سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حضرت مضمون (ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء) میں یوم عاشوراء کے متعلق کچھ خصوصیات بیان فرمائی ہیں ـ
اس میں خصوصیت نمبر تین میں ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا جانا مذکور ہے اس کی وضاحت فرمادیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا تھا یا حضرت عيسى علیہ السلام کو اٹھایا تھا ؟
سائل مولانا طیب ایک منار مسجد
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
یہ پورا مضمون (ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء) مولانا ابوجندل قاسمی (استاذ قاسم العلوم، تیوڑہ، مظفرنگر) کا ہے، جو ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 11، جلد: 98 ، محرم الحرام 1436 ہجری مطابق نومبر 2014ء میں چھپا ہے جس میں حضرت کی مراد یہاں حضرت ادریس علیہ السلام ہی ہے جس کی وضاحت وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کی تفسیر کے تحت بعض اسرائیلی روایات سے ہوتی ہے۔
البتہ حضرت ادریس علیہ السلام کے زندہ آسمان میں اٹھائے جانے کے متعلق جو روایات ہیں حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃاللہ علیہ معارف القرآن میں سورۂ مریم آیت نمبر ۵۷ کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ ان روایات کے بارے میں ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہیں اور اُن میں سے بعض میں نکارت واجنبیت ہے اور حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم کی آیت وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کے معنی یہ ہے کہ اُن کو نبوت و رسالت اور قرب الٰہی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا، بہرحال قرآن کریم کے الفاظِ مذکورہ صریح نہیں ہے کہ یہاں رفعت درجہ مراد ہے یا زندہ آسمان میں اٹھانا مراد ہے اس لیے انکار رفع الی السماء قطعی نہیں ہے (معارف القرآن، سورۂ مریم آیت نمبر ۵۷) مذکورہ عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کا زندہ جنت میں جانا قطعی نہیں ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام باحیات ہیں قرآن کریم اس پر شاہد ہے بل رفعہ اللہ إلیہ (النساء آیت: ۱۵۸) اور آپ قرب قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔
لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ مضمون میں جن خصوصیات کا ذکر ہے اس میں حضرت ادریس علیہ السلام ہی مراد ہے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ واقعی آپ کو بھی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی طرح آسمان پر زندہ اٹھالیا گیا ہے یا آپ کی وفات ہوئی ہے تو بعض اسرائیلی رویات سے ان کا آسمان پر اٹھایا جانا منقول ہے لیکن یہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی طرح قطعی نہیں ہے،
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں