بدھ، 14 دسمبر، 2022

نکاح پڑھانے کی اجرت کا مستحق کون امام مسجد یا نکاح پڑھانے والا؟ سوال نمبر ٤٠٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

نکاح خوانی کی اجرت کا مستحق کون ہے؟ نکاح پڑھانے والا شخص یا مسجد کا امام ؟ اور اگر مسجد کا امام اجرت لے لے اور نکاح پڑھانے والے کو نہ دے تو یہ حلال ہوگا یا نہیں؟

سائل: ابو اسامہ مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح پڑھانا ایک عمل ہے اور اس پر اجرت لینا جائز ہے لہذا اصولی طور پر نکاح خوانی کی اجرت کا مستحق 

وہی شخص ہے جس نے نکاح پڑھایا ہے اور اجرت  صرف نکاح پڑھانے والے کو ہی دیں گے نکاح پڑھانے والا چاہے امام مسجد ہو یا پھر کوئی اور ہو اس رقم میں اگر نکاح امام مسجد کے علاوہ کوئی اور بڑھاتا ہے تو امام مسجد کا اور مؤذن کا کوئی حصہ نہیں ہوتا نیز  یہ تو نکاح خوانی کی اجرت ہے نہ کہ محلہ کی مسجد کے امام کا حق جس نے نکاح پڑھایا ہے نکاح کی اجرت اسی کو  دینا ضروری ہے لہذا وہ پیسہ امام مسجد کے ہاتھ میں پہنچا ہو تو اس پر ضروری ہے کہ امانت سمجھ کر مستحق تک پہنچا دے نہ پنہچانے کی صورت میں وہ گنہگار ہوں گے۔


(مستفاد: کفایت المفتی ، قدیم زکریا ۵/ ۱٤٦

 (فتاوی قاسمیہ ٧ / ٦٧٧ تا ٧٠٣)

(امداد الفتاوی ۲/ ۲٦۸)

(خیر الفتاوی زکریا ٤/ ۵۸٦)

(فتاوی محمودیہ دابھیل ۱۷/۹۵)


فتاوی شامی میں ہے

(الأجرۃ إنما تکون بمقابلۃ العمل۔ (فتاوی شامي  ٤/۳۰۷)


خلاصة الفتاوى میں ہے

ولا يحل له أخذ شيء على النكاح إن كان نكاحا يجب عليه مباشرته كنكاح الصغائر، وفي غيره يحل۔ (خلاصة الفتاوى، كتاب القضاء، الفصل العاشر في الحظر والإباحة، أشرفي ديوبند ٤/٤٨)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وکل نکاح باشره القاضي، وقد وجبت مباشرته علیه کنکاح الصغار والصغائر، فلا یحل له أخذ الأجرة علیه، وما لم تجب مباشرته علیه حل له أخذ الأجرة علیه. (فتاوی عالمگیري ٣/٣٤۵ الباب الخامس عشر في أقوال القاضي، وما ینبغي للقاضي أن یفعل، زکریا دیوبند)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 

العارض مفتی آصف گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: