اقسام مہر: مفتی آصف گودھروی
سوال
مہر کی تعریف و حکم کیا ہے؟ مہر کی کتنی قسمیں ہیں؟ مہر فاطمی کی مقدار فی زماننا کیا ہے؟ اسی طرح مہر ام حبیبہ کسے کہتے ہیں واضح فرمائیں؟نیز احناف کے یہاں مہر کی اقل مقدار کی بھی وضاحت فرمائیں؟
سائل: انس بومبئ
متعلم:جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
الجواب: وباللّٰہ التوفیق:
باسمہ سبحانہ وتعالی
مہرکی تعریف
عقد نکاح کی وجہ سے شوہر کو بیوی سے جماع کرنے کا حق اور ایک طرح کی ملکیت حاصل ہوتی ہے، مہر اسی حق و ملکیت کے معاوضہ کا نام ہے، جس کی ادائیگی شوہر پر شرعاً لازم ہے،
اسم للمال الذي یجب في النکاح علی الزوج في مقابلة البضع الخ کذا في الشامي: ج۴ ص۲۲۰،
حکم
نکاح کی وجہ سے شوہر کو بیوی پر ایک طرح کی ملکیت حاصل ہوتی ہے، لہٰذا بیوی کو اس ملکیت کے بدلے مال دلایا جاتا ہے، اس لیے کہ عورت محترم ہے اور بغیر معاوضہ کے اس پر کوئی حق ثابت کرنے میں اس کی اہانت ہے۔ قال في الھدایة: ولأنہ حق الشرع وجوبًا إظھارًا لشرف المحل الخ․ ج۲ ص۳۲۴،
لہذا مہر کی ادائیگی شوہرپر لازم اور ضروری ہے۔ قال تعالیٰ: اَن تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ (النساء:۲۴) بہتر یہ ہے کہ بیوی سے پہلی ملاقات کے وقت مہر اس کے حوالہ کردی جائے۔ اس کا بھی رواج ہے کہ نکاح کے وقت مہر بیوی کے ولی کو حوالہ کردیا جاتا ہے اور ولی منکوحہ کو وہ مہر پہنچادیتا ہے، یہ طریقہ بھی اچھا ہے۔
مہر کی اقسام
عہد نبوی اور دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں چار قسم کے مہروں کا ثبوت ملتا ہے اور یہ چاروں قسمیں آدمی کی مالی حیثیت کے اعتبار سے ہیں
١- مہر ام سلمة
سب سے کم مہر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا تھا، مہر میں دس درہم ہے۔جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مہر کے حضرت ام سلمة رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائے ہیں ، جس کا وزن موجودہ گراموں کے اعتبار سے ٣٠گرام ٦١٠ ملی گرام چاندی ہے یعنی دس گرام کے تولہ سے تین تولہ اور ٦۱٠ ملی گرام چاندی ہے ، اس کی قیمت بازار سے معلوم کی جائے ۔ ( مستفاد : انوار نبوت ص۶۵۱ ج۲ ) اور ایک روایت کے مطابق ۴۰/ درہم کا کچھ سامان تھا،
شرح زرقانی (۴/۴۰۱) میں ہے: قال ابن اسحاق: وأصدقہا فراشًا حشوہ لیف وقدحا وصحفة ومجشة انتہی، قال في الروض: وہي الرحی ومنہ سمي الحشیش وذکر معہا أشیاء لا تعرف قیمتہا منہا جفنة وفراش وفي مسند البزار قال أنس: أصدقہا متاعا قیمتہ عشرة دراہم، قال البزار: ویروی أربعون درہما انتہی یہ حضرت ام المؤمنین ام سلمة رضي اللہ عنہا کا مہر ہے،
٢- مہر فاطمی
اس کی مقدار صحیح قول کے مطابق ۵۰۰ درہم ہے ، جس کا وزن موجودہ گراموں کے حساب سے١٥٣٠گرام چاندی ہے ۔
٣- ام حبیبہ
ازواجِ مطہرات میں سب سے زیادہ مہر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے نجاشی بادشاہ نے ادا کیا تھا، اس کی مقدار راجح قول کے مطابق چار سو دینار تھی المواہب اللدنیہ (مع شرح الزرقاني: ۴/۴۰۴ ط دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان) میں ہے: وأصدقہا عنہ أربع مائة دینار“ اور آگے ص:۴۰۵ پر نجاشی کے الفاظ میں ہے: وقد أصدقتہا عنہ أربع مائة دینار“ اور شرح زرقانی میں ہے: ”وقد أصدقتُہا عنہ أربع مائة دینار“ کما في المستدرک وغیرہ، قال في العیون: وہو أثبت اھ، اس کی مقدار چار ہزار درہم ہے ، جو مہر فاطمی کے 8 گنا ہے ، جس کا وزن موجودہ گراموں کے حساب ۱۲ کلو ۲۶۶ گرام 944 ملی گرام چاندی ہے ، اس کی قیمت بھی بازار سے معلوم کرلیں ۔عن أم حبیبۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہا کانت تحت عبید اللّٰہ بن جحش فمات بأرض الحبشۃ، فزوجہا النجاشي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأمہرہا عنہ أربعۃ آلاف، وبعث بہا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع شرحبیل ابن حسنۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۸۷، سنن النسائي ۲؍۸۷،)
٤- مهر ام كلثوم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی ، حضرت علی و فاطمہ کی بیٹی، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم کے عوض میں نکاح فرمایا ہے ، جس کی مقدار مہر فاطمی کے اسی گنا اور مہر ام حبیبہ کے دس گنا ہوتی ہے ۔ تزوج عمر أم كلثوم رضی اللہ عنه على مہر أربعين ألفا. (الاصابة ، دارالکتب العلمية بيروت ۸/۴۶۶ ) أن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ أصدق أم كلثوم بنت علي أربعين ألف درہم ۔ ( السنن الکبری جدید ۱۱ / ۶ ، نسخة قدیم ۲/۲۳۳ ، رقم : ۱۴۶۹۰ ) ( فتاوی قاسمیہ ۹۳۶/۱۳ )
خلاصہ
واضح رہے کہ مہر سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ فرمودات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مہر کی مقدار اتنی کم بھی نہ ہونی چاہیے کہ بالکل غیرمحسوس ہو اور بہت زیادہ مقدار میں بھی مہر مقرر کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مہر میں غلو نہ کرو، اگر مہر کا زیادہ رکھنا دنیا میں عزت اور اللہ کے نزدیک تقویٰ کی بات ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق تھے،
قال عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: ألا لا تغالوا صدقۃ النساء؟ فإنہا لو کانت مکرمۃ في الدنیا، أو تقوی عند اللّٰہ لکان، أولاکم بہا نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ما علمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نکح شیئا من نسائہ ولا أنکح شیئا من بناتہ علی أکثر من ثنتي عشرۃ أوقیۃ۔
(سنن الترمذي ۱؍ ۲۱۱، سنن أبي داؤد ۱؍۲۸۷)
اسی وجہ سے احناف کے نزدیک مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم (تقریباً ٣٠گرام اور٦٠ ملی گرام چاندی) ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہر دس درھم سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ اور زیادہ مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔
عن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم تزوج أم سلمۃ علی متاع بیت قیمتہ عشرۃ دراہم۔ (المعجم الأوسط ۱؍۲۸۶، رقم: ۴۶۷)
ﻭﺭﻭﻱ ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ - ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ - ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: «ﻻ ﻣﻬﺮ ﺩﻭﻥ ﻋﺸﺮﺓ ﺩﺭاﻫﻢ» ، ﻭﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﻭﻋﻠﻲ ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ - ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻢ - ﺃﻧﻬﻢ ﻗﺎﻟﻮا: ﻻ ﻳﻜﻮﻥ اﻟﻤﻬﺮ ﺃﻗﻞ ﻣﻦ ﻋﺸﺮﺓ ﺩﺭاﻫﻢ، ﻭاﻟﻈﺎﻫﺮ ﺃﻧﻬﻢ ﻷﻧﻪ ﺑاﺏ ﻻ ﻳﻮﺻﻞ ﺇﻟﻴﻪ ﺑﺎﻻﺟﺘﻬﺎﺩ ﻭاﻟﻘﻴﺎﺱ؛ ﻭﻷﻧﻪ ﻟﻤﺎ ﻭﻗﻊ اﻻﺧﺘﻼﻑ ﻓﻲ اﻟﻤﻘﺪاﺭ ﻳﺠﺐ اﻷﺧﺬ ﺑﺎﻟﻤﺘﻴﻘﻦ ﻭﻫﻮ اﻟﻌﺸﺮﺓ.(بدائع الصنائع ج : 2، ص : 276، ط : دارالکتب العلمیة)(کذا فی فتاوی محمودیہ، ج : 17، ص : 271، ط : دارالاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا
1 تبصرہ:
ماشاء اللہ !بے حد خوشی ہوئی آپ کی اس مبارک پیش قدمی سے،اللہ تعالی آپ کو کامیات فرمائےاوراپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے آمین
ایک تبصرہ شائع کریں