جمعہ، 30 اگست، 2024

مسجد کے نچلے منزلے کو چھوڑکر اوپر کے منزلے میں جمعہ قائم کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٩٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام مسلہ ذیل کے بارے میں ایک مسجد میں نیچے کے جمعہ اور نماز ہوتی آرہی ہے اب انہوں نے دوسرا منزلہ بنایا ہے نیچے کے حصے میں جگہ کم ہے اب وہ چاہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز اوپر کے حصے میں پڑھی جائے تو کیا ایسا کر سکتے ہیں مدلل جواب عنایت فرمائیے۔

سائل: محمد صادق رشیدی مہاراشٹر جالنہ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احناف کے یہاں صحتِ جمعہ کے لئے جو شرائط مذکور ہے ان میں تعیین مکان کی شرط نہیں ہے یہاں تک کہ جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد کا ہونا بھی شرط نہیں ہے میدان یا عیدگاہ میں یا کسی اور جگہ میں بھی نماز جمعہ ادا کی جائے تو درست ہے البتہ شریعت میں اذن عام کی شرط ہے یعنی وہاں پر ہر کسی کو نماز ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہئے کسی کے لئے روک ٹوک نہ ہو۔ 


صورت مسئولہ میں مسجد میں نیچے کے حصے میں جگہ کم ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز اوپر کے منزلے میں ادا کرنا چاہے تو ادا کرسکتے ہیں۔


حلبی کبیری میں ہے

وفي الفتاوی الغیاثیة لوصلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة کبیرة  لها قری وفیها وال وحاکم جازت الجمعة بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر۔  (حلبی کبیری ص ۵۵۱ فصل في صلاة الجمعة ط: سہیل اکیڈمی)


غنیة المستملي میں ہے 

وفي الفتاویٰ الغیاثیۃ: لو صلی الجمعۃ في قریۃ بغیر مسجد جامع والقریۃ کبیرۃ لہا قریً، وفیہا والٍِ وحاکمٍ جازت الجمعۃ بنو المسجد أو لم یبنوا وہٰذا أقرب الأقاویل إلی الصواب، والمسجد الجامع لیس بشرط، ولہٰذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلی في فناء المصر وہو مااتصل بالمصر معداً لمصالحہ من رکض الخیل وجمع العساکر والمناضلۃ ودفن الموتیٰ وصلوٰۃ الجنازۃ ونحو ذٰلک لان لہ حکم المصر باعتبار حاجۃ اہلہ الیہ وقدرہ محمدؒ بالغلوۃ۔ (غنیة المستملي ط: اشرفی)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

(ومنها: الإذن العام) و هو أن تفتح أبواب الجامع فيؤذن للناس كافةً حتى أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم و جمعوا لم يجز، و كذلك السلطان إذا أراد أن يجمع بحشمه في داره فإن فتح باب الدار و أذن إذنًا عامًّا جازت صلاته شهدها العامة أو لم يشهدوها، كذا في المحيط۔ (الفتاوی الھندیۃ: ١/١٤٨ ط: دار الفکر)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

اتوار، 25 اگست، 2024

تین مہینے کے حمل کی صفائی کروانے کی صورت میں آنے والے خون کا حکم سوال نمبر ٤٨٩

 سوال

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک لڑکی نے 3 مہینے میں وکاس نہ ہونے پر گولی کھالی پھر 15 دن خون آیا  پھر دو دن بند ہوگیا پھر خون آتا ہے اور بند ہوتا ہے تو نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہے؟ ڈاکٹر کو بتایا تو کہتے ہے ابھی اندر وہ بچہ کے کچھ اثرات رہ گئے ہے وہ خون آتا ہے، تو وہ خون کونسا شمار ہوگا؟ استحاضہ یا نفاس یا حیض۔

سائلہ: اللہ کی ایک بندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


عورت کے حمل کو ضائع کرنے کی صورت میں جو خون آتا ہے وہ حیض کا ہے یا نفاس کا اس کو سمجھنے کے لئے یہ بات دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہے یا نہیں اگر بچہ کے اعضاء بن گئے ہیں چاہے کچھ اعضاء ہی بنے ہوں اور پھر حمل ضائع ہوا ہو تو اس کے بعد آنے والے خون پر نفاس کا حکم ہوگا اور نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن کی ہے۔


اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو صرف خون کے لوتھڑے کی شکل میں حمل ضائع ہوا ہو تو اس خون پر حیض کا حکم ہوگا بشرطیکہ کم سے کم تین دن خون آیا ہو، ایک یا دو دن خون آکر بند ہوگیا تو ایسی صورت میں آنے والا خون استحاضہ ہوگا اور اگر خون مسلسل آنے لگے یہاں تک کہ دس دن سے آگے بڑھ جائے تو عادت کے بقدر ایام حیض شمار ہوگا یعنی حمل سے پہلے آخری مرتبہ جتنے دن حیض آیا تھا اتنے دن حیض ہوگا اور باقی استحاضہ ہوگا۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے تو اس کے بعد نظر آنے والا خون وہ نفاس کا خون ہوگا لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے ضائع ہوجائے تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا۔


مسؤلہ صورت میں جس لڑکی نے تیسرے مہینے پر حمل ساقط کیا ہے جس کی وجہ سے اس کو خون جاری ہوچکاہے پھر ۱۵ دن خون آیا ہے بعد میں دو دن بند ہونے کے بعد پھر خون آتا اور بند ہوتا ہے تو اس میں آنے والا خون نفاس کا نہیں ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کو پہلے خون حیض کی عادت کے اعتبار سے مدت متعین ہے یا نہیں اگر اس کی عادت متعین ہے تو جتنی مدت پہلے خون آتا تھا اتنے دنوں تک وہ حیض کا خون شمار ہوگا اس کے علاوہ استحاضہ کا شمار ہوگا اور اگر پہلے سے اس کے حیض کی عادت متعین نہیں ہے تو دس دن حیض کے باقی استحاضہ شمار ہوگا،

اور جس خون پر نفاس یا حیض کا حکم ہوگا اس خون میں نماز روزہ کی ادائیگی عورت نہ کرے گی اور جس خون پر استحاضہ کا حکم ہے اس میں نماز روزہ کی ادائیگی واجب ہے۔


فتاوی شامی میں ہے

(ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء  فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة، (فتاوی شامی ۱/۵۰۱ مطلب في أحوال السقط وأحکامہ ط: زکریا)


فتاوی عالمگیری میں ہے

امرأة مرضعة ظهر بهاحبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفةً أو مضغةً أو علقةً لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً كذا في خزانة المفتين۔ (فتاوى عالمگیری ۵/٣۵٦)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 10 اگست، 2024

اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کیوں کیا جائے؟ جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے لین دین کیاہے۔ سوال نمبر ٤٨٨

 سوال 

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کیوں کیا جائے؟ جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہودیوں کے ساتھ تجارت کی ہے۔

سائل مولوی طیب پانی پت ہریانہ


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


یہودیوں سے تجارتی معاملات کے سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر سے دو زاوئے ہیں۔


(۱) عام حالات میں تجارتی معاملات کرنا

اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف برسرپیکار نہ ہو اور ان کی تجارتی آمدنی سے ہتھیار وغیرہ خرید کر اسلامی حکومت یا مسلموں کے خلاف استعمال نہ ہوتی ہو تو تجارتی معاملات شرعی احکامات کو مدنظر رکھ کر کئے جائیں تو نہ صرف تجارتی معاملات ان کے ساتھ جائز ہیں بلکہ اسلامی اخلاق کے ذریعے ان کی تبلیغ اور اسلام کی طرف راغب کرنے کی بھی تعلیم ہے قرآن مجید میں بھی اشارۃً اس طرح کی بیوعات کی اجازت ہے۔


قرآن میں ہے

اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُؕ وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۪ وَ طَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ٘۔ ترجمہ: آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جو معاملات ہے وہ اسی قبیل کے ہے یعنی عام حالات میں جب کہ ان سے اس آمدنی سے اسلام کو خطرہ لاحق نہ ہو۔


(۲) جنگی حالات میں تجارتی معاملات کرنا 

اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف برسرپیکار ہو اور ان کی تجارتی آمدنی سے ہتھیار وغیرہ خرید کر اسلامی حکومت یا مسلموں کے خلاف استعمال ہوتی ہو اور ان کی نسل کشی کی جاتی ہو اور اس آمدنی سے اپنے آپ کو مضبوط بناکے مظلوموں اور بے کسوں پر ظلم کے پہار توڑے جاتے ہو تو قرآن کریم کی آیت (ولا تعاونوا على الإثم والعدوان ترجمہ اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو) کے تحت ان سے تجارتی معاملہ کرنا درست نہیں ہے احادیث اور فقہی عبارات سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔


لہذا جب ہم خبروں میں معلومات حاصل کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے مظلوم اور نہتے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کا جو دردناک وکربناک بازار گرم کر رکھا ہے، اور عائلی قوانین کا جیسے جنازہ نکالا ہے، ایک انسان ہونے کے ناطے دنیا کا کوئی شخص بھی اس کو برداشت نہیں کرسکتا۔


اور احادیث میں ظالم کو ظلم سے روکنے کی ہدایت دی گئی ہے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے لوگ جب ظالم كو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان سب پر عذاب نازل ہوجائے۔ اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو یا مظلوم تو صحابی نے فرمایا کہ جب وہ ظالم ہو گا تب میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے ظلم کرنے سے روکوگے یا فرمایا کہ تم اسے ظلم کرنے سے منع کرو گے یہی اس کی مدد کرنا ہے یہ بخاری شریف کی روایت ہے۔


اب ظالم کو ظلم سے روکنے کے دو طریقے ہیں۔

(۱) طاقت سے ان کو روکیں

یعنی اگر وہ ظلم کرتا ہے تو اس کو مکمل طاقت استعمال کرکے روکیں یہ کام ان حضرات کا ہے جس کے پاس ملکی، حکومتی اور فوجی طاقت ہو۔


(۲) اقتصادی طور پر ان کی کمر توڑدی جائے

یعنی اس کو ظلم سے روکنے کے لئے ان کا بائیکاٹ کیا جائے اور ان سے اس وقت تک لین دین ختم کیا جائے جب تک وہ ظلم سے باز نہ آجائے جب ظلم و بربریت کی راہ چھوڑ دے تو لین دین کیا جائے۔


لہذا پہلا طریقہ مسلم ممالک کے لئے ہے اور ان کی ذمہداری ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بل پر اسرائیلی جارحیت کو روکدیں اور مظلوموں کی مدد کریں۔


دوسرا طریقہ عام مسلمانوں کے لئے ہیں کہ وہ  اسرائیل کو جو مختلف مواقع پر مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے ہیں کہ ان کا مکمل بائیکاٹ کریں اور ویسے بھی ظالموں کی مصنوعات استعمال کرکے ان کو فائدہ پہنچانا ایمانی غیرت کے خلاف ہے  اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والی اسرائیلی ریاست کو فائدہ پہنچانے  سے مکمل طور پر گریز کرے، اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت، اہلِ اسلام سے یک جہتی اور دینی حمیت کا مظہر ہوگا۔


لہذا اس موقع پر دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان کی شرعی، اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ (وتعاونوا على البر والتقوى ترجمہ اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو) کے تحت فلسطین کے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرکے اپنی استطاعت کے مطابق ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا سلسلہ جاری رکھے۔


صورتِ مسئولہ میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ازلی دشمن یہودیوں کو ہماری وجہ سے کوئی فائدہ نہ پہنچے، اور ان سے تجارتی معاملات کرنا یہ ان کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہے اور ان کی معیشت کو فائدہ پہنچاناہے جس منافع سے یہ یہودی گولہ بارود اور دیگر اسلحہ خرید کر فلسطینی مسلمانوں پر اور دگر اسلامی ممالک کے مظلوم عوام و خواص پر ظلم و ستم کرتے ہیں۔


لہذا ان ظالموں کو ان کے ظلم سے روکنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کا تجارتی بائیکاٹ کیا جائے، نیز ان کی مصنوعات کو خریدنا درحقیقت انہیں قوت پہنچانا ہے جو کہ نہ صرف مکروہ ہے بلکہ ایمانی غیرت کے خلاف ہے اور اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت و دینی حمیت کا بھی تقاضہ ہے کہ ان سے مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔


قرآن کریم میں ہے۔

وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ .. (المائدة، الآية ۲)


بخاری شریف میں ہے 

عن أنس بن مالك رضي الله عنه مرفوعاً انْصُرْ أخاك ظالمًا أو مظلومًا فقال رجل يا رسول الله أَنْصُرُهُ إذا كان مظلومًا أرأيت إِنْ كان ظالمًا كيف أَنْصُرُهُ؟ قال تَحْجِزُهُ أو تمْنَعُهُ من الظلم فإنَّ ذلك نَصْرُهُ (رواه البخاري)


عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: يا أيُّها النَّاس، إِنَّكُم لَتَقرَؤُون هذه الآية (يَا أَيُّها الَّذِين آمَنُوا عَلَيكُم أَنفسَكُم لاَ يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيتُم) وَإِنِّي سمِعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إِنَّ النَّاس إِذا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَم يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيه أَوشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ۔ (رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وأحمد)


اللباب فی شرح الکتاب میں ہے

(ولا يَنْبَغِي بل يحرم، كما في الزيلعي ( أنْ يُبَاعَ السَّلاحُ) والكُراع ( مِنْ أهل الحرب)، لما فيه من تقويتهم على قتال المسلمين، وكذا كل ما فيه تقوية لهم، كالحديد، والعبيد، ونحو ذلك (وَلا يُجهز) أي: يتاجر بذلك (إلَيْهِمْ) قال في الغاية، أي لا يحمل إليهم التجار الجهاز، وهو المتاع۔ (اللباب فی شرح الکتاب ٦٧٦)


فتاوی شامی میں ہے

(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب ۔۔۔۔۔۔ قوله (تحريما) بحث لصاحب البحر حيث قال وظاهر كلامهم أن الكراهة تحريمية لتعليلهم بالإعانة على المعصية قوله (من أهل الفتنة) شمل البغاة وقطاع الطريق واللصوص بحر۔ (فتاوی شامی ٦/٤٢٠)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


جمعہ، 2 اگست، 2024

کیا مقتدی کے لیے امام کی اقتداء کی نیت کرنا ضروری ہے؟ سوال نمبر ٤٨٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

میں امید کرتا ہوں مفتی صاحب آپ عافیت سے ہوں گے، ایک سول دریافت کرنا ہے کہ اگر مقتدی امام کی اقتدا کی نیت نہ کرے یا صرف نماز کی نیت کرے تو اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں ؟ اور اگر مفتی صاحب حوالے کے ساتھ جواب مل جائے تو بہتر ہے۔

سائل: مولوی امتیاز انڈمان 



الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مقتدی کے لیے امام کی اقتداء کی نیت کرنا ضروری ہے اس کے بغیر اس کی اقتداء درست نہ ہوگی اس لئے کہ اقتداء کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ امام اور مقتدی دونوں کی نماز اس طور پر ہو کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز کے لئے مُتضمن ہوجائے اور وہ اس وقت ممکن ہوگا جب کہ مقتدی اقتداء کی نیت کریں، البتہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے اقتداء کے لئے باقاعدہ زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، اور اگر کوئی مقتدی استحضار اور دل جمعی کے مقصد سے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کریں تو بہتر ہے، وہ جو زبان جانتا ہو، اس میں یہ اقتداء کی نیت کے الفاظ ادا کرلے کہ میں اس امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتا ہوں نیت کے لیے عربی الفاظ کا ادا کرنا ضروری نہیں۔

صورت مسؤلہ میں اگر مقتدی اقتداء کی نیت نہ کریں یا مطلق نماز کی نیت کریں تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی اس لئے کہ نماز کے درست ہونے کے لیے اقتداء کی نیت کرنا شرط ہے،


فتاوی شامی میں ہے 

(قوله وينوي المقتدي) أما الإمام فلا يحتاج إلى نية الإمامة كما سيأتي (قوله لم يقل أيضا) أي كما في الكنز والملتقى وغيرهما (قوله صح في الأصح) كذا نقله الزيلعي وغيره بحر قلت لكن ذكر المسألة الأولى في الخانية وقال لا يجوز لأن الاقتداء بالإمام كما يكون في الفرض يكون في النفل. وقال بعضهم: يجوز اهـ: قال في شرح المنية: فظهر أن الجواز قول البعض وعدمه هو المختار أقول يؤيده قول المتون ينوي المتابعة أيضا، وكذا قول الهداية ينوي الصلاة ومتابعة الإمام، ومثله في المجمع وكثير من الكتب، بل قال في المنبع إنه بالإجماع۔ (الدر المختار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة ۲: ۹۸، زکریا دیوبند)


نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج میں ہے 

(أن ينوي المأموم مع التكبير) للإحرام (الاقتداء) أو الائتمام ( أو الجماعة ) بالإمام الحاضر۔ (نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج ۲/٢٠٦ فصل في بعض شروط القدوة أيضا)


الموسوعہ الفقیہ میں ہے 

المَسألةُ الثَّانية: نِيَّةُ الائتمامِ: يُشترطُ نيَّةُ الائتمامِ في حقِّ المأمومِ، وهذا باتِّفاقَ المذاهبِ الفقهيَّة الأربعة: الحَنَفيَّة، والمالِكيَّة، والشافعيَّة، والحَنابِلَة

وذلك للآتي: (أولًا) لأنَّ الجماعةَ تتعلَّقُ بها أحكامُ وجوبِ الاتِّباعِ، وسقوطِ السَّهوِ عن المأمومِ، وفسادِ صلاتِه بصلاةِ إمامِه، وإنَّما يتميَّزانِ بالنيَّة؛ فكانتْ شرطًا.(ثانيًا) لأنَّه يلزم المأمومَ فسادُ الصَّلاةِ من جهةِ الإمامِ؛ فلا بدَّ من الْتزامِه (الموسوعة الفقهية كِتابُ الصَّلاةِ المَطلَب الخامس: نيَّةُ الإمامةِ والائتمامِ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی