منگل، 13 دسمبر، 2022

گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٠٣

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبركاته

مفتی صاحب سوال یہ کہ ایک آدمی نےکسی کےپاس دوکانی زمین گروی دیکر ایک ٹیکل سونا لیا بغیر منافعہ کے تو وہ آدمی  بطور رضا وخوشی سونے والے کو یہ کہہ دے تم میری زمین میں کھیتی وغیرہ کرو  تو وہ کھیتی وغیرہ کرے تو اس کیلئے سود ہوگا بالدلیل بیان کرو؟

سائل حافظ شفیق اللہ برما 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


یہ وہ صورت ہے جس کو عربی میں رہن اور اردو زبان میں  اسے گروی کہتے ہیں رہن اور گروی کا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کو قرض دے کر اطمینان قلب کے خاطر مالی چیز کو قرض کے بدلے اپنے پاس روکے رکھنا تاکہ جب وہ دین ادا نہ کرپائے تو اس سے یا اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے اپنے دَین کو وصول کرسکے یعنی اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے تو قرض دینے والا بطورِ ضمانت و وثیقہ قرض دار سے کوئی قیمتی چیز لے کر اپنے قبضے میں رکھتا ہے کہ اگر قرض دار قرض نہ ادا کرسکے تو اس قیمتی چیز سے قرض کی رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا جاسکے۔


اب گروی رکھے ہوئے مال سے فائدہ اٹھانا یا تو گروی رکھنے والے کی اجازت سے ہوگا یا بغیر اجازت کے یاعرف و رواج کے اعتبار سے ہوگا یہ تمام صورتیں شرعاً ممنوع ہیں اجازتاً ممنوع تو اس لیے ہے کہ وہ نفع، ربوا ہے اور سود اجازت سے بھی حلال نہیں ہوتا اور بغیر اجازت کے تو بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوگا اور عرفاً انتفاع اس لیے جائز نہیں ہے کہ معروف مشروط کی طرح ہے اور جوحکم مشروط کا ہے وہی حکم معروف کا ہے غرض فقہاء کرام کے نزدیک کسی بھی صورت میں مال مرہون سے فائدہ اٹھانا سود ہے اس لیے رہن کی اشیاء سے مرتہن کے لیے مطلقاً انتفاع جائز نہ ہوگا۔ (مستفاد: کتاب الفتاوی ۵ / ۵۸۵ تا ۵۸۹ : فتاوی قاسمیہ ٢٢ / ٧٩ تا ٩٠ : امدادالفتاوی قدیم ٣/٤۵٤ : فتاوی رشیدیہ ۵١٧صفحہ دارالاشاعت)


فتاوی شامی کی بعض عبارات سے راہن کی اجازت ہونے کی صورت میں جواز کا اشارہ ملتا ہے البتہ ہمارے اکابر علماء نے اس پر فتوی نہیں دیا ہے بلکہ عدم انتفاع کے فتوی کی ہی صراحت مذکور ہے۔


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: مال مرہون سے فائدہ اٹھانا مرتہن کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ راہن اس کی اجازت دے اس لیے صورت مسئولہ میں زید کے لیے عمر کی زمین (جو اس کے پاس بطور رہن ہے) سے کھیتی وغیرہ کرکے نفع حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اگرچہ عمر اس کی اجازت دیدے؛ کیونکہ رہن سے انتفاع درحقیقت قرض دے کر نفع لینا ہے اور اسے حدیث میں ”سود“ قرار دیا کیا ہے، کل قرض جر منفعة فہو ربا (مصنف ابن أبي شیبہ، رقم: ۲۰۶۹) اور سود لینا باہمی رضامندی سے بھی درست نہیں ہوتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ۱۵٨١٢٨)


صورت مسؤلہ میں گروی رکھی ہوئی زمین کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے  چاہے گروی رکھنے والا اجازت دے چکا ہو تب بھی اس کے استعمال کی شرعاً اجازت نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کو گروی رکھنا قرض کے بدلے ہوتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے نفع حاصل کرنا یہ سود ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرض دے کر نفع اٹھانا یہ سود کے زمرہ میں داخل ہوجاتا ہے لہذا س طرح اس سے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔


الدر المختار مع ردالمحتار میں ہے 

کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا (الدر المختار مع ردالمحتار  ۷/۳۹۵)


فتاویٰ شامی میں ہے 

وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا فيكون ربا، وهذا أمر عظيم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والغالب من احوال الناس انهم انما یریدون عند الدفع الانتفاع ولولاه لما اعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط لأن المعروف کالمشروط وهو یعین المنع (الدر المختار مع ردالمحتار: ١٠/٨٣)

ایضاً 

(لا انتفاع به مطلقاً) لا باستخدام، ولا سكنى ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة، سواء كان من مرتهن أو راهن (إلا بإذن) كل للآخر ۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: من مرتهن أو راهن) الأول مصرح به في عامة المتون، والثاني صرح به في درر البحار وشرح مختصر الكرخي وشرح الزاهدي، وفيه خلاف الشافعي فعنده يجوز له الانتفاع بغير الوطء، والأول لا خلاف فيه كما في غرر الأفكار۔


 النتف في الفتاوى میں ہے 

أنواع الربا وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه أحدها في القروض والثاني في الدیون، والثالث في الرهون الربا في القروض فأما في القروض فهو علی وجهین أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلك القرض أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه … ولو لم یکن سبب ذلك (هذا) القرض لما کان (ذلك) الفعل، فإن ذلك رباً، وعلی ذلك قول إبراهیم النخعي کل دین جر منفعةً لا خیر فیه۔ (النتف في الفتاوى ١ / ٤٨٤ ٤٨۵ ط دار الفرقان)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: