بدھ، 9 نومبر، 2022

لڑکی کی شادی میں دعوت کا کیا حکم ہے سوال نمبر ٣٩٨

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

اسلام کے اندر لڑکی کی شادی میں کھانا کھلانا کیسا ہے آنا ہے یا مکروہ ہے ہے کہ ناجائز ہے یا جائز ہے مدلل جواب عنایت فرمائے؟

سائل محمد طیب پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اس کو سمجھنے سے پہلے اس بات کو سمجھیں کہ شریعت میں ہر وہ عمل جو نفس الامر میں مباح ہو اور اس کو ضروری اور دین کا حصہ مان کر کیا جائے نہ کرنے والوں پر تنقید کی جائے تو وہ مکروہ ہے علامہ شامی اپنی کتاب ردالمحتار میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہر وہ کام جو جائز ہو جب اس کو اعتقادی طور پر ادا کیا جائے تو وہ مکروہ ہے۔(وکل جائز إذا أدی إلی اعتقاد ذلک کرہ۔ شامی ۲/٣٠ ، کتاب الصلاۃ ، مطلب یشترط العلم بدخول الوقت دار الکتب العلمیۃ بیروت) 


نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنا  ولیمہ کی طرح سنت تو نہیں  ہے البتہ لڑکی کی شادی کی تقریب میں جو کھانا کھلایا جاتا ہے اس کی حیثیت کیا ہے اس کو دیکھا جائے گا 

اگر لڑکی والوں کی طرف سے نام و نمود اور نمائش کے لئے یا کسی قسم کی زبردستی اور دباؤ کی وجہ سے اپنی خوشی و رضا کے بغیر اپنے اعزاء اور مہمانوں کو کھانا کھلائیں یا اس میں خرافات اور خلاف شریعت امور کا ارتکاب کیا گیا ہو تو ایسی تقریب میں کھانا کھانا مکروہ ہے۔

اور اگر لڑکی والے نام و نمود اور نمائش سے بچتے ہوئے، کسی قسم کی زبردستی اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضا سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کو کھانا کھلائیں تو مہمانوں کے لئے اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا جائز ہے، یہ درحقیقت اپنے خاندان اور برادری کے لوگوں کے لیے دعوت کی جاتی ہے اس کو محض دعوت  سمجھ کر ہی کھلایا جائے تو جائز ہے جب کہ اس میں خرافات اور خلاف شریعت امور کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو اور اس موقع پر دیگر رشتے داروں اور محلہ والوں کو دعوت دینا بھی مباح ہے یہ کھانا حق ضیافت کے طور پر جائز اور مباح ہے،


فتاوی محمودیہ میں حضرت مفتی محمودالحسن گنگوہی صاحب ایک سوال کے جواب میں تحریر بقلم ہےکہ: جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے!اور اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم نے تاکید فرمائی ہے (فتاوی محمودیہ باب العروس و الولیمہ، ١٢/١٤٢ ط: فاروقیة)


کتاب الفتاوی حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے اس طرح سے جواب تحریر فرمایا ہے کہ: اصل میں تو نکاح میں مسنون دعوت ولیمہ ہے جومرد کو کرنی ہے جومیاں بیوی کی یکجائی کے بعد ہے لیکن نکاح کے موقع پر بغیر کسی جبر و دباؤ کے لڑکی والوں کی طرف سے بھی ضیافت کی گنجائش ہے رسول اللہ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح پر بکرا ذبح کیا ہے اور اس پر مهاجرین وانصار کو مدعو کیا ہے ، جب مردکھانے سے فارغ ہو گئے تو کھانا ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے پاس بھیجاگیا تاکہ جو خواتین آئیں وہ وہاں کھائیں حضرت عبداللہ بن عباس سے تفصیل کے ساتھ یہ روایت منقول ہے۔ جو مصنف عبدالرزاق کے چار صفحات پر مشتمل ہے (مصنف عبد الرزاق ۵/ ۸۹ تا ٤٨٦ حدیث نمبر ۹۷۸۲)۔ پس یہ دعوت طعام سنت تو نہیں ہے نہ عہد صحابہ میں اس کا عمومی رواج تھا اس لیے اس کو رواج دینا بھی مناسب نہیں ،البتہ اس کی گنجائش ہے۔ (کتاب الفتاوی ٤/٤١٨ دلہن والوں کی طرف سے ضیافت)


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں اس طرح سے وضاحت فرمائی ہے کہ: دعوت ولیمہ لڑکے والے کی طرف سے مسنون ہے، لڑکی والے کی طرف سے جو کھانا ہوتا ہے وہ سنت سے ثابت نہیں، لیکن فی نفسہ ناجائز بھی نہیں، اگر رسم کی پابندی اور ریاء ونمود مقصود نہ ہو، حسب حیثیت ہو، تقریب منکرات سے پاک ہو تو اس میں شرکت کرنے اور کھانے کی گنجائش ہے۔ (دارالافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٢۵٤٤)


صحیح بخاری میں ہے

وقال أنس إذا دخلت على مسلم لا يتهم فكل من طعامه واشرب من شرابه (صحیح بخاری کتاب الأطعمة باب  الرجل يدعى إلى طعام ، ط:دارطوق النجاة)


صحیح  مسلم میں ہے:

عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دعي أحدكم إلى طعام، فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك (صحیح  مسلم کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش  ط:دار احیاء التراث)

ایضاً 

عن نافع، قال: سمعت عبد الله بن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أجيبوا هذه الدعوة إذا دعيتم لها قال وكان عبد الله بن عمر يأتي الدعوة في العرس، وغير العرس، ويأتيها وهو صائم۔


مشکوۃ المصابیح میں ہے۔

عن ابی حرۃ الرقاشی عن عمہ قال: قال رسول اللہ الا لا تظلموا الا لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ الخ (مشکوۃ المصابیح ١/٢۵۵ ط: سعید)۔


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: