منگل، 16 جنوری، 2024

عورتوں کا کاروبار کے لئے دکانوں پر بیٹھنا کیسا ہے ؟ سوال نمبر ٤٤٩

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ   

عورتوں کے کپڑوں کی دوکان پر عورت کاروبار کرسکتی ہے؟

سائل: مستقیم پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شریعتِ مطہرہ نے مردوں کو کسب معاش کا مکلف بنایا ہے اسی وجہ سے شادی تک لڑکیوں کا نان ونفقہ والد کے ذمے اور شادی کے بعد شوہر پر واجب قرار دیا ہے اور عورت کو پردہ میں رہنے کی تاکید فرمائی ہے بلاضرورتِ شرعیہ کے اس کے لیے اپنے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا ہے اور عورتوں کو گھر کی زینت امورِ خانہ داری کی اصلاح والدین اور شوہر کی خدمت اولاد کی صحیح پرورش اور دینی تربیت کے لیے پیدا کیا ہے، یہی اس کی پیدائش کا اصل مقصد ہے۔

لہذا شریعت نے اصالةً تو عورت پر کسب معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی، لیکن گر کسی خاتون کی شدید مجبوری ہو اور نفقے کی تنگی یا مخصوص حالات کے تحت معاشی بدحالی کا سامنا ہو، نیز والد، بھائی یا شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہوں، یا سستی سے کام لیتے ہوں اور گھر میں رہ کر عورت کے لئے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی مجبوری اور شدید ضرورت کے وقت عورت کے لئے کاروبار کے خاطر گھر سے باہر دوکان وغیرہ کے لئے نکلنا جائز ہے، اور عہد نبوی میں مجبوری کی صورت میں عورتوں کے کاروبار کرنے کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔

جیسے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  مالی اعتبار سے خوش حال نہ تھے ان کی اہلیہ حضرت زینبؓ دست کاری میں ماہر تھیں، جس سے وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں، ان کی ساری کمائی شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی تھی اور صدقہ وخیرات کے لیے کچھ نہ بچتا تھا۔ ایک بار انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ میری ساری کمائی گھر ہی میں شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی ہے، اس بنا پر میں دوسروں میں کچھ صدقہ نہیں کرپاتی ۔ کیا مجھے اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کرنے کا اجر ملے گا؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (اَنْفِقِی عَلَیْہِمْ، فَاِنَّ لَکَ فِی ذٰلِکَ اَجْرُمَا اَنْفَقْتِ عَلَیْہِمْ۔ مسنداحمد) ’’ہاں تم ان پر خرچ کرو،تمھیں اس کا اجر ملے گا‘‘

البتہ ضرورت کے وقت اس کے لئے چند شرائط ہے جس کی رعایت کے ساتھ عورت کاروبار کے لئے نکل سکتی ہے۔

(۱) عورت کا بات چیت میں مردوں سے واسطہ ہو تو بات مختصر کرے بے تکلف اور بے محابہ گفتگو  کی ہرگز اجازت نہیں، جہاں تک ممکن ہو آواز پست رکھیں اور لہجہ میں کشش پیدا نہ ہونے دے۔

(۲) بناؤ سنگار اور زیب و زینت کے ساتھ نہ نکلے اس لئے کہ احادیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ جب عورت نکلتی ہے تو اس کے ساتھ شیطان کی کارکردگی شروع ہوجاتی ہے اور وہ مردوں کی نگاہوں میں اسے مزین کردیتا ہے۔

(۳) شرعی پردہ کی پوری رعایت کے ساتھ دوکان میں رہے یعنی لباس سادہ اور جسم کے لیے ساتر ہو، فیشنی لباس نہ ہو جس سے آنے جانے والے مردوں کے لئے فتنے کا سبب ہو۔

(٤) کاروبار کی وجہ سے خانگی امور میں لاپرواہی اور حق تلفی لازم نہ آئے، جس سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع ہوں۔

لہذا مسؤلہ صورت میں مذکورہ دکان میں اگر صرف عورتیں ہی آتی جاتی ہو اور مردوں کا اختلاط نہ ہو اور بے پردگی نہ ہوتی ہو اور فتنے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی حالت میں عورت کا کاروبار کرنا بلا کسی کراہت کے جائز ہے اور اگر دوکان میں مردوں اورعورتوں کا اختلاط ہو یا دوکان کھلے بازار میں ہو جس سے فتنے کا اندیشہ ہو تو مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ بوقت ضرورت کاروبار کرنے کی گنجائش ہے اور مذکورہ شرطوں میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں گناہ ہوگا اور اس کے لئے کاروبار کرنا ناجائز ہوگا۔


قرآن کریم میں ہے 

الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ....الخ (النساء، الایة: ٣٤)

ایضاً 

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى....الخ

 (الأحزاب، الایة: ٣٣)

ایضاً 

وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن....الخ (الأحزاب، الایة: ٥٣)


سنن الترمذي میں ہے 

عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان».هذا حديث حسن صحيح غريب، (سنن الترمذي ت بشار ٢/٤٦٧)


مرقاة المفاتيح میں ہے

استشرفها الشيطان أي زيّنها في نظر الرجال. و قيل: أي نظر إليها ليغويها و يغوي بها۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهنّ في عمل، أو خدمة۔ كذا في الخلاصة ... ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهنّ مال كذا في الخلاصة۔ (الفتاوى الهندية ١/ ٥٦٢، ٥٦٣)


بدائع الصنائع میں ہے 

وأما النوع السادس وهو الأجنبيات الحرائر، فلا يحل النظر للأجنبي من الأجنبية الحرة إلى سائر بدنها إلا الوجه والكفين لقوله تبارك وتعالى قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ إلا أن النظر إلى مواضع الزينة الظاهرة وهي الوجه والكفان۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ۵/۱۲۱)


فتاوی شامی میں ہے 

وفي الشرنبلالية معزيًا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلمت فيشمتها لايرد السلام عليها وإلا لا انتهى وبه بان أن لفظة لا في نقل القهستاني ويكلمها بما لايحتاج إليه زائدة فتنبه (الدر المختار شرح تنوير الأبصار کتاب الحظر والاباحۃ ۹/۵۳۰)


تبیین الحقائق میں ہے

وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم۔ (تبیین الحقائق ۳/۳۱۷)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: