سوال
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کیوں کیا جائے؟ جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہودیوں کے ساتھ تجارت کی ہے۔
سائل مولوی طیب پانی پت ہریانہ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
یہودیوں سے تجارتی معاملات کے سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر سے دو زاوئے ہیں۔
(۱) عام حالات میں تجارتی معاملات کرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف برسرپیکار نہ ہو اور ان کی تجارتی آمدنی سے ہتھیار وغیرہ خرید کر اسلامی حکومت یا مسلموں کے خلاف استعمال نہ ہوتی ہو تو تجارتی معاملات شرعی احکامات کو مدنظر رکھ کر کئے جائیں تو نہ صرف تجارتی معاملات ان کے ساتھ جائز ہیں بلکہ اسلامی اخلاق کے ذریعے ان کی تبلیغ اور اسلام کی طرف راغب کرنے کی بھی تعلیم ہے قرآن مجید میں بھی اشارۃً اس طرح کی بیوعات کی اجازت ہے۔
قرآن میں ہے
اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُؕ وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۪ وَ طَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ٘۔ ترجمہ: آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جو معاملات ہے وہ اسی قبیل کے ہے یعنی عام حالات میں جب کہ ان سے اس آمدنی سے اسلام کو خطرہ لاحق نہ ہو۔
(۲) جنگی حالات میں تجارتی معاملات کرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف برسرپیکار ہو اور ان کی تجارتی آمدنی سے ہتھیار وغیرہ خرید کر اسلامی حکومت یا مسلموں کے خلاف استعمال ہوتی ہو اور ان کی نسل کشی کی جاتی ہو اور اس آمدنی سے اپنے آپ کو مضبوط بناکے مظلوموں اور بے کسوں پر ظلم کے پہار توڑے جاتے ہو تو قرآن کریم کی آیت (ولا تعاونوا على الإثم والعدوان ترجمہ اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو) کے تحت ان سے تجارتی معاملہ کرنا درست نہیں ہے احادیث اور فقہی عبارات سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔
لہذا جب ہم خبروں میں معلومات حاصل کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے مظلوم اور نہتے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کا جو دردناک وکربناک بازار گرم کر رکھا ہے، اور عائلی قوانین کا جیسے جنازہ نکالا ہے، ایک انسان ہونے کے ناطے دنیا کا کوئی شخص بھی اس کو برداشت نہیں کرسکتا۔
اور احادیث میں ظالم کو ظلم سے روکنے کی ہدایت دی گئی ہے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے لوگ جب ظالم كو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان سب پر عذاب نازل ہوجائے۔ اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو یا مظلوم تو صحابی نے فرمایا کہ جب وہ ظالم ہو گا تب میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے ظلم کرنے سے روکوگے یا فرمایا کہ تم اسے ظلم کرنے سے منع کرو گے یہی اس کی مدد کرنا ہے یہ بخاری شریف کی روایت ہے۔
اب ظالم کو ظلم سے روکنے کے دو طریقے ہیں۔
(۱) طاقت سے ان کو روکیں
یعنی اگر وہ ظلم کرتا ہے تو اس کو مکمل طاقت استعمال کرکے روکیں یہ کام ان حضرات کا ہے جس کے پاس ملکی، حکومتی اور فوجی طاقت ہو۔
(۲) اقتصادی طور پر ان کی کمر توڑدی جائے
یعنی اس کو ظلم سے روکنے کے لئے ان کا بائیکاٹ کیا جائے اور ان سے اس وقت تک لین دین ختم کیا جائے جب تک وہ ظلم سے باز نہ آجائے جب ظلم و بربریت کی راہ چھوڑ دے تو لین دین کیا جائے۔
لہذا پہلا طریقہ مسلم ممالک کے لئے ہے اور ان کی ذمہداری ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بل پر اسرائیلی جارحیت کو روکدیں اور مظلوموں کی مدد کریں۔
دوسرا طریقہ عام مسلمانوں کے لئے ہیں کہ وہ اسرائیل کو جو مختلف مواقع پر مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے ہیں کہ ان کا مکمل بائیکاٹ کریں اور ویسے بھی ظالموں کی مصنوعات استعمال کرکے ان کو فائدہ پہنچانا ایمانی غیرت کے خلاف ہے اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والی اسرائیلی ریاست کو فائدہ پہنچانے سے مکمل طور پر گریز کرے، اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت، اہلِ اسلام سے یک جہتی اور دینی حمیت کا مظہر ہوگا۔
لہذا اس موقع پر دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان کی شرعی، اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ (وتعاونوا على البر والتقوى ترجمہ اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو) کے تحت فلسطین کے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرکے اپنی استطاعت کے مطابق ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا سلسلہ جاری رکھے۔
صورتِ مسئولہ میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ازلی دشمن یہودیوں کو ہماری وجہ سے کوئی فائدہ نہ پہنچے، اور ان سے تجارتی معاملات کرنا یہ ان کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہے اور ان کی معیشت کو فائدہ پہنچاناہے جس منافع سے یہ یہودی گولہ بارود اور دیگر اسلحہ خرید کر فلسطینی مسلمانوں پر اور دگر اسلامی ممالک کے مظلوم عوام و خواص پر ظلم و ستم کرتے ہیں۔
لہذا ان ظالموں کو ان کے ظلم سے روکنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کا تجارتی بائیکاٹ کیا جائے، نیز ان کی مصنوعات کو خریدنا درحقیقت انہیں قوت پہنچانا ہے جو کہ نہ صرف مکروہ ہے بلکہ ایمانی غیرت کے خلاف ہے اور اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت و دینی حمیت کا بھی تقاضہ ہے کہ ان سے مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔
قرآن کریم میں ہے۔
وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ .. (المائدة، الآية ۲)
بخاری شریف میں ہے
عن أنس بن مالك رضي الله عنه مرفوعاً انْصُرْ أخاك ظالمًا أو مظلومًا فقال رجل يا رسول الله أَنْصُرُهُ إذا كان مظلومًا أرأيت إِنْ كان ظالمًا كيف أَنْصُرُهُ؟ قال تَحْجِزُهُ أو تمْنَعُهُ من الظلم فإنَّ ذلك نَصْرُهُ (رواه البخاري)
عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: يا أيُّها النَّاس، إِنَّكُم لَتَقرَؤُون هذه الآية (يَا أَيُّها الَّذِين آمَنُوا عَلَيكُم أَنفسَكُم لاَ يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيتُم) وَإِنِّي سمِعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إِنَّ النَّاس إِذا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَم يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيه أَوشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ۔ (رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وأحمد)
اللباب فی شرح الکتاب میں ہے
(ولا يَنْبَغِي بل يحرم، كما في الزيلعي ( أنْ يُبَاعَ السَّلاحُ) والكُراع ( مِنْ أهل الحرب)، لما فيه من تقويتهم على قتال المسلمين، وكذا كل ما فيه تقوية لهم، كالحديد، والعبيد، ونحو ذلك (وَلا يُجهز) أي: يتاجر بذلك (إلَيْهِمْ) قال في الغاية، أي لا يحمل إليهم التجار الجهاز، وهو المتاع۔ (اللباب فی شرح الکتاب ٦٧٦)
فتاوی شامی میں ہے
(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب ۔۔۔۔۔۔ قوله (تحريما) بحث لصاحب البحر حيث قال وظاهر كلامهم أن الكراهة تحريمية لتعليلهم بالإعانة على المعصية قوله (من أهل الفتنة) شمل البغاة وقطاع الطريق واللصوص بحر۔ (فتاوی شامی ٦/٤٢٠)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں