سوال
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
جی حضرت ايك مسئلہ ہے کہ ایک شخص ہے وہ ابھی حیات ہے انکے ایک لڑکا ہے اور ایک لڑکی اور اُنہونے اپنی حیات میں ہی اپنی بیٹی کو ایک حصّہ اور بیٹے کوں دو حصّے دیدیے تو کیا یہ صحیح ہے
اور اسکے علاوہ جو زیورات وغیرہ سب بیٹی کو دے دیئے اور بیٹے کے پاس صرف اینٹ وغیرہ میٹیریل آیا
مال میں ایک کروڑ 5 لاکھ روپے تھے 35 لاکھ بہن کو دیئے باقی سب بیٹے کو تو کیا یے صحیح ہے
سائل مولوی اظہر میواتی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
باپ اپنی زندگی میں تن تنہا اپنی املاک کا مالک ہوتا ہے اس میں اولاد یا بیوی کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی وراثت کی تقسیم کا مسئلہ ہے باقی اگر باپ اپنی مرضی و خوشی سے اپنی جائداد وغیرہ زندگی ہی میں بچوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں جائز ہے لہذا باپ اپنی جائداد بچوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اسے وہ دو طرح سے تقسیم کرسکتے ہیں۔
(۱) سبھی اولاد میں مال کی برابر تقسیم
زندگی میں اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ ہوتا ہے میراث نہیں، اور اولاد کے درمیان ہبہ میں شرعاً برابری پسندیدہ ہے اس لیے میراث کے ضابطے کے مطابق تقسیم کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ برابری کے اصول کے مطابق تقسیم کریں، اس کی شکل یہ ہوگی کہ اپنے اور اپنی بیوی کے لیے بہ قدر ضرورت رکھ کر مابقیہ رقم اولاد میں برابر تقسیم کردیں۔
البتہ اگر اولاد میں سے کوئی زیادہ ضرورت مندہے یا والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہے یا اور کوئی وجہ ترجیح موجود ہے تووہ اسے نسبةً کچھ زیادہ بھی دے سکتے ہیں شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
البتہ اولاد کے درمیان (میراث کے ضابطے کے مطابق یا برابری کے اصول پر) جس طرح بھی جائداد تقسیم کی جائے، تقسیم کے بعد ہر ایک اولاد کو اس کے حصے پر قبضہ و دخل بھی دینا ضروری ہے، ورنہ اولاد اس مال کی شرعاً مالک نہ ہوں گے، کیوں کہ بہر دو صورت والد کا زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا "ہبہ" (گفٹ) ہے، اور ہبہ کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے، جو جائیداد والد نے اپنی اولاد میں سے جس کو مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دی تو وہ جائیداد اس کی ملکیت میں آجائے گی۔
اور جو جائیداد والد نے صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار نہ دیا ہو تو وہ بدستور والد کی ملکیت میں رہے گی اور والد کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔
(۲) ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم
میراث کے ضابطے کے مطابق تقسیم کریں، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ جائداد میں سے باپ اپنے اور اپنی بیوی کے لیے بہ قدر ضرورت رکھ کر مابقیہ حصے شرعی قانون وراثت کے اعتبار سے تقسیم کردیں۔
مسئولہ صورت میں چونکہ والد اپنے مال کا مالک ہوتا ہے اس لئے وہ جس طرح چاہیں تقسیم کرسکتا ہے البتہ بلا وجہ اولاد میں سے کسی کو کم کسی کو زیادہ دینے کی صورت میں وہ ماخوذ ہوگا لہذا تقسیم کی بہتر صورتیں وہی ہیں جو اوپر بیان کی ہیں اسی اعتبار سے تقسیم کریں فقہاء نے حیاتی کی تقسیم میں برابری کو ترجیح دی ہے اور اگر وہ نہ کریں تو امام محمد کے قول کے اعتبار سے تثلیث یعنی بہن کو ایک حصہ اور بھائی کو دو حصے کے اعتبار سے تقسیم کی جائے سوال میں مذکور تقسیم میں اوپر جو دوطریقے ذکر کئے ہیں اس اعتبار سے اس کو پرکھلیں۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے
و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال أكل ولدك نحلت مثله؟ قال لا قال فأرجعه و في رواية قال فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم (مشکاۃ المصابیح ١/٢٦١ باب العطایا ط قدیمی)۔
خلاصۃ الفتاوی میں ہے
رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما شیئاً فالأفضل ان یجعل للذکر مثل حظ الانثیین عند محمدؒ وعند ابی یوسفؒ بینھما سواء ھوالمختار لورود الاٰثار (الی قولہ) ولو اعطی بعض ولدہ شیئاً دون البعض لزیادۃ رشدہ لابأس بہ وإن کانا سواء لاینبغی أن یفضل اھ (خلاصۃ الفتاوی ٤/٤٠٠ رشیدیہ)
درمختار میں ہے
لا بأس بتفضیل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب وکذا في العطایا، إن لم یقصد بہ الإضرار وإن قصدہ فسوی یعطي البنت کالابن عند الثاني، وعلیہ الفتوی، وقال الشامي: قولہ ”وعلیہ الفتوی“ أي قول أبي یوسف من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذي ہو قول محمد ( درمختار مع الشامی ۸/۵۰۳ ط: زکریا)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية۔ (فتاویٰ عالمگیری ٤/٣٧٨ الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، رشیدیہ)
ھدایۃ میں ہے
الھبۃ عقد مشروع ۔۔۔۔ وتصح بالإیجاب والقبول والقبض ۔۔۔ والقبض لا بد منہ لثبوت الملک، ۔۔۔۔ ولنا قولہ علیہ الصلاۃ والسلام لا تجوز الھبۃ إلا مقبوضۃ (کتاب الھبۃ ٣/٢٨٥ رحمانیۃ)
فتاوی عالمگیری میں ہے
ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا۔(فتاوی عالمگیری، كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ٤/٣٧٧)
تکملة فتح الملھم میں ہے
أن الوالد إن وھب لأحد أبنائہ ھبة أکثر من غیرہ اتفاقاً أو بسبب علمہ أو عملہ أو برہ بالوالدین من غیر أن یقصد بذلک إضرار الآخرین ولا الجور علیھم کان جائزا علی قول الجمہور، وھو محمل آثار الشیخین وعبد الرحمن بن عوف رضي اللہ عنھم۔(تکملة فتح الملھم، كتاب الهبات ٢/٦۵)
واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں