ اگر برہمن نکاح پڑھا دے تو جائز ہے کہ نکاح نام ہے ایجاب وقبول کا کیا یہ درست ہے؟
الجواب حامداً ومصلياً
جو شخص نکاح پڑھاتا ہے وہ شرعی قاضی نہیں لہذا اس میں قاضی کی شرائط کا پایا جانا ضروری نہیں وہ شخص محض ایجاب و قبول کی تعبیر کرتا ہے زوجین خود گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرلیں تو نکاح صحیح ہو جاتا ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم (حرره العبد محمود غفر له، دارالعلوم دیو بند ، ۱۲/۱۹ /ھ۸۵
جواب صحیح ہے، غیر مسلم کے ایجاب و قبول نکاح کردینے سے اگر چہ حقیقۃً نکاح منعقد ہوجاتا ہے مگر ایسا کرنا سخت بے غیرتی اور سنت متوارثہ کے خلاف ہے (بندہ نظام الدین عفی عنہ دارالعلوم دیوبند)
الجواب صحیح سید مهدی حسن غفر له ۱۲/۲۲ /ھ۸۵
(فتاویٰ محمودیہ کتاب النکاح، زیرِ عنوان: برہمن سے نکاح پڑھوانا، نیز: شیعہ وغیرہ سے نکاح پڑھوانا، ١٠/ ٥٩٦-٥٩٨ ط: جامعہ فاروقیہ، کراچی)
صورت مسئولہ میں بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص اگر کسی دیوبندی مسلک پر عمل کرنے والے شخص کا نکاح پڑھائے تو نکاح ہوجائے گا اور تجدید کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
ھدایہ میں ہے
وإذا أذنت المرأة للرجل أن يزوجها من نفسه، فعقد بحضرة شاهدين، جاز ولنا أن الوكيل في النكاح معبر وسفير۔ (الهداية، كتاب النكاح، باب في الأولياء والأكفاء، فصل في الوكالة بالنكاح ۳٤٤/۲، مكتبه رحمانیہ)
بدائع الصنائع میں ہے
الوكيل في باب النكاح ليس بعاقد، بل هو سفير عن العاقد ومعبر عنه. (بدائع الصنائع كتاب النكاح، فصل في ركن النكاح: ۳۲۴/۳، دار الكتب العلميه بيروت)
فتاوی شامی میں ہے
وفي النھر: تجوز مناکحة المعتزلة؛ لأنا لا نکفر أحداً من أھل القبلة وإن وقع إلزاماً في المباحث۔
قولہ: وفي النھر إلخ مأخوذ من الفتح حیث قال: وأما المعتزلة فمقتضی الوجہ حل مناکحتھم؛ لأن الحق عدم تکفیر أھل القبلة وإن وقع إلزاماً في المباحث بخلاف من خالف القواطع المعلومة بالضرورة من الدین مثل القائم بقدم العالم ونفي العلم بالجزئیات علی ما صرح بہ المحققون۔ وأقول: وکذا القول بالإیجاب بالذات ونفي الاختیار أھ۔ وقولہ: ”وإن وقع إلزاماً في المباحث“، معناہ وإن وقع التصریح بکفر المعتزلة ونحوھم عند البحث معھم في رد مذھبھم بأنہ کفر، أي: یلزم من قولھم بکذا الکفر ولا یقتضي ذلک کفرھم؛ لأن لازم المذھب لیس بمذھب، وأیضاً فإنھم ما قالوا ذلک إلا لشبھة دلیل شرعي علی زعمھم وإن أخطوٴوا فیہ ولزمھم المحذور علی أنھم لیسوا بأدنی حالاً من أھل الکتاب إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ٤/ ۱۳٤ - ۱۳۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں