پیر، 29 جنوری، 2024

ہاتھوں پر مہندی سے شوہر کا نام لکھوانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٥١

 سوال

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب کوئی شادی شدہ لڑکی اپنے شوہر کا نام ہاتھ پر لکھا سکتی ہے کیونکہ ابھی سننے میں آیا ہے کہ نام لکھوانا جائز نہیں ہے کیونکہ کتنے نام اللہ اور انبیاء اور صحابہ اکرام کے ہوتے ہیں اور ہم بیت الخلا اور غسل خانے میں جاتے ہیں تو بے ادبی ہوتی ہے تو یہ فتویٰ برابر ہے؟

 سائلہ: اللہ کی بندی گودھرا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


حروف و کلمات شرعا قابل احترام ولائق ادب ہیں، ان کے احترام وادب کے منافی کوئی بھی فعل کرنا خلاف ادب ہے 

لہذا مہندی سے ہاتھ پر شوہر کا نام لکھنا جائز تو ہے لیکن خلاف ادب ہے، اور تہذیب اور مسلم خواتین کی طبعی شرم و حیاء  کے خلاف ہے،

البتہ اگر شوہر کے نام میں اللہ تعالی کا  ذاتی یا صفاتی نام آتا ہو، یا نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلّم یا دیگر انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کا نامِ مبارک آتا ہو، یا کسی صحابی کا نام آتا ہو، تو اسے ہاتھوں پر لکھوانا جائز نہیں ہے کیوں کہ  بیت الخلاء جانے زمین پر رکھنے کسی ناپاک چیز یا نامناسب مقام کو چھونے پر اس کی بے حرمتی کا خطرہ ہے۔


طحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے

قوله ويكره الدخول للخلاء ومعه شيء مكتوب الخ لما روى أبو داود والترمذي عن أنس قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء نزع خاتمه أي لأن نقشه محمد رسول الله قال الطيبي فيه دليل على وجوب تنحية المستنجي اسم الله تعالى واسم رسوله والقرآن اهـ وقال الأبهري وكذا سائر الرسل اهـ وقال ابن حجر استفيد منه أنه يندب لمريد التبرز أن ينحى كل ما عليه معظم من اسم الله تعالى أو نبي أو ملك، فإن خالف كره لترك التعظيم اهـ وهو الموافق لمذهبنا كما في شرح المشكاة قال بعض الحذاق: ومنه يعلم كراهة استعمال نحو إبريق في خلاء مكتوب عليه شيء من ذلك اهـ وطشت تغسل فيه الأيدي ثم محل الكراهة إن لم يكن مستوراً، فإن كان في جيبه فإنه حينئذٍ لا بأس به وفي القهستاني عن المنية الأفضل أن لا يدخل الخلاء وفي كمه مصحف إلا إذا اضطر ونرجو أن لا يأثم بلا اضطرار اهـ وأقره الحموي وفي الحلبي الخاتم المكتوب فيه شيء من ذلك إذا جعل فصه إلى باطن كفه قيل لا يكره والتحرز أولى۔ (فصل فيما يجوز به الإستنجاء، ص٥٤ ط دار الكتب العلمية بيروت)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

سئل الفقيه أبوجعفر ۔۔۔۔۔۔ وعلى هذا إذا كان عليه خاتم وعليه شيء من القرآن مكتوب أو كتب عليه اسم الله تعالى فدخل المخرج معه يكره، وإن اتخذ لنفسه مبالا طاهرا في مكان طاهر لا يكره، كذا في المحيط۔ (فتاوى عالمگیری الباب الخامس في آداب المسجد، و ما كتب فيه شيئ من القرآن، أو كتب فيه اسم الله تعالى ط: رشيدية ۵/۳۲۳)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعہ، 26 جنوری، 2024

طلبہ سے اجتماعی طور پر رقم وصول کرکے دعوت کرنا سوال نمبر ٤۵٠

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

مفتی صاحب دامت برکاتہم ایک مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے 

طلبہ اخیر سال میں پیسے جمع کرکے آپس میں دعوت کرتے ہیں کیا یہ طریقہ جائز ہے؛؟ 

نیز اس میں بعض درس گاہوں میں متعین رقم لی جاتی ہے اور بعض میں غیر متعین میرے خیال میں یہ بات آرہی تھی کہ یہ ناجائز ہی ہوگا اس لئے کہ اس میں طیب خاطر شرط ہے اور دل کی خوشی ایک امر مخفی ہے لہذا ظاہر پر حکم لگاتے ہوئے اس طرح کی دعوت بھی ناجائز ہونی چاہیے۔

جیسے حالت نوم میں ریح کا خارج ہونا امر مخفی ہونے کی وجہ سے ظاہر اور سبب(نوم) پر ہی ناقض وضو کا حکم لگادیا گیا ہے باقی آپ وضاحت فرمائیں۔

سائل: عبداللہ رشیدی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کسی بھی موقع پر طلبہ سے اجتماعی رقم وصول کرنے کی صورت میں تین باتوں کا لحاظ ضروری ہے

(۱) محض ترغیب دینے پر اگر طلبہ اپنی رضامندی سے بغیر کسی جبر و اکراہ  کے رقم دیتے ہوں۔

(۲) رقم جمع نہ کروانے والوں پر یا کم دینے والوں پر کسی قسم کی ملامت نہ کی جاتی ہو

(۳) کلاس کے تمام طلبہ بالغ ہوں، اگر نابالغ ہو تو ان کی رضامندی سے بھی لینا درست نہیں ہے۔


صورت مسئولہ میں محض ترغیب دینے پر طلبہ اپنی رضامندی سے بغیر کسی جبر و اکراہ کے رقم جمع کرواتے ہوں اور نہ دینے والوں یا کم دینے والوں پر کسی قسم کی ملامت نہ کی جاتی ہو اور سبھی طلبہ بالغ ہوں تو ایسی صورت میں جمع شدہ رقم سے دعوت کرنا جائز ہوگا تاہم اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ بعض طلبہ کی قلبی رضامندی نہ ہو کیوں کہ رضامندی یہ ایک امر مخفی ہے اوراس کا اظہار ابتدا میں مشکل ہے ہوسکتا ہے کہ اس نے مجبورا دیے ہوں اس لیے اس طرح  دعوت کرنے سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے لیکن چونکہ دعوت میں شرکت یہ اس کی رضامندی کو ظاہر کرتا ہے اس لئے اس کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 اور اگر تمام طلبہ بالغ نہ ہوں، یا بالغ ہوں لیکن جبر واکراہ کے ساتھ ان سے رقم جمع کی جائے تو ان پیسوں سے دعوت کرنا جائز نہیں  ہوگا۔


مرقاۃ المفاتیح میں ہے

( لا يحل مال امرئ ) أي مسلم أو ذمي (إلا بطيب نفس) أي بأمر أو رضا منه۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشکاۃ المصابیح: باب الغضب والعارية ۵ ط. دار الفكر، بيروت)


تبیین الحقائق میں ہے

وشرطها أن يكون الواهب عاقلا بالغا حرا (تبيين الحقائق: كتاب الهبة ۵/۱۹ ط. المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)


درر الحکام میں ہے

لا تصح هبة الصغير والمجنون والمعتوه ماله ولو بعوض، ولو كان العوض أزيد من المال الموهوب، أي باطلة، ولذلك لا تجوز الإجازة لو أجاز بعد البلوغ أو الإفاقة لأن الإجازة تلحق بالعقود الموقوفة ولا تلحق بالعقود الباطلة۔ (درر الحكام شرح مجلة الأحكام الكتاب السابع الهبة، الباب الأول الفصل الثاني في بيان شرائط الهبة ۲/۳۹۷ ط دار الجيل)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

منگل، 16 جنوری، 2024

عورتوں کا کاروبار کے لئے دکانوں پر بیٹھنا کیسا ہے ؟ سوال نمبر ٤٤٩

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ   

عورتوں کے کپڑوں کی دوکان پر عورت کاروبار کرسکتی ہے؟

سائل: مستقیم پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شریعتِ مطہرہ نے مردوں کو کسب معاش کا مکلف بنایا ہے اسی وجہ سے شادی تک لڑکیوں کا نان ونفقہ والد کے ذمے اور شادی کے بعد شوہر پر واجب قرار دیا ہے اور عورت کو پردہ میں رہنے کی تاکید فرمائی ہے بلاضرورتِ شرعیہ کے اس کے لیے اپنے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا ہے اور عورتوں کو گھر کی زینت امورِ خانہ داری کی اصلاح والدین اور شوہر کی خدمت اولاد کی صحیح پرورش اور دینی تربیت کے لیے پیدا کیا ہے، یہی اس کی پیدائش کا اصل مقصد ہے۔

لہذا شریعت نے اصالةً تو عورت پر کسب معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی، لیکن گر کسی خاتون کی شدید مجبوری ہو اور نفقے کی تنگی یا مخصوص حالات کے تحت معاشی بدحالی کا سامنا ہو، نیز والد، بھائی یا شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہوں، یا سستی سے کام لیتے ہوں اور گھر میں رہ کر عورت کے لئے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی مجبوری اور شدید ضرورت کے وقت عورت کے لئے کاروبار کے خاطر گھر سے باہر دوکان وغیرہ کے لئے نکلنا جائز ہے، اور عہد نبوی میں مجبوری کی صورت میں عورتوں کے کاروبار کرنے کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔

جیسے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  مالی اعتبار سے خوش حال نہ تھے ان کی اہلیہ حضرت زینبؓ دست کاری میں ماہر تھیں، جس سے وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں، ان کی ساری کمائی شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی تھی اور صدقہ وخیرات کے لیے کچھ نہ بچتا تھا۔ ایک بار انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ میری ساری کمائی گھر ہی میں شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی ہے، اس بنا پر میں دوسروں میں کچھ صدقہ نہیں کرپاتی ۔ کیا مجھے اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کرنے کا اجر ملے گا؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (اَنْفِقِی عَلَیْہِمْ، فَاِنَّ لَکَ فِی ذٰلِکَ اَجْرُمَا اَنْفَقْتِ عَلَیْہِمْ۔ مسنداحمد) ’’ہاں تم ان پر خرچ کرو،تمھیں اس کا اجر ملے گا‘‘

البتہ ضرورت کے وقت اس کے لئے چند شرائط ہے جس کی رعایت کے ساتھ عورت کاروبار کے لئے نکل سکتی ہے۔

(۱) عورت کا بات چیت میں مردوں سے واسطہ ہو تو بات مختصر کرے بے تکلف اور بے محابہ گفتگو  کی ہرگز اجازت نہیں، جہاں تک ممکن ہو آواز پست رکھیں اور لہجہ میں کشش پیدا نہ ہونے دے۔

(۲) بناؤ سنگار اور زیب و زینت کے ساتھ نہ نکلے اس لئے کہ احادیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ جب عورت نکلتی ہے تو اس کے ساتھ شیطان کی کارکردگی شروع ہوجاتی ہے اور وہ مردوں کی نگاہوں میں اسے مزین کردیتا ہے۔

(۳) شرعی پردہ کی پوری رعایت کے ساتھ دوکان میں رہے یعنی لباس سادہ اور جسم کے لیے ساتر ہو، فیشنی لباس نہ ہو جس سے آنے جانے والے مردوں کے لئے فتنے کا سبب ہو۔

(٤) کاروبار کی وجہ سے خانگی امور میں لاپرواہی اور حق تلفی لازم نہ آئے، جس سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع ہوں۔

لہذا مسؤلہ صورت میں مذکورہ دکان میں اگر صرف عورتیں ہی آتی جاتی ہو اور مردوں کا اختلاط نہ ہو اور بے پردگی نہ ہوتی ہو اور فتنے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی حالت میں عورت کا کاروبار کرنا بلا کسی کراہت کے جائز ہے اور اگر دوکان میں مردوں اورعورتوں کا اختلاط ہو یا دوکان کھلے بازار میں ہو جس سے فتنے کا اندیشہ ہو تو مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ بوقت ضرورت کاروبار کرنے کی گنجائش ہے اور مذکورہ شرطوں میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں گناہ ہوگا اور اس کے لئے کاروبار کرنا ناجائز ہوگا۔


قرآن کریم میں ہے 

الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ....الخ (النساء، الایة: ٣٤)

ایضاً 

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى....الخ

 (الأحزاب، الایة: ٣٣)

ایضاً 

وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن....الخ (الأحزاب، الایة: ٥٣)


سنن الترمذي میں ہے 

عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان».هذا حديث حسن صحيح غريب، (سنن الترمذي ت بشار ٢/٤٦٧)


مرقاة المفاتيح میں ہے

استشرفها الشيطان أي زيّنها في نظر الرجال. و قيل: أي نظر إليها ليغويها و يغوي بها۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهنّ في عمل، أو خدمة۔ كذا في الخلاصة ... ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهنّ مال كذا في الخلاصة۔ (الفتاوى الهندية ١/ ٥٦٢، ٥٦٣)


بدائع الصنائع میں ہے 

وأما النوع السادس وهو الأجنبيات الحرائر، فلا يحل النظر للأجنبي من الأجنبية الحرة إلى سائر بدنها إلا الوجه والكفين لقوله تبارك وتعالى قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ إلا أن النظر إلى مواضع الزينة الظاهرة وهي الوجه والكفان۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ۵/۱۲۱)


فتاوی شامی میں ہے 

وفي الشرنبلالية معزيًا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلمت فيشمتها لايرد السلام عليها وإلا لا انتهى وبه بان أن لفظة لا في نقل القهستاني ويكلمها بما لايحتاج إليه زائدة فتنبه (الدر المختار شرح تنوير الأبصار کتاب الحظر والاباحۃ ۹/۵۳۰)


تبیین الحقائق میں ہے

وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم۔ (تبیین الحقائق ۳/۳۱۷)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

منگل، 2 جنوری، 2024

بیع مرابحہ کی صورت سوال نمبر ٤٤٨

 سوال 

زید کپڑے کی تجارت کرنا چاہتا ہے

( عمرو نے زید سے کہا کہ میں تجھکو تیرے معیار کا کپڑا نقد خرید کر دیتا ہوں لیکن ہر میٹر پر میں دو تین روپے لگا کر دونگا چار مہینے کے بعد تو پیسہ دینا مال وغیرہ بیچ کر 

(یا زید نے عمرو سے کہا کہ فلاں فلاں دکان پر چل کر مجھ کو مختلف قسموں کے کپڑوں کے تھان دلا دے ہر میٹر پر دو تین روپے کا اضافہ کر کے مجھے کو ادھار بیچ دے چار مہینے کی ٹامنگ پر کیا اس طرح کی بیع وشراء جائز ہے ؟؟؟ یا جائز صورت کی وضاحت فرما دیجیے

نوٹ: ۔ زید دکان پر سے اپنی پسند کے کلر اور ڈزائنگ ویرائٹی خود پسند کریگا

سائل: محمد مدثر عبدالواحد مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سوال میں ذکر کردہ دونوں معاملے بیع مرابحہ کی صورت ہے جو کہ درج ذیل شرائط کے ساتھ کی جائے تو جائز ہے۔

((مرابحہ، ایک مخصوص قسم کی تجارت ہے، اس میں فروخت کرنے والا اپنا مال بیچنے سے پہلے جتنے میں خریدہ ہے اس کو صاف طورپر کہہ دیتاہے کہ اس نے اس شے کو کس قیمت پر خریدا تھا اور اس شے پر کتنا منافع حاصل ہوگا اس کا بھی اظہار خریدنے والے پر کر دیتا ہے))

۱۔ سامان خرید کر دینے والا خود یا اس کا وکیل اس سامان پر حسی طور پر قبضہ کرے، پھر لینے والے کے ہاتھ پر طے شدہ نفع کے ساتھ فروخت کردے۔

۲۔ اگر سامان لینے والے کو خریداری کی ذمہ داری سونپی جائے تو ایسی صورت میں آپس میں وکالت کا معاھدہ ہونا چاہیے کہ سامان لینے والا پہلے اپنے مؤکل (سامان دلانے والے) کے لئے قبضہ کرے گا۔

۳۔ اصل معاملہ اس وقت ہوگا جب سامان لینے والا سامان کو اپنے لیے قبضہ کرلے، لہذا اس سے پہلے پہلے فریقین کا معاملہ صرف خریدوفروخت کا وعدہ ہوگا۔

ان شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے معاملہ کیا جائے تو بیع درست ہے ورنہ بیع درست نہیں ہے۔


ھدایہ میں ہے

قال المرابحة نقل ما ملكه بالعقد الأول بالثمن الأول مع زيادة ربح۔ (ھدایہ ۳/٧٤ رحمانیہ)


فتاوی هنديہ میں ہے

المرابحۃ بیع بمثل الثمن الأول وزیادۃ ربح -إلی قولہ- والکل جائز۔ (کتاب البیوع، الباب الرابع عشر في المرابحة)


فقه البیوع میں ہے

ثالثا: المواعدة ( وهي التي تصدر من الطرفين) تجوز في ييع المرابحة بشرط الخيار للمتواعدين كليهما أو أحدهما فإذا لم يكن هناك خيار فإنها لا تجوز..." فی بحث المرابحة للآمر بالشراء، في قرار مجمع الفقه الإسلامي، الذي صدر في جمادى الأولى / ١٤٠٩ھ۔ (فقه البیوع ۲/٦٥٢)


عنایہ شرح ھدایہ میں ہے

(البيع ينعقد بالإيجاب والقبول) الانعقاد هاهنا تعلق كلام أحد العاقدين بالآخر شرعا على وجه يظهر أثره في المحل. والإيجاب الإثبات.(العناية شرح الهداية كتاب البيوع ٦/٢٤٨)


بحوث في قضایا فقہیة معاصرة میں ہے 

أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثين فقد أجازوا البيع المؤجّل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع مؤجّل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد (بحوث في قضايا فقہیة معاصرة )


فتاوی هنديہ میں ہے

ولم يجز شراؤه وشراء من لا تصح شهادته له ما باع بنفسه أو بيع له بأن باع وكيله بأقل مما باع قبل نقد الثمن لنفسه أو لغيره من مشتريه أو من وارثه.(الفتاوى الهندية،الفصل العاشر في بيع شيئين إحداهما لا يجوز ٣/١٣٢)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی