جمعرات، 25 اپریل، 2024

عورت کی پستان سے دودھ نکلنے سے وضوء کا حکم سوال نمبر ٤٦٩

 سوال

حضرت مفتی صاحب ماں کے دودھ کے سلسلے میں سوال پوچھنا ہے امید ہے کہ راہنمائی فرمائیں کے۔

عورت اپنے بچے کو باوضو دودھ پلائے تو اس سے وضوء ٹوٹ جائے گا یا نہیں اور اس وضو سے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ 

اگر کسی عورت کی پستان سے ویسے دودھ بہتا ہو، یا وہ اس کو ہاتھ میں لے کر اس پر زور لگائے اور اس سے دودھ نکلے تو وضوء کا کیا حکم ہے؟

بعض مرتبہ عورتیں بچے کو دودھ پلاتی ہے اور وہ دودھ کپڑوں پر بھی لگ جاتا ہے تو نماز کے لئے کپڑے کی اتنی جگہ کو دھونا ضروری ہے؟

اسی طرح حاملہ عورت کو بوقت حمل پستان سے پانی نکلتا ہے تو کیا حاملہ عورت کے پستان سے نکلنے والے پانی سے وضو ٹوٹ جائے گا؟

سائلہ: ام ریحان گودھرا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


فقہاء نے جہاں بدن سے خروج کی صورت میں وضوء کے ٹوٹنے کا حکم لگایا ہے وہاں نجاست کی قید لگائی ہے یعنی بدن سے کوئی ناپاک چیز نکلے تو وضوء ٹوٹ جائے گا

جیسے کہ علامہ شامی نے لکھاہے (خروج کل نجس منہ أي من المتوضي الحي معتادا أو لا من السبیلین أو لا۔ الدر المختار مع التنویر الأبصار  ۱/ ۲٦۰) 

اور عورت کا دودھ پاک ہے اور بدن سے پاک چیز کے نکلنے سے وضوء نہیں ٹوٹتا لہذا عورت وضوء کی حالت میں اپنے بچے کو دودھ پلائے یا اس کے پستان سے خود بخود دودھ نکلے یا اپنے ہاتھ سے دباکر دودھ نکالے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، اسی طرح کپڑے وغیرہ پر لگ جائے تو وہ کپڑا ناپاک نہیں ہوتا اس کو دھونا واجب نہیں نظافت کے لحاظ سے دھولینا بہتر ہے۔

عام حالات میں بغیر کسی بیماری کے پستان سے نکلنے والے پانی سے وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر کسی تکلیف یا زخم کی وجہ سے پستان سے پانی نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔


فتاوی شامی میں ہے 

کما لاینقض لوخرج من أذنہ ونحوہا کعینہ وثدیہ قیح ونحوہ ۔۔۔۔۔۔ لابوجع وإن خرج بہ أي بوجع نقض لأنہ دلیل الجرح الخ (درمختار مع الشامی ۱/۲۷۹، ط زکریا) 


حاشیۃ الطحطاوی میں ہے

أن ماء الصديد ناقض كماء الثدي والسرة والأذن إذا كان لمرض على الصحيح۔ قوله ( كماء الثدي والسرة الخ ) قال في البحر: الجرح والنفطة وماء السرة والثدي والأذن والعين إذا كان لعلة سواء في الأصح أي في النقض والظاهر أن القيد راجع إلى الأربعة الأخيرة۔ (حاشیۃ الطحطاوی فصل في أوصاف الوضوء: ص: ۵۷ ط الأمیریة)

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: