زانیہ کے حد واستبراء کا حکم مفتی آصف بن محمد صاحب گودھروی
سوال
جمہوری ملک میں اگر کسی شادی شدہ عورت نے زنا کروایا اور وہ تصدیق بھی کرتی ہے اور اس سلسلہ کو دارالقضاء میں بھیج دیا جائے تو اس کی کیا سزا طےہوگی۔ اگر شوہر عورت کو اپنے نکاح میں باقی رکھنا چاہے توکیا وہ عورت استبراء کرے گی۔ مثلا زید کی بیوی زینب نے خالد سے زنا کروایا تو جمہوری ملک کے دارالقضاء میں زینب کی کیا سزا ہوگی؟ اگر زید زینب کو اپنے نکاح میں باقی رکھنا چاہتا ہے تو کیا زینب پر استبراء ہوگا یا نہیں؟
جواب شافی وکافی دیکر عنداللہ ماجور و ممنون ہو۔
سائل: مستقیم ہردیواسنا
١٤.٢.٢٠٢١ بروز اتوار
متعلم:عالیہ رابعہ جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
باسمہ سبحانہ وتعالی
الجواب وبا اللہ التوفیق
کسی بھی جگہ زنا وغیرہ کی حدود قائم کرنے کے لیے دو شرطیں ہیں۔
(۱) دارالاسلام (اسلامی حکومت) کا ہونا۔
(۲) امام المسلمین یا شرعی قاضی وحاکم کا ہونا۔ یعنی حاکم یا قاضی کے حکم سے ہی حدود وقصاص جاری ہوں گے ہرآدمی کو اس کا اختیار نہیں ہے، اور ہندوستان میں اسلامی حکومت نہیں ہے اس لیے یہاں کوئی شخص کسی پر زنا کی حد جاری نہیں کرسکتا۔
”الحد عقوبة مقدرة تجب حقا للہ تعالیٰ قولہ ”تجب“ علی الإمام إقامتہا یعني بعد ثبوت السبب عندہ (مجمع الانہر: ۲/۳۳۲)
وزاد صاحب البحر: قولہ: في دارالاسلام لأنہ لا حد في الوطئ في دار الحرب․ المصدر السابق: ۲/۳۳ ۳، مکتبہ فقیہ الامت دیوبند۔ إذا سألہم الإمام أو نائبہ أو القاضي․ المصدر السابق: ۲/ ۳۳۳۔
نیز یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس نے زنا کروایا ہے اس لئے سب سے پہلے وہ اللہ سے خلوص دل سے توبہ کریں اور جہاں تک استبراء کی بات ہے تواس سلسلہ میں درمختار کا رجحان لزوم استبراء کا ہے۔
وفي شرح الوهبانية : لو زنت المرأة لا يقربها زوجها حتى تحيض لاحتمال علوقها من الزنا فلا يسقي ماؤه زرع غيره ، فليحفظ الغرابته۔۔
لیکن علامہ شامی نے اس قول کی تضعیف بیان کرتے ہوۓ شیخین کے قول عدم لزوم استبراء کا ذکر کیا ہے اور امام محمد کے عدم إحباب وطی کے قول کو ذکر کیا ہے
( قوله : والمزني بها لا تحرم على زوجها فله وطؤها بلا استبراء عندهما . وقال محمد : لا أحب له أن يطأها ما لم يستبرئها كما مر في فصل المحرمات ( قوله : لا يقربها زوجها ) أي يحرم عليه وطؤها حتى تحيض وتطهر كما صرح به شارح الوهبانية وهذا يمنع من حمله على قول محمد لأنه يقول بالاستحباب ، كذا قاله المصنف في المنح في فصل المحرمات وقدمنا عنه أن ما في شرح الوهبانية ذكره في النتف وهو ضعيف ،
خلاصہ
ہندوستان دارالاسلام نہ ہونے کی وجہ سے حدود کا صدور نہیں ہوگا لیکن توبہ واستغفار لازم ہے اورایسی صورت میں علامہ شامی کی وضاحت کی بناپر استبراء بھی لازم نہیں ہے البتہ امام محمد نے ایسی حالت میں وطی کو پسند نہیں کیا ہے چونکہ رحم میں ماۓ غیر کی موجود گی میں وطی درست نہیں ہوتی ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔
وعَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَن النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ والْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ (أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، والتِّرْمِذِيُّ، وصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وحَسَّنَهُ الْبَزَّارُ)
اس لۓ زوج کے لئے استبراء سے پہلے وطی سے اجتناب بہتر ہے۔
فقط والسلام: واللہ اعلم بالثواب
العارض: آصف گودھروی
خادم جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
2 تبصرے:
اور بہت خوب ماشاءاللہ بس ایک چیز بڑہا دے کہ زانی اور زانیہ کی تفصیلات بھی ذکر کریں چونکہ زانیہ کے بدلنے
سے بقاء نکاح کا حکم بدلے گا مثلا زانیہ شوہر کے محارم یا جمع بین الاختین کی قبیل سے ہے تو نکاح کا حکم بدلے گا
ماشااللہ
ایک تبصرہ شائع کریں