سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان کرام مسئلے ذیل کے بارے میں کہ ٹوٹی ہوئی چیزیں استعمال کرنے کی شریعت میں ہے کیا ہے تو کن چیزوں کی کون سی چیزیں ایسی ہیں ٹوٹی میں جن کا استعمال کرنا ناجائز ہے حدیث اور قران کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے۔
سائل محمد صادق رشیدی مہاراشٹر
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
احادیث مبارکہ میں برتنوں کے علاوہ دوسری ٹوٹی ہوئی اشیاء کے استعمال کی کراہت وارد نہیں ہے صرف ٹوٹے ہوئے برتنوں کی کراہت کی وضاحت ہے یعنی احادیث میں ٹوٹے ہوئے برتنوں کو کھانے پینے میں استعمال کرنا مکروہ فرمایا ہے، البتہ اہلِ علم حضرات اس حدیث کے تحت یہ وضاحت فرماتے ہیں کہ یہ نہی صرف شفقت و مہربانی کے لئے ہے، جس کو نہیٔ ارشادی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو امت پر بطور ترحم کے وار ہوئی ہے۔
جس کی خاص وجوہات یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پانی پینے سے پانی گرنے کا اندیشہ ہے اور ٹوٹی ہوئی جگہ کے استعمال میں منہ یا ہاتھ میں چبھنے کا خطرہ ہے اسی طرح ٹوٹی ہوئی جگہ پر گندگی جم جانے کی وجہ سے منہ میں جانے کا امکان ہے نیز اس کا استعمال طبع سلیم کے بھی خلاف ہے۔
البتہ علماء کی تصریحات کے مطابق ٹوٹے ہوئے برتنوں کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ نقصان دہ نہ ہو اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے قابل ہو جیسے کہ پیالہ یا گلاس یا کوئی بھی برتن ہو اس کا جس طرف کا حصہ ٹوٹا نہیں ہے اس جگہ سے استعمال کرے تو گنجائش ہے۔
یا مجبوری کی صورت میں ہو جیسے کہ ٹوٹے ہوئے برتن کے علاوہ کوئی دوسرا برتن ہی نہ ہو تو اسے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
یا ٹوٹی ہوئی جگہ کے استعمال کی ضرورت نہ ہو جیسے کہ برتن ایسا ہے جسے منہ لگائے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے تو اس کے استعمال میں کراہت نہیں۔
احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ پیالے کی ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پینا مکروہ ہے۔
وجوہ کراہت یہ ہیں - پانی گرنے کا اندیشہ ہے - منہ میں چھنے کا خطرہ ہے - اس مقام پر میل وغیرہ جما ہوا ہوتا ہے - یہ طبع سلیم کے خلاف ہے۔
عن ابي سعيد الخدري رضى الله تعالى عنه انه قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من ثلمة القدح وان ينفخ في الشراب۔ (سنن ابی داؤد ۸۳/۲)
عن ابي هريرة رضى الله تعالى عنه انه كره ان يشرب الرجل من كسر القدح او يتوضأ منه (مصنف عبد الرزاق ١٠/٤٢٨) (احسن الفتاوی ۸/۱۲۸)
سنن أبي داؤد میں ہے
عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الشرب من ثلمۃ القدح وأن ینفخ في الشراب۔ (سنن ابی داؤد باب في الشرب من ثلمۃ القدح، رقم الحدیث: ۲/۱٦٧ ط مکتبہ رحمانیہ)
العیون المعبود میں ہے
قال الخطابي إنما نهى عن الشراب من ثلمة القدح لأنه إذا شرب منه تصب الماء وسأل قطره على وجهه وثوبه لأن الثلمة لا يتماسك عليها شفة الشارب كما يتماسك على الموضع الصحيح من الكوز والقدح . وقد قيل إنه مقعد الشيطان فيحتمل أن يكون المعنى في ذلك أن موضع الثلمة لا يناله التنظيف التام إذا غسل الإناء ، فيكون شربه على غير نظافة ، وذلك من فعل الشيطان وتسويله ، وكذلك إذا خرج من الثلمة وأصاب وجهه وثوبه فإنما هو من إعنات الشيطان وإيذائه إياه واللہ أعلم (العیون المعبود ۱۰/۱۸۹)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے
قال نهى رسول الله عن الشرب من ثلمة القدح بضم المثلثة وسكون اللام هي موضع الكسر منه قال الخطابي إنما نهى عن الشرب من ثلمة القدح لأنها لا تتماسك عليها شفة الشارب فإنه إذا شرب منها ينصب الماء ويسيل على وجهه وثوبه زاد ابن الملك أو لأن موضعها لا يناله التنظيف التام عند غسل الإناء۔ (مرقاۃ المفاتیح ٨/١٧٤ ط دار الکتب العلمیہ)
بذل المجہود میں ہے
نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الشرب من ثلمة القدح) ای عن فرجة منه قال فى المجمع لانه لايتماسك عليها فم الشارب وربما التنظیف الماء على ثوبه وبدنه وقيل لايناله التنظيف التام اذاغسل الاناء وورد انه مقعد الشيطان ولعله اراد به عدم النظافة۔ (بذل المجہود ١٦/۵٤ ط دار الکتب العلمیہ)
واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں