جمعہ، 6 ستمبر، 2024

سوتیلے نانا اور سوتیلے ماموں سے پردے کا حکم سوال نمبر ٤٩٢

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ 

امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہونگے ۔ایک مسئلہ تھا کہ مثلا زید کی ایک بیوی تھی عائشہ اور اسکی بیٹی ہے رقیہ زید سے ہی۔اور بعد میں زید نے دوسری شادی کی فاطمہ سے۔اور اسکی اولاد بھی زید سے ہی ہے تو اس صورت میں تو علاتی بھائی بہن کی وجہ سے پردہ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رقیہ زید کی دوسری بیوی کے بھائی اور باپ سے پردہ کرےگی؟؟

سائل: مولوی عبد الحسیب اسلام پوری


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


شریعت مطہرہ میں جس طرح ماں کے اصول وفروع محرم ہے اسی طرح باپ کی موطوءه (یعنی جس عورت سے باپ نے وطی کی ہے جیسے سوتیلی ماں) کے اصول وفروع محرم شمار ہوں گے لہذا سوتیلی نانی اور سوتیلے نانا سے اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو شرعاً پردہ ضروری نہیں ہے۔

صورت مسؤلہ میں رقیہ، زید کی دوسری بیوی کے باپ یعنی اپنے سوتیلے نانا سے (اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو) شرعاً پردہ کرنا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ وہ اس کے لئے محرم ہے البتہ رقیہ کے لئے زید کی دوسری بیوی کے بھائی یعنی سوتیلے ماموں سے شرعاً پردہ ضروری ہے اس لئے کہ وہ اس کا محرم نہیں ہے۔


قرآن کریم میں ہے

قال اللہ تعالیٰ : {وَ لَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَ مَقْتًا وَ سَاءَ سَبِيلًا} (النساء: ۲۲)


اسی آیت کے تحت تفسير مظہری میں ہے

المراد بالآباء الأصول بعموم المجاز اجماعا حتى يحرم منكوحة الجد و ان علا سواء كان الجد من قبل الأب او من قبل الام اھ


الھدایہ میں ہے

لا یحل للرجل ان یتزوج بامہ، ۔۔۔۔۔۔۔ ولا بامرأۃ ابیہ و اجدادہ، لقولہ تعالیٰ"ولا تنکحوا ما نکاح اٰبائکم۔ (ھدایہ ۲/۳۲۷ ط: مکتبہ رحمانیہ)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

و یجوز بین امرأۃ وبنت زوجہا فإن المرأۃ لو فرضت ذکرا حلت لہ تلک البنت بخلاف العکس۔ (فتاوی عالمگیری ۱/۲۷۷ ط رشیدیۃ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: