سیاہ خضاب(کالی مہندی) لگانے کا حکم مفتی آصف گودھروی
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ خضاب کا شرعی حکم کیا ہے؟ نیز سیاہ خضاب کا کیا حکم ہے؟ آج کل بیس، پچیس اور تیس سال کی عمر کے نوجوانوں کے بال سفید ہو جاتے ہیں، کیا نوجوانوں کو کالا خضاب لگانا جائز ہے؟ بعض جواز کا حکم لگاتے ہیں تو بعض عدم جواز کا جس سے صریح بات واضح نہیں ہوتی مدلل و مفصل جواب مطلوب ہے؟
سائل: مولوی احمد سورتی
الجواب بعون الملک الوھاب
اجمالی جواب
سیاہ رنگ کے سوا دوسرے رنگوں کا خضاب علمائے مجتہدین کے نزدیک جائز بلکہ مستحب ہے۔ البتہ خالص سیاہ خضاب کے سلسلہ میں علماء نے جہاد میں دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے اور بیوی اگر جوان ہو تو اس کی دل جمعی کے خاطر اجازت دی ہے اور جہاں دھوکہ اور فریب کے مواقع ہو وہاں فقہاء نے مکروہ تحریمی کا حکم بیان کیا ہے۔جیسے شادی کے لئے کم عمری ظاہر کرنے کے لئےخضاب لگانا وغیرہ وغیرہ۔اور جہاں تک جوانی کا مسئلہ تو اس سلسلہ میں فقہاء نے گنجائش دی ہے۔ کہ وہ سیاہ خضاب یعنی کالی مہندی کا استعمال کریں۔ تفصیلی جواب نیچے مذکور ہے۔
تفصیلی جواب
سیاہ رنگ کے سوا دوسرے رنگوں کا خضاب علمائے مجتہدین کے نزدیک جائز بلکہ مستحب ہے۔ اورسفید بالوں کورنگنے کاحکم مرد و عورت دونوں کےلئے یکساں ہے یعنی دونوں کے لئےاپنے سفید بالوں کومہندی سے رنگنامستحب ہےاور مہندی میں کتم۔ (یعنی ایک گھاس جو زیتون کے پتوں کےمشابہ ہوتی ہے،جس کا رنگ گہرا سرخ مائل بسیاہی ہوتا ہےاس کی پتیاں ملاکر گہرےسرخ رنگ کا خضاب) تنہامہندی کےخضاب سےبہتر ہے اور زرد رنگ اس سےبھی بہتر ہے ، الجوھرۃالنیرۃمیں ہیں:
وأماخضب الشیب بالحناء،فلابأس بہ للرجال والنساء (الجوھرۃ النیرۃ، کتاب الحظروالاباحۃ،ج٢/٦١٧،مطبوعہ کراچی)
یعنی مردوں اورعورتوں کے لئےسفید بالوں کو مہندی سے رنگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
خالص سیاہ خضاب میں تین صورتیں ہیں
(١)-مجاہدوغازی بوقت جہاد لگائے تاکہ دشمن پر رعب ظاہر ہو یہ باجماع ائمہ واتفاق مشائخ جائز ہے.
لما في العالمگیرية: وأماالخضاب بالسواد فمن فعل ذالک من الغزاة ليكون اهيب في عين العدو فهومحمود منه،اتفق عليه المشائخ رحمهم الله تعالى۔ (عالمگیری کتاب الکرہیت ۲۰ ۳۹۹ ، ج ۵ )
(٢)-کسی کو دھوکہ دینے کیلئے سیاہ خضاب کریں ،جیسے مرد عورت کو یا عورت مرد کو دھوکہ دینےاور اپنے آپ کو جوان ظاہر کرنے کیلئے سیاہ خضاب لگائے یاکوئی ملازم اپنے آقا کو دھوکہ دینے کیلئے اس طرح کرے، یہ بالاتفاق ناجائز ہے
(٣)-صرف زینت کی غرض سے خالص سیاہ خضاب لگائے تاکہ اپنی بیوی کو خوش کرے، اس میں اختلاف ہے جمہور ائمہ ومشائخ اس کو مکروہ فرماتے ہیں ،امام ابو یوسف اور دیگر بعض مشائخ جائز قرار دیتے ہیں
أما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلک من الغزاۃ لیکون أھیب فی عین العدو فھو محمود منہ اتفق علیہ المشائخ و من فعل ذلک لیزین نفسہ للنساء أو لیحبب نفسہ الیھن فذلک مکروہ و علیہ عامۃ المشائخ۔ (عالمگیری: ٥/٣٥٩)
(و یستحب للرجل خضاب شعرہ ولحیتہ ۔ و یکرہ بالسواد ( درمختار) و فی الشامیۃ قولہ یکرہ بالسواد أی بغیر الحرب ۔ وإن لیزین نفسہ للنساء فمکروہ‘ وعلیہ عامۃ المشائخ (کتاب الحظر والإباحۃ‘ باب فی البیع ٦/٤٢٢ ‘ ط سعید)
جوانی میں سیاہ خضاب
لیکن جوانی میں بال سفید ہونے کی صورت میں سیاہ خضاب کے استعمال سےمتعلق عبارات فقہاء میں کوئی صریح عبارت مذکور نہیں۔ البتہ بڑھاپے میں سیاہ خضاب کی ممانعت کی جو علت فقہاء کرام نے ذکر فرمائی ہے وہ خداع اوردھوکہ ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے سیاہ خضاب لگائے اس میں اگر چہ قصد خداع کا نہیں لیکن دیکھنے والے جوان سمجھیں گے اس لیے ایک طرح کا دھوکہ یا کتمان حقیقت ہے۔ اس لیےجمہور فقہاء کرام نے مکروہ فرمایا ہے ۔لیکن جوانی میں سیاہ خضاب لگانے میں کسی قسم کا دھوکہ یا کتمان حقیقت نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا اظہار حقیقت ہے کیونکہ سیاہ بال اس کی طبعی عمر کا تقاضا ہے اس لیے سیاہ خضاب کا استعمال جائز معلوم ہوتا ہے ۔
دوسرا یہ کہ جوانی میں بالوں کا سفید ہونا ایک عیب ہے اورازالہ عیب شرعاً جائز ہے ۔ جس طرح جنگ کلاب میں حضرت عرفجۃ بن اسعد رضی اللہ عنہ کی ناک کٹ گئی تھی انھوں نے چاندی کی ناک لگائی جب اس میں بدبو پیدا ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ناک بنوانے کی اجازت مرحمت فرمائی اس پر قیاس کرتے ہوئے بھی جوانی میں سیاہ خضاب کا استعمال درست معلوم ہوتاہے۔ البتہ سیاہ رنگ جس سے تہ جم جاتی ہے درست نہیں ہے اس لئے کہ وہ مخل وضوء ہے۔
عورت اگر زینت کیلئے اور شوہر کو خوش کرنے کیلئے خالص سیاہ خضاب لگائے تو اس کی گنجائش ہے۔
فی تکملة فتح الملہم: اما خضاب المراة شعرھا لتتزین لزوجھافقداجازہ قتادہ ….وکذالک اجازہ اسحاق فیما حکی عنہ (تکملة فتح الملہم ٤:١٤٨)
اب جوانی کا اطلاق کتنی عمر پر ہوتا ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے یوں فتوی دیا ہے کہ جوانی کی عمر میں کالا خضاب لگاسکتے ہیں، عمر کی کوئی تحدید نہیں کی، جبکہ بعض نے چالیس سال کی تحدید کی ہے کہ چالیس سال تک لگاسکتے ہیں، اس کے بعد نہیں۔ گویا جوانی کا معیار یہ ہے کہ جس میں عام طور سے بال سفید نہیں ہوتے”
تاہم بہتر اور احوط یہی ہے کہ جوانی میں بھی کالے خضاب کے علاوہ کسی اور رنگ کا خضاب استعمال کیا جائے، مثلا: سرخ، زرد، سرخی مائل بسیاہ یا گہرا براؤن خضاب استعمال کیا جائے جس کے جائز ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، لیکن اگر کوئی نوجوان کالا خضاب لگالے تو امید ہے کہ گناہ گار نہ ہوگا ۔
احادیث سے موازنہ
اب احادیث شریفہ کے نصوص پر غور کرتے ہے تو دو قسم کی روایات ہمارے سامنے آتی ہیں، بعض روایات تو وہ ہیں جن سے مطلقا جواز ثابت ہوتا ہے اور بعض روایات وہ ہیں جن سے عدم جواز ثابت ہوتا ہے ۔ اس لئے دونوں قسم کی روایات کو جمع کرنے کے بعد ہم کو غور کرنا ہےکہ سیاہ خضاب لگانا حرام،مکروہ تحریمی اورموجب فسق ہے، یا مکروہ تنزیھی ہے ، جس کی وجہ سے سیاہ خضاب لگانے والے پرفستق کا حکم نہیں لگ سکتا ۔
پہلی قسم کی روایات امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت سعد ابن ابی وقاص اور حضرت جریر بن عبداللہ البجلی کا عمل نقل فرمایا ہے کہ یہ دونوں حضرات سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح اور عالی سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے ، اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے ۔ نیز حضرت حسن حضرت حسین کا عمل بھی صحیح سند کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ وہ سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے اور امام محمد بن حنفیہ سے سیاہ خضاب لگانے کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو انہوں نے جواب دیا ” لا أعلم به بأسا ‘ ‘ ( اس میں کوئی حرج نہیں ) اور اس موضوع سے متعلق روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔چند روایات نقل کردیتے ہیں۔
عن أبي عشانة المعافري قال: رأيت عقبة بن عامر يخضب بالسواد، ويقول نسود أعلاها وتأبى أصولها.( مصنف ابن أبي شيبة، مؤسسة علوم القرآن۵۵۰/۱۳،رقمرقم: ۲۵۵۶۹)
عن الحسن أنه كان لا يرى بأسا بالخضاب بالسواد.( مصنف ابن أبي شيبة ٥٥٤/۱۲ ، رقم : ۲۵۵۲۳ )
عن قيس مولى خباب قال : دخلت على الحسن، والحسين وهما يخضبان بالسواد (مصنف ابن أبي شیبة١٢/٥٥٤رقم : ۲۵۵۲۰
عن أبي عون قال : كانوا يسألون محمدا عن الخضاب بالسواد ، فيقول: لا أعلم به باسا . (مصنف ابن أبي شيبة ٥٥٤/۱۲، رقم : ۲۰۰۲۶ )
عن سعيد بن المسيب أن سعد ابن أبي وقاص كان يخضب بالسواد. (المعجم الكبير للطبراني، دار احیاء التراث العربي ۱۳۸/۱ ، رقم : ۲۹۵)
عن عامر بن سعدأن سعد،كان يخضب بالسواد، (المعجم الكبير للطبراني ۱۳٨ / ۱ / ۲۹۶، مجمع الزوائد ، دار الكتب العلمية بيروت ۱۹۸/۰ )
دوسری قسم کی روایات جن میں سیاہ خضاب کی ممانعت ہے، ان کی بھی تعداد اچھی خاصی ہے، ان میں سے دو روایتیں ایسی ہیں جن میں کراہت تحریمی کا حکم لگانا ممکن ہے ۔
حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے ، جن میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابو قحافہ کے بال کو خضاب لگا کر تغیر کرنے کا حکم کیا گیا ہے، اوران الفاظ سے حضورنے حکم فرمایا : غيروا هذا بشيئ واجتنبوا السواد . (مسلم شریف ، باب في صبغ الشعر وتغيير الشيب ، النسخة الهندية ۲ / ۱۹۹ ، بیت الأفكار رقم : ۲۱۰۲ ، نسائي شريف ، النهي عن الخضاب بالسواد ، النسخة الهندية ۲۳۹/۲ ، دارالسلام رقم : ۵۰۷۶ )
دوسری روایت عبد الله ابن عباس کی ہے، جس میں وعید کے الفاظ بھی موجود ہیں،اسمیں الفاظ یہ ہیں:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يكون قوم یخضبون في آخرالزمان بالسواد كحواصل الحمام لايريحون رائحة الجنة . ( أبوداؤد شریف ، باب ماجاء في خضاب السواد ، النسخة الهندية ۵۷۸/۲ ، دار السلام رقم : 4۲۱۲ ، سنن النسائي ، النهي عن الخضاب بالسواد ، النسخة الهندية ۲۳۹/۲ ، دار السلام رقم : ۵۰۷۵ )
پہلی روایت میں امر کا صیغہ ہے اور امر کا صیغہ وجوب کے لئے ہوتا ہے ، اور اس میں حضور نے دو جملے امر کے صیغہ کے ساتھ استعال فرمائے ہیں : پہلے جملے میں حضرت ابو قحافہ کے بالوں کو خضاب لگا کر تغیر کرنے کا حکم فرمایا ، دوسرے جملے میں سیاہ خضاب سے اجتناب کا حکم فرمایا ۔ دوسرے جملے سے سیاه خضاب سے اجتناب واجب ہے، لہذا اس کا لگانا حرام یا مکروہ تحریمی ہے، پہلے جملے میں بھی امر سے خطاب ہے جس میں سفید بالوں کو خضاب کے ذریعہ تغییر کرنے کا حکم ہے ، وہ بھی وجوب پرمحمول ہونا چاہئے اس صورت میں سبھی سفید داڑھی والوں پر خضاب لگاناواجب ہوجائےگا، حالانکہ سفیدبال اور سفید داڑھی والوں پر خضاب لگاکر بالوں کی تغییر کے وجوب کا قائل کوئی بھی نہیں ہے، اس لئے امر کے دونوں صیغے ترغیب پرمحمول ہوں گے ، وجوب یاتحریمی پر نہیں ہوسکتے ۔
دوسری حدیث شریف میں اس قوم کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جن کو جنت کی بو بھی حاصل نہ ہوگی، اس قوم کی حضور نےپہچان بیان فرمائی ہیں: وہ قوم سیاہ خضاب لگائے گی۔
اس قوم کی جسمانی کیفیت کبوتروں کے پوٹے کی طرح ہوگی، سیاہ خضاب لگانے کو حضور نے اس قوم کی پہچان قرار دی ہے، وعید کی علت قرارنہیں دی ہے، اورجن حضرات نے اس کو وعید کی علت قراردی ہے، ان کو اس حدیث شریف پر دوبارہ نظر ثانی کرنی چاہئے، ور نہ حضرت سعد ابن ابی وقاص ، حضرت جریر بن عبد اللہ، حضرت عقبہ بن عامر اور حضرت حسن و حضرت حسین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر العیاذ باللہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب اور فسق کا الزام عائد ہوسکتا ہے، جو قطعا درست نہیں ہے۔ (احادیث کا موازنہ فتاوی قاسمیہ جلد٢٣ سے اقتباس شدہ ہے۔
حضرت امام نووی نے اس بات پراجماع نقل فرمایا ہے کہ ان روایات میں صیغہ امر سے بالاجماع وجوب کاحکم ثابت نہیں ہے ، اور صیغہ نہی سے بالاجماع مکروہ تحریمی یا حرمت کا ثبوت نہیں ہوتاہے ؛ لہذا صرف مکروہ تنزیہی کا حکم ثابت ہوسکتا ہے، علامہ نووی کی عبارت ملاحظہ فرمایئے۔
واختلاف السلف في فعل الأمرين بحسب اختلاف أحوالهم في ذالك مع أن الأمر والنهي في ذالک ليس للوجوب بالإجماع ، ولهذا لم ينكر بعضهم على بعض خلافه في ذالک قال : ولا يجوز أن يقال فيهما ناسخ و منسوخ . (شرح نووي على المسلم ۱۹۹/۲ )
فقط وﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب
آصف بن محمد گودھروی
خادم جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں