سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد سلام بصد احترام عرض ہے کہ ایک شخص نے رات کو نیت کی صبح سفر میں جانا ھے صبح روزہ نہیں رکھونگا اب وہ سفر نہیں گیا اور دوپہر 3:00 بجے اٹھا اور اس نے روزہ کی نیت کرلی تو اب روزہ کا کیا حکم ہے، اسی طرح رمضان اور دیگر روزوں کی نیت کب تک کرسکتے ہیں، نیز نصف النہار شرعی اور نصف النہار عرفی کا بھی کچھ تعارف ہوجائے مہربانی ہوگی؟
سائل: مولانا لقمان صاحب گودھروی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
دوپہر کو 3:00بجے اٹھ کر نیت کی ہے اور چونکہ اس وقت نیت کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لئے اس روزے کا اعتبار نہیں ہوگا، البتہ پورے دن یعنی غروب تک اس کے لئے کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنا ضروری ہے جسے فقہاء کی اصطلاح میں امساک کہتے ہیں۔
يجب الامساك بقية اليوم على ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسافر أقام، (الخلاصة الفقيه على مذهب السادة الحنفيه جلد ١/٥١٤)
روزے کی نیت
نیت دِل کے ارادے کا نام ہے، رمضان کے مہینے میں روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، نیت اس حد تک کافی ہے کہ اس کو اس بات کا استحضار ہو کہ یہ رمضان کا روزہ ہے یا پھر کوئی اور روزہ ہے بلکہ روزے کے ارادے سے سحری کے لئے بیدار ہونا ہی نیت کے لئے کافی ہو جائے گا، زبان سے نیت کا تلفظ ضروری نہیں ہے البتہ زبان سے ادا کرنا ستت ہے۔ (والشرط فيها أن يعلم بقلبه أي صوم يصومه : قال الحدادی: والسنة أن يتلفظ بها، شامی٣/ ٣٤٥)
نیت کا وقت
رمضان نظرمعین، اور نفل کے روزوں کی نیت غروب سے لیکر نصف النهار شرعی تک کر سکتے ہیں۔
نصف النہار
اس کی دو قسمیں ہیں
(١) نصف النہار شرعی: صبح صادق سے لیکر غروب تک جتنا وقت ہوتا ہے اس کے آدھے کو نصف النہار شرعی کہتے ہیں۔ یعنی صبح صادق اور غروب آفتاب کے درمیان جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہوں، ان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، پہلے نصف پر جو وقت ہوتا ہے وہی نصف النہار ہوتا ہے۔ اور روزے میں اسی کا اعتبار ہوگا اور نصف النہار شرعی سے پہلے پہلے تک نیت کرنا ضروری ہوگا۔
(٢) نصف النہار عرفی: جس کو زوال بھی کہتے ہیں طلوع آفتاب سے غروب تک کے نصف کو نصف النہار عرفی یعنی زوال کہتے ہیں۔ یعنی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے درمیان جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہوں، ان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، پہلے نصف پر جو وقت ہوتا ہے وہی زوال آفتاب کا وقت ہوتا ہے۔
(فيصح اداء صوم رمضان، والنذر المعين، و النفل ، بنية من الليل ........ فلا تصح قبل الغروب ولا عنده ( إلى ضحوة الكبرى لا ) بعدها ولا عندها إعتبارا لأكثراليوم ۔۔۔۔۔۔۔ "(قوله: إلى الضحوة الكبرى) المراد بها نصف النهار الشرعي والنهار الشرعي من استطارة الضوء في أفق المشرق إلى غروب الشمس۔ (شامی۳۳۸/۳)
دیگر روزوں کی نیت کا حکم
اور رمضان کے قضاء روزے نظرغیرمعین اور کفاروں کے روزے ان کی نیت صبح صادق سے پہلے کرنا ضروری ہے۔
(وأماصوم الدين من القضاءوالنذر المطلق والكفارات، اذانوی خارج رمضان مطلقا ولم ينو صوم القضاء أو الكفارات ، فانه لا يقع عنه ، لان خارج رمضان متعين للنفل عند بعض مشائخنا ۔ وعند بعضهم هو وقت الصيامات كلها على الابهام وانما يتعين بالتعيين. (تحفة الفقهاء- ۳٤۹/۱ )
فقط والسلام: واللہ اعلم بالصواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں