منگل، 16 جولائی، 2024

نابالغ بچوں کا خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٨٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ اللہ وبرکاتہ 

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں: کیا نابالغ کا خرید و فروخت کرنا صحیح ہے جیسے اگر والدین اپنے بچوں کو کچھ رقم وغیرہ دیتے ہیں جن سے بچے خورد و نوش کی اشیاء اسی طرح تزیین کی اشیاء جیسے کپڑے ٹوپی خوشبو وغیرہ اور مارکیٹ ریٹ سے کم میں خریدتے ہیں تو کیا ان کا ایسی چیزوں میں تصرف کرنا اور بائع کا اس میں کچھ منافع کمانا حلال ہے یا نہیں اس مسئلے کا جواب مع حوالہ مطلوب ہے  

سائل عبد الرحمن بن عبد العزیز دہلوی


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


اصولی اعتبار سے یہ بات دھیان میں رہے کہ جب کسی نے نابالغ بچے سے خریدوفروخت کی، تو اگر وہ نابالغ بچہ خرید و فروخت کو سمجھتا ہے  اور  اس کے سرپرست نے اسے اس کی اجازت دے رکھی ہے، تو اس سے خرید وفروخت کرنا درست ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حلال و درست ہے اور اگر اس نابالغ سمجھدار بچے کو پہلے سے خرید و فروخت کی اجازت نہ ملی ہو یا وہ صبی غیر عاقل ہو تو اب اس کی خریدوفروخت کا یہ عمل تین صورتوں پر ہوگا۔

(۱) اگر اس نے کوئی ایسی چیز خریدی ہے جس میں اس کا فائدہ ہے یا اس نے مارکیٹ ریٹ سے کم میں یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق خریدا ہے تو وہ اس بیع میں بالغ کے حکم میں ہوگا۔

(۲) اگر اس نے کوئی ایسی چیز خریدی ہے جس میں اس کا نقصان ہی نقصان ہے یا اس نے مارکیٹ ریٹ سے بہت زیادہ ریٹ کے مطابق خریدا ہے تو اس کی بیع درست نہیں ہوگی۔

(۳) اگر اس نے کوئی ایسی چیز خریدی ہے جس میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہے یعنی نفع بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی ہوسکتا ہے تو ایسی صورت میں وہ بیع ولی کی اجازت پر موقوف ہوگی یعنی اس کے ولی یا سرپرست نے اجازت دے دی تو یہ خریدوفروخت درست ہے، اور اگر اجازت نہ دی تو درست نہیں ہوگی۔

مسؤلہ صورت میں چونکہ عام طور پر بچوں کے والدین اپنے بچوں کو اس لئے پیسے دیتے ہیں کہ وہ اپنی ضروریات کا سامان خریدیں اور یہ استعمالی پیسے دینا ان کی طرف سے خرید وفروخت کی اجازت ہوتی ہے لہذا اپنے والدین یا سرپرست کی اجازت سے سمجھدار نابالغ بچوں کا عام اشیاء کا خریدنا اور بیچنا جائز ہے جیسے خورد و نوش کی اشیاء اسی طرح تزیین کی اشیاء جیسے کپڑے ٹوپی خوشبو وغیرہ تو ان کی خریدی ہوئی چیز کا استعمال خود کے لئے اور رقم اور اس پر معمول کے مطابق جو نفع حاصل ہو اس کا استعمال دکاندار کے لئے جائز ہے۔ 


بدائع الصنائع میں ہے 

قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ: فأما البلوغ فليس بشرط لانعقاد البيع عندنا، حتى لو باع الصبي العاقل مال نفسه؛ ينعقد عندنا موقوفا على إجازة وليه (بدائع الصنائع: ۵/۱۳۵)


فتح القدیر میں ہے 

(وإذا أذن ولي الصبي للصبي في التجارة فهو في البيع والشراء كالعبد المأذون إذا كان يعقل البيع والشراء حتى ينفذ تصرفه)تقريره أن الصبا سبب الحجر لعدم هداية الصبي في أمور التجارة لا لذاته فصار هو كالعبد في كون حجره لغيره، فإذا أذن له الولي زال ذلك الغير.(فتح القدیر ۹/۳۱۰)


اللباب فی شرح الکتاب میں ہے

(للصبي في التجارة فهو في) الدائر بين النفع والضر، مثل (الشراء والبيع كالعبد المأذون، إذا كان يعقل البيع والشراء) ؛ لأن الصبي العاقل يشبه البالغ من حيث أنه مميز، ويشبه الطفل الذي لا عقل له من حيث إنه لم يتوجه عليه الخطاب، وفي عقله قصور، وللغير عليه ولاية، فألحق بالبالغ في النافع المحض، وبالطفل في الضار المحض، وفي الدائر بينهما بالطفل عند عدم الإذن وبالبالغ عند الإذن؛ لرجحان جهة النفع على الضرر بدلالة الإذن، ولكن قبل الإذن يكون منعقداً موقوفاً على إجازة الولي؛ لأن فيه منفعة؛ لصيرورته مهتدياً إلى وجوه التجارات كذا في الدرر۔ (الباب فی شرح الکتاب ٤٠٢ ط مکتبہ علمیہ بیروت)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

اتوار، 14 جولائی، 2024

کیا حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھالیا گیا تھا؟ سوال نمبر ٤٧۵

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

حضرت مضمون (ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء) میں یوم عاشوراء کے متعلق کچھ خصوصیات بیان فرمائی ہیں ـ 

اس میں خصوصیت نمبر تین میں ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا جانا مذکور ہے اس کی وضاحت فرمادیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا تھا یا حضرت عيسى علیہ السلام کو اٹھایا تھا ؟

سائل مولانا طیب ایک منار مسجد 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


یہ پورا مضمون (ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء) مولانا ابوجندل قاسمی‏ (استاذ قاسم العلوم، تیوڑہ، مظفرنگر) کا ہے، جو ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11‏، جلد: 98 ‏، محرم الحرام 1436 ہجری مطابق نومبر 2014ء میں چھپا ہے جس میں حضرت کی مراد یہاں حضرت ادریس علیہ السلام ہی ہے جس کی وضاحت وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کی تفسیر کے تحت بعض اسرائیلی روایات سے ہوتی ہے۔

البتہ حضرت ادریس علیہ السلام کے زندہ آسمان میں اٹھائے جانے کے متعلق جو روایات ہیں حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃاللہ علیہ معارف القرآن میں سورۂ مریم آیت نمبر ۵۷ کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ ان روایات کے بارے میں ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہیں اور اُن میں سے بعض میں نکارت واجنبیت ہے اور حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم کی آیت وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کے معنی یہ ہے کہ اُن کو نبوت و رسالت اور قرب الٰہی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا، بہرحال قرآن کریم کے الفاظِ مذکورہ صریح نہیں ہے کہ یہاں رفعت درجہ مراد ہے یا زندہ آسمان میں اٹھانا مراد ہے اس لیے انکار رفع الی السماء قطعی نہیں ہے (معارف القرآن، سورۂ مریم آیت نمبر ۵۷) مذکورہ عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کا زندہ جنت میں جانا قطعی نہیں ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام باحیات ہیں قرآن کریم اس پر شاہد ہے بل رفعہ اللہ إلیہ (النساء آیت: ۱۵۸) اور آپ قرب قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ مضمون میں جن خصوصیات کا ذکر ہے اس میں حضرت ادریس علیہ السلام ہی مراد ہے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ واقعی آپ کو بھی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی طرح آسمان پر زندہ اٹھالیا گیا ہے یا آپ کی وفات ہوئی ہے تو بعض اسرائیلی رویات سے ان کا آسمان پر اٹھایا جانا منقول ہے لیکن یہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی طرح قطعی نہیں ہے،

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

اتوار، 7 جولائی، 2024

روزہ میں بھول سے جماع ہوجانے میں عفو کا تعلق صرف رمضان سے ہے یا تمام روزوں سے سوال نمبر ٤٨٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

روزے کی حالت میں بھول کر جماع کرنے کی کیا صورت ہوگی؟ بھول کر جماع کرنا یہ نفل روزے میں ہے یا رمضان المبارک کے مہینے میں مدلل جواب مرحمت فرمائے 

سائل محمّد طیّب پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


روزے کی حالت میں ہم بستری کرنا ناجائز اور حرام ہے چاہے وہ روزہ رمضان کا أداء روزہ ہو یا قضاء روزہ ہو یا واجب روزہ ہو یا نفل روزے ہو، روزے کی حالت میں جماع جائز نہیں ہے البتہ اگر کسی نے جماع کرلیا تو دیکھا جائے گا کہ اس نے بھو لے سے جماع کرلیا ہے یا جان بوجھ کر جماع کیا ہے اگر بھولے سے کیا ہو تو رمضان کا روزہ ہو یا غیر رمضان کا اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔


اور اگر جان بوجھ کر جماع کرلیا تو دیکھا جائے گا کہ ایسا اس نے رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی حالت میں کیاہے یا غیر رمضان میں اگر رمضان میں ایسا کیا ہے تو میاں بیوی دونوں پر ایک ایک روزے کی قضا اور ساٹھ ساٹھ روزے مسلسل اور طاقت نہ ہونے کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا بطور کفارہ کے واجب ہوگا، اگر رمضان کے مہینہ میں ایسا نہیں ہوا بلکہ رمضان کے مہینے کے علاوہ کسی روزے میں ایسا ہوا تو صرف ایک روزہ کی قضا کرنا واجب ہے، اور اگر نفلی روزہ ہو تو اس میں بلاعذر روزہ توڑنا اچھا نہیں، مگر اس کی وجہ سے کفارہ لازم نہیں آتا البتہ ایک روزے کے بدلے ایک روزہ قضا کا رکھنا لازم ہے ۔


فتاوی عالمگیری میں ہے

إذا أكل الصائم أو شرب أو جامع ناسيًا لم يفطر، ولا فرق بين الفرض والنفل، كذا في الهداية۔

ایضاً

من جامع عمدًا في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة، وكذا إذا كانت مكرهةً في الابتداء ثم طاوعته بعد ذلك كذا في فتاوى قاضي خان۔ (فتاوی عالمگیری کتاب الصوم الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد ۱/ ۲۰۲ - ۲۰۵)


ھدایہ میں ہے

وليس في افساد صوم غير رمضان كفارة لان الافطار في رمضان ابلغ في الجناية فلا يلحق به غیره۔ (ھدایہ ۱/۲۲۰)

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی