ہفتہ، 26 نومبر، 2022

نماز کی حالت میں عورت کے مستورہ اعضاء کے کھلنے کی کتنی مقدار ہے؟ سوال نمبر ٤٠٠

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

عورت کے ہاتھ کا کفین کے علاوہ چوتھائی حصہ کھل جائے تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟ اور ہاتھ کے چوتھائی سے مراد کہنی تک کا حصہ ہوگا یا کاندھے تک ؟ 

سائل ابو اسامہ ملی مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


عورت جب نماز کے لیے کھڑی ہو تو چہرہ جتنا وضوء میں دھونا فرض ہے اور دونوں ہاتھ پہونچوں تک اور دونوں پیر ٹخنوں سے نیچے تک (یعنی قدمین) کھلا رکھ سکتی ہے، یہ تین اعضاء نماز کے حجاب میں داخل نہیں ہیں اس کے علاوہ کسی بھی عضو کا ایک چوتھائی حصہ بھی نماز کے کسی رکن میں تین مرتبہ تسبیح پڑھنے کے بقدر کھل جائے، تو نماز صحیح نہ ہوگی


صورت مسئولہ میں ہاتھ سے مراد کلائی ہے اس لئے کہ علامہ شامی نے اس کو مستقل ایک عضو شمار کیا ہے (وفي الحرة هذه الثمانية ويزاد فيها ستة عشر الساقان مع الكعبين والثديان المنكسران والأذنان والعضدان مع المرفقين والذراعان مع الرسغين ٢/٨٣) لہذا کلائی کا چوتھائی حصہ یا اس سے زیادہ نماز کی حالت میں تین مرتبہ تسبیح پڑھنے کے بقدرکھلا رہا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين

ویمنع حتی انعقادہا کشف ربع عضوٍ قدر أداء رکن بلاصنعہ- وذلک قدر ثلث تسبیحات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله قدر أداء ركن) أي بسنته منية قال شارحها وذلك قدر ثلاث تسبيحات اه وكأنه قيد بذلك حملا للركن على القصير منه للاحتياط وإلا فالقعود الأخير والقيام المشتمل على القراءة المسنونة أكثر من ذلك، ثم ما ذكره الشارح قول أبي يوسف واعتبر محمد أداء الركن حقيقة والأول المختار للاحتياط كما في شرح المنية واحترز عما إذا انكشف ربع عضوأقل من قدر أداء ركن فلا يفسد اتفاقا لأن الانكشاف الكثير في الزمان القليل عفو كالانكشاف القليل في الزمن الكثير، وعما إذا أدى مع الانكشاف ركنا فإنها تفسد اتفاقا قال ح: واعلم أن هذا التفصيل في الانكشاف الحادث في أثناء الصلاة، أما المقارن لابتدائها فإنه يمنع انعقادها مطلقا اتفاقا بعد أن يكون المكشوف ربع العضو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلى هذا التفصيل أعني اعتبار ربع أدنى الأعضاء المنكشفة لا ربع مجموعها مشى في القنية والحلية وشرح الوهبانية والإمداد وشرح زاد الفقير للمصنف، خلافاً للزيلعي وإن تبعه في الفتح والبحر فتدبر، وقد أوضحنا ذلك فيما علقناه على البحر۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ۲/۸۲ ٢/٨٣)۔


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

بدھ، 16 نومبر، 2022

داڑھی کتروانے یا منڈوانے والے کی امامت کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٩٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

داڑھی رکھنا سنت ہے یا واجب؟ اگر کوئی شخص داڑھی کٹواتا ہے اور وہ امامت کراتا ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے 

سائل محمد طیب پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


داڑھی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث مروی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو تفصیلات منقول ہیں نیز داڑھی بڑھانے اور کاٹنے کے متعلق صحابہ کرام کا جو عمل روایات میں آیا ہے ان سب کی روشنی میں جمہور علمائے اہل سنت والجماعت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کی شرعی اور وجوبی مقدار ایک مشت ہے، جو داڑھی ایک مشت سے کم کردی جائے وہ شرعی داڑھی نہیں ہے اور داڑھی کا کتروانا یا منڈوانا حرام ہے۔


داڑھی کے نہ ہونے کی دوصورتیں ہے ایک تو یہ کہ وہ حضرات جن کو پہلے سے داڑھی کے بال نکلے ہی نہیں وہ یا تو امرد ہوگا یا پھر کسی اور وجہ سے اس کو قدرتی طور پر داڑھی کے بال نہیں نکلے ہوں گے اب جس بالغ کی عمر اتنی ہے کہ ابھی اسے داڑھی مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم نہیں ہوا ہے تو اسے امرد کہتے ہیں جس کی اما مت بعض نے مکروہ تنزیہی لکھی ہے اور جس کے داڑھی مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اور اب تک نہیں نکلی ایسے شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے


دوسرے نمبر پر وہ حضرات جن کو داڑھی کے بال نکلے ہیں لیکن وہ اس کو منڈوا دیتا ہے یا ایک مشت سے کم کترواتا ہے تو چونکہ داڑھی رکھوانا واجب ہے اور اس کو منڈوانا یا کترواکر ایک مشت سےکم کرنا ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے، اور ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے، اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔


لہذا جب داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم کرنا گناہ کبیرہ ہے، تو اپنے اختیار سے ایسے شخص کو امام بنانا (خواہ وہ حافظ قرآن ہی ہو) مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر کوئی شرعی مجبوری ہو مثلاً: کوئی ایسی جگہ ہو، جہاں ایسا امام مقرر ہے اور قریب میں کہیں متّبعِ سنّت امام میسّر نہ ہو یا سب داڑھی منڈے ہوں، تو ایسی صورت میں ایسے امام کی اقتداء میں مسجد میں باجماعت نماز پڑھ لینا اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔


حلبی کبیر میں ہے

و لو قدّموا فاسقاً يأثمون بناء علی أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لعدم اعتنائه بأمور دينه، و تساهله في الإتيان بلوازمه… الخ ( كتاب الصلوة، الأولی بالإمامة، ص: ٥١٣، ٥١٤ ط: سهيل اكيدمي)


تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے

ان الاخذ من اللحیۃ وہی دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال لم یبحہ احد واخذ کلہا فعل الیہود والہنود ومجوس الاعاجم اہ فحیث ادمن علی فعل ہذا المحرم یفسق۔ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ ١/٣۵۱)


فتاوی شامی میں ہے

وکذا تکرہ خلف أمرد، وفي ردالمحتار: الظاھر أنھا تنز یھیۃ أیضاً، والظاھر أیضاًکما قال الرحمتی: إن المراد بہ صبیح الو جہ؛ لأنہ محل الفتنۃ، وھل یقال ھھنا أیضًا إذاکان أعلم القوم تنتفی الکراھۃ، فإن کانت علۃ الکر اھۃ خشیۃ الشھوۃ وھو الأظھر فلا، وإن کانت غلبۃ الجھل أونفرۃ الناس من الصلوٰۃ خلفہ فنعم فتامل،

وفیہ ایضاً عن حاشیۃ المدني شخص بلغ من السن عشرین سنۃ وتجاوز حد الإنبات ولم ینبت عذارہ، فھل یخرج بذلک عن حد الأمردیۃ إلی قولہ فأجاب بالجواز من غیر کراھۃ۔ (فتاوی شامی کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/ ۳۰۱)۔


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 


داڑھی کے وجوب کے سلسلہ میں ایک مفید مضمون مفتی محمد راشد ڈسکوی رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی کا پیش نظر ہے ملاحظہ فرمائیں۔


داڑھی سنت ہے یا واجب؟

امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”وکان من عادة الفرس: قص اللحیة، فنھی الشرع عن ذلک“․(شرح مسلم،ص:129)

ترجمہ: … ”فارسیوں (مجوسیوں) کی عادت تھی کہ وہ داڑھی کے بال کاٹ کر کم کر دیا کرتے تھے، لہٰذا شریعت نے اس سے منع کیا“۔


ان میں کچھ لوگ اپنی داڑھیاں منڈوانے بھی لگے تھے، جیسا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ”لأنھم کانوا یقصرون لحاھم، ومنھم من کان یحلقھا“․

ترجمہ:”اس لیے وہ لوگ اپنی داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے اور ان میں کچھ لوگ مونڈ ڈالتے تھے“۔


اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث نے اعفائے لحیہ کے حکم کی علت کے ساتھ یہ واضح اشارہ بھی دیا ہے کہ داڑھی کی مقدار کتنی چھوٹی ہونی چاہیے اور اعفائے لحیہ کے حکم کا منشا کب پورا ہو گا؟ مجوسی جب اپنی داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے اور مسلمانوں کو ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا تو اتنی بات تو معلوم ہو گئی کہ ان کی داڑھیاں مجوسیوں کی داڑھیوں سے لمبی ہونی چاہییں، لیکن بات پھر بھی مجمل ہے، اس اجمال کی تبیین نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ہوئی ۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم، ضمیمہ:3، داڑھی کی مقدار کا مسئلہ:1/238تا 240، مکتبہ لدھیانوی، کراچی)


داڑھی منڈوانے میں یہود ونصاریٰ کی مشابہت ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ داڑھی بڑھاوٴ اور مونچھیں کٹواوٴ اوراپنے سفید بالوں کو (سیاہ رنگ کے سوا)کسی رنگ سے رنگ لو، اس میں یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔


عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ قال: ”أعفوا اللِحیٰ، وخذوا الشوارب، وغیِّروا شَیْْبَکم، ولا تشبَّھوا بالیھود والنصاریٰ“․ (مسند الإمام أحمد بن حنبل، مسند أبي ھریرة، 8672، 14/ 306، موٴسسة الرسالة)


داڑھی منڈوانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :”أکرم الرجال باللحیٰ، والنساء بالذوائب“․کہ مردوں کو داڑھیوں کے ذریعے شرف بخشا گیا اور عورتوں کو مینڈھیوں کے ذریعے سے۔ (الجامع لأحکام القرآن، سورة الإسراء، رقم الآیة:70، 13/126، موٴسسة الرسالة )


اللہ کی جانب سے ہی عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی اور مردوں کی ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کی جانب سے ہی عورتوں کو مینڈھیاں عطا کی گئیں اور مردوں کو یہ چیز عطا نہیں کی گئی۔داڑھی کو اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان امتیازی شرف کی چیز بنایا ہے۔


عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے

چناں چہ ! اللہ رب العزت کی طرف سے ملنے والی صورت کو ہی برقرار رکھنا ضروری ہے، شکل وصورت میں ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے،یعنی: اگر مرد اپنی داڑھی منڈواتے ہیں تو یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہے ۔ ایسے افراد پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے لعنت کی گئی ہے، ملاحظہ ہو:


عن ابن عباس رضي اللہ عنھما قال: ”لعن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء، والمتشبھات من النساء بالرجال“․ (صحیح البخاري، کتاب الباس، باب المتشبہون بالنساء والمتشبہات بالرجال، رقم الحدیث:5885، 7/159، دار طوق النجاة)


عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والا نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں

مردوں میں سے جو شخص عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والا ہے ، یا عورتوں میں سے جو عورت مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی ہے، اس کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”وہ ہم میں سے نہیں“۔ غور کر لیا جائے کہ جب وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ملت میں سے نہیں یا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں ، تو وہ کن میں سے ہو گا؟؟!! ملاحظہ ہو:


عن عطاء، عن رجل من ھذیل، قال: رأیت عبد اللہ بن عمرو بن العاص، ومنزلہ في الحِلِّ، ومسجدہ في الحَرَم، قال: فبینا أنا عندہ، رأیٰ أُمَّ سعید ابنة أبي جھل متقلدة قوساً، وھي تمشي مِشیَةَ الرجل، فقال عبداللہ: من ھٰذہ؟ قال الھُذَلي: فقلت: ھٰذہ أم سعید بنت أبي جھل، فقال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: ”لیس منَّا مَن تشبَّہ بالرجال مِن النساء، ولا مَن تشبَّہ بالنساء مِن الرجال“․(مسندُ الإمام أحمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضي اللہ عنہ، رقم الحدیث:6575، 11/461، 462، موٴسسة الرسالة)


داڑھی منڈوانے میں ہیجڑوں کے ساتھ مشابہت

علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ کی عبارت سے یہ بات معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی منڈوانا مخنثین (ہیجڑوں )کا فعل ہے، ملاحظہ ہو:

”قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض:”إن الأخذ من اللحیة وھي دون القبضة کما یفعلہ بعضُ المغارِبة ومُخَنَّثةِ الرجالِ، لَم یُبِحْہ أحدٌ، وأَخْذُ کلِّہا فعلُ یھودَ والہُنودِ ومَجوسِ الأعاجِم․اھ“،…إلخ“․(تنقیح الفتاویٰ الحامدیة، کتاب الشھادة: 4/238، مکتبة رشیدیة، کوئٹة)


علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”بے شک ایک مشت سے کم داڑھی کروانے کو، جیسا کہ بعض مغربی اور مخنث لوگ کرتے ہیں ، کسی نے بھی جائز قرار نہیں دیا اور ساری داڑھی کو مونڈ لینا یہودیوں ، ہند کے رہنے والوں اور عجم کے رہنے والے مجوسیوں کا فعل ہے“۔


اور ایسے افراد پر جو مخنثوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، ملاحظہ ہو:

عن ابن عباس رضي اللہ عنھما لعن النبيصلی الله علیہ وسلم المخنثین من الرجال، والمترجلات من النساء، وقال: أخرجوھم من بیوتکم“․ (صحیح البخاري، کتاب الباس، باب إخراج المتشبہین بالنساء من البیوت، رقم الحدیث:5886، 7/159، دار طوق النجاة)


ایک اور روایت میں ہے:

عن ابن عباس رضي اللہ عنھما، قال: لعن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم المخنثین من الرجال، والمترجلات من النساء، قال: فقلت: ما المترجلات من النساء؟ قال: ”المتشبھات من النساء بالرجال“․ (مسندُ الإمام أحمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنھما، رقم الحدیث: 2291، 4/ 431، موٴسسة الرسالة)


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے مخنث (ہیجڑہ)بننے والے مردوں پر اور مرد بننے والی عورتوں پر ۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ مرد بننے والی عورتیں کون ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔


اب احناف میں سے اکابر علمائے دیوبند رحمہم اللہ کے کچھ فتاویٰ بھی ملاحظہ فرما لیں:

کفایت المفتی میں ہے:

”داڑھی کٹوانا یا منڈوانا حرام ہے، کتروانے سے یہ مراد ہے کہ اتنی کتروائے کہ ایک مشت سے کم رہ جائے، ایک مشت کی مقدار حدیث سے ثابت ہے“۔ (کفایت المفتی، کتاب الحظروالا باحة، داڑھی منڈانا اور یکمشت سے کم کرنا گناہ ہے: 9/ 175، دار الاشاعت)


”فقہائے کرام نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیا ہے اور اس سے کم رکھنے والے کو تارک الواجب ہونے کی بنا پر فاسق کہا ہے“۔ (کفایت المفتی، کتاب الحظر والاباحہ، یکمشت داڑھی رکھنا واجب ہے: 9/176، دار الاشاعت،کراچی)


امداد الفتاویٰ میں ہے:

” داڑھی رکھنا واجب اور قبضہ سے زائد کٹانا حرام ہے۔“ (امداد الفتاویٰ، بالوں کے حلق وقصر وخضاب اور ختنہ وغیرہ کے احکام، داڑھی کا حکم اور مقدار: 4/223، مکتبہ دارالعلوم کراچی)


حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے اس فتوے میں مذکور ” قبضہ سے زائد کٹانا حرام ہے“ کی یہ تشریح کرتے ہیں:

” یہاں قبضے سے زائد کٹانے سے مراد یہ ہے کہ جس کی داڑھی قبضے سے زائد ہو اس کو قبضے سے زائد حصے کا کٹانا تو جائز ہے اور (کاٹتے کاٹتے)اتنا کاٹنا کہ جس کی وجہ سے داڑھی قبضے سے کم رہ جائے، یہ حرام ہے“۔ (داڑھی کی شرعی حیثیت، ص:35، مکتبہ رشیدیہ، کراچی)


جواہر الفقہ میں ہے:

”باجماع امت داڑھی منڈانا حرام ہے، اسی طرح ایک قبضہ (مٹھی) سے کم ہونے کی صورت میں کتروانا بھی حرام ہے، ائمہ اربعہ حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ کا اس پر اتفاق ہے“۔ (جواہر الفقہ، احکام الخطاب في بعض أحکام اللحیٰ والخضاب، 7/159،160، مکتبہ دارالعلوم، کراچی)


فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

”مردوں کے لیے داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کی مقدار شرعی ایک قبضہ یعنی ایک مشت ہے…لہٰذا داڑھی رکھنا واجب اور ضروری ہے، منڈانا حرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے“۔ (فتاویٰ رحیمیہ، کتاب الحظر والاباحہ، داڑھی کا وجوب اور ملازمت کی وجہ سے اس کا منڈانا: 10/106، دار الاشاعت، کراچی)


فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

”داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کا منڈانا حرام ہے، ایک مشت تک پہنچنے سے پہلے پہلے کٹوانا بالاتفاق ناجائز ہے“۔ (فتاویٰ محمودیہ، باب خصال الفطرة ، الفصل الأول فی اللحیہ والشوارب: 19/ 392، ادارہ الفاروق کراچی)


احسن الفتاویٰ میں ہے:

”داڑھی قبضہ سے کم کرنا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بد تر ہے، اس لیے کہ اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اللہ ورسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بغاوت کا اظہار واعلان ہے، اسی لیے فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے فیصلہ تحریر فرمایا ہے کہ جو شخص رمضان میں اعلانیہ کھائے پیے، وہ واجب القتل ہے، کیوں کہ وہ کھلے طور پر شریعت کی مخالفت کر رہا ہے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”کل أمتي معافی إلا المجاھرین“․ میری پوری امت لائق ِ عفو ہے، مگر اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں۔


دوسرا فرق یہ ہے کہ دوسرے گناہ کسی خاص وقت میں ہوتے ہیں، مگر داڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے، سو رہا ہو تو بھی گناہ ساتھ ہے، حتیٰ کہ نماز وغیرہ عبادت میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلیٰ ہے، قومِ لوط کے اسباب ِ عذاب میں داڑھی کٹانا بھی ہے، غرضیکہ داڑھی کٹانے یا منڈانے والا فاسق ہے…إلخ“۔ (احسن الفتاویٰ، کتاب الصلاة، باب الامامة والجماعة، داڑھی کٹانے والے کی امامت: 3/260، ایچ ایم سعید)


”ایک مشت داڑھی رکھنا فرض ہے، اس سے کم کرنا منڈانا بالاجماع حرام ہے اور اس کی علامت ہے کہ ایسے شخص کے دل میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صورتِ مبارکہ سے نفرت ہے“۔ (تتمہ احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد، داڑھی کی توہین موجبِ کفر ہے، سوال مثلِ بالا:10/19، مکتبہ الحجاز، کراچی)


فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

”داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، نہ رکھنے والا فاسق مردود الشہادة ہے“۔( فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامة، داڑھی کی شرعی حیثیت: 2/175، جمعیة پبلیکیشنز)


” درمختار میں ہے کہ چار انگشت سے کم داڑھی کا قطع کرنا حرام ہے:”وأما الأخذ منھا وھي دون ذٰلک، فلم یبحہ أحد“․ اور نیز درمختار میں ہے:”والسنة فیھا القبضة…إلخ، وکذا قال یحرم علیٰ الرجل قطع لحیتہ“․لہٰذا جو شخص داڑھی منڈوائے یا ایک مشت سے کم کتروائے وہ فاسق ہے…إلخ۔ ( فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامة، داڑھی کترانے والے کی امامت میں ادا کی گئی نمازوں کا حکم:2/184، جمعیة پبلیکیشنز)


ایک مشت داڑھی سے زائد بڑھانے کے بارے میں ایک غلو والا نظریہٴ

مذکورہ بحث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کچھ علماء (جن میں جماعت اہل حدیث کے ساتھ تعلق رکھنے والے حضرات بھی شامل ہیں)اس معاملے میں غلو کا شکا ر ہیں، ان کے نزدیک داڑھی کو بڑھانا ہی بڑھانا ہے، کٹوانا جائز نہیں ہے، چاہے ایک مشت کے بعد ہو یا پہلے۔


ان حضرات کی اتنی بات تو درست ہے کہ ایک مشت سے پہلے کٹوانا جائز نہیں ہے، لیکن ایک مشت کے بعد بھی نہ کٹوانا، یہ تسلیم نہیں ہے، یہ غلو ہے، اس لیے کہ صحیح روایات کے مطابق حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا ثابت ہے اور اسی پر قرنِ اول سے لے کر اب تک امت کا عمل چلا آرہا ہے، عمل کی حد تک ایسا ہو (یعنی داڑھی ایک مشت کے بعد نہ کٹوائی جائے)تو کوئی حرج نہیں ، اہل سنت والجماعت کے نزدیک بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا واجب نہیں ہے، جائز ہے۔ لیکن نظریةً اس بات (کہ ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا جائز نہیں ہے)کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔


اس بارے میں سب سے پہلے اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ کا مذہب لکھا جائے گا ، پھر اہل حدیث علماء کے اقوال :

ایک مشت سے زائد کٹوانے میں اہل سنت والجماعت کا مذہب

اس بارے میں نہایت جامع خلاصہ”الموسوعة الفقہیة الکویتیة“سے نقل کیا جاتا ہے:

”بعض فقہاء ،جن میں امام نووی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ، اس بات کی طرف گئے ہیں کہ داڑھی کے درپے نہ ہوا جائے، نہ اس کی لمبائی کی طرف سے کچھ کاٹا جائے گا اور اس کی چوڑائی کی طرف سے کچھ کاٹا جائے گا، اس لیے کہ اس بارے میں جو حدیث ہے اس کا ظاہر یہی تقاضا کرتا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”داڑھی کٹوانے کے بارے میں مختار مذہب داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دینا ہے، اس طور پر کہ کاٹنے کے ساتھ یا اس کے علاوہ کسی اور طریقے کے ساتھ داڑھی کے درپے نہ ہوا جائے“۔


اور دوسرے فقہاء، جن میں حنفیہ اور حنابلہ ہیں، اس بات کی طرف گئے ہیں کہ جب داڑھی ایک مشت سے زائد ہو جائے تو اس کا کاٹنا جائز ہے، بوجہ اس کے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بات ثابت ہے کہ جب حج یا عمرے کے موقع پر جب سر منڈواتے تھے تو ساتھ ہی داڑھی کے زائد بال اور مونچھیں بھی کتروا لیتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑتے تھے اور مٹھی سے زائد بالوں کو کاٹ دیتے تھے۔


حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ:”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایسا صرف حج کے موقع پر ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ حدیث کے حکم ”إعفاء اللحیہ“ کو اس حالت کے علاوہ پر محمول کرتے تھے ، جس میں داڑھی اپنے طول وعرض میں بہت زیادہ بڑھنے کے ساتھ چہرہ کو بدنما بنا دیتی ہے“۔ یعنی حج کے علاوہ بھی اپنی داڑھی کوایک مشت کے بعد کاٹ دیتے تھے۔


احناف کا مذہب اس بارے میں یہ ہے کہ ایک مشت کے بعد داڑھی کوکاٹ دینا مسنون ہے، جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے کہ:” داڑھی کو کاٹنا سنت ہے، وہ اس طرح کہ مرد اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں لے ، پھر اگر کچھ بال داڑھی سے زائدہوں تو ان کو کاٹ دے، امام محمد رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ االلہ سے اسی طرح نقل کیا ہے اور ہم اسی قول کو لیتے ہیں“۔


حنفیہ کا ایک قول وجوب کا بھی ہے (لیکن یہ صرف قول ہی ہے، فتویٰ اس پر نہیں ہے)اور وہ قول امام حصفکی رحمہ اللہ کے قول :” الإثم بترکہ“․ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایک مشت سے زائد بالوں کو کاٹ دینا واجب ہے۔


حنابلہ کا قول ہے کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کے بالوں کو کاٹنا مکروہ نہیں ہے، فقہاء نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنی داڑھی کے بڑھے ہوئے بالوں کا کاٹا۔


فقہاء کی ایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ داڑھی کے بالوں کو بالکل نہیں کاٹا جائے گا، إلا یہ کہ جب داڑھی کے بڑھے ہوئے بال چہرے کو بدنما بنا دیں۔امام طبری رحمہ الله نے حضرت حسن بصری اور حضرت عطاء بن رباح رحمہما اللہ کا یہی مذہب نقل کیا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل کو اسی پر محمول کیا ہے اور فرمایا ہے : اگر کوئی شخص اپنی داڑھی کو چھوڑ دے، اس کی اصلاح بالکل نہ کرے، یہاں تک کہ اس کی داڑھی لمبائی اور چوڑائی میں بہت ہی زیادہ بڑھ جائے (کہ چہرے کو بدنما لگنے لگے)تو وہ اپنے آپ کو مسخرہ کرنے والوں کے سپرد کر دے۔


قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا: داڑھی بہت زیادہ بڑھ جائے تو کچھ کاٹ دینا اچھا ہے اور اس کو بڑھانے میں بہت زیادہ مبالغہ کرنا مکروہ ہے، جیسا کہ ایک مشت سے کم کر دینا مکروہ ہے۔اور اس جماعت کے مذکورہ قول کی دلیل وہ حدیث (ضعیف)ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنی داڑھی کی لمبائی اور چوڑائی میں سے (ایک مشت سے زائد بڑھ جانے کی صورت میں )کاٹ دیا کرتے تھے۔(الموسوعة الفقہیة الکویتیة، حرف اللام، اللحیة، أخذ اللحیة، 35/224، 225، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامیة، الکویت)


یہ (اہل حدیث )حضرات ویسے تو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے، لیکن عملی طور پر حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے، اپنے مطلب کا قول جہاں اور جس سے مل جائے ، یہ حضرات اسی کی تقلید کرتے ہیں ، لیکن ظاہر اپنے آپ کو یہی کرتے ہیں کہ ہم تقلید نہیں کر رہے، بلکہ اپنی خداداد اجتہادانہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے عمل کر رہے ہیں۔ اور عام طور پر موجودہ دور کے یہ حضرات اصحاب ِ ظواہر، علامہ ابن تیمیہ ، علامہ شوکانی اور شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہم اللہ کے اقوال کو بہت زیادہ اعتماد کے ساتھ لیتے ہیں، ذیل میں علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں موٴقف ذکر کیا جاتا ہے، جو خود ان کے قلم سے مولانا حفظ الرحمن اعظمی ندوی رحمہ اللہ کے نام لکھا گیا:


”وإنما أذھب إلی ما اشرتم إلیہ من الأخذ ما زاد علی القبضة، وذالک لأمرین:

(۱)تتابع الأخبار عن السلف صحابة وتابعین وائمة مجتھدین، وبخاصة إمام السنة أحمد علی الأخذ، وفي الصحابة ابن عمر وأبوھریرة، وھما من رواة الأمر بإعفاء اللحیة، فلو کان الحدیث علیٰ إطلاقہ ما خالفوا إطلاقہ، کما یزعم بعض المتأخرین․

(۲) عدم ورود ما ینافيذالک عن النبي صلی الله علیہ وسلم وأصحابہ فعلاً وقولاً․ وما یقول بعضھم أن النبي صلی الله علیہ وسلم کان لا یأخذ من لحیتہ، إن یظنون إلا ظنا، وما ھم بمستیقنین، وبعبارة أخریٰ لاأصل لہ لذالک روایة“․


میرا مسلک وہی ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا کہ داڑھی میں زائد از قبضہ حصہ لے لیا جائے اور اس مسلک کی دو دلیلیں ہیں: (۱) سلف صالحین ، حضرات صحابہ وتابعین، ائمہ مجتہدین اور خاص طور سے امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور صحابہ میں سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو حدیث اعفاء اللحیہ (داڑھی بڑھانے) کے راوی ہیں، زائد از قبضہ کے لینے کی متواتر روایات اگر حدیث اعفاء اللحیہ اپنے اطلاق پر ہوتی ، جیسا کہ بعض متأخرین کا خیال ہے ، تو یہ حضرات اس کے اطلاق کی مخالفت نہ کرتے۔


(۲) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ سے فعلاً بلکہ قولاً بھی اس کے منافی کسی ہدایت کا منقول نہ ہونا اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی داڑھی کے بال نہ لیتے تھے، محض ان کا گمان ہے، جس کا خود ان کو بھی یقین نہیں۔ دوسرے لفظوں میں روایت کی رو سے اس کی کوئی اصل نہیں“۔(إعلام الفتیة بأحکام اللحیة، ص: 63، بحوالہ ”اسلام میں داڑھی کا مقام“، ص:44، کتاب گھر،کراچی)


اسی طرح موجودہ دور کے اہل حدیث حضرات کے اکابرعلمائے کرام کے فتاویٰ میں بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانے کی صراحت مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو:


فتاویٰ نذیریہ میں شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا محمد نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:

”داڑھی کا دراز کرنا بقدر ایک مشت کے واجب ہے، بدلیل حدیثِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے،کما سنتلوا علیکاور داڑھی کا منڈوانا، ایک مشت سے کم رکھنا یا خشخشی بنانا حرام ہے اورموجبِ وعید ہے۔“ (آگے احادیث تحریر ہیں اور آخر میں چار علماء کے دستخط ہیں)۔ (فتاویٰ نذیریہ، کتاب اللباس والزینة:3/359،اہل حدیث اکادمی، لاہور، طبع دوم:1971ء)


فتاویٰ ثنائیہ میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب  لکھتے ہیں:

سوال: داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟

جواب: حدیث میں آیا ہے کہ ”داڑھی بڑھاوٴ“ جس قدر خود بڑھے، ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر رکھ کر زائد کٹوا دینا جائز ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک قدرتی گول تھی، تاہم اطراف وجوانب طول وعرض سے کسی قدر کانٹ چھانٹ کر دیتے تھے۔(2/ذی قعدہ 31ھ )

(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کس قدر لمبی رکھنی ضروری ہے؟ :2/123،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)


اسی کتاب میں کچھ آگے تو ایک مشت کے بعد کٹوانے کو واجب لکھا ہے، ملاحظہ ہو:

”حاصل یہ کہ سلف صالحین، جمہور صحابہ وتابعین وائمہ محدثین کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی کو بڑھنے دینا، حلق وقصر وغیرہ سے تعرض نہ کرنا واجب ہے کہ اس میں اتباعِ سنت اور مشرکوں کی مخالفت ہے اور ایک مشت سے زائد کی اصلاح جائز ہے اور بافراط شعر لحیہ وتشوّہ وجہ وصورت وتشبہ بہ بعض اقوام مشرکین ہندو، سادھو وسکھ وغیرہ، جن کا شعار باوجود افراطِ شعر لحیہ عدمِ اخذ ہے، قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے، ورنہ مشرکوں کی موافقت سے خلافِ سنت، بلکہ بدعت ثابت ہو گی، جس کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں“۔(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کا رکھنا کہاں تک ثابت ہے؟ :2/138،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)


شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور انہی کے اکابر کے فتاویٰ نقل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ شاید اپنے بڑوں کی تحقیق اور فتاویٰ دیکھ کر یہ حضرات اپنے نظریہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اصلاح فرمالیں۔اور اس مسئلہ میں غلواور تشدد سے بچ سکیں۔ (ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1435ھ)

بدھ، 9 نومبر، 2022

لڑکی کی شادی میں دعوت کا کیا حکم ہے سوال نمبر ٣٩٨

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

اسلام کے اندر لڑکی کی شادی میں کھانا کھلانا کیسا ہے آنا ہے یا مکروہ ہے ہے کہ ناجائز ہے یا جائز ہے مدلل جواب عنایت فرمائے؟

سائل محمد طیب پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اس کو سمجھنے سے پہلے اس بات کو سمجھیں کہ شریعت میں ہر وہ عمل جو نفس الامر میں مباح ہو اور اس کو ضروری اور دین کا حصہ مان کر کیا جائے نہ کرنے والوں پر تنقید کی جائے تو وہ مکروہ ہے علامہ شامی اپنی کتاب ردالمحتار میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہر وہ کام جو جائز ہو جب اس کو اعتقادی طور پر ادا کیا جائے تو وہ مکروہ ہے۔(وکل جائز إذا أدی إلی اعتقاد ذلک کرہ۔ شامی ۲/٣٠ ، کتاب الصلاۃ ، مطلب یشترط العلم بدخول الوقت دار الکتب العلمیۃ بیروت) 


نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنا  ولیمہ کی طرح سنت تو نہیں  ہے البتہ لڑکی کی شادی کی تقریب میں جو کھانا کھلایا جاتا ہے اس کی حیثیت کیا ہے اس کو دیکھا جائے گا 

اگر لڑکی والوں کی طرف سے نام و نمود اور نمائش کے لئے یا کسی قسم کی زبردستی اور دباؤ کی وجہ سے اپنی خوشی و رضا کے بغیر اپنے اعزاء اور مہمانوں کو کھانا کھلائیں یا اس میں خرافات اور خلاف شریعت امور کا ارتکاب کیا گیا ہو تو ایسی تقریب میں کھانا کھانا مکروہ ہے۔

اور اگر لڑکی والے نام و نمود اور نمائش سے بچتے ہوئے، کسی قسم کی زبردستی اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضا سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کو کھانا کھلائیں تو مہمانوں کے لئے اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا جائز ہے، یہ درحقیقت اپنے خاندان اور برادری کے لوگوں کے لیے دعوت کی جاتی ہے اس کو محض دعوت  سمجھ کر ہی کھلایا جائے تو جائز ہے جب کہ اس میں خرافات اور خلاف شریعت امور کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو اور اس موقع پر دیگر رشتے داروں اور محلہ والوں کو دعوت دینا بھی مباح ہے یہ کھانا حق ضیافت کے طور پر جائز اور مباح ہے،


فتاوی محمودیہ میں حضرت مفتی محمودالحسن گنگوہی صاحب ایک سوال کے جواب میں تحریر بقلم ہےکہ: جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے!اور اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم نے تاکید فرمائی ہے (فتاوی محمودیہ باب العروس و الولیمہ، ١٢/١٤٢ ط: فاروقیة)


کتاب الفتاوی حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے اس طرح سے جواب تحریر فرمایا ہے کہ: اصل میں تو نکاح میں مسنون دعوت ولیمہ ہے جومرد کو کرنی ہے جومیاں بیوی کی یکجائی کے بعد ہے لیکن نکاح کے موقع پر بغیر کسی جبر و دباؤ کے لڑکی والوں کی طرف سے بھی ضیافت کی گنجائش ہے رسول اللہ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح پر بکرا ذبح کیا ہے اور اس پر مهاجرین وانصار کو مدعو کیا ہے ، جب مردکھانے سے فارغ ہو گئے تو کھانا ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے پاس بھیجاگیا تاکہ جو خواتین آئیں وہ وہاں کھائیں حضرت عبداللہ بن عباس سے تفصیل کے ساتھ یہ روایت منقول ہے۔ جو مصنف عبدالرزاق کے چار صفحات پر مشتمل ہے (مصنف عبد الرزاق ۵/ ۸۹ تا ٤٨٦ حدیث نمبر ۹۷۸۲)۔ پس یہ دعوت طعام سنت تو نہیں ہے نہ عہد صحابہ میں اس کا عمومی رواج تھا اس لیے اس کو رواج دینا بھی مناسب نہیں ،البتہ اس کی گنجائش ہے۔ (کتاب الفتاوی ٤/٤١٨ دلہن والوں کی طرف سے ضیافت)


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں اس طرح سے وضاحت فرمائی ہے کہ: دعوت ولیمہ لڑکے والے کی طرف سے مسنون ہے، لڑکی والے کی طرف سے جو کھانا ہوتا ہے وہ سنت سے ثابت نہیں، لیکن فی نفسہ ناجائز بھی نہیں، اگر رسم کی پابندی اور ریاء ونمود مقصود نہ ہو، حسب حیثیت ہو، تقریب منکرات سے پاک ہو تو اس میں شرکت کرنے اور کھانے کی گنجائش ہے۔ (دارالافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٢۵٤٤)


صحیح بخاری میں ہے

وقال أنس إذا دخلت على مسلم لا يتهم فكل من طعامه واشرب من شرابه (صحیح بخاری کتاب الأطعمة باب  الرجل يدعى إلى طعام ، ط:دارطوق النجاة)


صحیح  مسلم میں ہے:

عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دعي أحدكم إلى طعام، فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك (صحیح  مسلم کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش  ط:دار احیاء التراث)

ایضاً 

عن نافع، قال: سمعت عبد الله بن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أجيبوا هذه الدعوة إذا دعيتم لها قال وكان عبد الله بن عمر يأتي الدعوة في العرس، وغير العرس، ويأتيها وهو صائم۔


مشکوۃ المصابیح میں ہے۔

عن ابی حرۃ الرقاشی عن عمہ قال: قال رسول اللہ الا لا تظلموا الا لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ الخ (مشکوۃ المصابیح ١/٢۵۵ ط: سعید)۔


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

پیر، 7 نومبر، 2022

دوران سفر سنتوں کا حکم کیا ہے؟ سوال نمبر ٣٩٧

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

جناب مفتی صاحب سفر کے دوران جو قصر نماز ہے اس میں سنت کا پڑھنا کیسا ہے؟

سائل عبداللطیف مہوا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سفر میں احوال دوطرح سے ہوتے ہیں

(١) پریشانی اور مشقت یا عجلت کی حالت: یعنی سفر جاری ہے اورجلدی ہے یا گاڑی نکلنے کا اندیشہ ہے، یا ساتھیوں کو پریشانی ہورہی ہے، یا خوف ہے تو پھر صرف فرائض کی ادائیگی کافی ہے، اور فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی سنتوں کو چھوڑنا جائز ہے، البتہ فجر  کی سنتوں کی تاکید چوں کہ زیادہ ہے، اس  لیے فجر کے فرائض کے ساتھ وہ بھی پڑھ لیں۔

(٢) آسودگی کی حالت جس میں ہر اعتبار سے سکون ہو: یعنی اگر سفر جاری ہو اور  کسی مقام پر نماز کے لئے ہی رکے ہوں اور جلدی نہ ہو  اور امن ہو تو سنتوں  کا  پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ بہرحال اس صورت میں بھی سنت کا حکم لزوم کا نہیں ہے، بلکہ پڑھنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر مسافر کسی شہر یا بستی میں ٹھہرا ہو  چاہے، پندرہ دن سے کم ہی قیام ہو تو راجح قول کے مطابق سنتیں  پڑھنی چاہئے۔


مسئولہ صورت میں مسافر اگر دوران سفر قرار اور اطمینان کی حالت میں ہے تو سننِ موکدہ پڑھ لینا افضل ہے، اور اگر مسافر بھاگ دوڑ یا جلد بازی میں ہے تو پھر سنن مؤکدہ پڑھنے کا حکم نہیں ہے۔


درمختار مع الشامي میں ہے

ویأتی المسافر بالسنن إن کان فی حال أمن وقرار وإلا بأن کان فی خوف وفرار لا یأتی بہا ہو المختار؛ لأنہ ترک لعذر تجنیس، قیل إلا سنة الفجر․․․ قولہ ہو المختار، وقیل الأفضل الترک ترخیصا، وقیل الفعل تقربا․ وقال الہندوانی: الفعل حال النزول والترک حال السیر، ․․․ قال فی شرح المنیة والأعدل ما قالہ الہندوانی. اہ. (درمختار مع الشامي ٢/٦١٣ ط: زکریا)


البحر الرائق میں ہے

وقيد بالفرض لأنه لا قصر في الوتر والسنن واختلفوا في ترك السنن في السفر فقيل الأفضل هو الترك ترخيصاً وقيل الفعل تقرباً، وقال الهندواني الفعل حال النزول والترك حال السير، وقيل يصلي سنة الفجر خاصةً، وقيل سنة المغرب أيضاً وفي التجنيس والمختار أنه إن كان حال أمن وقرار يأتي بها؛ لأنها شرعت مكملات والمسافر إليه محتاج وإن كان حال خوف لايأتي بها لأنه ترك بعذر۔ (البحر الرائق ٢/١٤١)۔ 


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی