سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں: کیا نابالغ کا خرید و فروخت کرنا صحیح ہے جیسے اگر والدین اپنے بچوں کو کچھ رقم وغیرہ دیتے ہیں جن سے بچے خورد و نوش کی اشیاء اسی طرح تزیین کی اشیاء جیسے کپڑے ٹوپی خوشبو وغیرہ اور مارکیٹ ریٹ سے کم میں خریدتے ہیں تو کیا ان کا ایسی چیزوں میں تصرف کرنا اور بائع کا اس میں کچھ منافع کمانا حلال ہے یا نہیں اس مسئلے کا جواب مع حوالہ مطلوب ہے
سائل عبد الرحمن بن عبد العزیز دہلوی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اصولی اعتبار سے یہ بات دھیان میں رہے کہ جب کسی نے نابالغ بچے سے خریدوفروخت کی، تو اگر وہ نابالغ بچہ خرید و فروخت کو سمجھتا ہے اور اس کے سرپرست نے اسے اس کی اجازت دے رکھی ہے، تو اس سے خرید وفروخت کرنا درست ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حلال و درست ہے اور اگر اس نابالغ سمجھدار بچے کو پہلے سے خرید و فروخت کی اجازت نہ ملی ہو یا وہ صبی غیر عاقل ہو تو اب اس کی خریدوفروخت کا یہ عمل تین صورتوں پر ہوگا۔
(۱) اگر اس نے کوئی ایسی چیز خریدی ہے جس میں اس کا فائدہ ہے یا اس نے مارکیٹ ریٹ سے کم میں یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق خریدا ہے تو وہ اس بیع میں بالغ کے حکم میں ہوگا۔
(۲) اگر اس نے کوئی ایسی چیز خریدی ہے جس میں اس کا نقصان ہی نقصان ہے یا اس نے مارکیٹ ریٹ سے بہت زیادہ ریٹ کے مطابق خریدا ہے تو اس کی بیع درست نہیں ہوگی۔
(۳) اگر اس نے کوئی ایسی چیز خریدی ہے جس میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہے یعنی نفع بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی ہوسکتا ہے تو ایسی صورت میں وہ بیع ولی کی اجازت پر موقوف ہوگی یعنی اس کے ولی یا سرپرست نے اجازت دے دی تو یہ خریدوفروخت درست ہے، اور اگر اجازت نہ دی تو درست نہیں ہوگی۔
مسؤلہ صورت میں چونکہ عام طور پر بچوں کے والدین اپنے بچوں کو اس لئے پیسے دیتے ہیں کہ وہ اپنی ضروریات کا سامان خریدیں اور یہ استعمالی پیسے دینا ان کی طرف سے خرید وفروخت کی اجازت ہوتی ہے لہذا اپنے والدین یا سرپرست کی اجازت سے سمجھدار نابالغ بچوں کا عام اشیاء کا خریدنا اور بیچنا جائز ہے جیسے خورد و نوش کی اشیاء اسی طرح تزیین کی اشیاء جیسے کپڑے ٹوپی خوشبو وغیرہ تو ان کی خریدی ہوئی چیز کا استعمال خود کے لئے اور رقم اور اس پر معمول کے مطابق جو نفع حاصل ہو اس کا استعمال دکاندار کے لئے جائز ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ: فأما البلوغ فليس بشرط لانعقاد البيع عندنا، حتى لو باع الصبي العاقل مال نفسه؛ ينعقد عندنا موقوفا على إجازة وليه (بدائع الصنائع: ۵/۱۳۵)
فتح القدیر میں ہے
(وإذا أذن ولي الصبي للصبي في التجارة فهو في البيع والشراء كالعبد المأذون إذا كان يعقل البيع والشراء حتى ينفذ تصرفه)تقريره أن الصبا سبب الحجر لعدم هداية الصبي في أمور التجارة لا لذاته فصار هو كالعبد في كون حجره لغيره، فإذا أذن له الولي زال ذلك الغير.(فتح القدیر ۹/۳۱۰)
اللباب فی شرح الکتاب میں ہے
(للصبي في التجارة فهو في) الدائر بين النفع والضر، مثل (الشراء والبيع كالعبد المأذون، إذا كان يعقل البيع والشراء) ؛ لأن الصبي العاقل يشبه البالغ من حيث أنه مميز، ويشبه الطفل الذي لا عقل له من حيث إنه لم يتوجه عليه الخطاب، وفي عقله قصور، وللغير عليه ولاية، فألحق بالبالغ في النافع المحض، وبالطفل في الضار المحض، وفي الدائر بينهما بالطفل عند عدم الإذن وبالبالغ عند الإذن؛ لرجحان جهة النفع على الضرر بدلالة الإذن، ولكن قبل الإذن يكون منعقداً موقوفاً على إجازة الولي؛ لأن فيه منفعة؛ لصيرورته مهتدياً إلى وجوه التجارات كذا في الدرر۔ (الباب فی شرح الکتاب ٤٠٢ ط مکتبہ علمیہ بیروت)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی