سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مفتی صاحب دامت برکاتہم ایک مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے
طلبہ اخیر سال میں پیسے جمع کرکے آپس میں دعوت کرتے ہیں کیا یہ طریقہ جائز ہے؛؟
نیز اس میں بعض درس گاہوں میں متعین رقم لی جاتی ہے اور بعض میں غیر متعین میرے خیال میں یہ بات آرہی تھی کہ یہ ناجائز ہی ہوگا اس لئے کہ اس میں طیب خاطر شرط ہے اور دل کی خوشی ایک امر مخفی ہے لہذا ظاہر پر حکم لگاتے ہوئے اس طرح کی دعوت بھی ناجائز ہونی چاہیے۔
جیسے حالت نوم میں ریح کا خارج ہونا امر مخفی ہونے کی وجہ سے ظاہر اور سبب(نوم) پر ہی ناقض وضو کا حکم لگادیا گیا ہے باقی آپ وضاحت فرمائیں۔
سائل: عبداللہ رشیدی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
کسی بھی موقع پر طلبہ سے اجتماعی رقم وصول کرنے کی صورت میں تین باتوں کا لحاظ ضروری ہے
(۱) محض ترغیب دینے پر اگر طلبہ اپنی رضامندی سے بغیر کسی جبر و اکراہ کے رقم دیتے ہوں۔
(۲) رقم جمع نہ کروانے والوں پر یا کم دینے والوں پر کسی قسم کی ملامت نہ کی جاتی ہو
(۳) کلاس کے تمام طلبہ بالغ ہوں، اگر نابالغ ہو تو ان کی رضامندی سے بھی لینا درست نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں محض ترغیب دینے پر طلبہ اپنی رضامندی سے بغیر کسی جبر و اکراہ کے رقم جمع کرواتے ہوں اور نہ دینے والوں یا کم دینے والوں پر کسی قسم کی ملامت نہ کی جاتی ہو اور سبھی طلبہ بالغ ہوں تو ایسی صورت میں جمع شدہ رقم سے دعوت کرنا جائز ہوگا تاہم اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ بعض طلبہ کی قلبی رضامندی نہ ہو کیوں کہ رضامندی یہ ایک امر مخفی ہے اوراس کا اظہار ابتدا میں مشکل ہے ہوسکتا ہے کہ اس نے مجبورا دیے ہوں اس لیے اس طرح دعوت کرنے سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے لیکن چونکہ دعوت میں شرکت یہ اس کی رضامندی کو ظاہر کرتا ہے اس لئے اس کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور اگر تمام طلبہ بالغ نہ ہوں، یا بالغ ہوں لیکن جبر واکراہ کے ساتھ ان سے رقم جمع کی جائے تو ان پیسوں سے دعوت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے
( لا يحل مال امرئ ) أي مسلم أو ذمي (إلا بطيب نفس) أي بأمر أو رضا منه۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشکاۃ المصابیح: باب الغضب والعارية ۵ ط. دار الفكر، بيروت)
تبیین الحقائق میں ہے
وشرطها أن يكون الواهب عاقلا بالغا حرا (تبيين الحقائق: كتاب الهبة ۵/۱۹ ط. المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)
درر الحکام میں ہے
لا تصح هبة الصغير والمجنون والمعتوه ماله ولو بعوض، ولو كان العوض أزيد من المال الموهوب، أي باطلة، ولذلك لا تجوز الإجازة لو أجاز بعد البلوغ أو الإفاقة لأن الإجازة تلحق بالعقود الموقوفة ولا تلحق بالعقود الباطلة۔ (درر الحكام شرح مجلة الأحكام الكتاب السابع الهبة، الباب الأول الفصل الثاني في بيان شرائط الهبة ۲/۳۹۷ ط دار الجيل)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں