ہفتہ، 26 نومبر، 2022

نماز کی حالت میں عورت کے مستورہ اعضاء کے کھلنے کی کتنی مقدار ہے؟ سوال نمبر ٤٠٠

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

عورت کے ہاتھ کا کفین کے علاوہ چوتھائی حصہ کھل جائے تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟ اور ہاتھ کے چوتھائی سے مراد کہنی تک کا حصہ ہوگا یا کاندھے تک ؟ 

سائل ابو اسامہ ملی مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


عورت جب نماز کے لیے کھڑی ہو تو چہرہ جتنا وضوء میں دھونا فرض ہے اور دونوں ہاتھ پہونچوں تک اور دونوں پیر ٹخنوں سے نیچے تک (یعنی قدمین) کھلا رکھ سکتی ہے، یہ تین اعضاء نماز کے حجاب میں داخل نہیں ہیں اس کے علاوہ کسی بھی عضو کا ایک چوتھائی حصہ بھی نماز کے کسی رکن میں تین مرتبہ تسبیح پڑھنے کے بقدر کھل جائے، تو نماز صحیح نہ ہوگی


صورت مسئولہ میں ہاتھ سے مراد کلائی ہے اس لئے کہ علامہ شامی نے اس کو مستقل ایک عضو شمار کیا ہے (وفي الحرة هذه الثمانية ويزاد فيها ستة عشر الساقان مع الكعبين والثديان المنكسران والأذنان والعضدان مع المرفقين والذراعان مع الرسغين ٢/٨٣) لہذا کلائی کا چوتھائی حصہ یا اس سے زیادہ نماز کی حالت میں تین مرتبہ تسبیح پڑھنے کے بقدرکھلا رہا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين

ویمنع حتی انعقادہا کشف ربع عضوٍ قدر أداء رکن بلاصنعہ- وذلک قدر ثلث تسبیحات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله قدر أداء ركن) أي بسنته منية قال شارحها وذلك قدر ثلاث تسبيحات اه وكأنه قيد بذلك حملا للركن على القصير منه للاحتياط وإلا فالقعود الأخير والقيام المشتمل على القراءة المسنونة أكثر من ذلك، ثم ما ذكره الشارح قول أبي يوسف واعتبر محمد أداء الركن حقيقة والأول المختار للاحتياط كما في شرح المنية واحترز عما إذا انكشف ربع عضوأقل من قدر أداء ركن فلا يفسد اتفاقا لأن الانكشاف الكثير في الزمان القليل عفو كالانكشاف القليل في الزمن الكثير، وعما إذا أدى مع الانكشاف ركنا فإنها تفسد اتفاقا قال ح: واعلم أن هذا التفصيل في الانكشاف الحادث في أثناء الصلاة، أما المقارن لابتدائها فإنه يمنع انعقادها مطلقا اتفاقا بعد أن يكون المكشوف ربع العضو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلى هذا التفصيل أعني اعتبار ربع أدنى الأعضاء المنكشفة لا ربع مجموعها مشى في القنية والحلية وشرح الوهبانية والإمداد وشرح زاد الفقير للمصنف، خلافاً للزيلعي وإن تبعه في الفتح والبحر فتدبر، وقد أوضحنا ذلك فيما علقناه على البحر۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ۲/۸۲ ٢/٨٣)۔


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: