پیر، 27 نومبر، 2023

کھانے پینے کے کچھ ضروری مسائل سوال نمبر ٤٤٤

 سوال

حضرت مفتی صاحب زمانے کے حساب سے کھانے کے سلسلے میں کچھ سوالات ہے جس کا حل باحوالہ مطلوب ہے براہ کرم اس کی وضاحت فرماکر مہربانی فرمائیں۔

چلتے پھرتے کھانا کیسا ہے؟ کسی لاڑی یا ٹھیکہ پر کھڑے ہیں اور بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے تو کھڑے کھڑے کھانا کیسا ہے؟

اسی طرح جوتے پہن کر کھانا کیسا ہے؟ جیسا کہ عام طور ہوٹلوں ریسٹورنٹ میں دیکھا جاتا ہے

لقمہ ٹیبل یا میز پر یا نیچے گرجائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

سائل حافظ مستقیم بانگلہ دیش 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کھانا پینا اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جس کی حقیقی اہمیت سے وہی لوگ آگاہ ہو سکتے ہیں جنہیں خدانخواستہ خوراک کی قلت کا سامنا  ہو ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس نعمت کا شکر ادا کرے اور کھانے پینے کے سلسلے میں کھانے کے اسلامی آداب اور طریقۂ نبوی کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔

لہذا کھڑے کھڑے اور چلتے پھرتے کھانا پینا اور بغیر عذر کے کھڑے ہوکر کھانے کی عادت بنانا خلاف سنت اور مکروہ ہے البتہ مجبوری ہو یا بیٹھنے کی جگہ نہ ہو یا ایسی جگہ ہو جہاں عام طور پر کھانے کے لئے بیٹھنا کریہ الہیت ہو یعنی وہاں بیٹھنا طبیعت کو گوارا نہ ہو جیسے ٹھیلے کے وہاں نالی یا گندگی ہو تو کھڑے ہوکر کھانے پینے کی گنجائش ہے اور اس طرح مجبوری کی صورت میں وہ گناہ گار بھی نہیں ہوگا.

اسی طرح جوتا پہن کر کھانے کی گنجائش تو ہے لیکن بہتر نہیں ہے البتہ آج کل یہ متکبرین کا شعار بن گیا ہے اس لیے اس سے احتیاط ضروری ہے۔

کھانا کھاتے ہوئے جو لقمہ زمین پر گرجاتا ہے اس کے بارے میں احادیث میں مذکور ہے کہ اگر کوئی لقمہ کھاتے ہوئے زمین پر گر جائے تو اسے اٹھا کر اس سے ایذا  پہنچانے والی چیز کو صاف کر کے کھا لیا جائے اور شیطان کے لئے نہ چھوڑا جائے۔

لہذا گرے ہوئے لقمہ کے سلسلہ میں حکم یہ ہے کہ اس پر سے مٹی وغیرہ ہٹا کر اسے کھانا ممکن ہو تو اسے کھا لینا مستحب ہے، چاہے مٹی ہاتھ سے ہٹا لی جائے یا دھو لی جائے۔ اور اگر اس کو ہٹانا ممکن نہ ہو یا کسی ناپاک چیز پر وہ لقمہ گرگیا ہے تو اسے کھایا نہ جائے،  بلکہ کسی ایسی جگہ ڈال دیا جائے جہاں سے عام طور پر جانور وغیرہ گزرتے ہو تاکہ وہ اس کے کھانے کے کام آجائے  اس کو شیطان کے لیے نہ چھوڑا جائے جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔


حاشیة الترغیب والترہیب میں ہے 

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أتی بطعام وضعہ علی الأرض فہو أقرب إلی التواضع (حاشیة الترغیب والترہیب: ۳/۱۵۲)


مشکاة شریف میں ہے 

قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا وضع الطعام فاخلعوا نعالکم فإنہ أروح لأقدامکم (مشکاة شریف ۳٤۸)


مجمع الزوائد میں ہے 

عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال: قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکلتم الطعام فاخلعوا نعالکم فإنہ أروح لأقدامکم۔ (مجمع الزوائد، کتاب الأطعمة / باب خلع النعال عند الأکل ۵/۲۳)


شرح النووی لصحیح مسلم میں ہے 

واستحباب أكل اللقمة الساقطة بعد مسح أذى يصيبها هذا إذا لم تقع على موضع نجس فإن وقعت على موضع نجس تنجست ولابد من غسلها إن أمكن فإن تعذر أطعمها حيوانا ولايتركها للشيطان ومنها إثبات الشياطين وأنهم يأكلون وقد تقدم قريبا (كتاب الأشربة ،باب  استحباب لعق الأصابع واكل اللقمة ١٣/٢٠٤ ط:داراحياء التراث)


شرح ریاض الصالحین میں ہے 

ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌دلنا على الخير فقال: (فليأخذها وليمط ما بها من أذى، وليأكلها، ولا يدعها للشيطان) خذها وأمط ما بها من أذى ـ من تراب أو عيدان أو غير ذلك ـ ثم كلها ولا تدعها للشيطان. والإنسان إذا فعل هذا امتثالاً لأمر النبي صلى الله عليه وسلم وتواضعاً لله عز وجل وحرماناً للشيطان من أكلها؛ حصل على هذه الفوائد الثلاثة: الامتثال لأمر النبي صلى الله عليه وسلم، والتواضع، وحرمان الشيطان من أكلها. هذه فوائد ثلاث، ومع ذلك فإن أكثر الناس إذا سقطت اللقمة على السفرة أو على سماط نظيف تركها، وهذا خلاف السنة۔

وفي هذا الحديث من الفوائد: أنه لا ينبغي للإنسان أن ياكل طعاماً فيه أذى، لأن نفسك عندك أمانة، لا تأكل شيئاً فيه أذى، من عيدان أو شوك أو ما أشبه ذلك، وعليه فإننا نذكر الذين يأكلون السمك أن يحتاطوا لأنفسهم، لأن السمك لها عظام دقيقة مثل الإبر، إذا لم يحترز الإنسان منها، فربما تخل إلى بطنه وتجرح معدته أو أمعاءه وهو لا يشعر، لهذا ينبغي للإنسان أن يراعي نفسه، وأن يكون لها أحسن راع، فصلوات الله وسلامه على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين۔ (باب الأمر بالمحافظة علي السنة ٢/٣٠٠ ط:دار الوطن للنشر)


فتاوی عالمگیری میں ہے

لا بأس بالشرب قائماً، ولايشرب ماشیاً، ورخص للمسافرين، ولايشرب بنفس واحد۔ (فتاوی عالمگیری ٥/ ٣٤١)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: