سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ
مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ قاری صاحب اور نعت خواں حضرات کو جلسے میں بلایا جاتا ہے پیسے متعین کرکے یا متعین نہ بھی کریں لیکن عرفا کچھ نہ کچھ رقم دینا متعین ہی ہے تو کیا ان حضرات کا اس پیسے کو لینا جائز ہے اگر جواب ہاں میں ہے تو کس دلیل سے ہیں یہ بھی بتلادیں جزاک اللہ خیرا
سائل: عبدالسلام خالد بلیلپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
حنفیہ کا اصل موقف تو یہی ہے کہ کسی بھی طاعت وعبادت کو جو قرب الہٰی اور حصول ثواب کا ذریعہ ہو اس کو کسب معاش کا ذریعہ بنانا اور اس پہ اجرت وصول کرنا جائز نہیں ہے کتاب وسنت میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہے
البتہ پہلے زمانہ میں خدام دین کے لئے بیت المال سے وظائف کا انتظام تھا جن سے وہ اپنی ضروریات پوری کرلیا کرتے تھے بعد میں جب یہ سلسلہ ختم ہوگیا تو متاخرین علماء نے ضرورت کے پیش نظر اور خدام دین کے طلبِ معاش میں مصروف ہوکر خدمت دین میں غفلت کے خوف سے اور اور دینی شعائر کی حفاظت کے خاطر بتاویل وقت دینی تعلیم، امامت، اذان اور افتاء وغیرہ کی خدمات پہ معاوضہ لینے کی اجازت دی ہے جس کے نتیجہ میں دین اور دینی شعائر کو ضیاع سے محفوظ رکھا جاسکے۔
جہاں تک مقرر و نعت خواں کا مسئلہ ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔
(۱) مقرر یا نعت خواں کو بطور ہدیہ کچھ لوگ بطِیب خاطر بغیر کسی شرط کے دیں یا ملازمت کے طور پر مقرر یا نعت خواں کو اگر کچھ دیا جائے اور متعین کردیا جائے کہ مثلاً روزانہ یا ہفتہ میں ایک گھنٹہ وعظ کرنا ہے یا نعت پڑھنا ہے اور اتنے وقت کی یہ تنخواہ ہوگی، تو یہ اجیر خاص کے حکم میں ہوجائے گا لہذا اس طرح کا اجارہ کرکے بقدرِ ضرورت تنخواہ یا ہدایہ لینے میں کچھ مضائقہ نہیں۔
(۲) بلا تعیین کے مقرر یا نعت خواں کہیں تقریر کرکے روپیہ طلب کریں اور اپنے انداز سے کم ہونے پر ناراضگی اور خفگی کا اظہار کرے تو یہ درست نہیں ہے اور یہ طریقہ پسندیدہ بھی نہیں ہے اس لئے کہ اس سے وعظ کا اثر بھی ختم ہوجاتا ہے اور بلانے والے بھی رسم کے طور پر بلاتے ہیں
اس کا اعلیٰ معیار تو یہ ہے کہ متعین یا غیرمتعین طور پر کچھ بھی نہ لیا جائے بلکہ حسبة للہ وعظ کہا جائے وہ ان شاء اللہ زیادہ موٴثر ہوگا۔
فتاوی محمودیہ میں ہے
فتاوی محمودیہ میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں حضرت تحریر بقلم ہے کہ: جس طرح تعلیم و تدریس کی ملازمت درست ہے اسی طرح تذکیر و تقریر کی ملازمت بھی درست ہے، کام متعین کر لیا جائے مثلاً ہر روز ایک گھنٹہ یا ہر جمعہ کو دو گھنٹے تقریر لازم ہوگی اور اتنا معاوضہ دیا جائے گا یا مقرر و مستقل ملازم تقریر کے لئے رکھ لیا جائے کہ جلسوں میں بلانے پر یا بغیر بلائے دیگر مقامات پر جا جا کرتقریر کرے۔
یہ طریقہ پسندیدہ نہیں ہے کہ کسی جگہ وعظ فرمایا اور روپیہ لے لئے پھر اگر اپنے انداز سے کچھ کم ہو جائے تو ناک بھوں چڑھانے لگے اس طرح وعظ کا اثر بھی ختم ہو جاتا ہے اور بلانے والے رسمی طور پر بلاتے ہیں اور بلانے سے پہلے ہی فقرے کسنے شروع کر دیتے ہیں کہ ان کو اتنا دیا گیا تھا اس سے ناخوش ہوئے تھے لہذا جب تک اس سے زیادہ کا انتظام نہ ہو جائے ان کو نہیں بلانا چاہیے وغیرہ وغیرہ:
ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه، والإمامة۔ در مختار ومثله في متن الملتقى و درالبحار وزاد بعضهم الأذان والإقامة والوعظ، اهـ . شامی ٣٤/٥ فقط واللہ اعلم۔ حرر العبد محمود غفر له، دارالعلوم دیو بند ، ۹۲/۶/۷ھ۔(فتاوی محمودیہ جدید ۱۷/۸۵)
فتاوی شامی میں ہے
لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعلیم القرآن والفقہ) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامة والأذان. وزاد بعضہم الأذان والإقامة والوعظ (فتاوی شامی ۹/۷٦ زکریا)
ہاشیہ عالمگیری میں ہے
قال الإمام الفضلي والمتأخرون على جوازه والحيلة أن يستأجر المعلم مدة معلومة، ثم يأمره بتعليم ولده (الفتاوى البزازية على هامش الفتاوى العالمكيرية۔ ۵/٣۵ نوع في تعليم القرآن والحرف كتاب الإجارة رشيديه)
مجمع الانہر میں ہے
وفي المحیط: إذا أخذ المال من غیر شرط یباح له لأنه عن طوع من غیرعقد۔ (مجمع الأنہر، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، دارالکتب العلمیة بیروت ۳/ ۵۳۳)
فتاوی عالمگیری ہے
وعلی هذا الحداء وقراءۃ الشعر وغیرہ ولا أجر في ذلك، هذا کله عند أئمتنا الثلاثة۔ (فتاوی عالمگیری جدید کتاب الإجارۃ، الباب السادس عشر في مسائل الشیوع ۔۔۔ ٤/ ۵۰۸ ط دار الکتب العلمیہ)
واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی