جمعہ، 23 دسمبر، 2022

بیوی کو موبائل فون دینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٠۵

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک شخص نے سوال کیاھے انک بیوی سمارٹ موبائل استعمال کرتی ھے اور شوہر کو یہ پسند نھیں ھے اس لئے اسنے بیوی کا موبائل بیچ دیا۔

اب مسلہ یے ھووا ھے کی بیوی کے بھائ نے نیا موبائل دلوایا ھے تو اب شوہر کیا کرے کیا شوہر اسکو موبائل دےسکتا ھے؟ حالاکہ شوہر راضی نھی ھے کے بیوی سمارٹ موبئل استعمال کرے۔

آپسے التجاء ھے تسلی بخش جواب دےکر شکریہ کا موقع عنایت فرمایں۔

سائل محمد بلال پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مرد اگر کسی خاص وجہ سے جیسے موبائل سے وہ غیر محرموں سے باتیں کرے گی یا اس میں غلط ویڈیوز وغیر میں اپنے آپ کو برباد کرے گی یا کوئی اور شرعی یا ذاتی نقصان کو پیش نظر رکھتے ہوئے   اپنی بیوی کو ذاتی موبائل رکھنے سے منع کرتا ہے تو اسے شرعاً یہ حق حاصل ہے، تاکہ ازدواجی زندگی خوشگوار رہے، لیکن اگر کوئی ایسی خاص وجہ نہیں ہے اور بیوی  اپنے والدین سے رابطے کے لیے اپنا ذاتی سادہ موبائل رکھنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں شوہر اسے منع نہیں کرسکتا۔


اس سلسلہ میں فتاوی بنوریہ کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: مرد اگر کسی معقول وجہ سے(مثلاً اس اندیشہ سے کہ عورت گھر کی باتیں اپنے میکے میں بتائے گی، جس سے گھر کا ماحول خراب ہوسکتا ہے،یا غیر لوگوں سے باتیں کرے گی)  اپنی بیوی کو ذاتی موبائل رکھنے سے منع کرتا ہے تو اسے شرعاً یہ حق حاصل ہے،تاکہ ازدواجی زندگی خوشگوار رہے، لیکن اگر کوئی ایسی معقول وجہ نہیں ہے اور بیوی  اپنے والدین سے رابطے کے لیے اپنا ذاتی سادہ موبائل رکھنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں شوہر اسے منع نہیں کرسکتا۔نیز  بیوی کے گھر والوں کا اس کو اپنے گھر روک کر رکھنا مناسب نہیں اور نہ یہ مسئلہ کا حل ہے۔


رد المحتار میں ہے:

"ظاهر الكنز وغيره اختيار القول بالمنع من الدخول مطلقا واختاره القدوري وجزم به في الذخيرة، وقال: ولا يمنعهم من النظر إليها والكلام معها خارج المنزل إلا أن يخاف عليها الفساد فله منعهم من ذلك أيضا۔ (رد المحتار علی الدر المختار،603/3، سعید)۔ فقط واللہ اعلم۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٤٣٠٦١٠٠٠٧٦)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

بدھ، 14 دسمبر، 2022

نکاح پڑھانے کی اجرت کا مستحق کون امام مسجد یا نکاح پڑھانے والا؟ سوال نمبر ٤٠٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

نکاح خوانی کی اجرت کا مستحق کون ہے؟ نکاح پڑھانے والا شخص یا مسجد کا امام ؟ اور اگر مسجد کا امام اجرت لے لے اور نکاح پڑھانے والے کو نہ دے تو یہ حلال ہوگا یا نہیں؟

سائل: ابو اسامہ مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح پڑھانا ایک عمل ہے اور اس پر اجرت لینا جائز ہے لہذا اصولی طور پر نکاح خوانی کی اجرت کا مستحق 

وہی شخص ہے جس نے نکاح پڑھایا ہے اور اجرت  صرف نکاح پڑھانے والے کو ہی دیں گے نکاح پڑھانے والا چاہے امام مسجد ہو یا پھر کوئی اور ہو اس رقم میں اگر نکاح امام مسجد کے علاوہ کوئی اور بڑھاتا ہے تو امام مسجد کا اور مؤذن کا کوئی حصہ نہیں ہوتا نیز  یہ تو نکاح خوانی کی اجرت ہے نہ کہ محلہ کی مسجد کے امام کا حق جس نے نکاح پڑھایا ہے نکاح کی اجرت اسی کو  دینا ضروری ہے لہذا وہ پیسہ امام مسجد کے ہاتھ میں پہنچا ہو تو اس پر ضروری ہے کہ امانت سمجھ کر مستحق تک پہنچا دے نہ پنہچانے کی صورت میں وہ گنہگار ہوں گے۔


(مستفاد: کفایت المفتی ، قدیم زکریا ۵/ ۱٤٦

 (فتاوی قاسمیہ ٧ / ٦٧٧ تا ٧٠٣)

(امداد الفتاوی ۲/ ۲٦۸)

(خیر الفتاوی زکریا ٤/ ۵۸٦)

(فتاوی محمودیہ دابھیل ۱۷/۹۵)


فتاوی شامی میں ہے

(الأجرۃ إنما تکون بمقابلۃ العمل۔ (فتاوی شامي  ٤/۳۰۷)


خلاصة الفتاوى میں ہے

ولا يحل له أخذ شيء على النكاح إن كان نكاحا يجب عليه مباشرته كنكاح الصغائر، وفي غيره يحل۔ (خلاصة الفتاوى، كتاب القضاء، الفصل العاشر في الحظر والإباحة، أشرفي ديوبند ٤/٤٨)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وکل نکاح باشره القاضي، وقد وجبت مباشرته علیه کنکاح الصغار والصغائر، فلا یحل له أخذ الأجرة علیه، وما لم تجب مباشرته علیه حل له أخذ الأجرة علیه. (فتاوی عالمگیري ٣/٣٤۵ الباب الخامس عشر في أقوال القاضي، وما ینبغي للقاضي أن یفعل، زکریا دیوبند)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 

العارض مفتی آصف گودھروی

منگل، 13 دسمبر، 2022

گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٠٣

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبركاته

مفتی صاحب سوال یہ کہ ایک آدمی نےکسی کےپاس دوکانی زمین گروی دیکر ایک ٹیکل سونا لیا بغیر منافعہ کے تو وہ آدمی  بطور رضا وخوشی سونے والے کو یہ کہہ دے تم میری زمین میں کھیتی وغیرہ کرو  تو وہ کھیتی وغیرہ کرے تو اس کیلئے سود ہوگا بالدلیل بیان کرو؟

سائل حافظ شفیق اللہ برما 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


یہ وہ صورت ہے جس کو عربی میں رہن اور اردو زبان میں  اسے گروی کہتے ہیں رہن اور گروی کا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کو قرض دے کر اطمینان قلب کے خاطر مالی چیز کو قرض کے بدلے اپنے پاس روکے رکھنا تاکہ جب وہ دین ادا نہ کرپائے تو اس سے یا اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے اپنے دَین کو وصول کرسکے یعنی اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے تو قرض دینے والا بطورِ ضمانت و وثیقہ قرض دار سے کوئی قیمتی چیز لے کر اپنے قبضے میں رکھتا ہے کہ اگر قرض دار قرض نہ ادا کرسکے تو اس قیمتی چیز سے قرض کی رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا جاسکے۔


اب گروی رکھے ہوئے مال سے فائدہ اٹھانا یا تو گروی رکھنے والے کی اجازت سے ہوگا یا بغیر اجازت کے یاعرف و رواج کے اعتبار سے ہوگا یہ تمام صورتیں شرعاً ممنوع ہیں اجازتاً ممنوع تو اس لیے ہے کہ وہ نفع، ربوا ہے اور سود اجازت سے بھی حلال نہیں ہوتا اور بغیر اجازت کے تو بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوگا اور عرفاً انتفاع اس لیے جائز نہیں ہے کہ معروف مشروط کی طرح ہے اور جوحکم مشروط کا ہے وہی حکم معروف کا ہے غرض فقہاء کرام کے نزدیک کسی بھی صورت میں مال مرہون سے فائدہ اٹھانا سود ہے اس لیے رہن کی اشیاء سے مرتہن کے لیے مطلقاً انتفاع جائز نہ ہوگا۔ (مستفاد: کتاب الفتاوی ۵ / ۵۸۵ تا ۵۸۹ : فتاوی قاسمیہ ٢٢ / ٧٩ تا ٩٠ : امدادالفتاوی قدیم ٣/٤۵٤ : فتاوی رشیدیہ ۵١٧صفحہ دارالاشاعت)


فتاوی شامی کی بعض عبارات سے راہن کی اجازت ہونے کی صورت میں جواز کا اشارہ ملتا ہے البتہ ہمارے اکابر علماء نے اس پر فتوی نہیں دیا ہے بلکہ عدم انتفاع کے فتوی کی ہی صراحت مذکور ہے۔


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: مال مرہون سے فائدہ اٹھانا مرتہن کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ راہن اس کی اجازت دے اس لیے صورت مسئولہ میں زید کے لیے عمر کی زمین (جو اس کے پاس بطور رہن ہے) سے کھیتی وغیرہ کرکے نفع حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اگرچہ عمر اس کی اجازت دیدے؛ کیونکہ رہن سے انتفاع درحقیقت قرض دے کر نفع لینا ہے اور اسے حدیث میں ”سود“ قرار دیا کیا ہے، کل قرض جر منفعة فہو ربا (مصنف ابن أبي شیبہ، رقم: ۲۰۶۹) اور سود لینا باہمی رضامندی سے بھی درست نہیں ہوتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ۱۵٨١٢٨)


صورت مسؤلہ میں گروی رکھی ہوئی زمین کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے  چاہے گروی رکھنے والا اجازت دے چکا ہو تب بھی اس کے استعمال کی شرعاً اجازت نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کو گروی رکھنا قرض کے بدلے ہوتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے نفع حاصل کرنا یہ سود ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرض دے کر نفع اٹھانا یہ سود کے زمرہ میں داخل ہوجاتا ہے لہذا س طرح اس سے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔


الدر المختار مع ردالمحتار میں ہے 

کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا (الدر المختار مع ردالمحتار  ۷/۳۹۵)


فتاویٰ شامی میں ہے 

وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا فيكون ربا، وهذا أمر عظيم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والغالب من احوال الناس انهم انما یریدون عند الدفع الانتفاع ولولاه لما اعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط لأن المعروف کالمشروط وهو یعین المنع (الدر المختار مع ردالمحتار: ١٠/٨٣)

ایضاً 

(لا انتفاع به مطلقاً) لا باستخدام، ولا سكنى ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة، سواء كان من مرتهن أو راهن (إلا بإذن) كل للآخر ۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: من مرتهن أو راهن) الأول مصرح به في عامة المتون، والثاني صرح به في درر البحار وشرح مختصر الكرخي وشرح الزاهدي، وفيه خلاف الشافعي فعنده يجوز له الانتفاع بغير الوطء، والأول لا خلاف فيه كما في غرر الأفكار۔


 النتف في الفتاوى میں ہے 

أنواع الربا وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه أحدها في القروض والثاني في الدیون، والثالث في الرهون الربا في القروض فأما في القروض فهو علی وجهین أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلك القرض أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه … ولو لم یکن سبب ذلك (هذا) القرض لما کان (ذلك) الفعل، فإن ذلك رباً، وعلی ذلك قول إبراهیم النخعي کل دین جر منفعةً لا خیر فیه۔ (النتف في الفتاوى ١ / ٤٨٤ ٤٨۵ ط دار الفرقان)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

اتوار، 11 دسمبر، 2022

نکاح فاسد میں پیدا ہونے والے بچے کے لئے وراثت کا حکم شرعی کیا ہے؟ سوال نمبر ٤٠٢

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ 

نکاح فاسد میں پیدا ہونے والے بچے کے لیے باپ کے ترکے میں سے وراثت ثابت ہوگی یا نہیں؟ با حوالہ جواب عنایت فرمائیں

سائل: ابو اسامہ ملی مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


بغیر گواہوں کے  نکاح کرنا یا منکوحۃ الغیر سے لاعلمی میں نکاح کرنا وہ نکاح فاسد ہوتاہے اس نکاح میں دونوں اجنبی ہی ہوں گے اور دونوں کے لئے جس طرح نکاح فاسد سے پہلے دونوں کا آپس میں ازدواجی تعلق قائم کرنا حرام ہوتا ہے اسی طرح نکاح فاسد کے بعد بھی دونوں کا ازدواجی تعلق قائم کرنا یا میاں بیوی کی طرح ساتھ رہنا حرام ہوتا ہے۔


البتہ اس نکاح فاسد سے  جو اولاد پیدا ہوجائے  توتحفظ نسب کی خاطر وہ شرعاًاسی شوہر سے ثابت النسب ہوتی ہے تاکہ بچہ محفوظ النسب ہوجائے لیکن وراثت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔


(ويثبت النسب) احتياطا بلا دعوة (وتعتبر مدته) وهي ستة أشهر (من الوطء، فإن كانت منه إلى الوضع أقل مدة الحمل) يعني ستة أشهر فأكثر (يثبت) النسب (وإلا) بأن ولدته لأقل من ستة أشهر (لا) يثبت، وهذا قول محمد وبه يفتى، وقالا: ابتداء المدة من وقت العقد كالصحيح ورجحه في النهر بأنه أحوط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: ويثبت النسب) أما الإرث فلا يثبت فيه وكذا النكاح الموقوف ط عن أبي السعود (قوله:احتياطا) أي في إثباته لإحياء الولد ط (قوله: وتعتبر مدته) أي ابتداء مدته التي يثبت فيها (قوله: وهي ستة أشهر) أي فأكثر۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٤/٢٧٧)

ایضاً 

قوله ( نكاحا فاسدا ) هي المنكوحة بغير شهود ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة"۔(ردالمحتار،مطلب في النكاح الفاسد، ۵/١٩٧)"


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

منگل، 6 دسمبر، 2022

نیچے مسجد اوپر فلور ہو یا اوپر مسجد نیچے فلور ہوتو کیا وہ مسجد شرعی شمار ہوگی سوال نمبر ٤٠١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ شرعی مسجد کے اوپر مکانات کی تعمیر کا حکم کیا ہے؟ جیسے کہ بمبئی میں ہوتا ہے۔ تحقیقی جواب مطلوب ہے۔

سائل مولانا بلال صاحب نولپوری

 

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

 اوقاف مساجد کے سلسلہ میں فقہائے اَحناف نے اصولی اعتبار سے یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ اوپر مسجد کی حد آسمان کی بلندی تک اور نیچے زمین کی گہرائی  تک ہے۔

جیسا کہ علامہ شامی فتاوی شامی میں تحریر بقلم ہے ۔ قال فی البحر: وحاصلہ أن شرط کونہ مسجدا أن یکون سلفہ وعلوہ مسجدا ینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی وان المساجد للہ (الدر المختار مع الشامی مطلب فی أحکام المسجد ٦/۵٤۷ زکریا)

اور جب یہ بات ہے تو پھر مسجد کا حکم شرعی اوپر نیچے دونوں طرف شمار ہوگا یعنی نہ اوپر کوئی چیز مصالح مسجد کے علاوہ تعمیر کرنا درست ہے اور نہ ہی نیچے درست ہے البتہ مصالح مسجد کی قبیل سے ہیں تو جائز ہے جیسے امام مسجد کے لئے مسجد پر رہائشی مکان اور اس میں بھی یہ شرط ہے کہ  مسجد کی تعمیر سے پہلے رہائش کے لیے کوئی جگہ خاص کی گئی ہو، مثلا تعمیر کردہ جگہ کا ایک منزلہ یا اس کا کوئی حصہ رہائش کےلئے خاص کیا ہو تو وہاں رہائش بنائی جاسکتی ہے اور اگر مکمل جگہ مسجد کے لئے ہی خاص ہو   اور رہائش وغیرہ کی جگہ کی تعیین نہ کی ہو  تو ایسی صورت میں وہاں رہائش بنانا درست نہیں۔

اب موجودہ دور میں بڑی بڑی سیٹیوں میں جیسے بمبئی وغیرہ ہے جہاں کثیر آبادی کی بناپر جگہ تنگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے مساجد یا تو کثیر فاصلے پر واقع ہوتی ہیں یا کاروباری مراکز میں جہاں لوگوں کے لئے دور جاکر نماز کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی اُن کی سہولت کے لیے فلیٹوں یا کاروباری عمارتوں میں نماز کے لئے باقاعدہ مسجد کی جگہ مختص کی جاتی ہے اسی طرح تعمیر مسجد سے قبل ہی یہ طے ہوجاتاہے کہ پہلے یا دوسرے فلور میں مسجد اور اس کے اوپر مکانات کی تعمیر ہوگی تاکہ اِن جگہوں سے وابستہ لوگ باجماعت مسجد کے ثواب کو حاصل کرتے ہوئے نماز ادا کر سکیں جہاں پر باقاعدہ پنج وقتہ اذان و نماز باجماعت ہوتی ہے اور  باقاعدہ جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہے تو اس سلسلہ میں اقوال فقہاء سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ مسجد کے اوپر یا نیچے اپنی ذاتی ملک کے طور پر کوئی بھی منزل یا دکان وغیرہ بنانا درست نہیں ہے تعمیر کی صورت میں وہ مسجد مسجدعرفی  شمار ہوگی مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہوگی۔

اس سلسلہ میں فتاوی بنوریہ میں ایسے ہی سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہیں کہ: واضح رہے کہ اگر وقف کی  زمین پر مسجد  کی تعمیر  سے  پہلے   نیچے والے حصے میں  دکانیں یا مکانات بنائے جائیں،  اور یہ دکانیں اور مکانات مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے ہو ں، تو اس کی  گنجائش ہے،  اور ایسی صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد کے حکم میں ہوگی،  لیکن مذکورہ دکانوں اور مکانوں  کا استعمال مسجد کے تقدس اور احترام کو ملحوظ رکھ کر کرنا ہوگا یعنی ان مکانات میں قضاءِ حاجت یا میاں بیوی کے ملنے اور حائضہ عورت کے آنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور مستقل گھر بنانے میں جہاں بیت الخلا بھی ہو اور اہلِ خانہ سمیت رہائش اختیار کی جائے، مسجد کے آداب اور تقدس کا خیال نہیں رکھا جاسکتا، لہٰذا اس کی اجازت نہیں ہوگی، اور دکانوں میں بھی ضروری ہوگا کہ غیر شرعی کام نہ کیا جائے اور کوئی غیر شرعی چیز نہ رکھی جائے۔

اور اگر  نیچے اور اوپر مسجد کی تعمیر مکمل  ہوجائے  تو  پھر نیچے نہ دکانیں بنائی جاسکتی ہیں  اور نہ ہی وضوخانہ بنایا جاسکتا ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ ابتدائی تعمیر کے وقت بھی دکانیں مسجد کے احاطہ یعنی  نماز پڑھنے کے لیے مختص کی گئی جگہ کے اردگرد بنائی جائیں، عین اس کے نیچے نہ بنائی جائیں۔

نیز اگر پہلے سے بنی ہوئے مکانات کے اوپر مسجد بنائی جائے اور وہ مکانات شخصی ملکیت ہوں، مسجد کے مصالح کے لیے وقف نہ ہوں  تو  ایسی صورت میں اس کے اوپر والی جگہ شرعی مسجد نہیں بنے گی،  بلکہ یہ عرفی مسجد ہے، کیوں کہ مسجدِ شرعی بننے کے لیے شرط ہے کہ اس مسجد کے اوپر یا نیچے مصالحِ مسجد کے علاوہ کوئی دوسری چیز تعمیر نہ ہو، اس لیے کہ مسجدِ شرعی اوپر آسمان تک اور نیچے تحت الثریٰ تک مسجد ہوتی ہے، لہذا   اس میں نماز باجماعت پڑھنا درست ہے، البتہ اس کا ثواب شرعی مسجد کا نہیں ہوگا اور اس میں اعتکاف بھی درست نہیں ہوگا۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٤٢٠٢٢٠٠١٨٤)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے جس کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :  مسجد شرعی تحت الثری سے لے کر سریا یعنی آسمان کی فضا تک مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے؛ لہٰذا مسجد شرعی کے تمام حصوں خواہ نچلا حصہ ہو یا اوپر والا حصہ مسجد کے علاوہ کسی دوسرے استعمال میں لانا صحیح نہیں ہے ۔۔۔۔ البتہ اگر ابتداء بناء کے وقت ہی مسجد کے نیچے مصالح مسجد مثلا امام صاحب و موٴذن کی رہائش کے لیے کسی جگہ کو خاص کر لیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کی گنجائش ہے۔ (دارالافتاء : دارالعلوم دیوبند : جواب نمبر ١٧٦٨٣٤)

اسی طرح کتب فتاوی میں اکثر فتاوی اسی قبیل سے ہیں اور اس سلسلے میں عام کتب فقہ و فتاوی میں اس کے جواز کی صورت نظر سے نہیں گزری اور تعمیر کی صورت میں اس کے عدم مسجد شرعی ہونے کی فقہاء نے تصریح فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

کتاب النوازل میں ہے۔

یہ طریقہ کہ نیچے کا حصہ اپنی ملکیت میں رہے اور اوپر کی منزل میں مسجد بنادی جائے ، اس سے اوپر کی منزل مسجد شرعی نہیں بن سکتی بلکہ وہ جگہ محض جماعت خانہ کے حکم میں ہوگی جس میں نماز پڑھنا تو جائز ہے؟ لیکن مسجد شرعی کا ثواب نہیں ملے گا، مسجد شرعی اُس وقت بنے گی جب کہ اوپر اور نیچے دونوں حصے مسجد ہی پر وقف ہوں ، اور مسجد کے مصالح کے لئے استعمال کیا جائے۔ (کتاب النوازل ١٣/ ١٨٦ تا ١٨٨)

اس کے علاوہ دیگر کتب فتاوی کے حوالے تحریر فرماتاہوں زیادہ طوالت کے خوف سے اس کو تحریر نہیں کیا گیا ہے لہذا اس کی طرف بھی مراجعت فرمائیں۔

(جواہر الفقہ،۳: ۱۲٤، ۱۲۵، ۱۳۵، رسالہ آداب المساجداور اس کا ضمیمہ، مکتبہ دار العلوم کراچی)

(امداد الاحکام ٣ /٢٣٢ ۔ ٢٣٣ ۔ ٢٣٨۔ ۲۶۹ ۔ ۲۷۰ مطبوعہ:مکتبہ دار العلوم کراچی)

(فتاوی عثمانی ٢/۵١١)

(خیر الفتاوی ٢ / ٧٢٢ ۔  ٧٥٥ ۔  ٧٥٧ ۔  ٨٠٧)

(احسن الفتاوی ٦/٤٤)

(فتاوی قاسمیہ١٧/٦٦٦)

(محمود الفتاوی٤/٦٠٧)

(فتاوی رحیمیہ ٩/ ٩٧ ۔ ١٣٢)

(فتاوی دارالعلوم زکریا ٤/٦٦٧)

البتہ صاحب ہدایہ اور صاحب فتح القدیر نے اپنی تصانیف میں علمائے احناف کی مختلف روایات تحریر فرمائی ہیں جس سے ان کے جواز کی طرح رہنمائی ملتی ہے کیوں ضرورت کے وقت ائمہ احناف نے ایسے مقامات میں اوپر یا نیچے کی منزل میں مکانات کی تنگی کی وجہ سے مسجد کے اوپر یا مسجد کے نیچےتعمیر مکان کو جائز قرار دیا ہے صاحب بحر نے ان اقوال کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن ضرورت شدیدہ کے وقت اس سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے سب سے پہلے صاحب ہدایہ وفتح القدیر کی عبارت کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔

ان دونوں حضرات کی عبارت (ہدایہ ٤/٦٢٢ مکتبہ رحمانیہ  ۔۔۔  فتح القدیر ٢٣٥ ٢٣٤/ ٦) میں علمائے احناف کی تین روایات بیان کی ہے۔

(١) امام حسن بن زیاد سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی روایت کہ نچلی منزل پر مسجد ہو اور اُس کے اوپر رہائش کے لیے مکانات ہو تو یہ مسجد شرعی کے حکم میں ہوگی اس لئے کہ مسجد ہمیشہ مسجد ہوتی ہے اور یہ نچلی منزل میں متحقق ہے نہ کہ اوپر والی منزل میں ۔

(٢) امام محمد رحمہ اللہ کی روایت کہ اوپر والی منزل پر مسجد ہو اور اُس کے نیجے کے حصے میں رہائش کے لیے مکانات ہو تو یہ مسجد شرعی کے حکم میں ہوگی اور یہ رجحان امام محمد رحمہ اللہ کا اس وقت ہوا  جب ’’مقام رے‘‘ میں تشریف لائے تو ضرورت کے سبب اُنہوں نے اِسے جائز رکھا البتہ اوپر مسجد بنانے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ مسجد بہت ہی عظیم جگہ ہے اس کی تعظیم لازمی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ وہ اوپر ہو اور گھر دوکان نیچے ہو جب اوپر رہائش ہوگی یا ایسا مکان ہوگا جسے کرائے پر دیا گیا ہو تو مسجد کی تعظیم دشوار ہوگی۔

(٣) امام ابویوسف رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے دونوں وجوہات کو جائز قراردیا اور یہ رجحان اس وقت ہوا جب وہ بغداد آئے اور تنگ گھروں کو دیکھا تو ضرورت کے اعتبار سے اُنہوں نے اِسے جائز رکھا اور اسی طرح اگر مکان کے وسط میں مسجد بنائی اور لوگوں کو (نماز پڑھنے کے لئے) داخلے کی عام اجازت دے دی (تو جائز ہے)

نیز حضرت مفتی شفیع صاحب نے اپنی کتاب جواہر الفقہ میں آخر میں جو تلخیص تحریر فرمائی ہے اس سے بھی ضرورت شدیدہ کے وقت اس کے جواز کی طرف اشارہ ملتا ہے عبارت ملاحظہ فرمائیں۔

جواہر الفقہ میں ہے۔

( مسئلہ ) اگر کوئی مسجد ایسی بنادی جائے کہ نیچے دکا نیں یا تہہ خانے وغیرہ بنالے۔

اقول: اس باب میں تتبع تفحص بالغ روایات فقہیہ کے جو میں سمجھا ہوں وہ معروض ہے۔

ماخوذ اس مسئلہ کا بیت المقدس کے سرادیپ ہیں جن پر خیر القرون میں کسی نے نکیر نہیں کیا اس سے سمجھا گیا کہ مصالح مسجد کے لئے دوسرا درجہ جو بنا میں مسجد کے تابع ہو مشروع ہے۔

(۲) یہ حکم تعبدی نہیں بلکہ اشتراک علت تبعیت قیاس متعدی ہو سکتا ہے

(٣) اگر مصالح ویسے ہی ہوں جو سرادیپ مذکورہ سے متعلق ہوں اور تبعیت کی وہی ہیئت جو ان سرادیپ میں ہے تب تو قیاس یہی ہے اور اگر مصالح دوسری قسم کے ہوں جیسے وقف بالاستقلال للمسجد یا ہیئت تبعیت دوسری طور کی ہو جیسے مسجد کا علو پر ہونا یا مسجد پر علو کا ہونا اس کا الحاق نفی ہے چنانچہ بہت روز تک مجھ کو اس میں تر دو ر ہا لیکن شامی نے کتاب الوقف میں اسعاف سے ایک عبارت نقل کی ہے۔واذا کان السرادیب او العلو لمصالح المسجد او کان وقفاعلیه صار مسجد ..شرنيلا ليه۔

اس میں " او کان وقفاً عليہ"  كا عطف كان لمصالح المسجد پر ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ استقلال للمسجد کا حکم بھی یہی ہے ، خواہ اس کا نام مصالح مسجد رکھا جائے خواہ فی حکم مصالح المسجد رکھا جائے ، بہر حال حکم مشترک ہے۔

اور ہدایہ میں ہے۔  وروى الحسن عنه اى عن ابي حنيفة انه اذا جعل السعد مسجدًا اور على مسكن فهو مسجد وعن محمد عكس هذا اى جعل العلو مسجدا يصح ۱۲، وعن أبي يوسف انه جوز في الوجهين عن محمد انه حين دخل الذى اجاز ذلك كله لما قلنا (من الضرورة اه‍)  ملخصاً

اس سے ظاہر ہے کہ یہ سب ہیئتیں تبعیت کی مقیس علیہ کے ساتھ ملحق ہیں۔ یہ الحاق بالقیاس بضرورت ہے چنانچہ هدایہ کی مذکورہ عبارت میں ضرورت کا بناء الحاق ہونا مصرح ہے۔

(۵) اس دوسرے درجہ کی بناء مشروط ہے اس کے ساتھ کہ مسجد کی مسجدیت کے قبل بانی کی نیت اس بناء کی ہو ورنہ بعد تمامیت مسجد کے ایسا کوئی تصرف جائز نہیں۔

(٦)فقہاء نے جو مسجد کو عنان سماء  و تحت الثری  تک مسجد کہا ہے یہ تقیيد ہے اس صورت کے ساتھ جب کہ بناء مسجد کے وقت دوسرے درجہ فوقانی یا تحتانی کے بنانے کی نیت نہ ہو۔

(٧)”ونبهت عليه لعقلة كثير من الناس عنه حتى المنسوبين الى العلم “ان سب احکام میں فناء مسجد بھی یعنی  حصہ متعلقہ مسجد  کے حکم میں ہے۔ (جواہر الفقہ ٣ / ١٣٤ ١٣۵)

خلاصۂ کلام

ان سب فتاوی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ فقہاء نے عام حالات میں کسی بھی حال میں مسجد کے اوپر نیچے دوسری عمارات کے الحاق کے عدم جواز کا فتوی دیا ہے البتہ ضرورت کی صورت میں چند شرائط کے ساتھ الحاق کے جواز کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

(١) وقف کی زمین پر مسجد کی تعمیر کرنے سے  پہلے نیچے یا اوپر والے حصے کو دکانیں یا مکانات بنانے لئے متعین کئے گئے ہو مسجد مکمل ہوجانے کے بعد ایسا کسی بھی قسم کا کوئی تصرف جائز نہیں گا۔

(٢) دکانیں اور مکانات مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے ہوں تو اس کی گنجائش ہے اپنی ذاتی ملک نہ ہو۔

(٣) تیسرے نمبر پر وہ ہے جس کا حضرت مفتی شفیع صاحب نے تلخیص میں اشارہ فرمایا ہے کہ فقہاء نے جو مسجد کو عنان سماء  و تحت الثری  تک مسجد کہا ہے  وہ قید اس صورت کے ساتھ ہے جب کہ بناء مسجد کے وقت دوسرے درجات اوپر یا نیچے کے بنانے کی نیت نہ ہو۔

(٤) صاحب فتح القدیر کی صراحت کے مطابق جب امام یوسف صاحب رحمہ اللہ بغداد گئے اور مکانات کی تنگی کو دیکھا تو اُنہوں نے دونوں صورتوں کو جائز قرار دیا اسی طرح جب امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ ’’مقام رے‘‘ گئے تو اسی ضرورت کی بنا پر اُنہوں نے دونوں صورتوں کو جائز قراردیا اس سے بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ ضرورت کے وقت اوپر یا نیچے تعمیر مکان ہو اور اوپر یا نیچے کسی ایک فلور کو مسجد کے لئے خاص کیا جائے تو جائز ہے۔

(۵) ان مذکورہ عبارات سے جگہ کی تنگی اور دشواری کی صورت میں مطلق جواز کی طرف اشارہ ملتا ہے عام حالات میں عدم جواز تعمیر کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔

صورت مسئولہ میں ہدایہ و فتح القدیر میں مرقوم اقوال احناف اور حضرت مفتی شفیع صاحب کی پیش کردہ تلخیص کی بناپر بمبئی سیٹی میں جگہ کی تنگی اور دشواری ہے جس کی وجہ سے ضرورتاً اوپر یا نیچے کے فلور میں تعمیر مسجد کے لئے خاص کرنے کو جائز قرار دیا جائے گا اور اس صورت میں وہ مسجد مسجد شرعی کے حکم میں ہی شمار ہوگی۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

ہدایہ میں ہے۔

قال ومن جعل مسجدا تحته سرداب او فوقه بیت و جَعَل باب المسجد الى الطريق وعزله عن ملكه فله ان يبيعه وإن مات يورثت عنه لانه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به ولوكان السرداب لمصالح المسجد جاز كما فى مسجد بيت المقدس وروى الحسن عنه إذا جعل السفل مسجدا و على ظهره مسكن فهو مسجد لأن المسجد ممايتأبد و ذلك يتحقق فى السفل دون العلو المسجد وعن محمد على عكس هذا لأن المسجد معظم و إذا كان فوقه مسکن او مستغل يتعذر تعظيمه عن ابى يوسف أنه جوز فى الـوجهين حىن قدم البغداد و رأى ضئق المنازل فكأنه اعتبر الضرورة وعن محمد انه حين دخل الرے اجاز ذلك كله لما قلنا۔ (ہدایہ ٤/٦٢٢ مکتبہ رحمانیہ)

فتح القدیر میں ہے۔

بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لصاحب المسجد، فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد؛ بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت القدس، هذا هو ظاهر المذهب. وروي عن أبي حنيفة أنه إذا جعل السفل مسجداً دون العلو جاز، لأنه يتأبد بخلاف العلو، وهذا تعليل للحكم لوجود الشرط، فإن التابيد شرط وهو مع المقتضى، وإنما يثبت الحكم معهما مع عدم المانع، وهو تعلق حق واحد، وعن محمد عكسه لأن المسجد معظم، وهو تعليل بحكم الشيء وهو متوقف على وجوده. وعن أبي يوسف أنه جوز ذلك في الأولين لما دخل بغداد ورأى ضيق الأماكن، وكذا عن محمد لما دخل الري وهذا تعليل صحيح لأنه تعليل بالضرورة. (فتح القدیر  ٦/٢١٨)

البحر الرائق میں ہے۔

حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً لينقطع حق العبدعنه لقوله تعالى وأن المساجد للّٰه بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح.

فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق. اهـ." (البحر الرائق ۵/٢٧١   کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے۔

(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

(قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح. وشرط في المصباح أن يكون ضيقاً، نهر (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفاً عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية۔

قال فی البحر وحاصلہ أنّ شرط کونہ مسجدا أن یکون سفلہ وعلوہ مسجدا لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی: وأنّ المساجد للہ (الجن: ۱۸) بخلاف ما إذا کان السرداب والعلوّ موقوفا لمصالح المسجد فہو کسرداب بیت المقدس ، ہذا ہو ظاہر الروایة ۔۔۔۔۔۔

لو بنی فوقہ بیتا للإمام لا یضرّ ؛ لأنّہ من المصالح أمّا لو تمّت المسجدیّة ثمّ أراد البناء منع ولو قال: عنیت ذلک لم یصدّق ۔۔۔۔۔

أما لوتمت المسجدية ثم أراد البناء منع، ولو قال عنيت ذلك لم تصدق . تاتارخانية. فإذا كان هذا في الوقف، فكيف يغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه، ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا، ولا سكنى. بزازية۔ (ردالمحتار، مطلب في أحکام المسجد: ٦ / ۵٤۷ ۵٤۸ ط زکریا)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب  

العارض مفتی آصف گودھروی       

الجوب صحیح : استاذ محترم

حضرت مفتی نثار احمد صاحب گودھروی