جمعرات، 25 اپریل، 2024

عورت کی پستان سے دودھ نکلنے سے وضوء کا حکم سوال نمبر ٤٦٩

 سوال

حضرت مفتی صاحب ماں کے دودھ کے سلسلے میں سوال پوچھنا ہے امید ہے کہ راہنمائی فرمائیں کے۔

عورت اپنے بچے کو باوضو دودھ پلائے تو اس سے وضوء ٹوٹ جائے گا یا نہیں اور اس وضو سے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ 

اگر کسی عورت کی پستان سے ویسے دودھ بہتا ہو، یا وہ اس کو ہاتھ میں لے کر اس پر زور لگائے اور اس سے دودھ نکلے تو وضوء کا کیا حکم ہے؟

بعض مرتبہ عورتیں بچے کو دودھ پلاتی ہے اور وہ دودھ کپڑوں پر بھی لگ جاتا ہے تو نماز کے لئے کپڑے کی اتنی جگہ کو دھونا ضروری ہے؟

اسی طرح حاملہ عورت کو بوقت حمل پستان سے پانی نکلتا ہے تو کیا حاملہ عورت کے پستان سے نکلنے والے پانی سے وضو ٹوٹ جائے گا؟

سائلہ: ام ریحان گودھرا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


فقہاء نے جہاں بدن سے خروج کی صورت میں وضوء کے ٹوٹنے کا حکم لگایا ہے وہاں نجاست کی قید لگائی ہے یعنی بدن سے کوئی ناپاک چیز نکلے تو وضوء ٹوٹ جائے گا

جیسے کہ علامہ شامی نے لکھاہے (خروج کل نجس منہ أي من المتوضي الحي معتادا أو لا من السبیلین أو لا۔ الدر المختار مع التنویر الأبصار  ۱/ ۲٦۰) 

اور عورت کا دودھ پاک ہے اور بدن سے پاک چیز کے نکلنے سے وضوء نہیں ٹوٹتا لہذا عورت وضوء کی حالت میں اپنے بچے کو دودھ پلائے یا اس کے پستان سے خود بخود دودھ نکلے یا اپنے ہاتھ سے دباکر دودھ نکالے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، اسی طرح کپڑے وغیرہ پر لگ جائے تو وہ کپڑا ناپاک نہیں ہوتا اس کو دھونا واجب نہیں نظافت کے لحاظ سے دھولینا بہتر ہے۔

عام حالات میں بغیر کسی بیماری کے پستان سے نکلنے والے پانی سے وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر کسی تکلیف یا زخم کی وجہ سے پستان سے پانی نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔


فتاوی شامی میں ہے 

کما لاینقض لوخرج من أذنہ ونحوہا کعینہ وثدیہ قیح ونحوہ ۔۔۔۔۔۔ لابوجع وإن خرج بہ أي بوجع نقض لأنہ دلیل الجرح الخ (درمختار مع الشامی ۱/۲۷۹، ط زکریا) 


حاشیۃ الطحطاوی میں ہے

أن ماء الصديد ناقض كماء الثدي والسرة والأذن إذا كان لمرض على الصحيح۔ قوله ( كماء الثدي والسرة الخ ) قال في البحر: الجرح والنفطة وماء السرة والثدي والأذن والعين إذا كان لعلة سواء في الأصح أي في النقض والظاهر أن القيد راجع إلى الأربعة الأخيرة۔ (حاشیۃ الطحطاوی فصل في أوصاف الوضوء: ص: ۵۷ ط الأمیریة)

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

پیر، 15 اپریل، 2024

چمگادڑ کی بیٹ اور پیشاب کا حکم سوال نمبر ٤/٤٦٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

مفتی صاحب اگر جمگادڑ ایک جگہ بیٹھتا ہے پھر نیچے پیشاب کرتا ہے اور بیٹ گراتا ہے اور اس جگہ داغ لگ جاتا ہے اور وہ داغ دھونے سے صاف ہو جاتا ہے لیکن اس جگہ کو دھوتے نہیں تو کیا وہ جگہ ناپاک ہوگی یا نہیں اور چمگادڑ کے حلت و حرمت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی جواب مرحمت فرمائیں 

سائل: محمد بن مولانا سعید پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


چمگادڑ کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق فقہاء کرام کے دونوں طرح کے اقوال کتب فقہ میں موجود ہیں البتہ چونکہ چمگادڑ پھاڑکھانے والے پرندوں میں سے ہے، یعنی چمکادڑ "ذوناب" یعنی نوک دار دانت والا جانور ہے اس لئے اس کا کھانا حرام ہے،

رہی بات اس کی بیٹ اور پیشاب کی تو وہ ضرورت و مجبوری کی وجہ سے معاف ہے اس لئے کہ وہ ہوا سے بیٹ اور پیشاب کرتی ہے اس کی بیٹ اور پیشاب سے کپڑے وغیرہ کو بچانا مشکل ہے، اس لیے فقہاء کرام نے اسے معاف قرار دے کر حلال کہاہے، نہ یہ کہ چمگادڑ حلال ہے جیساکہ فتاویٰ شامی اور بدائع الصنائع وغیرہ کی عبارات سے ظاہرہے۔


مسؤلہ صورت میں چونکہ چمگادڑ کی بیٹ اور پیشاب کو ضرورت کے تحت معاف قرار دیا ہے اس لئے اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہے وہ بغیر دھوئے بھی معاف ہے۔


فتاوی شامی میں ہے 

الخفافيش وخرؤها ليس بنجس لتعذر صيانة الثوب والأواني عنها لأنها تبول من الهواء وهي فأرة طيارة فلهذا تبول۔ ومقتضاه أن سقوط النجاسة للضرورة وهو متجه على القول بأنه لا يؤكل كما عزاه في الذخيرة إلى بعض المواضع معللا بأن له نابا ومشى عليه في الخانية لكن نظر فيه في غاية البيان بأن ذا الناب إنما ينهى عنه إذا كان يصطاد بنابه أي وهذا ليس كذلك۔ وفي المبتغى قيل يؤكل وقيل لا۔ ونقل العبادي من الشافعية عن محمد أنه حلال وعليه فلا إشكال في طهارة بوله وخرئه وتمامه في الحلية۔ أقول وعليه يتمشى قول الشارح فطاهر وإلا كان الأولى أن يقول فمعفو عنه فافهم۔ (‌‌فتاوی شامی كتاب الطهارة،‌‌باب الأنجاس، ۱/۵۲۳)


البحر الرائق میں ہے 

قال في النهاية ذكر في بعض المواضع أن الخفاش يؤكل وذكر في بعضها أنه لا يؤكل لأن له نابًا۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ۸/۱۹۵)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

أما الخفاش فقد ذکر في بعض المواضع أنہ یوکل وفي بعض المواضع لا یوٴکل لأن لہ نابا (ہندیہ جدید ۵/۳۳٤ ط اتحاد)


الأشباہ والنظائر میں ہے

السادس: العسر وعموم البلوی کالصلاة مع النجاسة ․․․ ومن ذلک طہارة بول الخفاش وخرئہ (الأشباہ والنظائر ۲۷۸- ۲۸۱ ط فقیہ الأمت)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


اتوار، 14 اپریل، 2024

نماز میں کھانس نے سے قرأت میں تاخیر ہوجائے تو نماز کا کیا حکم ہے ؟ سوال نمبر ٤٦٦

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ

ابھی نماز عشاء کا اعادہ کیا گیا تو امام صاحب کی قراءت میں تاخیر کی وجہ کھانسی تھی جو ایک عذر ہے تو ایسے عذر کی وجہ سے کیا نماز فاسد ہوگی کہ نہیں، نیز اعادہ والی نماز دوسرا امام پڑھا سکتا ہے کہ نہیں اور اعادہ والی نماز میں دوسرے مقتدیوں کا شامل ہونا کیسا ہے جو پہلی نماز میں شامل نہیں ہوئے؟ مفتیانِ کرام سے بصد احترام گذارش ہے کہ اس مسئلہ کی مکمل مع دلائل و حوالہ وضاحت فرمائیں

سائل مولوی مصعب شہرا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نماز میں قراءت کے دوران بلا کسی عذر کے امام یا منفرد اتنی دیر خاموش رہے جس سے کسی رکن یا واجب میں تین تسبیح کے بقدر تاخیر ہو جائے تو اس سے سجدہٴ سہو واجب ہوجاتاہے البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے قرأت میں تاخیر ہوجائے جیسے کہ مسؤلہ صورت میں کھانسی اگر أشد ضرورت کی وجہ سے کھانسنے میں قرأت میں تاخیر ہوجائے تو نماز نہ فاسد ہوتی ہے اور نہ اس میں سجدۂ سہو واجب ہوگا۔

لیکن بلا ضرورت کھنکھارنے سے نماز مکروہ ہوتی ہے اگر ضرورت ہو مثلاً آواز بند ہوگئی، سانس رک گئی یا پڑھنا مشکل ہوجائے تو کھنکھارنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کھنکھار کر آواز کو درست کرسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کھنکھارنے کے ساتھ کوئی آواز نہ نکلے اور اگر کھنکھار یا کھانسی کے ساتھ بلا اضطرار دو حرف نکل بھی گئے مثلاً اُح کی آواز نکل گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی البتہ اضطرار کی حالت مستثنیٰ ہے۔


اعادہ میں دوسرے شخص کی امامت 

جو نماز کسی فرض کے چھوٹنے سے لوٹانی ضروری ہوگی اس میں دوسرا کوئی بھی شخص امامت کرواسکتا ہے اور جو نماز کسی واجب کے چھوٹنے سے لوٹانی ضروری ہوگی اس میں اسی جماعت میں ابتداء سے شریک کوئی بھی شخص امامت کرواسکتا ہے۔


اعادہ میں نئے مصلی کی شرکت کا حکم

نماز میں ترکِ فرض کی وجہ سے اگر نماز کا اعادہ ہو تو پہلی نماز کالعدم ہوگی اور بالاتفاق نماز دوہرانے کی صورت میں نئے مقتدی کی شرکت درست ہوجائےگی۔

اور اگر ترک واجب کی و جہ سے اعادہ ہو تو نئے مقتدی کی شرکت میں اختلاف ہے بعض فقہاء نے عدم جواز اور بعض نے جواز کی طرف اشارہ کیا ہے

فتاوی محمودیہ اور باقیاتِ فتاوی رشیدیہ میں لکھاہے کہ  اُس (نئے شخص) کی شرکت صلاة معادہ (دوبارہ پڑھی جانے والی نماز) میں درست نہیں کیوں کہ فرض پہلی نماز سے ادا ہوچکا ہے یہ صرف تکمیل (نفل واجب لغیرہ) ہے اور ایسی نماز میں فرض پڑھنے والے کی اقتداء درست نہیں ہوسکتی (فتاوی محمودیہ ڈابھیل: ٦/٤٤٤ باقیات فتاوی رشیدیہ: ۷۹/ ط: حضرت مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کاندھلہ)

حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری اس اختلافی مسئلہ کو تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر بعد میں آنے والے کو یہ پتہ ہو کہ یہ نماز دہرائی جارہی ہے، تو اس کے لئے نماز میں شرکت صحیح نہیں ہے، اور جسے پہلے سے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ صلوٰۃ  معادہ  ہے، تو اس کے لئے شرکت درست ہے۔ (٤/٤٩٤ کتاب النوازل)

البتہ راجح قول یہی ہے کہ اس میں نئے مقتدی کی شرکت درست نہیں ہے احسن الفتاوی میں حضرت مفتی رشید احمد صاحب نے طحطاوی کے حوالے سے اسی کی طرف رجحان ظاہر کیا ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں کہ علامہ شامی رحمہ اللہ کی تحقیق یہی ہے کہ اصل نماز اور اعادہ کردہ نماز دونوں فرض ہیں لیکن اس تحقیق میں حضرت علامہ منفرد ہیں جیسا کہ خود انھوں نے بحث ختم کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ (هذا نهاية ما تحرر لي من فتح الملك الوهاب فاغتنمه فانه من مفردات هذا الكتاب له) ليكن مختار قول وہ ہے جو علامہ طحطاوی نے مراقی الفلاح کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ (والمختار أن المعادة لترك الواجب نفل جابر والفرض سقط بالاولى) حضرت اقدس تھانوی قدس سرہ نے حضرت علامہ شامی کی تحقیق کے مطابق فتوی ارقام فرمایا اور حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب، حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب نے طحطاوی کے قول کے مطابق فتوی دیا اس وقت علماء مظاہر العلوم و دار العلوم کا فتوی بھی یہی (عدم جواز کا)ہے اب آپ فیصلہ فرمالیں کہ کثرت کس طرف ہے۔ (احسن الفتاوی ۳/٣٤٥) 


خلاصہ

صورت مسئولہ میں سوال میں تحریر شدہ صورت کے مطابق (کہ سخت کھانسی کی وجہ سے قرأت میں تاخیر ہوئی) پہلی نماز مکمل ہوچکی تھی لہذا اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی لوٹالیا تو وہ نفل کے حکم میں ہوگی اور اس میں نئے مصلیوں نے شراکت کی ہو تو ان کو اپنی نماز لوٹانی ہوگی اس لئے کہ یہ صلاۃ المفترض خلف المتنفل کی صورت ہوگی جو درست نہیں ہے لہذا ان کو اپنی اپنی نماز کو لوٹانے کا حکم کیا جائے، 

جہاں تک امامت کا مسئلہ ہے تو جو نماز کسی فرض کے چھوٹنے سے لوٹانی ضروری ہوگی اس میں دوسرا کوئی بھی شخص امامت کرواسکتا ہے اور جو نماز کسی واجب کے چھوٹنے سے لوٹانی ضروری ہوگی اس میں اسی جماعت میں ابتداء سے شریک کوئی بھی شخص امامت کرواسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فتاوی شامی میں ہے 

والحاصل أنہ اختلف فی التفکر الموجب للسہو، فقیل مالزم منہ تأخیر الواجب أو الرکن عن محلہ بأن قطع الاشتغال بالرکن أو الواجب قدر أداء رکن وہو الأصح (شامی: ٢/٥٦٢ ط: زکریا دیوبند)


فتاوی عالمگیری میں ہے

ولايجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت، وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي۔ (الباب الثانى عشر فى سجود السهو ١/١٢٦ ط:مكتبه رشيديه)


فتاوی شامی میں ہے

قولہ ودفع السعال ما استطاع) فیہ أنہ لا یخلو إما أن یکون المراد السعال المضطر إلیہ فلا یمکن دفعہ أو غیرہ، فدفعہ واجب لأنہ مفسد۔

وقد يقال : المراد به ما تدعو إليه الطبيعة مما يظن إمكان دفعه، فهذا يستحب أن يدفعه ما أمكن إلى أن يخرج منه بلا صنعه أو يندفع عنه ، فليتأمل ؛ ثم رأيته في الحلية أجاب بحمله على غير المضطر إليه إذا كان عذر يدعو إليه في الجملة ولا سيما إذا كان ذا حروف، لما فيه من الخروج عن الخلاف اهـ. والمراد بالعذر تحسين الصوت أو إعلام أنه في الصلاة فسيأتي في مفسدات الصلاة أن التنحنح لأجل ذلك لا يفسد في الصحيح، وعلى هذا فالمراد بالسعال التنحنح . تأمل۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۱۸٦ باب صفة الصلاة، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)

ایضاً 

(قولہ: والتنحنح) ہو أن یقول: أح بالفتح والضم۔ بحر۔ (قولہ: بحرفین) یعلم حکم الزائد علیہما بالأولی، لکن یوہم أن الزائد لو کان بعذر یفسد، ویخالفہ ظاہر مافي النہایۃ عن المحیط، من أنہ إن لم یکن مدفوعاً إلیہ بل لإصلاح الحلق؛ لیتمکن من القراءۃ إن ظہر لہ حروف۔ ( فتاوی شامی باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا ۲/ ٣٧٠ ٣٧٦)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

یفسد الصلاۃ، التنحنح بلاعذر بأن لم یکن مدفوعاً إلیہ وحصل منہ حروف، ہکذا في التبیین، ولو لم یظہر لہ حروف، فإنہ لایفسد اتفاقا لکنہ مکروہ، کذا في البحر الرائق و إن کان بعذر، بأن کان مدفوعا إلیہ، لا تفسد لعدم إمکان الاحتراز عنہ (الفتاویٰ الہندیۃ، ١/ ١٥٩ ١٦٠ مکتبہ فیصل دیوبند)

 

الفقہ علی المذاھب الاربعہ میں ہے:

ومن الكلام المبطل التنحنح إذا بان منه حرفان فأكثر، وإنما يبطل الصلاة إذا كان لغير حاجة فإن كان لحاجة، كتحسين صوته حتى تخرج القراءة من مخارجها تامة، أو يهتدي إمامه إلى الصواب، ونحو ذلك، فإنه لا يبطل۔ (كتاب الصلاة،‌‌ التنحنح في الصلاة ۱/۲۷ ط دار الكتب العلمية)


فتاوی شامی میں ہے 

وکذا کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم تجب إعادتہا․ قال الشامي: والمختار أنہ أی الفعل الثانی جابر للأول بمنزلة الجبر بسجود السہو وبالأول یخرج عن العہدة وإن کان علی وجہ الکراہة علی الأصح، وہذا یعنی أن القول بکون الفرض ہو الثانی یلزم علیہ تکرار الفرض لأن کون الفرض ہو الثانی دون الأول یلزم منہ عدم سقوطہ بالأول. ولیس کذلک لأن عدم سقوطہ بالأول إنما یکون بترک فرض لا بترک واجب، وحیث استکمل الأول فرائضہ لا شک فی کونہ مجزئا فی الحکم وسقوط الفرض بہ وإن کان ناقصا بترک الواجب، فإذا کان الثانی فرضا یلزم منہ تکرار الفرض․ (فتاوی شامی ۲/۱۴۸ کتاب الصلاة، صفة الصلاة، ط: زکریا دیوبند)


حاشیۃ الطحطاوی میں ہے 

والمختار المعادۃ لترک الواجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی؛ لأن الفرض لایتکرر۔ (حاشیۃ الطحطاوی ص ۲۲۸ ط اشرفی)


فتاوی شامی میں ہے 

ویؤخذ من لفظ الإعادۃ ومن تعریفہا بما مر أنہ ینوي بالثانیۃ الفرض؛ لأن ما فعل أولاً ہو الفرض فإعادتہ فعلہ ثانیاً؛ أما علی القول بأن الفرض یسقط بالثانیۃ فظاہر، وأما علی القول الاٰخر فلأن المقصود من تکریرہا ثانیاً جبر نقصان الأولیٰ، فالأولیٰ فرض ناقص، والثانیۃ فرض کامل مثل الأولیٰ ذاتاً مع زیادۃ وصف الکمال، ولو کانت الثانیۃ نفلاً لزم أن تجب القراء ۃ في رکعتہا الأربع، وأن لا تشرع الجماعۃ فیہا ولم یذکروہ (شامي/باب قضاء الفوائت مطلب في تعریف الإعادۃ ۲/۵۲۲ زکریا)


مراقي الفلاح میں ہے 

ووجب إعادة الصلاة لجبر نقصہا فتکون مکمِّلة، وسقط الفرض بالأولیٰ۔ (مراقي الفلاح مع الطحطاوي ٤٦٢ کتاب الصلاة/ باب سجود السہو ط دار الکتاب دیوبند)


حلبی کبیر میں ہے 

ومن المشایخ من قال: یلزمہ أن یعید ویکون الفرض ہو الثاني، والمختار أن الفرض ہو الأول، والثاني جبر للخلل الواقع فیہ بترک الواجب، قال ابن الہمام: لا إشکال في وجوب الإعادۃ؛ إذ ہو الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم ویکون جابراً للأول؛ لأن الفرض لا یتکرر وجعلہ الثاني یقتضي عدم سقوطہ بالأول الخ۔ (حلبی کبیر ص ۲۹٦ مکتبہ لاہور)


الدر المنتقی میں ہے 

وکذا کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم تجب إعادتہا والمختار أنہا جابرة للأول: لأن الفرض لا یتکرر(الدر المنتقی مع المجمع ۱/ ۱۳۳کتاب الصلاة/ باب صفة الصلاة ط فقیہ الأمت دیوبند)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعہ، 5 اپریل، 2024

بینک کے مقروض کا قرضہ زکوۃ کے پیسوں سے ادا کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٦٥

 سوال 

امید ہیکہ آپ والے خیریت سے

مفتی صاحب آپ کی خدمت میں زیر سؤال کا استفتاء یہ ہے کہ ایک شخص نے کریڈیٹ کارڈ توسط سے اپنی مرضی سے لے لیا، پھر تجارت میں جو رقم آتی رہی یہ شخص اپنی رقم کا منافع اپنے آپ میں استعمال کر رہا ہے۔ رأس المال بھی اپنی ذمہ داری میں صرف کر لیں اور آپ کی قسط وار رقم بھی ادا نہیں کریں گے، اب وہ بینک کو زکوۃ کی رقم ادا کرنے کے لیے رقم ادا کرنا ہے اور زکوۃ دی ہوئی ذمہ داری کی زکوة اداء جائیگی؟

سائل حذیفہ بن مولانا یوسف آھودی


الجواب وباللہ التوفیق

بسمہ سبحانہ وتعالی


سود لینا اور دونوں حرام ہے قرآنِ کریم میں سودی لین دین سے نہوالوں سے متعلق اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ کا حکم ہوا۔


قرآن میں ہے جس کا ترجمہ، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتا ہے اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر تم (اس پر عمل نہ کرو) تم لوگ جنگ کرو اور اس کے رسول کی طرف سے (آز القرآن) )


اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دونوں کے متعلق لعنت کا ذکر کیا ہے جس کا ترجمہ ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے اور لکھنے والے۔ اور ہم لوگ اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ سب لوگ اس میں برابر ہیں یعنی اصل میں سب برابر ہیں اور کام میں مختلف دینے کے لیے کریڈٹ کارڈ بنوانے میں سودیلین دین پر رضامندی اور اس میں بھی لون لیا جاتا ہے۔ جو سود پر مبنی ہوتا ہے وہ اس میں ملوث ہے اور یہ اس کے لیے درست نہیں ہے۔


لیکن اگر اس نے ایسا کیا اور بینک کا مقروض لازم تو وہ بینک کا قرض بھی دوسرے قرضوں کی طرح ایک قرض ہوتا ہے، جس کی ادائیگی مقروض کی ذمہ داری ہوتی ہے اگر کسی شخص پر قرض سود ادا کرنا ضروری ہے۔ اور وہ شخص صاحبِ نصاب ہے یعنی اس کی ملکیت 87گرام میں اور 48ملی گرام سونا یا 612گرام اور 35 ملی گرام چاندی ہو یا اس کے بقدر مالیت کی کوئی چیز ہو جو آپ کو اس سے کہیں زیادہ مالیت کا کاروبار ہو یا تجارت نہ ہو۔ ہو تو اس شخص کا قرضہ زکوٰۃ سے چکانا درست نہیں اور اگر اتنا مال بھی پاس نہ ہو جس سے وہ صاحب نصاب بن سکتے ہیں تو اس وقت بینک کا قرضہ زکوۃ کی رقم سے لینا درست ہے۔


صورت مسئولہ میں اگر وہ شخص قرض کی مقدار کے علاوہ مال کے مالک ہونے کی وجہ سے صاحب نصاب ہے یعنی وہ سونا چاندی، نقد روپئے، سامان کی تجارت ضروری ہے یا اس سے زیادہ قیمت کے سامان کے قدر نصاب مالک، تو زکاة کی رقم سے۔ کا قرض ادا کرنا درست نہیں ہے اگر کوئی شرط نہیں ہے اور وہ مستحب زکوۃ ہے تو زکوۃ کی رقم بینک کا قرض ادا کرنا درست ہے اور اگر زکوۃ کی رقم ادا کرنا درست نہیں ہے تو یہ شرط ہے کہ زکاة۔ کی رقم اس مقروض کو مالک کو دے دی جائے پھر وہ خود قرض ادا کرے یا کسی دوسرے سے اپنی زکاۃ کی رقم بینک کا قرض ادا کرنا درست نہ ہو۔


قرآن مجید میں ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفَعُوا اللَّهُ وَرَسُولِهِ البقرة: ٢٧٨/٢٧٩)


مشکوٰۃ المصابیح،

عن جابر رضی اللہ عنہ، قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال هم دونوں (مشکوٰۃ المصابیح باب الربا الفصل الأول)



فتاوی شامی میں ہے۔ 

ومدیون لا یملک نصاباً فاضلاً عن دینہ وفی الظہیریة الدفع للمدیون أولی منہ للفقیر (الدر المختار مع رد المحتار کتاب الزکاة باب المصرف، ۳/۲۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

ایضاً 

 قولہ: ”لا یملک نصاباً“:قید بہ لأن الفقر شرط فی الأصناف کلھا،…،ونقل ط عن الحموي أنہ یشترط أن لا یکون ھاشمیاً (رد المحتار)۔

المحیط البرھانی میں ہے۔

ما یمنع وجوب الزكاة أنواع، منها الذي قال أصحابنا رحمهم الله: كل دين له مطالب من ‌جهة ‌العباد يمنع وجوب الزكاة، دونوں كان الدين للعباد، أو لله تعالى كدين الزكاة؛ فأما الكلام في دين العباد، إن العباد فنقول: لأن ‌ملك ‌المديون في القدر المشغول بالدين ناقص، ألا ترى أنه يستحق أخذه من غير مضار لا رضا، كأنه في يده غصب أو وديعة؟ ولهذا حلت له الصدقة، ولا يجب عليه الحج، والملك الناقص لا يصلح سبباً لوجوب الزكاة، (كتاب الزكاة، الفصل العاشر في بيان ما يمنع وجوب الزكاة، ٢/٢٩٣ ط:دار الكتب العلمية)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی