سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
میں امید کرتا ہوں مفتی صاحب آپ عافیت سے ہوں گے، ایک سول دریافت کرنا ہے کہ اگر مقتدی امام کی اقتدا کی نیت نہ کرے یا صرف نماز کی نیت کرے تو اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں ؟ اور اگر مفتی صاحب حوالے کے ساتھ جواب مل جائے تو بہتر ہے۔
سائل: مولوی امتیاز انڈمان
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مقتدی کے لیے امام کی اقتداء کی نیت کرنا ضروری ہے اس کے بغیر اس کی اقتداء درست نہ ہوگی اس لئے کہ اقتداء کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ امام اور مقتدی دونوں کی نماز اس طور پر ہو کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز کے لئے مُتضمن ہوجائے اور وہ اس وقت ممکن ہوگا جب کہ مقتدی اقتداء کی نیت کریں، البتہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے اقتداء کے لئے باقاعدہ زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، اور اگر کوئی مقتدی استحضار اور دل جمعی کے مقصد سے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کریں تو بہتر ہے، وہ جو زبان جانتا ہو، اس میں یہ اقتداء کی نیت کے الفاظ ادا کرلے کہ میں اس امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتا ہوں نیت کے لیے عربی الفاظ کا ادا کرنا ضروری نہیں۔
صورت مسؤلہ میں اگر مقتدی اقتداء کی نیت نہ کریں یا مطلق نماز کی نیت کریں تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی اس لئے کہ نماز کے درست ہونے کے لیے اقتداء کی نیت کرنا شرط ہے،
فتاوی شامی میں ہے
(قوله وينوي المقتدي) أما الإمام فلا يحتاج إلى نية الإمامة كما سيأتي (قوله لم يقل أيضا) أي كما في الكنز والملتقى وغيرهما (قوله صح في الأصح) كذا نقله الزيلعي وغيره بحر قلت لكن ذكر المسألة الأولى في الخانية وقال لا يجوز لأن الاقتداء بالإمام كما يكون في الفرض يكون في النفل. وقال بعضهم: يجوز اهـ: قال في شرح المنية: فظهر أن الجواز قول البعض وعدمه هو المختار أقول يؤيده قول المتون ينوي المتابعة أيضا، وكذا قول الهداية ينوي الصلاة ومتابعة الإمام، ومثله في المجمع وكثير من الكتب، بل قال في المنبع إنه بالإجماع۔ (الدر المختار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة ۲: ۹۸، زکریا دیوبند)
نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج میں ہے
(أن ينوي المأموم مع التكبير) للإحرام (الاقتداء) أو الائتمام ( أو الجماعة ) بالإمام الحاضر۔ (نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج ۲/٢٠٦ فصل في بعض شروط القدوة أيضا)
الموسوعہ الفقیہ میں ہے
المَسألةُ الثَّانية: نِيَّةُ الائتمامِ: يُشترطُ نيَّةُ الائتمامِ في حقِّ المأمومِ، وهذا باتِّفاقَ المذاهبِ الفقهيَّة الأربعة: الحَنَفيَّة، والمالِكيَّة، والشافعيَّة، والحَنابِلَة
وذلك للآتي: (أولًا) لأنَّ الجماعةَ تتعلَّقُ بها أحكامُ وجوبِ الاتِّباعِ، وسقوطِ السَّهوِ عن المأمومِ، وفسادِ صلاتِه بصلاةِ إمامِه، وإنَّما يتميَّزانِ بالنيَّة؛ فكانتْ شرطًا.(ثانيًا) لأنَّه يلزم المأمومَ فسادُ الصَّلاةِ من جهةِ الإمامِ؛ فلا بدَّ من الْتزامِه (الموسوعة الفقهية كِتابُ الصَّلاةِ المَطلَب الخامس: نيَّةُ الإمامةِ والائتمامِ)
واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں