سوال
زید کپڑے کی تجارت کرنا چاہتا ہے
( عمرو نے زید سے کہا کہ میں تجھکو تیرے معیار کا کپڑا نقد خرید کر دیتا ہوں لیکن ہر میٹر پر میں دو تین روپے لگا کر دونگا چار مہینے کے بعد تو پیسہ دینا مال وغیرہ بیچ کر
(یا زید نے عمرو سے کہا کہ فلاں فلاں دکان پر چل کر مجھ کو مختلف قسموں کے کپڑوں کے تھان دلا دے ہر میٹر پر دو تین روپے کا اضافہ کر کے مجھے کو ادھار بیچ دے چار مہینے کی ٹامنگ پر کیا اس طرح کی بیع وشراء جائز ہے ؟؟؟ یا جائز صورت کی وضاحت فرما دیجیے
نوٹ: ۔ زید دکان پر سے اپنی پسند کے کلر اور ڈزائنگ ویرائٹی خود پسند کریگا
سائل: محمد مدثر عبدالواحد مالیگاؤں
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
سوال میں ذکر کردہ دونوں معاملے بیع مرابحہ کی صورت ہے جو کہ درج ذیل شرائط کے ساتھ کی جائے تو جائز ہے۔
((مرابحہ، ایک مخصوص قسم کی تجارت ہے، اس میں فروخت کرنے والا اپنا مال بیچنے سے پہلے جتنے میں خریدہ ہے اس کو صاف طورپر کہہ دیتاہے کہ اس نے اس شے کو کس قیمت پر خریدا تھا اور اس شے پر کتنا منافع حاصل ہوگا اس کا بھی اظہار خریدنے والے پر کر دیتا ہے))
۱۔ سامان خرید کر دینے والا خود یا اس کا وکیل اس سامان پر حسی طور پر قبضہ کرے، پھر لینے والے کے ہاتھ پر طے شدہ نفع کے ساتھ فروخت کردے۔
۲۔ اگر سامان لینے والے کو خریداری کی ذمہ داری سونپی جائے تو ایسی صورت میں آپس میں وکالت کا معاھدہ ہونا چاہیے کہ سامان لینے والا پہلے اپنے مؤکل (سامان دلانے والے) کے لئے قبضہ کرے گا۔
۳۔ اصل معاملہ اس وقت ہوگا جب سامان لینے والا سامان کو اپنے لیے قبضہ کرلے، لہذا اس سے پہلے پہلے فریقین کا معاملہ صرف خریدوفروخت کا وعدہ ہوگا۔
ان شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے معاملہ کیا جائے تو بیع درست ہے ورنہ بیع درست نہیں ہے۔
ھدایہ میں ہے
قال المرابحة نقل ما ملكه بالعقد الأول بالثمن الأول مع زيادة ربح۔ (ھدایہ ۳/٧٤ رحمانیہ)
فتاوی هنديہ میں ہے
المرابحۃ بیع بمثل الثمن الأول وزیادۃ ربح -إلی قولہ- والکل جائز۔ (کتاب البیوع، الباب الرابع عشر في المرابحة)
فقه البیوع میں ہے
ثالثا: المواعدة ( وهي التي تصدر من الطرفين) تجوز في ييع المرابحة بشرط الخيار للمتواعدين كليهما أو أحدهما فإذا لم يكن هناك خيار فإنها لا تجوز..." فی بحث المرابحة للآمر بالشراء، في قرار مجمع الفقه الإسلامي، الذي صدر في جمادى الأولى / ١٤٠٩ھ۔ (فقه البیوع ۲/٦٥٢)
عنایہ شرح ھدایہ میں ہے
(البيع ينعقد بالإيجاب والقبول) الانعقاد هاهنا تعلق كلام أحد العاقدين بالآخر شرعا على وجه يظهر أثره في المحل. والإيجاب الإثبات.(العناية شرح الهداية كتاب البيوع ٦/٢٤٨)
بحوث في قضایا فقہیة معاصرة میں ہے
أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثين فقد أجازوا البيع المؤجّل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع مؤجّل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد (بحوث في قضايا فقہیة معاصرة )
فتاوی هنديہ میں ہے
ولم يجز شراؤه وشراء من لا تصح شهادته له ما باع بنفسه أو بيع له بأن باع وكيله بأقل مما باع قبل نقد الثمن لنفسه أو لغيره من مشتريه أو من وارثه.(الفتاوى الهندية،الفصل العاشر في بيع شيئين إحداهما لا يجوز ٣/١٣٢)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں