اتوار، 14 اپریل، 2024

نماز میں کھانس نے سے قرأت میں تاخیر ہوجائے تو نماز کا کیا حکم ہے ؟ سوال نمبر ٤٦٦

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ

ابھی نماز عشاء کا اعادہ کیا گیا تو امام صاحب کی قراءت میں تاخیر کی وجہ کھانسی تھی جو ایک عذر ہے تو ایسے عذر کی وجہ سے کیا نماز فاسد ہوگی کہ نہیں، نیز اعادہ والی نماز دوسرا امام پڑھا سکتا ہے کہ نہیں اور اعادہ والی نماز میں دوسرے مقتدیوں کا شامل ہونا کیسا ہے جو پہلی نماز میں شامل نہیں ہوئے؟ مفتیانِ کرام سے بصد احترام گذارش ہے کہ اس مسئلہ کی مکمل مع دلائل و حوالہ وضاحت فرمائیں

سائل مولوی مصعب شہرا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نماز میں قراءت کے دوران بلا کسی عذر کے امام یا منفرد اتنی دیر خاموش رہے جس سے کسی رکن یا واجب میں تین تسبیح کے بقدر تاخیر ہو جائے تو اس سے سجدہٴ سہو واجب ہوجاتاہے البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے قرأت میں تاخیر ہوجائے جیسے کہ مسؤلہ صورت میں کھانسی اگر أشد ضرورت کی وجہ سے کھانسنے میں قرأت میں تاخیر ہوجائے تو نماز نہ فاسد ہوتی ہے اور نہ اس میں سجدۂ سہو واجب ہوگا۔

لیکن بلا ضرورت کھنکھارنے سے نماز مکروہ ہوتی ہے اگر ضرورت ہو مثلاً آواز بند ہوگئی، سانس رک گئی یا پڑھنا مشکل ہوجائے تو کھنکھارنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کھنکھار کر آواز کو درست کرسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کھنکھارنے کے ساتھ کوئی آواز نہ نکلے اور اگر کھنکھار یا کھانسی کے ساتھ بلا اضطرار دو حرف نکل بھی گئے مثلاً اُح کی آواز نکل گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی البتہ اضطرار کی حالت مستثنیٰ ہے۔


اعادہ میں دوسرے شخص کی امامت 

جو نماز کسی فرض کے چھوٹنے سے لوٹانی ضروری ہوگی اس میں دوسرا کوئی بھی شخص امامت کرواسکتا ہے اور جو نماز کسی واجب کے چھوٹنے سے لوٹانی ضروری ہوگی اس میں اسی جماعت میں ابتداء سے شریک کوئی بھی شخص امامت کرواسکتا ہے۔


اعادہ میں نئے مصلی کی شرکت کا حکم

نماز میں ترکِ فرض کی وجہ سے اگر نماز کا اعادہ ہو تو پہلی نماز کالعدم ہوگی اور بالاتفاق نماز دوہرانے کی صورت میں نئے مقتدی کی شرکت درست ہوجائےگی۔

اور اگر ترک واجب کی و جہ سے اعادہ ہو تو نئے مقتدی کی شرکت میں اختلاف ہے بعض فقہاء نے عدم جواز اور بعض نے جواز کی طرف اشارہ کیا ہے

فتاوی محمودیہ اور باقیاتِ فتاوی رشیدیہ میں لکھاہے کہ  اُس (نئے شخص) کی شرکت صلاة معادہ (دوبارہ پڑھی جانے والی نماز) میں درست نہیں کیوں کہ فرض پہلی نماز سے ادا ہوچکا ہے یہ صرف تکمیل (نفل واجب لغیرہ) ہے اور ایسی نماز میں فرض پڑھنے والے کی اقتداء درست نہیں ہوسکتی (فتاوی محمودیہ ڈابھیل: ٦/٤٤٤ باقیات فتاوی رشیدیہ: ۷۹/ ط: حضرت مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کاندھلہ)

حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری اس اختلافی مسئلہ کو تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر بعد میں آنے والے کو یہ پتہ ہو کہ یہ نماز دہرائی جارہی ہے، تو اس کے لئے نماز میں شرکت صحیح نہیں ہے، اور جسے پہلے سے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ صلوٰۃ  معادہ  ہے، تو اس کے لئے شرکت درست ہے۔ (٤/٤٩٤ کتاب النوازل)

البتہ راجح قول یہی ہے کہ اس میں نئے مقتدی کی شرکت درست نہیں ہے احسن الفتاوی میں حضرت مفتی رشید احمد صاحب نے طحطاوی کے حوالے سے اسی کی طرف رجحان ظاہر کیا ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں کہ علامہ شامی رحمہ اللہ کی تحقیق یہی ہے کہ اصل نماز اور اعادہ کردہ نماز دونوں فرض ہیں لیکن اس تحقیق میں حضرت علامہ منفرد ہیں جیسا کہ خود انھوں نے بحث ختم کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ (هذا نهاية ما تحرر لي من فتح الملك الوهاب فاغتنمه فانه من مفردات هذا الكتاب له) ليكن مختار قول وہ ہے جو علامہ طحطاوی نے مراقی الفلاح کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ (والمختار أن المعادة لترك الواجب نفل جابر والفرض سقط بالاولى) حضرت اقدس تھانوی قدس سرہ نے حضرت علامہ شامی کی تحقیق کے مطابق فتوی ارقام فرمایا اور حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب، حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب نے طحطاوی کے قول کے مطابق فتوی دیا اس وقت علماء مظاہر العلوم و دار العلوم کا فتوی بھی یہی (عدم جواز کا)ہے اب آپ فیصلہ فرمالیں کہ کثرت کس طرف ہے۔ (احسن الفتاوی ۳/٣٤٥) 


خلاصہ

صورت مسئولہ میں سوال میں تحریر شدہ صورت کے مطابق (کہ سخت کھانسی کی وجہ سے قرأت میں تاخیر ہوئی) پہلی نماز مکمل ہوچکی تھی لہذا اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی لوٹالیا تو وہ نفل کے حکم میں ہوگی اور اس میں نئے مصلیوں نے شراکت کی ہو تو ان کو اپنی نماز لوٹانی ہوگی اس لئے کہ یہ صلاۃ المفترض خلف المتنفل کی صورت ہوگی جو درست نہیں ہے لہذا ان کو اپنی اپنی نماز کو لوٹانے کا حکم کیا جائے، 

جہاں تک امامت کا مسئلہ ہے تو جو نماز کسی فرض کے چھوٹنے سے لوٹانی ضروری ہوگی اس میں دوسرا کوئی بھی شخص امامت کرواسکتا ہے اور جو نماز کسی واجب کے چھوٹنے سے لوٹانی ضروری ہوگی اس میں اسی جماعت میں ابتداء سے شریک کوئی بھی شخص امامت کرواسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فتاوی شامی میں ہے 

والحاصل أنہ اختلف فی التفکر الموجب للسہو، فقیل مالزم منہ تأخیر الواجب أو الرکن عن محلہ بأن قطع الاشتغال بالرکن أو الواجب قدر أداء رکن وہو الأصح (شامی: ٢/٥٦٢ ط: زکریا دیوبند)


فتاوی عالمگیری میں ہے

ولايجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت، وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي۔ (الباب الثانى عشر فى سجود السهو ١/١٢٦ ط:مكتبه رشيديه)


فتاوی شامی میں ہے

قولہ ودفع السعال ما استطاع) فیہ أنہ لا یخلو إما أن یکون المراد السعال المضطر إلیہ فلا یمکن دفعہ أو غیرہ، فدفعہ واجب لأنہ مفسد۔

وقد يقال : المراد به ما تدعو إليه الطبيعة مما يظن إمكان دفعه، فهذا يستحب أن يدفعه ما أمكن إلى أن يخرج منه بلا صنعه أو يندفع عنه ، فليتأمل ؛ ثم رأيته في الحلية أجاب بحمله على غير المضطر إليه إذا كان عذر يدعو إليه في الجملة ولا سيما إذا كان ذا حروف، لما فيه من الخروج عن الخلاف اهـ. والمراد بالعذر تحسين الصوت أو إعلام أنه في الصلاة فسيأتي في مفسدات الصلاة أن التنحنح لأجل ذلك لا يفسد في الصحيح، وعلى هذا فالمراد بالسعال التنحنح . تأمل۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۱۸٦ باب صفة الصلاة، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)

ایضاً 

(قولہ: والتنحنح) ہو أن یقول: أح بالفتح والضم۔ بحر۔ (قولہ: بحرفین) یعلم حکم الزائد علیہما بالأولی، لکن یوہم أن الزائد لو کان بعذر یفسد، ویخالفہ ظاہر مافي النہایۃ عن المحیط، من أنہ إن لم یکن مدفوعاً إلیہ بل لإصلاح الحلق؛ لیتمکن من القراءۃ إن ظہر لہ حروف۔ ( فتاوی شامی باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا ۲/ ٣٧٠ ٣٧٦)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

یفسد الصلاۃ، التنحنح بلاعذر بأن لم یکن مدفوعاً إلیہ وحصل منہ حروف، ہکذا في التبیین، ولو لم یظہر لہ حروف، فإنہ لایفسد اتفاقا لکنہ مکروہ، کذا في البحر الرائق و إن کان بعذر، بأن کان مدفوعا إلیہ، لا تفسد لعدم إمکان الاحتراز عنہ (الفتاویٰ الہندیۃ، ١/ ١٥٩ ١٦٠ مکتبہ فیصل دیوبند)

 

الفقہ علی المذاھب الاربعہ میں ہے:

ومن الكلام المبطل التنحنح إذا بان منه حرفان فأكثر، وإنما يبطل الصلاة إذا كان لغير حاجة فإن كان لحاجة، كتحسين صوته حتى تخرج القراءة من مخارجها تامة، أو يهتدي إمامه إلى الصواب، ونحو ذلك، فإنه لا يبطل۔ (كتاب الصلاة،‌‌ التنحنح في الصلاة ۱/۲۷ ط دار الكتب العلمية)


فتاوی شامی میں ہے 

وکذا کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم تجب إعادتہا․ قال الشامي: والمختار أنہ أی الفعل الثانی جابر للأول بمنزلة الجبر بسجود السہو وبالأول یخرج عن العہدة وإن کان علی وجہ الکراہة علی الأصح، وہذا یعنی أن القول بکون الفرض ہو الثانی یلزم علیہ تکرار الفرض لأن کون الفرض ہو الثانی دون الأول یلزم منہ عدم سقوطہ بالأول. ولیس کذلک لأن عدم سقوطہ بالأول إنما یکون بترک فرض لا بترک واجب، وحیث استکمل الأول فرائضہ لا شک فی کونہ مجزئا فی الحکم وسقوط الفرض بہ وإن کان ناقصا بترک الواجب، فإذا کان الثانی فرضا یلزم منہ تکرار الفرض․ (فتاوی شامی ۲/۱۴۸ کتاب الصلاة، صفة الصلاة، ط: زکریا دیوبند)


حاشیۃ الطحطاوی میں ہے 

والمختار المعادۃ لترک الواجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی؛ لأن الفرض لایتکرر۔ (حاشیۃ الطحطاوی ص ۲۲۸ ط اشرفی)


فتاوی شامی میں ہے 

ویؤخذ من لفظ الإعادۃ ومن تعریفہا بما مر أنہ ینوي بالثانیۃ الفرض؛ لأن ما فعل أولاً ہو الفرض فإعادتہ فعلہ ثانیاً؛ أما علی القول بأن الفرض یسقط بالثانیۃ فظاہر، وأما علی القول الاٰخر فلأن المقصود من تکریرہا ثانیاً جبر نقصان الأولیٰ، فالأولیٰ فرض ناقص، والثانیۃ فرض کامل مثل الأولیٰ ذاتاً مع زیادۃ وصف الکمال، ولو کانت الثانیۃ نفلاً لزم أن تجب القراء ۃ في رکعتہا الأربع، وأن لا تشرع الجماعۃ فیہا ولم یذکروہ (شامي/باب قضاء الفوائت مطلب في تعریف الإعادۃ ۲/۵۲۲ زکریا)


مراقي الفلاح میں ہے 

ووجب إعادة الصلاة لجبر نقصہا فتکون مکمِّلة، وسقط الفرض بالأولیٰ۔ (مراقي الفلاح مع الطحطاوي ٤٦٢ کتاب الصلاة/ باب سجود السہو ط دار الکتاب دیوبند)


حلبی کبیر میں ہے 

ومن المشایخ من قال: یلزمہ أن یعید ویکون الفرض ہو الثاني، والمختار أن الفرض ہو الأول، والثاني جبر للخلل الواقع فیہ بترک الواجب، قال ابن الہمام: لا إشکال في وجوب الإعادۃ؛ إذ ہو الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم ویکون جابراً للأول؛ لأن الفرض لا یتکرر وجعلہ الثاني یقتضي عدم سقوطہ بالأول الخ۔ (حلبی کبیر ص ۲۹٦ مکتبہ لاہور)


الدر المنتقی میں ہے 

وکذا کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم تجب إعادتہا والمختار أنہا جابرة للأول: لأن الفرض لا یتکرر(الدر المنتقی مع المجمع ۱/ ۱۳۳کتاب الصلاة/ باب صفة الصلاة ط فقیہ الأمت دیوبند)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: