منگل، 23 فروری، 2021

سیاہ خضاب(کالی مہندی) لگانے کا حکم مفتی آصف گودھروی

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ خضاب کا شرعی حکم کیا ہے؟ نیز سیاہ خضاب کا کیا حکم ہے؟  آج کل بیس، پچیس اور تیس سال کی عمر کے نوجوانوں کے بال سفید ہو جاتے ہیں، کیا نوجوانوں کو کالا خضاب لگانا جائز ہے؟ بعض جواز کا حکم لگاتے ہیں تو بعض عدم جواز کا جس سے صریح بات واضح نہیں ہوتی مدلل و مفصل جواب مطلوب ہے؟

سائل: مولوی احمد سورتی

الجواب بعون الملک الوھاب

اجمالی جواب

سیاہ رنگ کے سوا دوسرے رنگوں کا خضاب علمائے مجتہدین کے نزدیک جائز بلکہ مستحب ہے۔ البتہ خالص سیاہ خضاب کے سلسلہ میں علماء نے جہاد میں دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے اور بیوی اگر جوان ہو تو اس کی دل جمعی کے خاطر اجازت دی ہے اور جہاں دھوکہ اور فریب کے مواقع ہو وہاں فقہاء نے مکروہ تحریمی کا حکم بیان کیا ہے۔جیسے شادی کے لئے کم عمری ظاہر کرنے کے لئےخضاب لگانا وغیرہ وغیرہ۔اور جہاں تک جوانی کا مسئلہ تو اس سلسلہ میں فقہاء نے گنجائش دی ہے۔ کہ وہ سیاہ خضاب یعنی کالی مہندی کا استعمال کریں۔ تفصیلی جواب نیچے مذکور ہے۔

 تفصیلی جواب

سیاہ رنگ کے سوا دوسرے رنگوں کا خضاب علمائے مجتہدین کے نزدیک جائز بلکہ مستحب ہے۔ اورسفید بالوں کورنگنے کاحکم مرد و عورت دونوں کےلئے یکساں ہے یعنی دونوں کے لئےاپنے سفید بالوں کومہندی سے رنگنامستحب ہےاور مہندی میں کتم۔ (یعنی ایک گھاس جو زیتون کے پتوں کےمشابہ ہوتی ہے،جس کا رنگ گہرا سرخ مائل بسیاہی ہوتا ہےاس کی پتیاں ملاکر گہرےسرخ رنگ کا خضاب) تنہامہندی کےخضاب سےبہتر ہے اور زرد رنگ اس سےبھی بہتر ہے ، الجوھرۃالنیرۃمیں ہیں:

وأماخضب الشیب بالحناء،فلابأس بہ للرجال والنساء (الجوھرۃ النیرۃ، کتاب الحظروالاباحۃ،ج٢/٦١٧،مطبوعہ کراچی)
یعنی مردوں اورعورتوں کے لئےسفید بالوں کو مہندی سے رنگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

خالص سیاہ خضاب میں تین صورتیں ہیں

(١)-مجاہدوغازی بوقت جہاد لگائے تاکہ دشمن پر رعب ظاہر ہو یہ باجماع ائمہ واتفاق مشائخ جائز ہے.

لما في العالمگیرية: وأماالخضاب بالسواد فمن فعل ذالک من الغزاة ليكون اهيب في عين العدو فهومحمود منه،اتفق عليه المشائخ رحمهم الله تعالى۔ (عالمگیری کتاب الکرہیت ۲۰ ۳۹۹ ، ج ۵ ) 

(٢)-کسی کو دھوکہ دینے کیلئے سیاہ خضاب کریں ،جیسے مرد عورت کو یا عورت مرد کو دھوکہ دینےاور اپنے آپ کو جوان ظاہر کرنے کیلئے سیاہ خضاب لگائے یاکوئی ملازم اپنے آقا کو دھوکہ دینے کیلئے اس طرح کرے، یہ بالاتفاق ناجائز ہے

(٣)-صرف زینت کی غرض سے خالص سیاہ خضاب لگائے تاکہ اپنی بیوی کو خوش کرے، اس میں اختلاف ہے جمہور ائمہ ومشائخ اس کو مکروہ فرماتے ہیں ،امام ابو یوسف اور دیگر بعض مشائخ جائز قرار دیتے ہیں 

أما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلک من الغزاۃ لیکون أھیب فی عین العدو فھو محمود منہ اتفق علیہ المشائخ و من فعل ذلک لیزین نفسہ للنساء أو لیحبب نفسہ الیھن فذلک مکروہ و علیہ عامۃ المشائخ۔ (عالمگیری: ٥/٣٥٩)

(و یستحب للرجل خضاب شعرہ ولحیتہ ۔ و یکرہ بالسواد ( درمختار) و فی الشامیۃ قولہ یکرہ بالسواد أی بغیر الحرب ۔ وإن لیزین نفسہ للنساء فمکروہ‘ وعلیہ عامۃ المشائخ (کتاب الحظر والإباحۃ‘ باب فی البیع ٦/٤٢٢ ‘ ط سعید)

جوانی میں سیاہ خضاب

 لیکن جوانی  میں بال سفید ہونے کی صورت  میں سیاہ خضاب کے استعمال سےمتعلق عبارات  فقہاء میں کوئی صریح عبارت  مذکور نہیں۔ البتہ بڑھاپے میں سیاہ خضاب کی ممانعت کی جو علت  فقہاء کرام  نے ذکر فرمائی ہے وہ خداع اوردھوکہ ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے  سیاہ خضاب لگائے اس میں اگر چہ قصد خداع کا نہیں لیکن  دیکھنے والے جوان سمجھیں  گے اس لیے ایک طرح کا دھوکہ یا کتمان حقیقت  ہے۔ اس لیےجمہور فقہاء کرام نے مکروہ فرمایا ہے ۔لیکن جوانی  میں سیاہ خضاب لگانے میں کسی قسم کا دھوکہ یا کتمان حقیقت نہیں ہے بلکہ ایک طرح  کا اظہار حقیقت  ہے کیونکہ سیاہ بال اس کی طبعی عمر کا تقاضا ہے اس لیے سیاہ خضاب  کا استعمال جائز معلوم ہوتا ہے  ۔

دوسرا یہ کہ جوانی میں بالوں کا سفید ہونا ایک عیب ہے  اورازالہ عیب شرعاً جائز ہے ۔ جس طرح  جنگ  کلاب میں حضرت  عرفجۃ بن اسعد رضی اللہ عنہ کی ناک  کٹ گئی تھی  انھوں نے  چاندی کی ناک لگائی  جب اس میں بدبو پیدا ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ناک بنوانے کی اجازت مرحمت  فرمائی اس پر قیاس کرتے ہوئے بھی جوانی میں سیاہ خضاب کا استعمال درست معلوم ہوتاہے۔ البتہ سیاہ رنگ جس سے تہ جم جاتی ہے درست نہیں ہے اس لئے کہ وہ مخل وضوء ہے۔

عورت اگر زینت کیلئے اور شوہر کو خوش کرنے کیلئے خالص سیاہ خضاب لگائے تو اس کی گنجائش ہے۔ 

فی تکملة فتح الملہم: اما خضاب المراة شعرھا لتتزین لزوجھافقداجازہ قتادہ ….وکذالک اجازہ اسحاق فیما حکی عنہ (تکملة فتح الملہم ٤:١٤٨)

اب جوانی کا اطلاق کتنی عمر پر ہوتا ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے یوں فتوی دیا ہے کہ جوانی کی عمر میں کالا خضاب لگاسکتے ہیں، عمر کی کوئی تحدید نہیں کی، جبکہ بعض نے چالیس سال کی تحدید کی ہے کہ چالیس سال تک لگاسکتے ہیں، اس کے بعد نہیں۔ گویا جوانی کا معیار یہ ہے کہ جس میں عام طور سے بال سفید نہیں ہوتے”

تاہم بہتر اور احوط یہی ہے کہ جوانی میں بھی کالے خضاب کے علاوہ کسی اور رنگ کا خضاب استعمال کیا جائے، مثلا: سرخ، زرد، سرخی مائل بسیاہ یا گہرا براؤن خضاب استعمال کیا جائے جس کے جائز ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، لیکن اگر کوئی نوجوان کالا خضاب لگالے تو امید ہے کہ گناہ گار نہ ہوگا ۔

احادیث سے موازنہ

اب احادیث شریفہ کے نصوص پر غور کرتے ہے تو دو قسم کی روایات ہمارے سامنے آتی ہیں، بعض روایات تو وہ ہیں جن سے مطلقا جواز ثابت ہوتا ہے اور بعض روایات وہ ہیں جن سے عدم جواز ثابت ہوتا ہے ۔ اس لئے دونوں قسم کی روایات کو جمع کرنے کے بعد ہم کو غور کرنا ہےکہ سیاہ خضاب لگانا حرام،مکروہ تحریمی اورموجب فسق ہے، یا مکروہ  تنزیھی ہے ، جس کی وجہ سے سیاہ خضاب لگانے والے پرفستق کا حکم نہیں لگ سکتا ۔

 پہلی قسم کی روایات امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت سعد ابن ابی وقاص اور حضرت جریر بن عبداللہ البجلی کا عمل نقل فرمایا ہے کہ یہ دونوں حضرات سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح اور عالی سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے ، اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے ۔ نیز حضرت حسن حضرت حسین کا عمل بھی صحیح سند کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ وہ سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے اور امام محمد بن حنفیہ سے سیاہ خضاب لگانے کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو انہوں نے جواب دیا ” لا أعلم به بأسا ‘ ‘ ( اس میں کوئی حرج نہیں ) اور اس موضوع سے متعلق روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔چند روایات نقل کردیتے ہیں۔ 

عن أبي عشانة المعافري قال: رأيت عقبة بن عامر يخضب بالسواد، ويقول نسود أعلاها وتأبى أصولها.( مصنف ابن أبي شيبة، مؤسسة علوم القرآن۵۵۰/۱۳،رقمرقم: ۲۵۵۶۹) 

عن الحسن أنه كان لا يرى بأسا بالخضاب بالسواد.( مصنف ابن أبي شيبة ٥٥٤/۱۲ ، رقم : ۲۵۵۲۳ )

عن قيس مولى خباب قال : دخلت على الحسن، والحسين وهما يخضبان بالسواد (مصنف ابن أبي شیبة١٢/٥٥٤رقم : ۲۵۵۲۰

عن أبي عون قال : كانوا يسألون محمدا عن الخضاب بالسواد ، فيقول: لا أعلم به باسا . (مصنف ابن أبي شيبة ٥٥٤/۱۲، رقم : ۲۰۰۲۶ ) 

عن سعيد بن المسيب أن سعد ابن أبي وقاص كان يخضب بالسواد. (المعجم الكبير للطبراني، دار احیاء التراث العربي ۱۳۸/۱ ، رقم : ۲۹۵) 

عن عامر بن سعدأن سعد،كان يخضب بالسواد، (المعجم الكبير للطبراني ۱۳٨ / ۱ / ۲۹۶، مجمع الزوائد ، دار الكتب العلمية بيروت ۱۹۸/۰ )

دوسری قسم کی روایات جن میں سیاہ خضاب کی ممانعت ہے، ان کی بھی تعداد اچھی خاصی ہے، ان میں سے دو روایتیں ایسی ہیں جن میں کراہت تحریمی کا حکم لگانا ممکن ہے ۔ 

حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے ، جن میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابو قحافہ کے بال کو خضاب لگا کر تغیر کرنے کا حکم کیا گیا ہے، اوران الفاظ سے حضورنے حکم فرمایا :
غيروا هذا بشيئ واجتنبوا السواد . (مسلم شریف ، باب في صبغ الشعر وتغيير الشيب ، النسخة الهندية ۲ / ۱۹۹ ، بیت الأفكار رقم : ۲۱۰۲ ، نسائي شريف ، النهي عن الخضاب بالسواد ، النسخة الهندية ۲۳۹/۲ ، دارالسلام رقم : ۵۰۷۶ )

 دوسری روایت عبد الله ابن عباس کی ہے، جس میں وعید کے الفاظ بھی موجود ہیں،اسمیں الفاظ یہ ہیں:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يكون قوم یخضبون في آخرالزمان بالسواد كحواصل الحمام لايريحون رائحة الجنة . ( أبوداؤد شریف ، باب ماجاء في خضاب السواد ، النسخة الهندية ۵۷۸/۲ ، دار السلام رقم : 4۲۱۲ ، سنن النسائي ، النهي عن الخضاب بالسواد ، النسخة الهندية ۲۳۹/۲ ، دار السلام رقم : ۵۰۷۵ ) 

پہلی روایت میں امر کا صیغہ ہے اور امر کا صیغہ وجوب کے لئے ہوتا ہے ، اور اس میں حضور نے دو جملے امر کے صیغہ کے ساتھ استعال فرمائے ہیں : پہلے جملے میں حضرت ابو قحافہ کے بالوں کو خضاب لگا کر تغیر کرنے کا حکم فرمایا ، دوسرے جملے میں سیاہ خضاب سے اجتناب کا حکم فرمایا ۔ دوسرے جملے سے سیاه خضاب سے اجتناب واجب ہے، لہذا اس کا لگانا حرام یا مکروہ تحریمی ہے، پہلے جملے میں بھی امر سے خطاب ہے جس میں سفید بالوں کو خضاب کے ذریعہ تغییر کرنے کا حکم ہے ، وہ بھی وجوب پرمحمول ہونا چاہئے اس صورت میں سبھی سفید داڑھی والوں پر خضاب لگاناواجب ہوجائےگا، حالانکہ سفیدبال اور سفید داڑھی والوں پر خضاب لگاکر بالوں کی تغییر کے وجوب کا قائل کوئی بھی نہیں ہے، اس لئے امر کے دونوں صیغے ترغیب پرمحمول ہوں گے ، وجوب یاتحریمی پر نہیں ہوسکتے ۔ 

دوسری حدیث شریف میں اس قوم کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جن کو جنت کی بو بھی حاصل نہ ہوگی، اس قوم کی حضور نےپہچان بیان فرمائی ہیں: وہ قوم سیاہ خضاب لگائے گی۔

 اس قوم کی جسمانی کیفیت کبوتروں کے پوٹے کی طرح ہوگی، سیاہ خضاب لگانے کو حضور نے اس قوم کی پہچان قرار دی ہے، وعید کی علت قرارنہیں دی ہے، اورجن حضرات نے اس کو وعید کی علت قراردی ہے، ان کو اس حدیث شریف پر دوبارہ نظر ثانی کرنی چاہئے، ور نہ حضرت سعد ابن ابی وقاص ، حضرت جریر بن عبد اللہ، حضرت عقبہ بن عامر اور حضرت حسن و حضرت حسین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر العیاذ باللہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب اور فسق کا الزام عائد ہوسکتا ہے، جو قطعا درست نہیں ہے۔ (احادیث کا موازنہ فتاوی قاسمیہ جلد٢٣ سے اقتباس شدہ ہے۔

 حضرت امام نووی نے اس بات پراجماع نقل فرمایا ہے کہ ان روایات میں صیغہ امر سے بالاجماع وجوب کاحکم ثابت نہیں ہے ، اور صیغہ نہی سے بالاجماع مکروہ تحریمی یا حرمت کا ثبوت نہیں ہوتاہے ؛ لہذا صرف مکروہ تنزیہی کا حکم ثابت ہوسکتا ہے، علامہ نووی کی عبارت ملاحظہ فرمایئے۔

واختلاف السلف في فعل الأمرين بحسب اختلاف أحوالهم في ذالك مع أن الأمر والنهي في ذالک ليس للوجوب بالإجماع ، ولهذا لم ينكر بعضهم على بعض خلافه في ذالک قال : ولا يجوز أن يقال فيهما ناسخ و منسوخ . (شرح نووي على المسلم ۱۹۹/۲ )

فقط وﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب

آصف بن محمد گودھروی

خادم جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

ہفتہ، 20 فروری، 2021

حجامہ کی تحقیق: مفتی آصف گودھروی

 

سوال

حجامہ کسے کہتے ہیں؟ کیا حجامہ سنت ہے؟ اور حجامہ کی تاریخ یا ایام معین ہو تو اس طرف بھی رہنمائی فرمائیں؛ نیز کس دن کرنا نقصان دہ ہیں اور کس دن مفید اور اس کے فوائد کیا ہے وہ بھی واضح ہوجائے تو مہر بانی ہوگی؟

سائل: اسلم حاجی پاکستانی

الجواب وباللہ التوفیق

اجمالی جواب

انسانی صحت کا دار و مدار جسمانی خون پر ہے اگر خون صحیح ہے تو انسان صحت مند ہے ورنہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس فاسد خون كو حجامہ سے نکالا جاتا ہیں۔

اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم سے حجامہ کروانے کی صورت میں ہر بیماری سے شفاء کی خوش خبری ہے۔حدیث میں وارد ہے۔

عن ابي هريره قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من احتجم  بسبع عشرة واحدي و عشيرين كان شفاء من كل داء

لہذا روايات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ مہینے میں سترہ ، انیس اور اکیس کی تاریخ مفید ہے اور ہفتے میں سوموار، منگل اور جمعرات مفید ہے۔اوراس میں زیادہ مفید وقت کے حساب سے صبح نہار منہ ہے جیسا کہ حدیث سے واضح ہیں۔ البتہ سینگی کسی بھی تاریخ کو اور کسی بھی دن حتی کہ رات میں بھی لگوانا جائز ہے اسی طرح سلف سے ممانعت والے ایام میں بھی سینگی لگوانا ثابت ہے ۔ جمعہ ، ہفتہ ، اتوار اور بدھ کو حجامہ کی ممانعت محض کراہت پر محمول رہے گی ۔

تفصیلی جواب

حجامہ کیا ہے ؟ 

حجامہ عربی زبان کے لفظ حجم سے نکلا ہے جس کے معنی کھینچنا/چوسنا ہے۔ جسےاردومیں سینگی اور پچھنا کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں مختلف حصوں کی کھال سے تھوڑا سا خون نکالا جاتا ہے ۔ 

انسانی صحت کا دار و مدار جسمانی خون پر ہے اگر خون صحیح ہے تو انسان صحت مند ہے ورنہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ خون کوئی لٹرز کے حساب سے نہیں نکلتا یاد رکھیے کہ حجامہ میں صرف جلد کی اوپر والی کچھ چمڑی کو کٹ لگایا جاتاہے اس کے نیچے والے حصے تک بھی نہیں جانے دیا جاتا بیماریاں اس فاسد خون کے ساتھ نکل جاتی ہیں ۔ 

نیز حجامہ ایک قدیم علاج ہے۔جسم کے لئے بہت مفید علاج ہے ۔ اس علاج میں جسم سے فاسد خون نکالا جاتا ہے ، اس کے ذریعہ جسم کو مختلف بیماریوں سے نجات کے علاوہ بدن کو مکمل راحت وسکون ملتا ہے  اس میں شفا ہے اور بہترین طریقہ علاج ہے  اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد اور ملائکہ کا تجویز کردہ ہے اس قدیم طریقہ علاج میں جسم کے مختلف مقامات سے فاسد خون نکال کر مختلف بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔

 حضرت محمد ﷺ نے حجامہ لگانے کو افضل عمل قرار دیا ہے ۔ حجامہ سنت ہے نبی ﷺ کا فرمان ہے : عن ابي هريرة ان رسول الله صل الله علیہ وسلم ان كان في شئ مماتداويتم به خير فالحجامة(ابو داؤد شريف) يعني بہترین علاج جو تم کرتے ہو وہ پچھنا لگوانا ہے ۔

 یہی وجہ ہے کہ اسراء کی رات فرشتوں نے اس طریقہ علاج کو لازم پکڑنے کا حکم دیا تھا ۔ ابن ماجہ میں نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما مررت ليلة أسري بي بملا من الملائكة إلا كلهم يقول لي عليك يا محمد بالحجامة (ابن ماجه)معراج کی رات میرا گزر فرشتوں کی جس جماعت پر بھی ہوا اس نے یہی کہا : محمد آپ پچھنے کو لازم کرلیں ۔ آنحضرت سے متعدد بار حجامہ کرانا ثابت ہے ۔ مثلا سنن ابی دائود ، سنن ابی ماجہ اور جامع الترمذی وغیرہ کی روایات سے آپ کا سر مبارک پر ، دونوں کندھوں کے درمیان ، کولہے پر اور گردن کی دونوں رگوں وغیرہ میں پچھنے لگوانا ثابت ہے ۔ 

عن أبي كبشة الانمارى قال كثىر أنه حدثه ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يحتجم على هامته و بين كتفيه وهو يقول من اهرق من هذه الدماء فلا يضره ان لايتداوى بشيء لشيء(ابو داؤد شريف)

تاریخ اور دن کی وضاحت

کون سی تاریخ کو اور کس کس دن حجامہ لگوانا چاہئے تو اس سلسلے میں بہت ساری روایات آئی ہیں ان میں اکثر میں ضعف ہے۔ تاریخ سے متعلق ایک حسن روایت یہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : من احتجم لسبع عشرة ، وتسع عشرة ، وإحدى وعشرين ، كان شفاء من كل داء ترجمہ : جو سترہویں ، انیسویں ، اور اکیسویں تاریخ کو پچھنا لگوائے تو اسے ہر بیماری سے شفا ہوگی۔ البتہ احادیث میں بدھ اور سنیچر میں حجامہ کو ناپسند کیا ہے۔

وعن ابن عباس - رضی اللہ عنہما - أن النبی - صلی اللہ علیہ وسلم- کان یستحب الحجامة لسبع عشرة، وتسع عشرة وإحدی وعشرین . رواہ فی شرح السنة.

وعن أبی ہریرة - رضی اللہ عنہ - عن رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - قال: " من احتجم لسبع عشرة وتسع عشرة وإحدی وعشرین کان شفاء لہ من کل داء․ رواہ أبو داود.

وعن الزہری مرسلا، عن النبی - صلی اللہ علیہ وسلم: من احتجم یوم الأربعاء، أو یوم السبت، فأصابہ وضح فلا یلومن إلا نفسہ․ رواہ أحمد، وأبو داود، وقال: وقد أسند ولا یصح. (مشکاة شریف: ص۳۸۹، کتاب الطب والرقی)

اور دن سے متعلق ایک حسن درجے کی روایت یہ ہے۔ الحجامة على الريق أمثل ، وهي تزيد في العقل ، وتزيد في الحفظ ، وتزيد الحافظ حفظا ، فمن كان محتجفا ، فيوم الخميس ، على اسم الله ، واجتنبوا الحجامة يوم الجمعة ، ويوم السبت ، واحتجموا يوم الاثنين ، والثلاثاء ، واجتنبوا الحجامة يوم الأربعاء ، فإنه اليوم الذي أصيب فيه أيوب بالبلاء ، وما يبدو جذام ، ولا برض إلا في يوم الأربعاء ، أو ليلة الأربعاء ( ابن ماجه )

 ترجمہ : نہار منہ سینگی لگوانا زیادہ مفید ہے ، اس سے عقل میں اضافہ اور حافظہ تیز ہوتا ہے اور اچھی یادداشت والے کی یاد داشت بھی زیادہ ہوجاتی ہے ۔ جس نے سینگی لگوانے ہو وہ اللہ کا نام لے کر جمعرات کو لگوائے ۔ جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کو سینگی لگوانے سے اجتناب کرو . سوموار اور منگل کو سینگی لگوالیا کرو ۔ بدھ والے دن بھی سینگی لگوانے سے بچو کیونکہ ایوب علیہ السلام کو اسی دن آزمائش آئی تھی ۔ جذام اور برص صرف بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں ظاہر ہوتا ہے ۔ 

یہ روایت اس سند سے ضعیف ہے مگر متابعات کی وجہ سے البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے ۔ 

لہذا مہینے میں ستره ، انیس اور اکیس کی تاریخ مفید ہے اور ہفتے میں سوموار ، منگل اور جمعرات مفید ہے۔ البتہ سینگی ضرورت کے وقت بلا تعیین وقت بھی لگا سکتے ہیں۔لہذا  تکلیف کی صورت میں آپ کسی وقت بھی حجامہ کروا سکتے ہیں اور یہ ہی بہترین بات ہے۔جیسے کہ ابن قیم کی عبارت سے مترشح ہوتا ہے

زادالمعاد میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"وهذه الأحاديث موافقة لما أجمع عليه الأطباء أن الحجامة في النصف الثاني وما يليه من الربع الثالث من أرباعه أنفع من أوله وآخره، وإذا استعملت عند الحاجة إليها نفعت أي وقت كان من أول الشهر وآخره. قال الخلال: أخبرني عصمة بن عصام قال: حدثنا حنبل قال: كان أبو عبد الله أحمد بن حنبل يحتجم أي وقت هاج به الدم وأي ساعة كانت". (4/53بیروت)

اطباء کی آراء

میڈیکل سائنس بھی آج اس کے بے شمار فوائد کا ذکرکرتا ہے۔ اس کے کچھ فوائد ملاحضہ فرمائیں 

(١)-خون صاف کرتا ہے،حرام مغز کو فعال بناتا ہے اور شریانوں(وہ رگ جو دل سے بدن میں خون پہنچاتی ہے)  پر اچھا اثر ڈالتا ہے۔

اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم سے حجامہ کروانے کی صورت میں ہر بیماری سے شفاء کی خوش خبری ہے۔حدیث میں وارد ہے۔

عن ابي هريره قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من احتجم  بسبع عشرة واحدي و عشيرين كان شفاء من كل داء


(٢)-پٹھوں کے اکڑاؤ کو ختم کرنے کے لیے مفید ہے۔

(٣)-دمہ اور پھیپھڑوں کے امراض کے لیے مفید ہے۔

(٤)-سر درد، سر اور چہروں کے پھوڑوں، درد شقیقہ اور دانتوں کے درد کو آرام دیتا ہے۔

(٥)-آنکھوں کی بیماریوں میں مفید ہے ۔

(٦)-رحم کی بیماریوں اور ماہواری کے بند ہوجانے کی تکالیف اور ترتیب سے آنے کے لیے مفید ہے۔

(٧)-گھٹیا، عرق النساء (ایک رگ کا نام جو سرین سے ٹخنے تک جاتی ہے) اور نقرس (پانؤں کے انگوٹھے کے درد کا نام ، ایک قسم کے شدید درد کا نام جو پیروں کی انگلیوں اور ٹخنوں میں ہوتا ہے اور ہاتھ یا پانؤں میں سوجن بھی ہو جاتی ہے،جوڑوں کا درد) کے دردوں میں مفید ہے۔

(٨)-فشار خون (خون کا دباؤ ، بلڈ پریشر) میں آرام پہنچاتا ہے۔

(٩)-کندھوں، سینہ اور پیٹھ کے درد میں مفید ہے۔

(١٠)-کاہلی، سستی اور زیادہ نیند آنے کی بیماریوں میں مفید ہے۔

(١١)-ناسور،(سوراخ دار زخم جس سے ہمیشہ مواد بہتا رہے اور جو کبھی اچھا نہ ہو ۔)دنبل،(دل دار پھوڑا ، پھوڑا،) مہاسوں (چھوٹی پھنسی جو ایام شباب میں نوجوانوںکے رخساروں پر نکل آتی ہے ، وہ دانہ جو گال یا چہرے پر زیادہ تر عنفوانِ شباب میںجوشِ خون سے نکل آتا ہے ؛ ( مجازاً) دوسرے اعضائے جسم کا چھوٹا سا دانا ۔) اور خارش میں مفید ہے۔

(١٢)-دل کے غلاف اور ورمِ گردہ میں مفید ہے۔

(١٣)-الرجی(کسی شے کے استعمال یا کسی خاص حالت سے ناسازگار اثر لینے کی کیفیت ، بہت زیادہ حساس ہونے کی صلاحیت ، زود حسیت(جو ایک اعصابی بیماری ہے) میں مفید ہے۔(یہ فوائد میں نے مختلف اطباء سے دریافت کرکے تحریر کئیے ہیں)

لہذاجسم کے کسی بھی حصہ میں درد ہو تو اس جگہ پچھنا لگانے سے فائدہ ہوگا۔صحت یاب لوگ بھی حجامہ کرا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ سنت ہے اور اس میں بیماریوں سے روک ہے

فقط والسلام:واللہ اعلم بالصواب

العارض‌: مفتی آصف بن محمد گودھروی 

خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا


اتوار، 14 فروری، 2021

زانیہ کے حد واستبراء کا حکم مفتی آصف بن محمد صاحب گودھروی

 

سوال

جمہوری ملک میں اگر کسی شادی شدہ عورت نے زنا کروایا اور وہ تصدیق بھی کرتی ہے اور اس سلسلہ کو دارالقضاء میں بھیج دیا جائے تو اس کی کیا سزا طےہوگی۔ اگر شوہر عورت کو اپنے نکاح میں باقی رکھنا چاہے توکیا وہ عورت استبراء کرے گی۔ مثلا زید کی بیوی زینب نے خالد سے زنا کروایا تو جمہوری ملک کے دارالقضاء میں زینب کی کیا سزا ہوگی؟ اگر زید زینب کو اپنے نکاح میں باقی رکھنا چاہتا ہے تو کیا زینب پر استبراء ہوگا یا نہیں؟

جواب شافی وکافی دیکر عنداللہ ماجور و ممنون ہو۔

سائل: مستقیم ہردیواسنا

١٤.٢.٢٠٢١ بروز اتوار

متعلم:عالیہ رابعہ جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا  


باسمہ سبحانہ وتعالی

الجواب وبا اللہ التوفیق

کسی بھی جگہ زنا وغیرہ کی حدود قائم کرنے کے لیے دو شرطیں ہیں۔

(۱) دارالاسلام (اسلامی حکومت) کا ہونا۔

(۲) امام المسلمین یا شرعی قاضی وحاکم کا ہونا۔ یعنی حاکم یا قاضی کے حکم سے ہی حدود وقصاص جاری ہوں گے ہرآدمی کو اس کا اختیار نہیں ہے، اور ہندوستان میں اسلامی حکومت نہیں ہے اس لیے یہاں کوئی شخص کسی پر زنا کی حد جاری نہیں کرسکتا۔ 

”الحد عقوبة مقدرة تجب حقا للہ تعالیٰ قولہ ”تجب“ علی الإمام إقامتہا یعني بعد ثبوت السبب عندہ (مجمع الانہر: ۲/۳۳۲)

 وزاد صاحب البحر: قولہ: في دارالاسلام لأنہ لا حد في الوطئ في دار الحرب․ المصدر السابق: ۲/۳۳ ۳، مکتبہ فقیہ الامت دیوبند۔ إذا سألہم الإمام أو نائبہ أو القاضي․ المصدر السابق: ۲/ ۳۳۳۔

نیز یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس نے زنا کروایا ہے اس لئے سب سے پہلے وہ اللہ سے خلوص دل سے توبہ کریں اور جہاں تک استبراء  کی بات ہے تواس سلسلہ میں  درمختار کا رجحان لزوم استبراء کا ہے۔

وفي شرح الوهبانية : لو زنت المرأة لا يقربها زوجها حتى تحيض لاحتمال علوقها من الزنا فلا يسقي ماؤه زرع غيره ، فليحفظ الغرابته۔۔

لیکن علامہ شامی نے اس قول کی تضعیف بیان  کرتے ہوۓ شیخین کے قول عدم لزوم استبراء کا ذکر کیا ہے اور امام محمد کے عدم إحباب وطی کے قول کو ذکر کیا ہے

( قوله : والمزني بها لا تحرم على زوجها فله وطؤها بلا استبراء عندهما . وقال محمد : لا أحب له أن يطأها ما لم يستبرئها كما مر في فصل المحرمات ( قوله : لا يقربها زوجها ) أي يحرم عليه وطؤها حتى تحيض وتطهر كما صرح به شارح الوهبانية وهذا يمنع من حمله على قول محمد لأنه يقول بالاستحباب ، كذا قاله المصنف في المنح في فصل المحرمات وقدمنا عنه أن ما في شرح الوهبانية ذكره في النتف وهو ضعيف ،

خلاصہ

ہندوستان دارالاسلام نہ ہونے کی وجہ سے حدود کا صدور نہیں ہوگا لیکن توبہ واستغفار لازم ہے اورایسی صورت میں علامہ شامی کی وضاحت کی بناپر استبراء بھی لازم نہیں ہے البتہ امام محمد نے ایسی حالت میں وطی کو پسند نہیں کیا ہے  چونکہ رحم میں ماۓ غیر کی موجود گی میں وطی درست نہیں ہوتی ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ 

وعَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَن النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ والْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ (أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، والتِّرْمِذِيُّ، وصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وحَسَّنَهُ الْبَزَّارُ)

اس لۓ زوج کے لئے استبراء سے پہلے وطی سے اجتناب بہتر ہے۔

فقط والسلام: واللہ اعلم بالثواب

العارض: آصف گودھروی

خادم جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

بدھ، 10 فروری، 2021

اقسام مہر: مفتی آصف گودھروی

 

سوال

مہر کی تعریف و حکم کیا ہے؟ مہر کی کتنی قسمیں ہیں؟ مہر فاطمی کی مقدار فی زماننا کیا ہے؟ اسی طرح مہر ام حبیبہ کسے کہتے ہیں واضح فرمائیں؟نیز احناف کے یہاں مہر کی اقل مقدار کی بھی وضاحت فرمائیں؟

سائل: انس بومبئ

متعلم:جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا


الجواب: وباللّٰہ التوفیق:

باسمہ سبحانہ وتعالی

مہرکی تعریف

عقد نکاح کی وجہ سے شوہر کو بیوی سے جماع کرنے کا حق اور ایک طرح کی ملکیت حاصل ہوتی ہے، مہر اسی حق و ملکیت کے معاوضہ کا نام ہے، جس کی ادائیگی شوہر پر شرعاً لازم ہے،

اسم للمال الذي یجب في النکاح علی الزوج في مقابلة البضع الخ کذا في الشامي: ج۴ ص۲۲۰،

حکم

نکاح کی وجہ سے شوہر کو بیوی پر ایک طرح کی ملکیت حاصل ہوتی ہے، لہٰذا بیوی کو اس ملکیت کے بدلے مال دلایا جاتا ہے، اس لیے کہ عورت محترم ہے اور بغیر معاوضہ کے اس پر کوئی حق ثابت کرنے میں اس کی اہانت ہے۔ قال في الھدایة: ولأنہ حق الشرع وجوبًا إظھارًا لشرف المحل الخ․ ج۲ ص۳۲۴،

لہذا مہر کی ادائیگی شوہرپر لازم اور ضروری ہے۔ قال تعالیٰ: اَن تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ (النساء:۲۴) بہتر یہ ہے کہ بیوی سے پہلی ملاقات کے وقت مہر اس کے حوالہ کردی جائے۔ اس کا بھی رواج ہے کہ نکاح کے وقت مہر بیوی کے ولی کو حوالہ کردیا جاتا ہے اور ولی منکوحہ کو وہ مہر پہنچادیتا ہے، یہ طریقہ بھی اچھا ہے۔

مہر کی اقسام

عہد نبوی اور دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں چار قسم کے مہروں کا ثبوت ملتا ہے اور یہ چاروں قسمیں آدمی کی مالی حیثیت کے اعتبار سے ہیں 

١- مہر ام سلمة

سب سے کم مہر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا تھا، مہر میں دس درہم ہے۔جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مہر کے حضرت ام سلمة رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائے ہیں ، جس کا وزن موجودہ گراموں کے اعتبار سے ٣٠گرام ٦١٠ ملی گرام چاندی ہے یعنی دس گرام کے تولہ سے تین تولہ اور ٦۱٠ ملی گرام چاندی ہے ، اس کی قیمت بازار سے معلوم کی جائے ۔ ( مستفاد : انوار نبوت ص۶۵۱ ج۲ ) اور ایک روایت کے مطابق ۴۰/ درہم کا کچھ سامان تھا، 

شرح زرقانی (۴/۴۰۱) میں ہے: قال ابن اسحاق: وأصدقہا فراشًا حشوہ لیف وقدحا وصحفة ومجشة انتہی، قال في الروض: وہي الرحی ومنہ سمي الحشیش وذکر معہا أشیاء لا تعرف قیمتہا منہا جفنة وفراش وفي مسند البزار قال أنس: أصدقہا متاعا قیمتہ عشرة دراہم، قال البزار: ویروی أربعون درہما انتہی یہ حضرت ام المؤمنین ام سلمة رضي اللہ عنہا کا مہر ہے، 

٢- مہر فاطمی

اس کی مقدار صحیح قول کے مطابق ۵۰۰ درہم ہے ، جس کا وزن موجودہ گراموں کے حساب سے١٥٣٠گرام چاندی ہے ۔

٣- ام حبیبہ

 ازواجِ مطہرات میں سب سے زیادہ مہر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے نجاشی بادشاہ نے ادا کیا تھا، اس کی مقدار راجح قول کے مطابق چار سو دینار تھی المواہب اللدنیہ (مع شرح الزرقاني: ۴/۴۰۴ ط دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان) میں ہے: وأصدقہا عنہ أربع مائة دینار“ اور آگے ص:۴۰۵ پر نجاشی کے الفاظ میں ہے: وقد أصدقتہا عنہ أربع مائة دینار“ اور شرح زرقانی میں ہے: ”وقد أصدقتُہا عنہ أربع مائة دینار“ کما في المستدرک وغیرہ، قال في العیون: وہو أثبت اھ، اس کی مقدار چار ہزار درہم ہے ، جو مہر فاطمی کے 8 گنا ہے ، جس کا وزن موجودہ گراموں کے حساب ۱۲ کلو ۲۶۶ گرام 944 ملی گرام چاندی ہے ، اس کی قیمت بھی بازار سے معلوم کرلیں ۔عن أم حبیبۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہا کانت تحت عبید اللّٰہ بن جحش فمات بأرض الحبشۃ، فزوجہا النجاشي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأمہرہا عنہ أربعۃ آلاف، وبعث بہا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع شرحبیل ابن حسنۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۸۷، سنن النسائي ۲؍۸۷،) 

٤- مهر ام كلثوم

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی ، حضرت علی و فاطمہ کی بیٹی، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم کے عوض میں نکاح فرمایا ہے ، جس کی مقدار مہر فاطمی کے اسی گنا اور مہر ام حبیبہ کے دس گنا ہوتی ہے ۔  تزوج عمر أم كلثوم رضی اللہ عنه على مہر أربعين ألفا. (الاصابة ، دارالکتب العلمية بيروت ۸/۴۶۶ ) أن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ أصدق أم كلثوم بنت علي أربعين ألف درہم ۔ ( السنن الکبری جدید ۱۱ / ۶ ، نسخة قدیم ۲/۲۳۳ ، رقم : ۱۴۶۹۰ ) ( فتاوی قاسمیہ ۹۳۶/۱۳ )

خلاصہ

واضح رہے کہ مہر سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ فرمودات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مہر کی مقدار اتنی کم بھی نہ ہونی چاہیے کہ بالکل غیرمحسوس ہو اور بہت زیادہ مقدار میں بھی مہر مقرر کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مہر میں غلو نہ کرو، اگر مہر کا زیادہ رکھنا دنیا میں عزت اور اللہ کے نزدیک تقویٰ کی بات ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق تھے، 

قال عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: ألا لا تغالوا صدقۃ النساء؟ فإنہا لو کانت مکرمۃ في الدنیا، أو تقوی عند اللّٰہ لکان، أولاکم بہا نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ما علمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نکح شیئا من نسائہ ولا أنکح شیئا من بناتہ علی أکثر من ثنتي عشرۃ أوقیۃ۔

(سنن الترمذي ۱؍ ۲۱۱، سنن أبي داؤد ۱؍۲۸۷)

اسی وجہ سے احناف کے نزدیک مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم (تقریباً ٣٠گرام اور٦٠ ملی گرام چاندی) ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہر دس درھم سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ اور زیادہ مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔ 

عن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم تزوج أم سلمۃ علی متاع بیت قیمتہ عشرۃ دراہم۔ (المعجم الأوسط ۱؍۲۸۶، رقم: ۴۶۷)

 ﻭﺭﻭﻱ ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ - ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ - ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: «ﻻ ﻣﻬﺮ ﺩﻭﻥ ﻋﺸﺮﺓ ﺩﺭاﻫﻢ» ، ﻭﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﻭﻋﻠﻲ ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ - ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻢ - ﺃﻧﻬﻢ ﻗﺎﻟﻮا: ﻻ ﻳﻜﻮﻥ اﻟﻤﻬﺮ ﺃﻗﻞ ﻣﻦ ﻋﺸﺮﺓ ﺩﺭاﻫﻢ، ﻭاﻟﻈﺎﻫﺮ ﺃﻧﻬﻢ ﻷﻧﻪ ﺑاﺏ ﻻ ﻳﻮﺻﻞ ﺇﻟﻴﻪ ﺑﺎﻻﺟﺘﻬﺎﺩ ﻭاﻟﻘﻴﺎﺱ؛ ﻭﻷﻧﻪ ﻟﻤﺎ ﻭﻗﻊ اﻻﺧﺘﻼﻑ ﻓﻲ اﻟﻤﻘﺪاﺭ ﻳﺠﺐ اﻷﺧﺬ ﺑﺎﻟﻤﺘﻴﻘﻦ ﻭﻫﻮ اﻟﻌﺸﺮﺓ.(بدائع الصنائع ج : 2، ص : 276، ط : دارالکتب العلمیة)(کذا فی فتاوی محمودیہ، ج : 17، ص : 271، ط : دارالاشاعت)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

 خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا