اتوار، 25 اگست، 2024

تین مہینے کے حمل کی صفائی کروانے کی صورت میں آنے والے خون کا حکم سوال نمبر ٤٨٩

 سوال

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک لڑکی نے 3 مہینے میں وکاس نہ ہونے پر گولی کھالی پھر 15 دن خون آیا  پھر دو دن بند ہوگیا پھر خون آتا ہے اور بند ہوتا ہے تو نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہے؟ ڈاکٹر کو بتایا تو کہتے ہے ابھی اندر وہ بچہ کے کچھ اثرات رہ گئے ہے وہ خون آتا ہے، تو وہ خون کونسا شمار ہوگا؟ استحاضہ یا نفاس یا حیض۔

سائلہ: اللہ کی ایک بندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


عورت کے حمل کو ضائع کرنے کی صورت میں جو خون آتا ہے وہ حیض کا ہے یا نفاس کا اس کو سمجھنے کے لئے یہ بات دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہے یا نہیں اگر بچہ کے اعضاء بن گئے ہیں چاہے کچھ اعضاء ہی بنے ہوں اور پھر حمل ضائع ہوا ہو تو اس کے بعد آنے والے خون پر نفاس کا حکم ہوگا اور نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن کی ہے۔


اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو صرف خون کے لوتھڑے کی شکل میں حمل ضائع ہوا ہو تو اس خون پر حیض کا حکم ہوگا بشرطیکہ کم سے کم تین دن خون آیا ہو، ایک یا دو دن خون آکر بند ہوگیا تو ایسی صورت میں آنے والا خون استحاضہ ہوگا اور اگر خون مسلسل آنے لگے یہاں تک کہ دس دن سے آگے بڑھ جائے تو عادت کے بقدر ایام حیض شمار ہوگا یعنی حمل سے پہلے آخری مرتبہ جتنے دن حیض آیا تھا اتنے دن حیض ہوگا اور باقی استحاضہ ہوگا۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے تو اس کے بعد نظر آنے والا خون وہ نفاس کا خون ہوگا لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے ضائع ہوجائے تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا۔


مسؤلہ صورت میں جس لڑکی نے تیسرے مہینے پر حمل ساقط کیا ہے جس کی وجہ سے اس کو خون جاری ہوچکاہے پھر ۱۵ دن خون آیا ہے بعد میں دو دن بند ہونے کے بعد پھر خون آتا اور بند ہوتا ہے تو اس میں آنے والا خون نفاس کا نہیں ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کو پہلے خون حیض کی عادت کے اعتبار سے مدت متعین ہے یا نہیں اگر اس کی عادت متعین ہے تو جتنی مدت پہلے خون آتا تھا اتنے دنوں تک وہ حیض کا خون شمار ہوگا اس کے علاوہ استحاضہ کا شمار ہوگا اور اگر پہلے سے اس کے حیض کی عادت متعین نہیں ہے تو دس دن حیض کے باقی استحاضہ شمار ہوگا،

اور جس خون پر نفاس یا حیض کا حکم ہوگا اس خون میں نماز روزہ کی ادائیگی عورت نہ کرے گی اور جس خون پر استحاضہ کا حکم ہے اس میں نماز روزہ کی ادائیگی واجب ہے۔


فتاوی شامی میں ہے

(ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء  فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة، (فتاوی شامی ۱/۵۰۱ مطلب في أحوال السقط وأحکامہ ط: زکریا)


فتاوی عالمگیری میں ہے

امرأة مرضعة ظهر بهاحبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفةً أو مضغةً أو علقةً لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً كذا في خزانة المفتين۔ (فتاوى عالمگیری ۵/٣۵٦)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: