منگل، 28 دسمبر، 2021

اب اُنھیں ڈھُونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

تعزیتی مضمون:

برائے مرشدی ومحبی واستاذی استاذ الاساتذہ حضرت مفتی ابراہیم صاحب آچھودی رحمۃ اللہ علیہ


 ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے


 بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا     


موت سب سے بڑی سچائی اور سب سے تلخ حقیقت ہے ۔ اس کے بارے میں انسانی ذہن ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے ، لیکن یہ ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی حل ہوتا ہے، موت ایک ایسا بے خبر ساتھی ہے جوہنگامۂ حیات کو لمحۂ آن میں خاموش کر دیتی ہے۔ اس کاآنا جتنا یقینی ہے اس کا وقت اتنا ہی غیر یقینی ہے۔ یہ کب، کیسے، کس کو اور کہاں آتی ہے کسی کو پتہ تک نہیں چلتا۔ لوگ اس تلخ گھونٹ کو پینا بھی نہیں چاہتے۔ مگر پئے بغیر رہ بھی نہیں سکتے، کیوںکہ یہ قانون قدرت ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( کل نفس ذائقة الموت ثم إلينا ترجعون ، ( ٥٧ العنكبوت ) ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھرتم سب کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے، اور دنیائے فانی میں چند دن عارضی زندگی گذارنے کے بعد توشۂ آخرت کے ساتھ ابدی دنیا کی طرف سے رخت سفر باندھنا ہے۔


فراق کسی کا بھی ہو شاق ہوتا ہی ہے، جدائی کسی کی ہو کرب آور ہوتی ہے، اس دنیا کا دستور یہی ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی بچھڑتا ہے، لیکن اس دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی زندگی قوم وملت کی امانت ہو جاتی ہے، جن کے گزرنے سے آنکھوں کی دھارائیں رکنے کا نام نہیں لیتی، اور جنہیں سسکتی آہوں سے بستیاں سپردخاک کردیتی ہے، اور زمانہ مدتوں ان کی کمی اور خلا کو محسوس کرتا ہے، کیوںکہ ایسی منتخب چنیدہ ہستیاں اپنی خداداد صلاحتیوں کے ذریعے رب ذوالجلال کا نور کائنات کی ظلمت میں اس طرح بکھیرتے ہیں کہ تا قیامِ قیامت ان شعاعوؤں میں ضو پاشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔


افسوس صد افسوس کہ ایک ایسی ہی عظیم المرتبت شخصیت مؤرخہ ٢٧ دیسمبر ٢٠٢١ کو  ہمارے درمیان سے ہندوستان کی سرزمین خصوصاً خطۂ گودھرا پر ابھرتا ہوا گوہر، محدث بے بدیل،  اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر بزبان حال یہ کہتے ہوئے۔


کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں


صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی


داعی اجل کی پکار پر دار بقا اور قرار کی جانب ہم سب کو روتا بلکتا اور سسکتا چھوڑ کرداغ فراق دےگئی۔


آج رات بارہ بجکر٥منٹ پر اپنے معمولات سے فارغ ہوکر لیٹا ہی تھا کہ یہ اندوہناک خبر ملی جس سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور پورے بدن پر گویا سکتہ تاری ہوگیا اور دل  ترپنے لگا جسم کاایک ایک پور چلا اٹھا کہ کاش ایسی ہستی کے بدلے ہماری خبر آجاتی۔


یہ دن اہلیان گودھرا کے لیے قیامت صغریٰ  ثابت ہوا جب کہ اس دن جامعہ رحمانیہ کے شیخ الحدیث اور  اہل گودھرا کی ہردلعزیز شخصیت استاد محترم حضرت مولانا مفتی ابراہیم صاحب آچھودی اس جہان فانی سے رخصت ہوکر دارالبقا کی طرف کوچ کر گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون


حضرت کی وفات پر محبین غم والم کے ایسے بادلوں میں گھر آئے ہے کہ محسوس ہوتاہے کہ اب جلد چھٹنے والے نہ ہو ان کی جدائی پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر بزم اداس ہے، ایسے دیدہ ور کا دنیا سے اٹھ جانا ایک ایسا سانحہ ہے کہ جس سے گلشن کی بہار مسموم بگولوں کی زد میں ہو ہم صمیم قلب سے دعا گو ہے کہ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائیں اور ان کا نعم البدل اہل گودھرا اور جامعہ رحمانیہ کو عطافرمائے۔


آپ کی سادہ زنگی 


آپ بہت خوش مزاج اورعمدہ اخلاق تھے، مزاج تنہائی پسند تھا،   ہر کسی کے ساتھ بے تکلف رہتے، بڑے ہی منکسر مزاج، صاحب مروت، خوش اخلاق، متقی، عبادت گزار اور سادہ طبیعت انسان تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نفسانیت ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی۔


سادگی ایسی تھی کہ تصنع اور بناوٹ کا نام و نشان نہیں تھا، غیر ضروری آسائشوں، رونقوں اور ٹھاٹ باٹ سے کوسوں دور تھے، 

دیکھنے والا اگر ان کی ظاہری زندگی دیکھے تو وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ کوئی بڑے عالم اور بزرگ ہیں۔


زمانۂ طالب علمی میں احقر کو بارہا ان کی خدمت کا موقع ملا ہے اس وقت کھانا مطبخ سے لایا جاتا تھا ایک بار کھانا لاکر حضرت کے سامنے رکھا اتفاق سے دال کا پیالہ ہاتھ سے چھوٹ گیا اور دال رضائی پر گرگئی حضرت رضائی کو ہاتھ میں لیکر پیالے میں نچورنے لگے اور جو دال رہ گئی تھی اس کو چوس نے لگے میں نے درخواست کی کہ اس کو پھینک دیاجائے اور دوسری دال لے آؤں حضرت نے فرمایا کہ یہ امت کا مال ہے اس کو ایسے ضائع نہیں کیا کرتے اور اسی میں کھانا کھالیا۔

ان کی سادہ زندگی پر علامہ اقبال کے یہ اشعار دل و دماغ میں گردش کرنے لگے ہیں۔

جلا سکتي ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کي


الہي کيا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سينوں ميں 


تمنا درد دل کي ہو تو کر خدمت اللہ والوں کي 


نہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں 


نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کي، ارادت ہو تو ديکھ ان کو 


يد بيضا ليے بيٹھے ہيں اپني آستينوں ميں 


ترستي ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو 


وہ رونق انجمن کي ہے انہي خلوت گزينوں ميں 


انداز تدریس


اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ حضرت مرحوم دار العلوم کے طبقۂ اساتذہ میں شان امتیازی کے حامل تھے، انداز تدریس اور مشکل مسائل کی تفہیم میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مربی بھی تھے ، 

انکا درس مقبول عام و خاص تھا ایسا سہل المنال کہ عامی شخص بھی درس میں بیٹھ کر مستفید ہو سکے، علم میں سمندر کے مانند گہرائی تھی، ڈھلتی عمر کے باوجودعقل کی پختگی بے مثال تھی۔


حضرت مفتی صاحب کے درس کی خصوصیات میں سے ایک یہ  انتہائی بلیغ خصوصیت تھی کہ زیادہ تراہتمام مشکلات کے حل کرنے کا فرماتے تھے، بحثوں کو پھیلانے اور الفاظ بار بار استعمال کرنے پر زیادہ توجہ نہیں فرماتے تھے۔ بلکہ  کوشش یہ ہوتی تھی کہ موضوع سامعین کے ذہنوں میں پیوست ہوجائے۔ اس لئے موضوع کی وضاحت کے بعد سامعین سے باربار مطالبہ فرماتے کہ بات سمجھ میں آئی یا نہیں جواب نہ ملنے پر یہ فرماتے ہوئے دوبارہ سمجھاتے کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں جب سامعین کی طرف سے تسلی ہوجاتی تو آگے بڑھتے اور یہ ان کا شروع سے آخر تک انداز تدریس رہاہے  اللہ ایسے مخلصین ہمیں بار بار عطافرمائے آمین


متفرق ملاقاتوں میں نصائح عدیدہ


بعد فراغت کے جب کرمالی میں تقرر ہوا تھا اس وقت یہ تین نصیحتیں فرمائی تھی۔


(١) اپنے آپ کو سب سے چھوٹا سمجھیں، اوراپنی زندگی کے لیے کسی ایک بڑے کو اپنا رہنما بنالیں، خود رائی سے پرہیز کریں۔


(٢) دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے مواعظ اور ملفوظات کو تاحیات پڑھنے کا معمول بنالیں، چاہے یہ بات آپ کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔


(٣) پڑھانے والے اساتذہ میں باہم جوڑواتفاق سے رہنا


جانے کے وقت حضرت نے ایک نصیحت یہ کی تھی کہ آپ کا سامنا مختلف مزاجوں اور طبیعتوں سے ہونے والا ہے لہذا ہر مدرس سے مخلصانہ اور محبانہ انداز سے پیش آئیں اگراس کے برعکس ہوگا تو افتراق و انتشار ،فتنہ و فساد اور ٹوٹ پھوٹ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا، محنتی اور مخلص استاد ہمیشہ ایثار پیشہ، منکسر النفس اور اعمال صالحہ کا حریص ہوتاہے۔ اس کی ابتدا سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کی ذات ،کردار اور شخصیت؛ ادارے کے مجموعی ماحول کے لیے تکدر اور خرابی کا باعث وسبب نہ بنے۔اس کے کسی قول و عمل سے دوسرے کی دل آزاری اوردل شکنی نہ ہو


جامعہ تحفیظ القرآن سے آنا جانا ہوتا تھا اس وقت متفرق اوقات میں یہ نصیحتیں فرمائیں۔


حضرت کے پاس جب بھی جانا ہوتاتھا تو اہتمام سے یہ نصیحتیں اکثر کیاکرتے تھے


(١) اخلاصِ نیت: یعنی اپنی نیت کو درست کرنا کیونکہ نیت درست ہوگی تواللہ تعالیٰ علم میں بھی برکت دیں گے۔


(٢) سب کے ساتھ اچھابرتاؤ کریں کیونکہ اچھا برتاؤ یہ افادیت کے لئے بے انتہا مفید ہے۔


(٣) ہمیشہ باوضو رہیں اور نمازوں کا اہتمام کریں: اس سے علم میں اضافہ ہوگا، اور کوئی بھی درسی کتاب کو بلاوضو ہاتھ نہ لگائے اس سے علوم وفنون کی راہ ہموار ہوگی اور یہ نصیحت باربارکی ہے۔


(٤) تفہیم سے قبل تفَہّم: حضرت یہ نصیحت بھی کئی بار کرچکے ہیں کہ کسی بھی کتاب کو پڑھانا ہے تو روزانہ خود اچھی طرح سے سمجھ کر جائیں اور دماغ میں پورا سبق اچھی طرح سے بٹھالیں کہاں کونسی بات بتانی ہے اس کو بھی سوچ کر جائیں۔


(٥) ادب بنیاد ہے: اور یہ نصیحت بھی فرمایا کرتے کہ ادب بنیادی شرط ہے، استاذ کابھی ادب کریں،کتاب کا بھی ادب کریں،تپائی اور درس گاہ کا بھی ادب ملحوظ رکھیں۔اس کے ساتھ ساتھ بڑوں کابھی ادب کریں


(٦) اسلوب ِتعلیم: یعنی درسگاہ میں قدم رکھنے سے قبل ہی آپ ذہناً اس بات کو مستحضر کرلیں کہ آج میرے سبق میں کتنی باتیں ،کتنے مباحث ، کتنے فائدے اورکتنے نکات ہوں گے؟اس تعین وتحدید کے بعد عبارت پر ان کو منطبق کردیں۔انشاء اللہ العزیز کامیابی آپ کے قدم چومے گی


(٧) طلبہ کی استعداد کو پختہ کرنے کے لئےمصطلحاتِ فن کو ازبرکروانا: ایک بارطلبہ کی استعداد کو پختہ کر نے کی تجاویز کے بارے میں سوال کرنے پر حضرت نے ارشاد فرمایا کہ اولین اوربنیادی درجات میں اس بات کاالتزام ولحاظ رکھاجائے کہ طلبہ کو صرف ونحو،فقہ واصولِ فقہ ،اصولِ تفسیر وحدیث اورمنطق وبلاغت کے مصطلحات واصطلاحات خوب ازبر ہوں۔شروع میں اس اہم اورطالب ریاضت مرحلے کو نظرانداز کردینے کا نقصان آخرتک نظرآتاہے۔


(٨) دورانِ درس ناصحانہ کلمات: ایک بار یہ بھی فرمایا تھا کہ مشفق ومہربان استاذ اپنے شاگرد کی باطنی اورروحانی تربیت کافریضہ سرانجام دیتاہے، لہذا ہرباصلاحیت معلم اورجوہرشناس استاذکی نظر ہمہ وقت اپنی روحانی اولاد کی سیرت وکردارپر رہنی چاہیے اس لیے کہ حقیقت پسند اورنفسیات شناس مدرس اپنے آپ کو فقط کتاب کی تدریس و تعلیم تک محدود نہیں کرتا؛ بلکہ دورانِ درس کوئی نصیحت آموز کلمہ کہہ کر اپنے زیر تربیت نونہالوں کی عملی زندگی کا دھارا بدلنے کی اور نتیجہ خیز کردار کی طرف کوشاں و سرگرداں رہتاہے۔


(٩) معتدل مزاجی: طلبہ کے سلسلے میں نصیحت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ طلبہ کے ساتھ اعتدال ،میانہ روی اور دوستانہ رویہ ،ان کی فکری، علمی اور ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے اورنکھارنے میں بے حد مفید ومعاون ثابت ہوتاہے۔جہاں خشک مزاجی،بے جاغصے کااظہار اورحدِ اعتدال سے بڑھی ہوئی سختی اور تشدد آپ کو طالب علم سے دور کردیتی ہے ، اسی طرح حد درجہ نرمی ،طبیعت میں عدم سلیقے کا عنصر اورطلبہ سے فضول گپ شپ بھی درس گاہ کے عمومی اور آپ کے پڑھانے کے خصوصی ماحول کومتاثروبدنما کردیگی، لہذا طلبہ کے ساتھ توسط واعتدال کا معاملہ کریں، نہ حد سے زیادہ سختی اور نہ حد سے زیادہ نرمی ہو، ورنہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کمی یا کوتاہی سے پیداہونے والے نتائج کا سدِباب ناممکن اورمحال ہوگا


(١٠) آخری مجلس: حضرت کے پردہ پوش ہونے سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے ملاقات میں ڈھیر گھنٹہ بات چیت ہوتی رہی جس میں انہوں نے والدین کی خدمت کی تاکید کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ والدیں  کی حیاتی ایک نعمت ہے اور ان کی خدمت کاموقع اللہ ہر کسی کو نہیں دیتا تمہیں ملا ہے تو اس کی قدر کرنا۔

اس کے بعد میرے ان رسائل کے بارے میں پوچھا جس پر انہوں نے تقریظ لکھی تھی کہ کب اس کو چھپوائیں گے، آخر میں یہ جملے ارشاد فرمائیں کہ اب بخاری پڑھنے کی طاقت نہیں ہے میرا وقت بھی گھر لوٹنے کا ہوچکا تھا اس لئے میں نے تین مرتبہ جانے کی اجازت طلب کی تو حضرت نے بٹھادیا اور فرمایا کہ ابھی وقفہ ہوگا بچہ آئے گا چائے بنائیگا آپ بھی چائے پیکر جائیں کہا معلوم تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات اور آخری چائی ہے کچھ ہی دیر میں بچہ آیا اور چائی بنائی چائی نوشی سے فارغ ہی ہوا تھا کہ حضرت مولانا اختر صاحب تشریف فرماہوئے تھوڑی دیر باتیں ہوئی اور میں حضرت کی ملاقات کے بعد لوٹ آیا۔

آہ وہ

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی 


اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا 


کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی 


کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے


موصوف کی محبت بھری ملاقاتیں ابھی بھی آنکھوں کے نظارے ہیں اور ان کے محبت بھرے القاب دل ودماغ میں گردش کررہےہیں اوران کی مسکراہٹیں آنکھوں کے سامنے اس طرح سے رواں دواں ہے کہ اس سچائی کے سچ ہونے کے باوجود یقین کرنے کے لئے تیار نہیں۔  

لیکن

جانے والا تو بہتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں چل بسا اور اپنی خاموش زباں اور مسکراتے ہونٹوں سے یہ کہتا ہوا چلدیا۔


دل کو سکون روح کو آرام آ گیا


موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا


یہ سب نصائح حضرت کی ہے البتہ اس کو میں نے اپنی تعبیرات میں پیش کیا ہے۔ نیز حضرت  کے خصائص اور ان کی زندگی کے سنہرے اوقات مولانا ادریس صاحب کی کتاب (تاریخ دارالعلوم گودھرا ص٨٠) پر مرقوم ہے اسے بھی دیکھنا چاہئے


میں اپنی بات اس شعر پر موقوف کرتاہوں کہ:


زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا 


ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے 


          العارض: آصف گودھروی 

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

منگل، 8 جون، 2021

شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کی ڈگری حاصل کرنا مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال ہے کہ ایک شخص بیوی کے تمام حقوق اچھی طرح سےادا کررہا ہے اور کبھی بھی مار پیٹ وغیرہ کچھ بھی نہیں کیا اور بیوی سے طلاق یا خلع کی وجہ پوچھی تو بیوی کہتی ہے کوئی وجہ نہیں ہے میں شوہر کے ساتھ نہیں رہتی۔ بیوی طلاق یا خلع کا مطالبہ کرتی ہے لیکن شوہر ان چیزوں سے انکاری ہے. اگر بیوی طلاق یا خلع کے لئے عدالت چلی جائے اور شوہر وہاں بھی طلاق یا خلع کے لئے انکار کر دے اور بیوی جو بھی الزامات لگائے شوہر اسے ناکام ثابت کردے لیکن عدالت پھر بھی عورت کو خلع کی ڈگری جاری کردے تو کیا ڈگری جاری ہونے سے نکاح ختم ہو جائے گا یا بدستور قائم رہے گا ۔ فقہ حنفی اور مسلک دیوبند کے مطابق رہنمائی فرمائیں ۔ شکریہ 

سائل:مولانا شعیب اسلام پوری

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

عورت یا اس کے گھر والوں کا بلا وجہ شرعی خلع کا مطالبہ کرنا،گناہ سے خالی نہیں ہے۔ 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بلا وجہ خلع کا مطالبہ کرنے والی عورتوں کے بارے میں کہیں تو جنت کی خوشبو سے محرومی تو کہیں ایسی عورتوں کو منافقہ قرار دیا ہے۔


احادیث میں مذکورہ الفاظ 

ایما امرأۃ سألت زوجھا طلاقا فی غیر ما باس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ“


”ایما امرأۃ اختلعت من زوجھا من غیر باس لم ترح رائحۃ الجنۃ“


قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن المختلعات والمنتزعات هن المنافقات، وما من امرأة تسأل زوجها الطلاق من غير بأس؛ فتجد ريح الجنة، أو قال : رائحة الجنة (ترمذی و ابن ماجہ)


خلع خاء کے ضمہ کے ساتھ ، اس کے لغوی معنی اتارنے کے ہیں ، قرآن کریم میں ہے : فاخلع نعلیک، اصطلاح میں خلع عورت سے کچھ لے کر اس کو نکاح سے آزاد کرنے کا نام ہے۔

خالعت المرأۃ زوجہا مخالعۃً إذا افتدت منہ وطلّقہا علی الفدیۃ۔ (حاشیۃ علیٰ رد المحتار / باب الخلع ۵/۸٣ زکریا )  


خلع دگر مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین (عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے اور شوہر نے خلع کے فیصلہ کو تحریری اور زبانی طور پر قبول نہیں کیا تھا تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا۔ لہذا اگر شوہر نے اس خلع کے فیصلہ پررضامندی نہیں دی ہے تو  اس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔


"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول،" (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع كتاب الطلاق، فصل فى ركن الطلاق، ٣/١٤٥، ط:دارالكتب العلمية)

 

إذا کان بعوض الإیجاب والقبول؛ لأنہ عقد علی الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقۃ، ولا یستحق العوض بدون القبول۔ (شامي:کتاب الطلاق / باب الخلع ۸۸/۵، زکریا )


لأنہ أوقع الطلاق بعوض ، فلا یقع إلا بوجود القبول۔ ( المبسوط للسرخسي باب الخلع ،۱۹۴/۶، دار الکتب العلمیۃ بیروت )


البتہ قاضی کو تنسیخِ نکاح کا حق ہے لیکن الحیلۃ الناجزہ میں اس کے لئے چند شرائط کو ذکر کیا ہے جس کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو، توایسی صورت میں  عورت دو گواہوں کے ذریعہ مسلمان جج کے سامنے اپنا دعوی ثابت کرے، جج اپنے ذرائع سے عورت کے دعوی کی تحقیق کرے، اگر دعوی درست ہو تو شوہر کو پیغام بھیجے کہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اگر وہ حقوق ادا کرے تو قاضی دعوی کو خارج کردے گا، لیکن  اگر وہ حقوق کی ادائیگی پر راضی نہیں ہوتا یا اطلاع  ملنے کے باوجود عدالت میں حاضر نہیں ہوا تومسلمان جج دونوں کے نکاح کو ختم کردے گا۔ (مستفاد: الحیلۃالناجزہ ص: ۷۳ ط:دارالاشاعت)

فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا


بدھ، 5 مئی، 2021

روزہ کی حالت میں خروج منی اور اس کا شرعی حکم مفتی آصف گودھروی

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 

حضرت مفتی صاحب کچھ مسائل درپیش ہیں اس کا تحقیقی جواب مطلوب ہے۔

(١) روزہ کی حالت میں احتلام ہو جائے یا روزے کی ابتداء جنوبی کی حالت میں ہو تو روزہ صحیح ہے؟

(٢) شہوت کے ساتھ منی کے نکلنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح بلا شہوت کے منی کے نکلنے سے روزے کا کیا حکم ہے 

(٣) روزے کی حالت میں میاں بیوی کا آپس میں خوش طبعی اور بوس و کنار کرنا، کیسا ہے اور اگر اس سے اِنزال ہوجائے، تو روزے کا کیا حکم ہے

(٤) روزے کی حالت میں گندی تصویریں اور ویڈیوز دیکھ لی اور منی خارج ہوگئی تو روزہ باقی رہا یا نہیں اسی طرح بد نظری اور فلم بینی کی صورت میں روزے کا کیا حکم ہے؟

سائل: محمد بن مولانا عبد الرؤف اسلامپورى

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


(١) احتلام ہونا

روزے کی حالت میں احتلام ہو جانے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، (احتلام یعنی سوتے میں غسل کی حاجت ہوجانا)

أو احتلم لم یفطر۔ (شامی زکریا ۳؍۳٤٧، البحرالرائق٢/٢٧٢)

روزے کی حالت میں کسی شخص  پر غسل واجب ہو اوروہ صبح صادق سے پہلے غسل نہ کرسکا اور سحری کرکے روزہ رکھ لیا تو اس کا روزہ درست ہے، ناپاک ہونے کی وجہ سے  روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ جلد از جلد غسل کرلینا چاہیے، غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ  فجر کی  نماز قضا ہوجائے گناہ کا باعث ہے۔

( أو اصبح جنبا وان بقی کل اليوم شامی ۳/٣٧٢ الفقه الحنفي في ثوبه الجديد- ٤٠٤/۱ )


(٢) منی کے نکلنے کی صورتیں

منی کے نکلنے کی دوصورتیں ہے

(١) خروج: یعنی خود بخود منی کا نکل جانا جس میں اس کے فعل کا کسی قسم کا دخل نہ ہو، یعنی ہاتھ سے رگڑھنے سے یا بوس وکنار سے نہ نکلی ہو تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

(٢) اخراج: یعنی منی کا نکالنا جس میں اس کے فعل کا  دخل ہوتا ہے، جیسے بیوی سے بوس وکنارکرنے سے منی نکل آئے یا مشت زنی کرنے سے یا عضو خاص کو ہاتھ سے رگڑھنے سے منی نکل آئے، تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔


(٣) بیوی سے بوس وکنار کرنا

اگر جماع کا اندیشہ نہ ہو اور اپنے اوپر پورا اعتماد ہو کہ بیوی کے ساتھ خوش طبعی،بوس وکنار اور ملامست کرنے کی صورت میں جماع یا انزال کی نوبت نہیں آئے گی، تو روزے کی حالت میں اس کی اجازت ہے، لیکن احتیاط بہرحال بہتر ہے۔ اور اگر انزال اور جماع کا خطرہ ہوتو ایسے شخص کے لئے بیوی سے بوس وکنار و ملامست مکروہ ہے۔

قال في تنویر الأبصار وکرہ قبلة ومس ومعانقة ومباشرة فاحشة إن لم یأمن المفسد وإن أمن لابأس۔(شامی ۳/۳۹٤)

(يكره للصائم فعل مقدمات الجماع ودواعيه كالقبلة و المعانقة و المس إذا لم يأمن الوقوع في مفسد الصوم وهو الإنزال أو الجماع وفي الصحيحين عن عائشة قالت كان رسول الله لا يقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم ولكنه أملككم لإربه - الفقه الحنفي في ثوبه الجديد-١/٤٢٢ )


بوس وکنار سے انزال ہوجائے

اگر بیوی سے بوس وکنار کی وجہ سے انزال ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، صرف قضا لازم ہوگی، (یعنی اس ایک روزے کے بدلے بعد میں ایک روزہ رکھنا ضروری ہوگا) کفارہ نہیں۔

أو قبّل ولو قبلۃ فاحشۃ بأن یدغدغ أو یمص شفتیہا أو لمس ولوبحائل لایمنع الحرارۃ۔۔فأنزل۔۔قضیٰ فی الصورکلہافقط۔(شامی زکریا ۳؍۳۷۹)


(٤) فحش ویڈیوز اور فلم بینی

جہاں تک روزے کی حالت میں فحش تصویر اور ویڈیوز دیکھنے کی بات ہے، تو یہ شریعت میں بالکل حرام ہے۔ اس قسم کے کبیرہ گناہوں سے روزے کا ثواب پورے طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔ 

اسی طرح فلم بینی مطلقاً ناجائز ہے، اور رمضان میں ہو تو کئی گناہوں کا مجموعہ اور روزے کا اجر وثواب ختم کرنے کا ذریعہ ہے، اس لیے اگر کسی شخص سے واقعۃً مذکورہ افعال سرزد ہوئے ہو تو اسے سچی توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ 

البتہ اگر روزے کی حالت میں فحش  تصویر اور ویڈیوز دیکھنے یا محض تصوّر کی وجہ سے کسی انسان کو انزال ہوجائے، تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

اسی طرح روزے کی حالت میں کسی عورت کو صرف دیکھنے کی وجہ سے انزال ہوجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ البتہ قصداً حالت روزہ میں غیر محرم پر نگاہ کرنے سے روزے کے انوارات اور حقیقی ثمرات ختم ہوجاتے ہیں۔

واذا نظر الی امرأۃ بشھوۃ فی وجھھا او فرجھا کرّر النظر اولا لا یفطر اذا انزل۔ کذا فی فتح القدیر وکذا لایفطر بالفکر اذا امنی۔ فتاوی عالمگیری (۲۰٤/۱):

واذا نظر الی امرأۃ بشھوۃ فی وجھھا او فرجھا کرّر النظر اولا لا یفطر اذا أنزل، وکذا لا یفطر بالفکر اذا امنی۔ فتاوی عالمگیری (۲۰٤/۱):

(أو احتلم أو أنزل بنظر) ولو إلى فرجها مرارا أو بفكر إن طال (در المختارج ٣/ ص٣٦٨)

وإذا نظر إلى امرأة بشهوة في وجهها أو فرجها كرر النظر أو لا لايفطر إذا أنزل كذا في فتح القدير كذا لايفطر بالفكر إذا إمنى هكذا في السراج الوهاج (فتاوی عالمگیری ج۱ ص۲٠٤)

بدنظری کی وجہ سے انزال ہوگیا

کسی عورت یا تصویر کو دیکھ کر اگر انزال ہوجائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ (تاہم بدنظری بہرحال گناہ ہے) او احتلم او انزل بنظر ای لا یفطر۔ (البحر الرائق ۲؍۲۷۲، مجمع الانہر ١/٢٤٤   شامی زکریا ٣/٣٤٧)

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

اتوار، 2 مئی، 2021

عورتوں کے اعتکاف کے کچھ ضروری مسائل مفتی آصف گودھروی

عورتوں کے اعتکاف کے کچھ ضروری مسائل


اعتکاف میں شوہر کی اجازت

اگر عورت کا شوہر ہے، تو اس کی اجازت کے بغیر اعتکاف میں نہ بیٹھے، اس لئے کہ عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہیں کرسکتی، اور اگر شوہر نے بیوی کو اعتکاف میں بیٹھنے کی اجازت دے دی ہے، تو پھر بعد میں اعتکاف سے منع کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ (شامی ٤۲۹/۱ )


عورتوں کے اعتکاف کی جگہ کی تعیین

عورت کے لیے بھی رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے اور ثواب کا باعث ہے، عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہِ تحریمی ہے، عورتوں کے لیے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا نہ صرف جائز  ہے، بلکہ یہی بہتر ہے۔ ان کے لیے اعتکاف کی جگہ  وہ ہے جسے گھر میں نماز، ذکر، تلاوت اور دیگر عبادت کے لیے خاص اور متعین کرلیا گیا ہو، اور عورتوں کے لیے یہ خاص جگہ ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے، اگر گھر میں عبادت کے لیے پہلے سے خاص جگہ متعین نہیں ہے  تو اعتکاف کے لیے گھر کے کسی کونے یا خاص حصے میں چادر یا بستر وغیرہ ڈال کر ایک جگہ مختص کرلے، پھر اس جگہ اعتکاف کرے، اور وہ جگہ عورت کے حق میں مسجد کے حکم میں ہوگی، اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہوگا، یہی ائمہ احناف کا قول ہے۔ (البنايه في شرح الهدایه ٧٤٧ / ۳)


عورت کے لئے اعتکاف کی جگہ سے باہر جانا

عورت اعتکاف کی جگہ سے باہر  کھانے پکانے یا گھر کے کام کاج کے لیے نہیں نکل سکتی، اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اگر اس کو باہر سے اس کے اپنے لیے  کوئی کھانا لاکر دینے والا نہیں ہے تو یہ باہر کھانا اٹھانے کے لیے جاسکتی ہے، کھانا اٹھاکر فوراً اندر آجائے ، باہر نہ رکے، ورنہ اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

البتہ عورت  اپنی اعتکاف گاہ کے اندر  رہ کر گھر کے کام کاج (مثلاً آٹا گوندھنا، کھاناپکانا، کپڑے دھونا وغیرہ) سرانجام دے سکتی ہے،  لیکن بہتر یہ ہے کہ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ان کاموں کے لیے کوئی متبادل انتظام کرلے؛ تاکہ پوری یک سوئی کے ساتھ یہ عبادت اپنی روح اور مقصد کے ساتھ ادا ہوجائے۔ (فتاوی عالمگیری ١/٢١١)


اعتکاف کی حالت میں حیض آجائے

اگر دورانِ اعتکاف عورت کے ایام شروع ہوجائیں تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا، ایسی حالت میں عورت اعتکاف چھوڑدے، اور بعد میں روزہ کے ساتھ ایک دن کے اعتکاف کی قضا کرے، سال کے جن دنوں میں روزے رکھنا منع ہے، اس کے علاوہ کسی دن مغرب سے دوسرے دن کے غروب آفتاب تک ایک دن رات کے اعتکاف کی قضا کرنی ہوگی (عالمگیری ٥٨٤/۱)


حالت اعتکاف میں بچہ پیدہ ہونا

حالت اعتکاف میں معتکفہ کو بچہ پیدا ہو جائے تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا بعد میں ایک دن کی قضاء لازم ہوگی۔ ( كتاب الصوم، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الِاعْتِكَافِ، ١ / ٢١١، ط: دار الفكر)


اعتکاف میں بناؤ سنگار

اعتکاف کے دوران زیادہ وقت ذکر و اذکار،  تلاوتِ کلامِ مجید، عبادات اور اللہ کو راضی کرنے والے دیگر اعمال میں مشغول رہنا چاہیے، فضول بناؤ سنگار اور فیشن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ تاہم حالت اعتکاف میں بناؤ سنگار کریں تو جائز ہے اس سے اعتکاف میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ (حاشیه تاتار خانیہ١/٤٤٥) لیکن بلا ضرورت اچھا نہیں ہے۔


اعتکاف میں بال بچوں کی پرورش

بال بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کا حکم چوں کہ ماں کو ہے اس لئے اگر کوئی اور کرنے والا نہ ہو تو خود  پرورش اور دیکھ بھال کریں جائز ہے۔ (فتاوی تاتار خانیه جلد ٤٤٤/٣)


مریض کی عیادت اور جنازے میں جانا

اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے کسی مریض کی عیادت یا کسی کی میت میں شامل ہونے کی نیت کی ہو تو جانا جائز ہے اور اگر نیت نہیں کی ہے تو نہیں جاسکتی جانے پر اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (فتاوی تاتارخانیه ٤٤٥/۳ ) 


بیوی اعتکاف میں ہوتو شوہر کا ہمبستری کرنا

اعتکاف کے دوران بیوی سے صحبت جائز نہیں ہے، بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی اجازت سے اعتکاف میں بیٹھے، اور اجازت دینے کے بعد شوہر کے لیے پھر اسے اعتکاف سے روکنا یا اعتکاف کے دوران ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہوگا، اگر شوہر ہم بستری کے لیے بلائے تو عورت اعتکاف کا عذر کرکے منع کردے، تاہم اس کے باجود اگر شوہر نے ہم بستری کرلی تو عورت کا مسنون اعتکاف فاسد ہوجائے گا، ایک دن رات کے اعتکاف کی روزہ کے ساتھ قضا کرنا لازم ہوگی۔ (كتاب الصوم، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الِاعْتِكَافِ، ١ / ٢١١، ط: دار الفكر)


عورت کا اعتکاف میں گھریلو کام کرنا

عورت کے اعتکاف کے لیے مختص کی گئی جگہ عورتوں کے حق میں ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے، عورت کے لیے اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہے، لہذا عورت اعتکاف کی جگہ سے باہر  کھانے پکانے یا گھر کے کام کاج کے لیے نہیں نکل سکتی، اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اگر اس کو باہر سے اس کے اپنے لیے کوئی کھانا لاکر دینے والا نہیں ہے تو یہ باہر کھانا اٹھانے کے لیے جاسکتی ہے، کھانا اٹھاکر فوراً اندر آجائے باہر نہ رکے ورنہ اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

البتہ عورت  اپنی اعتکاف گاہ کے اندر  رہ کر گھر کے کام کاج مثلاً آٹا گوندھنا، کھاناپکانا، کپڑےدھونا وغیرہ سرانجام دے سکتی ہے،  لیکن بہتر یہ ہے کہ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ان کاموں کے لیے کوئی متبادل انتظام کرلے تاکہ پوری یک سوئی کے ساتھ یہ عبادت اپنی روح اور مقصد کے ساتھ ادا ہوجائے۔

البتہ عورت کی اگر مجبوری ہو اورگھریلو کام کاج کوئی اور سر انجام دینے والا نہ ہو تو اعتکاف کی حالت میں گھریلو کام کاج سرانجام دے سکتی ہے، اگر دوسرا سرانجام دینے والا ہو تو اپنے معتکف سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ (فتاوی تاتار خانیه ٤٤٥/۳ ) 


گھروالوں کے ساتھ کھانا پینا

عورت کے اعتکاف کی جگہ میں ہو تو اس کے گھر والے اس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، تاہم  کھانے کے دوران گپ شپ کا ماحول بنادینا یا کھانے کے بعد دنیاوی یا فضول باتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہیے؛  تاکہ معتکفہ کی یک سوئی اور عبادت کے اوقات میں خلل واقع نہ ہو۔  

باقی عورت اپنے اعتکاف کی جگہ سے باہر نکل کر گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاسکتی ، اس لیے کہ عورت کے اعتکاف کے لیے مختص کی گئی جگہ عورتوں کے حق میں ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے، عورت کے لیے اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہے۔ (كتاب الصوم، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الِاعْتِكَافِ، ١ / ٢١١، ط: دار الفكر)


معتکفہ کا اوروں سے بات چیت کرنا

معتکفہ ضرورت کی بات چیت خیر اور بھلائی کی باتیں آواز بلند کئے بغیر کرسکتی ہے، نیزپردے کے پیچھے بیٹھا ہوا شخص اگر غیر محرم ہے  تو  آواز میں نرمی پیدا کئے بغیر صاف اور سیدھی بات کرے جس سے مخاطب کے دل میں کسی قسم کی طمع یا میلان پیدا نہ ہو، جائز ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح ٨/١٠٠٠) واللہ اعلم بالصواب۔

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

ہفتہ، 1 مئی، 2021

مردوں کے لئے اعتکاف کے کچھ ضروری مسائل

اعتکاف کی حقیقت

اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ کچھ وقت کے لئے اللہ کے گھر میں اعتکاف کی نیت سے مسجد میں تھہرا جائے اس کے لئے کم زیادہ کی کوئی مدت متعین نہیں کوئی وقت مقرر نہیں جتنی مقدار چاہے اعتکاف کر سکتا ہے صرف رمضان کاسنت اعتکاف دس دن سے کم اور واجب (جس کی نظر مانی ہو) ایک دن سے کم جائز نہیں ہے۔ (احکام اعتکاف مفتی تقی عثمانی صاحب)

اعتکاف کے اقسام

اعتکاف کی تین قسمیں ہے۔

واجب: وہ اعتکاف ہے جو نذر یعنی منت ماننے سے یا مسنون اعتکاف کو فاسد کرنے سے واجب ہوا ہو۔

مسنون: یہ وہ اعتکاف ہے جو صرف رمضان کے مہینے کے آخری عشرے میں اکیسویں شب سے عید کے چاند دیکھنے تک ہے۔ 

نفل: وہ اعتکاف جوکسی بھی وقت کسی بھی گھڑی کیا جاسکتا ہے۔ (شامی ٤۳۰/۳ )

اعتکاف مسنون کے احکام

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جو اعتکا ف کیا جاتا ہے وہ اعتکاف مسنون ہے، اس اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروب آفتاب سے شروع ہوتاہے، اور عید کا چاند ہونے تک باقی رہتا ہے، چونکہ اس اعتکا ف کا آغاز اکیسویں شب سے ہوتاہے اور رات غروب آفتاب سے شروع ہو جاتی ہے اس لئے اعتکاف کرنے والے کو چاہئے کہ بیسویں روزے کو مغرب سے اتنے پہلے مسجد کی حدود میں پہنچ جائے کہ غروب آفتاب مسجد میں ہو، رمضان شریف کے عشرہ اخیرہ کا یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی ایک بستی یامحلے میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو تمام اہل محلہ کی طرف سے سنت ادا ہو جائے گی، لیکن اگر سارے محلے میں سے کسی ایک نے بھی اعتکاف نہ کیا توسارے محلے والوں پرترک سنت کا گناہ ہوگا۔ (البحرالرائق ،باب الاعتکاف ٢/٤۲۱)

اعتکاف کی جگہ کی تعیین

مردوں کیلئے اعتکاف صرف مسجدہی میں ہو سکتا ہے افضل ترین اعتکاف مکہ مکرمہ کی مسجد حرام میں ہے، دوسرے نمبر پر مسجد نبوی میں تیسرے نمبر پر مسجد اقصی میں چوتھے نمبر پر کسی بھی جامع مسجد میں اور جامع مسجد میں اعتکاف کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کیلئے کہیں اور نہیں جانا پڑے گا لیکن جامع مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر اس مسجد میں اعتکاف ہو سکتاہے جہاں پانچ وقت کی جماعت ہوتی ہو البتہ اگر مسجد ایسی ہے جہاں پا نچوں وقت نماز نہیں ہوتی تو اس میں علماءکا اختلاف ہے، تا ہم محققین کے نزدیک ایسی مسجد میں بھی اعتکاف ہوسکتاہے اگر چہ افضل نہیں (شامی٤۲۹/۳ احکام اعتکاف فضائل ومسائل ص ٤٠ مفتی تقی عثمانی صاحب)

رمضان کے آخری عشرے کے تین دن کا اعتکاف

سنت یہ ہے کہ بیسویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مسجد میں داخل ہو جائے لیکن اگر اس کے بعد کسی وقت میں بھی نیت کرکے مسجد میں داخل ہوجائے تب بھی صحیح ہے، لیکن عشرہ کامل کی فضیلت اس صورت میں حاصل نہ ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ کامل (رمضان کے اخیر کے دس دن) کا اعتکاف کیا ہے جو کہ بیسویں تاریخ کی شام سے بیٹھے تب ہی پورا ہو سکتا ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ١٧٧)

اسی طرح آخری عشرہ میں دو یا تین دن اعتکاف کرنےسے نفلی اعتکاف شمار ہوگا سنت اعتکاف شمار نہیں ہوگا (علمگیری ۲۱۱/۱)

لیکن نفلی اعتکاف بھی تو ایک عبادت ہے وہ بھی عشرۂ اخیرہ میں اور رمضان کی کوئی بھی عبادت افضل ترین عبادت ہے لیکن اس کا رمضان کے لئے سنت اعتکاف گرداننا صحیح نہیں ہے ۔

اعتکاف کی حالت میں احتلام ہونا

دوران اعتکاف احتلام ہوجائے اور معتکف کے لئے مسجد سے نکلنے میں کسی قسم کا خوف نہ ہوتو پہلے تیم کرلے پھر مسجد سے باہر آجائے اور اگر کسی قسم کا خوف ہوتو تیمم کرلے اور سوجائے (شامی ٤۱۰/۱)

اعتکاف کی حالت میں بیڑی سگرٹ پینا

اعتکاف کی حالت میں بیڑی سگرٹ مسجد کے احاطے میں پینا صحیح نہیں ہے، اور نہ ہی مسجد کے باہر وہ جاسکتا ہے ، اگر عادت ایسی ہو کہ اس کے بغیر چارہ کار نہیں تو ایسے حضرات استنجاء کے تقاضے سے جائے تو پی لے۔ (فتاوی تاتارخانیه ٤٤٦/٣ )

 اعتکاف میں بیوی یا کسی محرم سے بات چیت کرنا

اعتکاف کی حالت میں اپنی محرمات ابدیہ کے ساتھ بات چیت کرنا ان سے ملنا اسی طرح اپنی بیوی سے ملنا بات چیت کرنا اس وقت جائز ہیں جبکہ اعتکاف کرنے والا مسجد میں رہ کر اوروں سے پردے کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے ملیں یا بات چیز کریں اسی طرح مسجد میں رہ کر باہر چلنے والے آدمی سے بھی بات چیت کرنا جائزہے۔ (تاتار خانیه ٤٤٥/۳)

اعتکاف کی حالت میں نماز جنازہ کے لئے جانا

اعتکاف کی حالت میں نماز جنازہ کے لئے جانا اسی طرح کوئی معتكف اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے دوسری مسجد میں تراویح میں سماعت قرآن کررہا تھا اس مسجد میں پارہ الگ ہے اب اس مسجد سے اس مسجد میں وہ روزانہ تراویح کے لئے جانا چاہتا ہے۔ توان اشیاء کی اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ہی نیت کرلے تو اس کو نکلنا جائز ہے۔ (فتاوی قاسمیہ جلد ۵۹۳ / ۱۱ )

معتکف کا اذان دینے کے لئے باہر جانا

معتکف اذان دینے کے لیےمسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ تاہم اگر معتکف مؤذن نہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی شخص اذان دینے والا موجود ہو تو بہتر ہے کہ وہ اذان کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے۔ (فتاوى عالمگیری ١/٢١٣)

معتکف کا غسل تبرید کے لئے باہر جانا

واجب غسل کے علاوہ جمعہ کے غسل کے لئے اسی طرح بدن کی صفائی یا ٹھنڈک کے لئے غسل کے بارے میں باہر نکلنے میں عام کتب فقہ میں تو اس بات کی صراحت ہے کہ غسل واجب کے علاوہ کسی اور غسل کے لئے مسجد سے نہیں نکل سکتا لیکن بعض فقہی عبارات سے جمعہ کے غسل کا جواز معلوم ہوتا ہے (يخرج للوضوء والاغتسال فرضا كان أو نفلا، تاتارخانیہ ٣٤٦ /٣) اسی طرح تاتارخانیہ میں ہے کہ امام ابو یوسف صاحب کے نزدیک کچھ دیر کے لئے مسجد سے باہر رہنے کی صورت میں اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ (٤٤٤/٣) لہذا ایسا معتكف جو روزانہ غسل کا عادی ہو اور بغیر غسل کے وہ بے چین ہو جائے، نیز موسم گرما میں تو اور پریشانی کا باعث ہے ایسی صورتوں میں ان کے لئے گنجائش ہے کہ غسل تبرید کرلیں، 

اعتکاف کی حالت میں معتکف کا خودکھانا لانا

معتکف حالت اعتکاف میں کھانا لانے والا نہ ہونے کی صورت میں خود جا سکتا ہے لیکن بعد الغروب جا سکتا ہے، اس لئے کی ضرورت اس وقت متحقق ہوگی، اور گھر میں اگر بلاضرورت طعام کے تھوڑی دیر بھی رکا رہاتو اعتکاف فاسد ہو جائے گا اور سحری کا کھانا لانے کے لئے بھی جاسکتاہے، لیکن اس میں بھی اگر گھر میں بلاضرورت طعام کے تھوڑی دیر بھی رکا رہاتو اعتکاف فاسد ہو جائےگا۔ اور اگر کسی ضرورت کی وجہ سے نکلا ہے اور کچھ دیر کے لئے رکا رہا تو امام محمد نے استحسانا عدم فساد اعتکاف کی صراحت کی ہے ۔ (کتاب الاصل للامام الشيبانی۱۸۷ /٢) (النهر الفائق ٤۷/۲)

اعتکاف کی حالت میں موبائل سے بات چیت کرنا

اعتکاف کا مقصد اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا اور اس کی عبادت میں مشغول رہنا ہے، دنیا سے حتی الامکان کٹ کر اللہ تعالیٰ سے لَو لگانا ہے، لہذا معتکف کو چاہیے کہ وہ نماز، تلاوت، ذکر و اذکار، تعلیم و تعلم اور دیگر عبادات میں اپنا زیادہ وقت گزارے، تاہم ضرورت کے وقت اپنی بیوی یا کسی اور شخص سے بذریعہ فون یا میسج گفتگو کرے تو اس کی اجازت ہے، بلاضرورت طویل بات چیت نہ کرے۔ اسی طرح موبائل سے کاروبار کی باتیں کرنا اور موبائل سے عام باتیں کرتا جب کہ اس کی ضرورت ہو جائز ہے۔ (النهر الفائق ٤۸/۲) (التجنيس والمزيد لصاحب الهدایه، ٢/٤٤٤) (عالمگیری ۲۱۳/۱ )

معتکف کے لئے واٹس ایپ اور انٹرنیٹ کے استعمال کا حکم

اعتکاف کا مقصد دنیاوی امور سے یک سو  ہو کر اللہ سے لو لگانا ہے، اس سے مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہوتی ہے، لہذا اعتکاف میں انٹرنیٹ اور واٹس ایپ استعمال کرنے سے حتی الامکان احتراز کیا جائے؛ کیوں کہ اس میں جان دار کی تصاویر سے بچنا بہت مشکل تقریباً ناممکن ہے، اور بہت سی عورتوں اور مردوں کی تصویریں دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی اس سے مسجد کی بے ادبی کے ساتھ اعتکاف کے دوران گناہ بھی ہوگا، 

لہذا  اعتکاف کے دوران واٹس ایپ اور انٹرنیٹ استعمال کرنے سے اگر چہ اعتکاف فاسد نہیں ہوتا، لیکن اس کی روح اور مقصد ضائع ہوجاتا ہے، لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

مسنون اعتکاف کے لئے روزہ

مسنون اعتکاف کیلئے روزہ شرط ہے روزہ کے بغیر صرف نفلی اعتکاف ہی ہے، مسنون اعتکاف نہیں، (فتاویٰ رحیمیہ ج٣ ص ١١٠)

نابالغ بچہ کا اعتکاف

نابالغ لڑکا اگر سمجھدار ہو، نماز کو سمجھتا ہو اور صحیح طریقے سے پڑھتا ہو تو اعتکاف ہو سکتا ہے نفل اعتکاف ہوگا مسنون نہ ہوگا، اگر ناسمجھ ہے تو نہیں بیٹھ سکتا۔ (فتاویٰ رحیمیہ ج٥ ص ٢٠٢)

اجرت دیکر اعتکاف کروانا

اجرت دیکراعتکاف کروانا جائز نہیں کیونکہ عبادات کیلئے اجرت دینا لینا دونوں ناجائزہیں ہاں اگر بغیر اجرت مقرر کئے اعتکاف کرایا اور اعتکاف کراکے اجرت دینا وہاں معروف بھی نہ ہو تو کچھ تحفہ پیش کرنا جائز ہے، (فتاویٰ دارالعلوم ج٦ ص ٥١٢)

دوسری جگہ جمعہ کے لئے جانا

اعتکاف ایسی مسجد میں کرنا بہتر ہے جس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہو، اگر کوئی شخص ایسی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھ گیا ہے جس مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تو چوں کہ جمعہ کی نماز کے لیے جانا شرعی ضرورت ہے؛ اس لیے معتکف جمعہ کی نماز پڑھنے جامع مسجد جاسکتا ہے، اس سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا، البتہ معتکف کو چاہیے کہ ایسے وقت جائے کہ دوسری مسجد میں پہنچ کر خطبہ سے پہلے جمعہ کی سنتیں پڑھ سکے، اور جمعہ کی  نماز کی سنتیں  پڑھ کر جلد واپس آجائے، دیر تک وہاں ٹھہرنا مکروہ ہوگا، لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ ایسی جگہ اعتکاف میں ہوجہاں شرعاً جمعہ واجب ہو، اگر ایسی بستی یا گاؤں میں اعتکاف میں ہو‌ جہاں شرعاً جمعہ ہی واجب نہیں، پھر وہاں سے معتکف کے لیے نکلنا جائز نہیں، اگر نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا نیز جمعے کے لیے جاتے اور آتے ہوئے راستے میں کسی اور کام میں مشغول ہونا یا رکنا جائز نہیں ہوگا۔ لہذا نمازِ جمعہ سے فارغ ہوتے ہی اپنے اعتکاف والی مسجد میں واپس آنا ضروری ہوگا۔ (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، باب الاعتكاف، ١/ ٧٠٢)۔ واللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی 

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا