جمعہ، 5 اپریل، 2024

بینک کے مقروض کا قرضہ زکوۃ کے پیسوں سے ادا کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٦٥

 سوال 

امید ہیکہ آپ والے خیریت سے

مفتی صاحب آپ کی خدمت میں زیر سؤال کا استفتاء یہ ہے کہ ایک شخص نے کریڈیٹ کارڈ توسط سے اپنی مرضی سے لے لیا، پھر تجارت میں جو رقم آتی رہی یہ شخص اپنی رقم کا منافع اپنے آپ میں استعمال کر رہا ہے۔ رأس المال بھی اپنی ذمہ داری میں صرف کر لیں اور آپ کی قسط وار رقم بھی ادا نہیں کریں گے، اب وہ بینک کو زکوۃ کی رقم ادا کرنے کے لیے رقم ادا کرنا ہے اور زکوۃ دی ہوئی ذمہ داری کی زکوة اداء جائیگی؟

سائل حذیفہ بن مولانا یوسف آھودی


الجواب وباللہ التوفیق

بسمہ سبحانہ وتعالی


سود لینا اور دونوں حرام ہے قرآنِ کریم میں سودی لین دین سے نہوالوں سے متعلق اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ کا حکم ہوا۔


قرآن میں ہے جس کا ترجمہ، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتا ہے اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر تم (اس پر عمل نہ کرو) تم لوگ جنگ کرو اور اس کے رسول کی طرف سے (آز القرآن) )


اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دونوں کے متعلق لعنت کا ذکر کیا ہے جس کا ترجمہ ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے اور لکھنے والے۔ اور ہم لوگ اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ سب لوگ اس میں برابر ہیں یعنی اصل میں سب برابر ہیں اور کام میں مختلف دینے کے لیے کریڈٹ کارڈ بنوانے میں سودیلین دین پر رضامندی اور اس میں بھی لون لیا جاتا ہے۔ جو سود پر مبنی ہوتا ہے وہ اس میں ملوث ہے اور یہ اس کے لیے درست نہیں ہے۔


لیکن اگر اس نے ایسا کیا اور بینک کا مقروض لازم تو وہ بینک کا قرض بھی دوسرے قرضوں کی طرح ایک قرض ہوتا ہے، جس کی ادائیگی مقروض کی ذمہ داری ہوتی ہے اگر کسی شخص پر قرض سود ادا کرنا ضروری ہے۔ اور وہ شخص صاحبِ نصاب ہے یعنی اس کی ملکیت 87گرام میں اور 48ملی گرام سونا یا 612گرام اور 35 ملی گرام چاندی ہو یا اس کے بقدر مالیت کی کوئی چیز ہو جو آپ کو اس سے کہیں زیادہ مالیت کا کاروبار ہو یا تجارت نہ ہو۔ ہو تو اس شخص کا قرضہ زکوٰۃ سے چکانا درست نہیں اور اگر اتنا مال بھی پاس نہ ہو جس سے وہ صاحب نصاب بن سکتے ہیں تو اس وقت بینک کا قرضہ زکوۃ کی رقم سے لینا درست ہے۔


صورت مسئولہ میں اگر وہ شخص قرض کی مقدار کے علاوہ مال کے مالک ہونے کی وجہ سے صاحب نصاب ہے یعنی وہ سونا چاندی، نقد روپئے، سامان کی تجارت ضروری ہے یا اس سے زیادہ قیمت کے سامان کے قدر نصاب مالک، تو زکاة کی رقم سے۔ کا قرض ادا کرنا درست نہیں ہے اگر کوئی شرط نہیں ہے اور وہ مستحب زکوۃ ہے تو زکوۃ کی رقم بینک کا قرض ادا کرنا درست ہے اور اگر زکوۃ کی رقم ادا کرنا درست نہیں ہے تو یہ شرط ہے کہ زکاة۔ کی رقم اس مقروض کو مالک کو دے دی جائے پھر وہ خود قرض ادا کرے یا کسی دوسرے سے اپنی زکاۃ کی رقم بینک کا قرض ادا کرنا درست نہ ہو۔


قرآن مجید میں ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفَعُوا اللَّهُ وَرَسُولِهِ البقرة: ٢٧٨/٢٧٩)


مشکوٰۃ المصابیح،

عن جابر رضی اللہ عنہ، قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال هم دونوں (مشکوٰۃ المصابیح باب الربا الفصل الأول)



فتاوی شامی میں ہے۔ 

ومدیون لا یملک نصاباً فاضلاً عن دینہ وفی الظہیریة الدفع للمدیون أولی منہ للفقیر (الدر المختار مع رد المحتار کتاب الزکاة باب المصرف، ۳/۲۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

ایضاً 

 قولہ: ”لا یملک نصاباً“:قید بہ لأن الفقر شرط فی الأصناف کلھا،…،ونقل ط عن الحموي أنہ یشترط أن لا یکون ھاشمیاً (رد المحتار)۔

المحیط البرھانی میں ہے۔

ما یمنع وجوب الزكاة أنواع، منها الذي قال أصحابنا رحمهم الله: كل دين له مطالب من ‌جهة ‌العباد يمنع وجوب الزكاة، دونوں كان الدين للعباد، أو لله تعالى كدين الزكاة؛ فأما الكلام في دين العباد، إن العباد فنقول: لأن ‌ملك ‌المديون في القدر المشغول بالدين ناقص، ألا ترى أنه يستحق أخذه من غير مضار لا رضا، كأنه في يده غصب أو وديعة؟ ولهذا حلت له الصدقة، ولا يجب عليه الحج، والملك الناقص لا يصلح سبباً لوجوب الزكاة، (كتاب الزكاة، الفصل العاشر في بيان ما يمنع وجوب الزكاة، ٢/٢٩٣ ط:دار الكتب العلمية)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: