پیر، 7 نومبر، 2022

دوران سفر سنتوں کا حکم کیا ہے؟ سوال نمبر ٣٩٧

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

جناب مفتی صاحب سفر کے دوران جو قصر نماز ہے اس میں سنت کا پڑھنا کیسا ہے؟

سائل عبداللطیف مہوا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سفر میں احوال دوطرح سے ہوتے ہیں

(١) پریشانی اور مشقت یا عجلت کی حالت: یعنی سفر جاری ہے اورجلدی ہے یا گاڑی نکلنے کا اندیشہ ہے، یا ساتھیوں کو پریشانی ہورہی ہے، یا خوف ہے تو پھر صرف فرائض کی ادائیگی کافی ہے، اور فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی سنتوں کو چھوڑنا جائز ہے، البتہ فجر  کی سنتوں کی تاکید چوں کہ زیادہ ہے، اس  لیے فجر کے فرائض کے ساتھ وہ بھی پڑھ لیں۔

(٢) آسودگی کی حالت جس میں ہر اعتبار سے سکون ہو: یعنی اگر سفر جاری ہو اور  کسی مقام پر نماز کے لئے ہی رکے ہوں اور جلدی نہ ہو  اور امن ہو تو سنتوں  کا  پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ بہرحال اس صورت میں بھی سنت کا حکم لزوم کا نہیں ہے، بلکہ پڑھنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر مسافر کسی شہر یا بستی میں ٹھہرا ہو  چاہے، پندرہ دن سے کم ہی قیام ہو تو راجح قول کے مطابق سنتیں  پڑھنی چاہئے۔


مسئولہ صورت میں مسافر اگر دوران سفر قرار اور اطمینان کی حالت میں ہے تو سننِ موکدہ پڑھ لینا افضل ہے، اور اگر مسافر بھاگ دوڑ یا جلد بازی میں ہے تو پھر سنن مؤکدہ پڑھنے کا حکم نہیں ہے۔


درمختار مع الشامي میں ہے

ویأتی المسافر بالسنن إن کان فی حال أمن وقرار وإلا بأن کان فی خوف وفرار لا یأتی بہا ہو المختار؛ لأنہ ترک لعذر تجنیس، قیل إلا سنة الفجر․․․ قولہ ہو المختار، وقیل الأفضل الترک ترخیصا، وقیل الفعل تقربا․ وقال الہندوانی: الفعل حال النزول والترک حال السیر، ․․․ قال فی شرح المنیة والأعدل ما قالہ الہندوانی. اہ. (درمختار مع الشامي ٢/٦١٣ ط: زکریا)


البحر الرائق میں ہے

وقيد بالفرض لأنه لا قصر في الوتر والسنن واختلفوا في ترك السنن في السفر فقيل الأفضل هو الترك ترخيصاً وقيل الفعل تقرباً، وقال الهندواني الفعل حال النزول والترك حال السير، وقيل يصلي سنة الفجر خاصةً، وقيل سنة المغرب أيضاً وفي التجنيس والمختار أنه إن كان حال أمن وقرار يأتي بها؛ لأنها شرعت مكملات والمسافر إليه محتاج وإن كان حال خوف لايأتي بها لأنه ترك بعذر۔ (البحر الرائق ٢/١٤١)۔ 


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: