جمعہ، 23 دسمبر، 2022

بیوی کو موبائل فون دینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٠۵

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک شخص نے سوال کیاھے انک بیوی سمارٹ موبائل استعمال کرتی ھے اور شوہر کو یہ پسند نھیں ھے اس لئے اسنے بیوی کا موبائل بیچ دیا۔

اب مسلہ یے ھووا ھے کی بیوی کے بھائ نے نیا موبائل دلوایا ھے تو اب شوہر کیا کرے کیا شوہر اسکو موبائل دےسکتا ھے؟ حالاکہ شوہر راضی نھی ھے کے بیوی سمارٹ موبئل استعمال کرے۔

آپسے التجاء ھے تسلی بخش جواب دےکر شکریہ کا موقع عنایت فرمایں۔

سائل محمد بلال پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مرد اگر کسی خاص وجہ سے جیسے موبائل سے وہ غیر محرموں سے باتیں کرے گی یا اس میں غلط ویڈیوز وغیر میں اپنے آپ کو برباد کرے گی یا کوئی اور شرعی یا ذاتی نقصان کو پیش نظر رکھتے ہوئے   اپنی بیوی کو ذاتی موبائل رکھنے سے منع کرتا ہے تو اسے شرعاً یہ حق حاصل ہے، تاکہ ازدواجی زندگی خوشگوار رہے، لیکن اگر کوئی ایسی خاص وجہ نہیں ہے اور بیوی  اپنے والدین سے رابطے کے لیے اپنا ذاتی سادہ موبائل رکھنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں شوہر اسے منع نہیں کرسکتا۔


اس سلسلہ میں فتاوی بنوریہ کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: مرد اگر کسی معقول وجہ سے(مثلاً اس اندیشہ سے کہ عورت گھر کی باتیں اپنے میکے میں بتائے گی، جس سے گھر کا ماحول خراب ہوسکتا ہے،یا غیر لوگوں سے باتیں کرے گی)  اپنی بیوی کو ذاتی موبائل رکھنے سے منع کرتا ہے تو اسے شرعاً یہ حق حاصل ہے،تاکہ ازدواجی زندگی خوشگوار رہے، لیکن اگر کوئی ایسی معقول وجہ نہیں ہے اور بیوی  اپنے والدین سے رابطے کے لیے اپنا ذاتی سادہ موبائل رکھنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں شوہر اسے منع نہیں کرسکتا۔نیز  بیوی کے گھر والوں کا اس کو اپنے گھر روک کر رکھنا مناسب نہیں اور نہ یہ مسئلہ کا حل ہے۔


رد المحتار میں ہے:

"ظاهر الكنز وغيره اختيار القول بالمنع من الدخول مطلقا واختاره القدوري وجزم به في الذخيرة، وقال: ولا يمنعهم من النظر إليها والكلام معها خارج المنزل إلا أن يخاف عليها الفساد فله منعهم من ذلك أيضا۔ (رد المحتار علی الدر المختار،603/3، سعید)۔ فقط واللہ اعلم۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٤٣٠٦١٠٠٠٧٦)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

بدھ، 14 دسمبر، 2022

نکاح پڑھانے کی اجرت کا مستحق کون امام مسجد یا نکاح پڑھانے والا؟ سوال نمبر ٤٠٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

نکاح خوانی کی اجرت کا مستحق کون ہے؟ نکاح پڑھانے والا شخص یا مسجد کا امام ؟ اور اگر مسجد کا امام اجرت لے لے اور نکاح پڑھانے والے کو نہ دے تو یہ حلال ہوگا یا نہیں؟

سائل: ابو اسامہ مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح پڑھانا ایک عمل ہے اور اس پر اجرت لینا جائز ہے لہذا اصولی طور پر نکاح خوانی کی اجرت کا مستحق 

وہی شخص ہے جس نے نکاح پڑھایا ہے اور اجرت  صرف نکاح پڑھانے والے کو ہی دیں گے نکاح پڑھانے والا چاہے امام مسجد ہو یا پھر کوئی اور ہو اس رقم میں اگر نکاح امام مسجد کے علاوہ کوئی اور بڑھاتا ہے تو امام مسجد کا اور مؤذن کا کوئی حصہ نہیں ہوتا نیز  یہ تو نکاح خوانی کی اجرت ہے نہ کہ محلہ کی مسجد کے امام کا حق جس نے نکاح پڑھایا ہے نکاح کی اجرت اسی کو  دینا ضروری ہے لہذا وہ پیسہ امام مسجد کے ہاتھ میں پہنچا ہو تو اس پر ضروری ہے کہ امانت سمجھ کر مستحق تک پہنچا دے نہ پنہچانے کی صورت میں وہ گنہگار ہوں گے۔


(مستفاد: کفایت المفتی ، قدیم زکریا ۵/ ۱٤٦

 (فتاوی قاسمیہ ٧ / ٦٧٧ تا ٧٠٣)

(امداد الفتاوی ۲/ ۲٦۸)

(خیر الفتاوی زکریا ٤/ ۵۸٦)

(فتاوی محمودیہ دابھیل ۱۷/۹۵)


فتاوی شامی میں ہے

(الأجرۃ إنما تکون بمقابلۃ العمل۔ (فتاوی شامي  ٤/۳۰۷)


خلاصة الفتاوى میں ہے

ولا يحل له أخذ شيء على النكاح إن كان نكاحا يجب عليه مباشرته كنكاح الصغائر، وفي غيره يحل۔ (خلاصة الفتاوى، كتاب القضاء، الفصل العاشر في الحظر والإباحة، أشرفي ديوبند ٤/٤٨)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وکل نکاح باشره القاضي، وقد وجبت مباشرته علیه کنکاح الصغار والصغائر، فلا یحل له أخذ الأجرة علیه، وما لم تجب مباشرته علیه حل له أخذ الأجرة علیه. (فتاوی عالمگیري ٣/٣٤۵ الباب الخامس عشر في أقوال القاضي، وما ینبغي للقاضي أن یفعل، زکریا دیوبند)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب 

العارض مفتی آصف گودھروی

منگل، 13 دسمبر، 2022

گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٠٣

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبركاته

مفتی صاحب سوال یہ کہ ایک آدمی نےکسی کےپاس دوکانی زمین گروی دیکر ایک ٹیکل سونا لیا بغیر منافعہ کے تو وہ آدمی  بطور رضا وخوشی سونے والے کو یہ کہہ دے تم میری زمین میں کھیتی وغیرہ کرو  تو وہ کھیتی وغیرہ کرے تو اس کیلئے سود ہوگا بالدلیل بیان کرو؟

سائل حافظ شفیق اللہ برما 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


یہ وہ صورت ہے جس کو عربی میں رہن اور اردو زبان میں  اسے گروی کہتے ہیں رہن اور گروی کا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کو قرض دے کر اطمینان قلب کے خاطر مالی چیز کو قرض کے بدلے اپنے پاس روکے رکھنا تاکہ جب وہ دین ادا نہ کرپائے تو اس سے یا اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے اپنے دَین کو وصول کرسکے یعنی اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے تو قرض دینے والا بطورِ ضمانت و وثیقہ قرض دار سے کوئی قیمتی چیز لے کر اپنے قبضے میں رکھتا ہے کہ اگر قرض دار قرض نہ ادا کرسکے تو اس قیمتی چیز سے قرض کی رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا جاسکے۔


اب گروی رکھے ہوئے مال سے فائدہ اٹھانا یا تو گروی رکھنے والے کی اجازت سے ہوگا یا بغیر اجازت کے یاعرف و رواج کے اعتبار سے ہوگا یہ تمام صورتیں شرعاً ممنوع ہیں اجازتاً ممنوع تو اس لیے ہے کہ وہ نفع، ربوا ہے اور سود اجازت سے بھی حلال نہیں ہوتا اور بغیر اجازت کے تو بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوگا اور عرفاً انتفاع اس لیے جائز نہیں ہے کہ معروف مشروط کی طرح ہے اور جوحکم مشروط کا ہے وہی حکم معروف کا ہے غرض فقہاء کرام کے نزدیک کسی بھی صورت میں مال مرہون سے فائدہ اٹھانا سود ہے اس لیے رہن کی اشیاء سے مرتہن کے لیے مطلقاً انتفاع جائز نہ ہوگا۔ (مستفاد: کتاب الفتاوی ۵ / ۵۸۵ تا ۵۸۹ : فتاوی قاسمیہ ٢٢ / ٧٩ تا ٩٠ : امدادالفتاوی قدیم ٣/٤۵٤ : فتاوی رشیدیہ ۵١٧صفحہ دارالاشاعت)


فتاوی شامی کی بعض عبارات سے راہن کی اجازت ہونے کی صورت میں جواز کا اشارہ ملتا ہے البتہ ہمارے اکابر علماء نے اس پر فتوی نہیں دیا ہے بلکہ عدم انتفاع کے فتوی کی ہی صراحت مذکور ہے۔


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: مال مرہون سے فائدہ اٹھانا مرتہن کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ راہن اس کی اجازت دے اس لیے صورت مسئولہ میں زید کے لیے عمر کی زمین (جو اس کے پاس بطور رہن ہے) سے کھیتی وغیرہ کرکے نفع حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اگرچہ عمر اس کی اجازت دیدے؛ کیونکہ رہن سے انتفاع درحقیقت قرض دے کر نفع لینا ہے اور اسے حدیث میں ”سود“ قرار دیا کیا ہے، کل قرض جر منفعة فہو ربا (مصنف ابن أبي شیبہ، رقم: ۲۰۶۹) اور سود لینا باہمی رضامندی سے بھی درست نہیں ہوتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ۱۵٨١٢٨)


صورت مسؤلہ میں گروی رکھی ہوئی زمین کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے  چاہے گروی رکھنے والا اجازت دے چکا ہو تب بھی اس کے استعمال کی شرعاً اجازت نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کو گروی رکھنا قرض کے بدلے ہوتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے نفع حاصل کرنا یہ سود ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرض دے کر نفع اٹھانا یہ سود کے زمرہ میں داخل ہوجاتا ہے لہذا س طرح اس سے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔


الدر المختار مع ردالمحتار میں ہے 

کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا (الدر المختار مع ردالمحتار  ۷/۳۹۵)


فتاویٰ شامی میں ہے 

وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا فيكون ربا، وهذا أمر عظيم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والغالب من احوال الناس انهم انما یریدون عند الدفع الانتفاع ولولاه لما اعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط لأن المعروف کالمشروط وهو یعین المنع (الدر المختار مع ردالمحتار: ١٠/٨٣)

ایضاً 

(لا انتفاع به مطلقاً) لا باستخدام، ولا سكنى ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة، سواء كان من مرتهن أو راهن (إلا بإذن) كل للآخر ۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: من مرتهن أو راهن) الأول مصرح به في عامة المتون، والثاني صرح به في درر البحار وشرح مختصر الكرخي وشرح الزاهدي، وفيه خلاف الشافعي فعنده يجوز له الانتفاع بغير الوطء، والأول لا خلاف فيه كما في غرر الأفكار۔


 النتف في الفتاوى میں ہے 

أنواع الربا وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه أحدها في القروض والثاني في الدیون، والثالث في الرهون الربا في القروض فأما في القروض فهو علی وجهین أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلك القرض أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه … ولو لم یکن سبب ذلك (هذا) القرض لما کان (ذلك) الفعل، فإن ذلك رباً، وعلی ذلك قول إبراهیم النخعي کل دین جر منفعةً لا خیر فیه۔ (النتف في الفتاوى ١ / ٤٨٤ ٤٨۵ ط دار الفرقان)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

اتوار، 11 دسمبر، 2022

نکاح فاسد میں پیدا ہونے والے بچے کے لئے وراثت کا حکم شرعی کیا ہے؟ سوال نمبر ٤٠٢

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ 

نکاح فاسد میں پیدا ہونے والے بچے کے لیے باپ کے ترکے میں سے وراثت ثابت ہوگی یا نہیں؟ با حوالہ جواب عنایت فرمائیں

سائل: ابو اسامہ ملی مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


بغیر گواہوں کے  نکاح کرنا یا منکوحۃ الغیر سے لاعلمی میں نکاح کرنا وہ نکاح فاسد ہوتاہے اس نکاح میں دونوں اجنبی ہی ہوں گے اور دونوں کے لئے جس طرح نکاح فاسد سے پہلے دونوں کا آپس میں ازدواجی تعلق قائم کرنا حرام ہوتا ہے اسی طرح نکاح فاسد کے بعد بھی دونوں کا ازدواجی تعلق قائم کرنا یا میاں بیوی کی طرح ساتھ رہنا حرام ہوتا ہے۔


البتہ اس نکاح فاسد سے  جو اولاد پیدا ہوجائے  توتحفظ نسب کی خاطر وہ شرعاًاسی شوہر سے ثابت النسب ہوتی ہے تاکہ بچہ محفوظ النسب ہوجائے لیکن وراثت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔


(ويثبت النسب) احتياطا بلا دعوة (وتعتبر مدته) وهي ستة أشهر (من الوطء، فإن كانت منه إلى الوضع أقل مدة الحمل) يعني ستة أشهر فأكثر (يثبت) النسب (وإلا) بأن ولدته لأقل من ستة أشهر (لا) يثبت، وهذا قول محمد وبه يفتى، وقالا: ابتداء المدة من وقت العقد كالصحيح ورجحه في النهر بأنه أحوط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: ويثبت النسب) أما الإرث فلا يثبت فيه وكذا النكاح الموقوف ط عن أبي السعود (قوله:احتياطا) أي في إثباته لإحياء الولد ط (قوله: وتعتبر مدته) أي ابتداء مدته التي يثبت فيها (قوله: وهي ستة أشهر) أي فأكثر۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٤/٢٧٧)

ایضاً 

قوله ( نكاحا فاسدا ) هي المنكوحة بغير شهود ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة"۔(ردالمحتار،مطلب في النكاح الفاسد، ۵/١٩٧)"


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

منگل، 6 دسمبر، 2022

نیچے مسجد اوپر فلور ہو یا اوپر مسجد نیچے فلور ہوتو کیا وہ مسجد شرعی شمار ہوگی سوال نمبر ٤٠١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ شرعی مسجد کے اوپر مکانات کی تعمیر کا حکم کیا ہے؟ جیسے کہ بمبئی میں ہوتا ہے۔ تحقیقی جواب مطلوب ہے۔

سائل مولانا بلال صاحب نولپوری

 

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

 اوقاف مساجد کے سلسلہ میں فقہائے اَحناف نے اصولی اعتبار سے یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ اوپر مسجد کی حد آسمان کی بلندی تک اور نیچے زمین کی گہرائی  تک ہے۔

جیسا کہ علامہ شامی فتاوی شامی میں تحریر بقلم ہے ۔ قال فی البحر: وحاصلہ أن شرط کونہ مسجدا أن یکون سلفہ وعلوہ مسجدا ینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی وان المساجد للہ (الدر المختار مع الشامی مطلب فی أحکام المسجد ٦/۵٤۷ زکریا)

اور جب یہ بات ہے تو پھر مسجد کا حکم شرعی اوپر نیچے دونوں طرف شمار ہوگا یعنی نہ اوپر کوئی چیز مصالح مسجد کے علاوہ تعمیر کرنا درست ہے اور نہ ہی نیچے درست ہے البتہ مصالح مسجد کی قبیل سے ہیں تو جائز ہے جیسے امام مسجد کے لئے مسجد پر رہائشی مکان اور اس میں بھی یہ شرط ہے کہ  مسجد کی تعمیر سے پہلے رہائش کے لیے کوئی جگہ خاص کی گئی ہو، مثلا تعمیر کردہ جگہ کا ایک منزلہ یا اس کا کوئی حصہ رہائش کےلئے خاص کیا ہو تو وہاں رہائش بنائی جاسکتی ہے اور اگر مکمل جگہ مسجد کے لئے ہی خاص ہو   اور رہائش وغیرہ کی جگہ کی تعیین نہ کی ہو  تو ایسی صورت میں وہاں رہائش بنانا درست نہیں۔

اب موجودہ دور میں بڑی بڑی سیٹیوں میں جیسے بمبئی وغیرہ ہے جہاں کثیر آبادی کی بناپر جگہ تنگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے مساجد یا تو کثیر فاصلے پر واقع ہوتی ہیں یا کاروباری مراکز میں جہاں لوگوں کے لئے دور جاکر نماز کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی اُن کی سہولت کے لیے فلیٹوں یا کاروباری عمارتوں میں نماز کے لئے باقاعدہ مسجد کی جگہ مختص کی جاتی ہے اسی طرح تعمیر مسجد سے قبل ہی یہ طے ہوجاتاہے کہ پہلے یا دوسرے فلور میں مسجد اور اس کے اوپر مکانات کی تعمیر ہوگی تاکہ اِن جگہوں سے وابستہ لوگ باجماعت مسجد کے ثواب کو حاصل کرتے ہوئے نماز ادا کر سکیں جہاں پر باقاعدہ پنج وقتہ اذان و نماز باجماعت ہوتی ہے اور  باقاعدہ جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہے تو اس سلسلہ میں اقوال فقہاء سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ مسجد کے اوپر یا نیچے اپنی ذاتی ملک کے طور پر کوئی بھی منزل یا دکان وغیرہ بنانا درست نہیں ہے تعمیر کی صورت میں وہ مسجد مسجدعرفی  شمار ہوگی مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہوگی۔

اس سلسلہ میں فتاوی بنوریہ میں ایسے ہی سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہیں کہ: واضح رہے کہ اگر وقف کی  زمین پر مسجد  کی تعمیر  سے  پہلے   نیچے والے حصے میں  دکانیں یا مکانات بنائے جائیں،  اور یہ دکانیں اور مکانات مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے ہو ں، تو اس کی  گنجائش ہے،  اور ایسی صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد کے حکم میں ہوگی،  لیکن مذکورہ دکانوں اور مکانوں  کا استعمال مسجد کے تقدس اور احترام کو ملحوظ رکھ کر کرنا ہوگا یعنی ان مکانات میں قضاءِ حاجت یا میاں بیوی کے ملنے اور حائضہ عورت کے آنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور مستقل گھر بنانے میں جہاں بیت الخلا بھی ہو اور اہلِ خانہ سمیت رہائش اختیار کی جائے، مسجد کے آداب اور تقدس کا خیال نہیں رکھا جاسکتا، لہٰذا اس کی اجازت نہیں ہوگی، اور دکانوں میں بھی ضروری ہوگا کہ غیر شرعی کام نہ کیا جائے اور کوئی غیر شرعی چیز نہ رکھی جائے۔

اور اگر  نیچے اور اوپر مسجد کی تعمیر مکمل  ہوجائے  تو  پھر نیچے نہ دکانیں بنائی جاسکتی ہیں  اور نہ ہی وضوخانہ بنایا جاسکتا ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ ابتدائی تعمیر کے وقت بھی دکانیں مسجد کے احاطہ یعنی  نماز پڑھنے کے لیے مختص کی گئی جگہ کے اردگرد بنائی جائیں، عین اس کے نیچے نہ بنائی جائیں۔

نیز اگر پہلے سے بنی ہوئے مکانات کے اوپر مسجد بنائی جائے اور وہ مکانات شخصی ملکیت ہوں، مسجد کے مصالح کے لیے وقف نہ ہوں  تو  ایسی صورت میں اس کے اوپر والی جگہ شرعی مسجد نہیں بنے گی،  بلکہ یہ عرفی مسجد ہے، کیوں کہ مسجدِ شرعی بننے کے لیے شرط ہے کہ اس مسجد کے اوپر یا نیچے مصالحِ مسجد کے علاوہ کوئی دوسری چیز تعمیر نہ ہو، اس لیے کہ مسجدِ شرعی اوپر آسمان تک اور نیچے تحت الثریٰ تک مسجد ہوتی ہے، لہذا   اس میں نماز باجماعت پڑھنا درست ہے، البتہ اس کا ثواب شرعی مسجد کا نہیں ہوگا اور اس میں اعتکاف بھی درست نہیں ہوگا۔ (دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : ١٤٤٢٠٢٢٠٠١٨٤)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے جس کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :  مسجد شرعی تحت الثری سے لے کر سریا یعنی آسمان کی فضا تک مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے؛ لہٰذا مسجد شرعی کے تمام حصوں خواہ نچلا حصہ ہو یا اوپر والا حصہ مسجد کے علاوہ کسی دوسرے استعمال میں لانا صحیح نہیں ہے ۔۔۔۔ البتہ اگر ابتداء بناء کے وقت ہی مسجد کے نیچے مصالح مسجد مثلا امام صاحب و موٴذن کی رہائش کے لیے کسی جگہ کو خاص کر لیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کی گنجائش ہے۔ (دارالافتاء : دارالعلوم دیوبند : جواب نمبر ١٧٦٨٣٤)

اسی طرح کتب فتاوی میں اکثر فتاوی اسی قبیل سے ہیں اور اس سلسلے میں عام کتب فقہ و فتاوی میں اس کے جواز کی صورت نظر سے نہیں گزری اور تعمیر کی صورت میں اس کے عدم مسجد شرعی ہونے کی فقہاء نے تصریح فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

کتاب النوازل میں ہے۔

یہ طریقہ کہ نیچے کا حصہ اپنی ملکیت میں رہے اور اوپر کی منزل میں مسجد بنادی جائے ، اس سے اوپر کی منزل مسجد شرعی نہیں بن سکتی بلکہ وہ جگہ محض جماعت خانہ کے حکم میں ہوگی جس میں نماز پڑھنا تو جائز ہے؟ لیکن مسجد شرعی کا ثواب نہیں ملے گا، مسجد شرعی اُس وقت بنے گی جب کہ اوپر اور نیچے دونوں حصے مسجد ہی پر وقف ہوں ، اور مسجد کے مصالح کے لئے استعمال کیا جائے۔ (کتاب النوازل ١٣/ ١٨٦ تا ١٨٨)

اس کے علاوہ دیگر کتب فتاوی کے حوالے تحریر فرماتاہوں زیادہ طوالت کے خوف سے اس کو تحریر نہیں کیا گیا ہے لہذا اس کی طرف بھی مراجعت فرمائیں۔

(جواہر الفقہ،۳: ۱۲٤، ۱۲۵، ۱۳۵، رسالہ آداب المساجداور اس کا ضمیمہ، مکتبہ دار العلوم کراچی)

(امداد الاحکام ٣ /٢٣٢ ۔ ٢٣٣ ۔ ٢٣٨۔ ۲۶۹ ۔ ۲۷۰ مطبوعہ:مکتبہ دار العلوم کراچی)

(فتاوی عثمانی ٢/۵١١)

(خیر الفتاوی ٢ / ٧٢٢ ۔  ٧٥٥ ۔  ٧٥٧ ۔  ٨٠٧)

(احسن الفتاوی ٦/٤٤)

(فتاوی قاسمیہ١٧/٦٦٦)

(محمود الفتاوی٤/٦٠٧)

(فتاوی رحیمیہ ٩/ ٩٧ ۔ ١٣٢)

(فتاوی دارالعلوم زکریا ٤/٦٦٧)

البتہ صاحب ہدایہ اور صاحب فتح القدیر نے اپنی تصانیف میں علمائے احناف کی مختلف روایات تحریر فرمائی ہیں جس سے ان کے جواز کی طرح رہنمائی ملتی ہے کیوں ضرورت کے وقت ائمہ احناف نے ایسے مقامات میں اوپر یا نیچے کی منزل میں مکانات کی تنگی کی وجہ سے مسجد کے اوپر یا مسجد کے نیچےتعمیر مکان کو جائز قرار دیا ہے صاحب بحر نے ان اقوال کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن ضرورت شدیدہ کے وقت اس سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے سب سے پہلے صاحب ہدایہ وفتح القدیر کی عبارت کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔

ان دونوں حضرات کی عبارت (ہدایہ ٤/٦٢٢ مکتبہ رحمانیہ  ۔۔۔  فتح القدیر ٢٣٥ ٢٣٤/ ٦) میں علمائے احناف کی تین روایات بیان کی ہے۔

(١) امام حسن بن زیاد سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی روایت کہ نچلی منزل پر مسجد ہو اور اُس کے اوپر رہائش کے لیے مکانات ہو تو یہ مسجد شرعی کے حکم میں ہوگی اس لئے کہ مسجد ہمیشہ مسجد ہوتی ہے اور یہ نچلی منزل میں متحقق ہے نہ کہ اوپر والی منزل میں ۔

(٢) امام محمد رحمہ اللہ کی روایت کہ اوپر والی منزل پر مسجد ہو اور اُس کے نیجے کے حصے میں رہائش کے لیے مکانات ہو تو یہ مسجد شرعی کے حکم میں ہوگی اور یہ رجحان امام محمد رحمہ اللہ کا اس وقت ہوا  جب ’’مقام رے‘‘ میں تشریف لائے تو ضرورت کے سبب اُنہوں نے اِسے جائز رکھا البتہ اوپر مسجد بنانے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ مسجد بہت ہی عظیم جگہ ہے اس کی تعظیم لازمی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ وہ اوپر ہو اور گھر دوکان نیچے ہو جب اوپر رہائش ہوگی یا ایسا مکان ہوگا جسے کرائے پر دیا گیا ہو تو مسجد کی تعظیم دشوار ہوگی۔

(٣) امام ابویوسف رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے دونوں وجوہات کو جائز قراردیا اور یہ رجحان اس وقت ہوا جب وہ بغداد آئے اور تنگ گھروں کو دیکھا تو ضرورت کے اعتبار سے اُنہوں نے اِسے جائز رکھا اور اسی طرح اگر مکان کے وسط میں مسجد بنائی اور لوگوں کو (نماز پڑھنے کے لئے) داخلے کی عام اجازت دے دی (تو جائز ہے)

نیز حضرت مفتی شفیع صاحب نے اپنی کتاب جواہر الفقہ میں آخر میں جو تلخیص تحریر فرمائی ہے اس سے بھی ضرورت شدیدہ کے وقت اس کے جواز کی طرف اشارہ ملتا ہے عبارت ملاحظہ فرمائیں۔

جواہر الفقہ میں ہے۔

( مسئلہ ) اگر کوئی مسجد ایسی بنادی جائے کہ نیچے دکا نیں یا تہہ خانے وغیرہ بنالے۔

اقول: اس باب میں تتبع تفحص بالغ روایات فقہیہ کے جو میں سمجھا ہوں وہ معروض ہے۔

ماخوذ اس مسئلہ کا بیت المقدس کے سرادیپ ہیں جن پر خیر القرون میں کسی نے نکیر نہیں کیا اس سے سمجھا گیا کہ مصالح مسجد کے لئے دوسرا درجہ جو بنا میں مسجد کے تابع ہو مشروع ہے۔

(۲) یہ حکم تعبدی نہیں بلکہ اشتراک علت تبعیت قیاس متعدی ہو سکتا ہے

(٣) اگر مصالح ویسے ہی ہوں جو سرادیپ مذکورہ سے متعلق ہوں اور تبعیت کی وہی ہیئت جو ان سرادیپ میں ہے تب تو قیاس یہی ہے اور اگر مصالح دوسری قسم کے ہوں جیسے وقف بالاستقلال للمسجد یا ہیئت تبعیت دوسری طور کی ہو جیسے مسجد کا علو پر ہونا یا مسجد پر علو کا ہونا اس کا الحاق نفی ہے چنانچہ بہت روز تک مجھ کو اس میں تر دو ر ہا لیکن شامی نے کتاب الوقف میں اسعاف سے ایک عبارت نقل کی ہے۔واذا کان السرادیب او العلو لمصالح المسجد او کان وقفاعلیه صار مسجد ..شرنيلا ليه۔

اس میں " او کان وقفاً عليہ"  كا عطف كان لمصالح المسجد پر ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ استقلال للمسجد کا حکم بھی یہی ہے ، خواہ اس کا نام مصالح مسجد رکھا جائے خواہ فی حکم مصالح المسجد رکھا جائے ، بہر حال حکم مشترک ہے۔

اور ہدایہ میں ہے۔  وروى الحسن عنه اى عن ابي حنيفة انه اذا جعل السعد مسجدًا اور على مسكن فهو مسجد وعن محمد عكس هذا اى جعل العلو مسجدا يصح ۱۲، وعن أبي يوسف انه جوز في الوجهين عن محمد انه حين دخل الذى اجاز ذلك كله لما قلنا (من الضرورة اه‍)  ملخصاً

اس سے ظاہر ہے کہ یہ سب ہیئتیں تبعیت کی مقیس علیہ کے ساتھ ملحق ہیں۔ یہ الحاق بالقیاس بضرورت ہے چنانچہ هدایہ کی مذکورہ عبارت میں ضرورت کا بناء الحاق ہونا مصرح ہے۔

(۵) اس دوسرے درجہ کی بناء مشروط ہے اس کے ساتھ کہ مسجد کی مسجدیت کے قبل بانی کی نیت اس بناء کی ہو ورنہ بعد تمامیت مسجد کے ایسا کوئی تصرف جائز نہیں۔

(٦)فقہاء نے جو مسجد کو عنان سماء  و تحت الثری  تک مسجد کہا ہے یہ تقیيد ہے اس صورت کے ساتھ جب کہ بناء مسجد کے وقت دوسرے درجہ فوقانی یا تحتانی کے بنانے کی نیت نہ ہو۔

(٧)”ونبهت عليه لعقلة كثير من الناس عنه حتى المنسوبين الى العلم “ان سب احکام میں فناء مسجد بھی یعنی  حصہ متعلقہ مسجد  کے حکم میں ہے۔ (جواہر الفقہ ٣ / ١٣٤ ١٣۵)

خلاصۂ کلام

ان سب فتاوی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ فقہاء نے عام حالات میں کسی بھی حال میں مسجد کے اوپر نیچے دوسری عمارات کے الحاق کے عدم جواز کا فتوی دیا ہے البتہ ضرورت کی صورت میں چند شرائط کے ساتھ الحاق کے جواز کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

(١) وقف کی زمین پر مسجد کی تعمیر کرنے سے  پہلے نیچے یا اوپر والے حصے کو دکانیں یا مکانات بنانے لئے متعین کئے گئے ہو مسجد مکمل ہوجانے کے بعد ایسا کسی بھی قسم کا کوئی تصرف جائز نہیں گا۔

(٢) دکانیں اور مکانات مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے ہوں تو اس کی گنجائش ہے اپنی ذاتی ملک نہ ہو۔

(٣) تیسرے نمبر پر وہ ہے جس کا حضرت مفتی شفیع صاحب نے تلخیص میں اشارہ فرمایا ہے کہ فقہاء نے جو مسجد کو عنان سماء  و تحت الثری  تک مسجد کہا ہے  وہ قید اس صورت کے ساتھ ہے جب کہ بناء مسجد کے وقت دوسرے درجات اوپر یا نیچے کے بنانے کی نیت نہ ہو۔

(٤) صاحب فتح القدیر کی صراحت کے مطابق جب امام یوسف صاحب رحمہ اللہ بغداد گئے اور مکانات کی تنگی کو دیکھا تو اُنہوں نے دونوں صورتوں کو جائز قرار دیا اسی طرح جب امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ ’’مقام رے‘‘ گئے تو اسی ضرورت کی بنا پر اُنہوں نے دونوں صورتوں کو جائز قراردیا اس سے بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ ضرورت کے وقت اوپر یا نیچے تعمیر مکان ہو اور اوپر یا نیچے کسی ایک فلور کو مسجد کے لئے خاص کیا جائے تو جائز ہے۔

(۵) ان مذکورہ عبارات سے جگہ کی تنگی اور دشواری کی صورت میں مطلق جواز کی طرف اشارہ ملتا ہے عام حالات میں عدم جواز تعمیر کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔

صورت مسئولہ میں ہدایہ و فتح القدیر میں مرقوم اقوال احناف اور حضرت مفتی شفیع صاحب کی پیش کردہ تلخیص کی بناپر بمبئی سیٹی میں جگہ کی تنگی اور دشواری ہے جس کی وجہ سے ضرورتاً اوپر یا نیچے کے فلور میں تعمیر مسجد کے لئے خاص کرنے کو جائز قرار دیا جائے گا اور اس صورت میں وہ مسجد مسجد شرعی کے حکم میں ہی شمار ہوگی۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

ہدایہ میں ہے۔

قال ومن جعل مسجدا تحته سرداب او فوقه بیت و جَعَل باب المسجد الى الطريق وعزله عن ملكه فله ان يبيعه وإن مات يورثت عنه لانه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به ولوكان السرداب لمصالح المسجد جاز كما فى مسجد بيت المقدس وروى الحسن عنه إذا جعل السفل مسجدا و على ظهره مسكن فهو مسجد لأن المسجد ممايتأبد و ذلك يتحقق فى السفل دون العلو المسجد وعن محمد على عكس هذا لأن المسجد معظم و إذا كان فوقه مسکن او مستغل يتعذر تعظيمه عن ابى يوسف أنه جوز فى الـوجهين حىن قدم البغداد و رأى ضئق المنازل فكأنه اعتبر الضرورة وعن محمد انه حين دخل الرے اجاز ذلك كله لما قلنا۔ (ہدایہ ٤/٦٢٢ مکتبہ رحمانیہ)

فتح القدیر میں ہے۔

بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لصاحب المسجد، فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد؛ بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت القدس، هذا هو ظاهر المذهب. وروي عن أبي حنيفة أنه إذا جعل السفل مسجداً دون العلو جاز، لأنه يتأبد بخلاف العلو، وهذا تعليل للحكم لوجود الشرط، فإن التابيد شرط وهو مع المقتضى، وإنما يثبت الحكم معهما مع عدم المانع، وهو تعلق حق واحد، وعن محمد عكسه لأن المسجد معظم، وهو تعليل بحكم الشيء وهو متوقف على وجوده. وعن أبي يوسف أنه جوز ذلك في الأولين لما دخل بغداد ورأى ضيق الأماكن، وكذا عن محمد لما دخل الري وهذا تعليل صحيح لأنه تعليل بالضرورة. (فتح القدیر  ٦/٢١٨)

البحر الرائق میں ہے۔

حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً لينقطع حق العبدعنه لقوله تعالى وأن المساجد للّٰه بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح.

فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق. اهـ." (البحر الرائق ۵/٢٧١   کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے۔

(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

(قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح. وشرط في المصباح أن يكون ضيقاً، نهر (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفاً عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية۔

قال فی البحر وحاصلہ أنّ شرط کونہ مسجدا أن یکون سفلہ وعلوہ مسجدا لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی: وأنّ المساجد للہ (الجن: ۱۸) بخلاف ما إذا کان السرداب والعلوّ موقوفا لمصالح المسجد فہو کسرداب بیت المقدس ، ہذا ہو ظاہر الروایة ۔۔۔۔۔۔

لو بنی فوقہ بیتا للإمام لا یضرّ ؛ لأنّہ من المصالح أمّا لو تمّت المسجدیّة ثمّ أراد البناء منع ولو قال: عنیت ذلک لم یصدّق ۔۔۔۔۔

أما لوتمت المسجدية ثم أراد البناء منع، ولو قال عنيت ذلك لم تصدق . تاتارخانية. فإذا كان هذا في الوقف، فكيف يغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه، ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا، ولا سكنى. بزازية۔ (ردالمحتار، مطلب في أحکام المسجد: ٦ / ۵٤۷ ۵٤۸ ط زکریا)


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب  

العارض مفتی آصف گودھروی       

الجوب صحیح : استاذ محترم

حضرت مفتی نثار احمد صاحب گودھروی

ہفتہ، 26 نومبر، 2022

نماز کی حالت میں عورت کے مستورہ اعضاء کے کھلنے کی کتنی مقدار ہے؟ سوال نمبر ٤٠٠

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

عورت کے ہاتھ کا کفین کے علاوہ چوتھائی حصہ کھل جائے تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟ اور ہاتھ کے چوتھائی سے مراد کہنی تک کا حصہ ہوگا یا کاندھے تک ؟ 

سائل ابو اسامہ ملی مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


عورت جب نماز کے لیے کھڑی ہو تو چہرہ جتنا وضوء میں دھونا فرض ہے اور دونوں ہاتھ پہونچوں تک اور دونوں پیر ٹخنوں سے نیچے تک (یعنی قدمین) کھلا رکھ سکتی ہے، یہ تین اعضاء نماز کے حجاب میں داخل نہیں ہیں اس کے علاوہ کسی بھی عضو کا ایک چوتھائی حصہ بھی نماز کے کسی رکن میں تین مرتبہ تسبیح پڑھنے کے بقدر کھل جائے، تو نماز صحیح نہ ہوگی


صورت مسئولہ میں ہاتھ سے مراد کلائی ہے اس لئے کہ علامہ شامی نے اس کو مستقل ایک عضو شمار کیا ہے (وفي الحرة هذه الثمانية ويزاد فيها ستة عشر الساقان مع الكعبين والثديان المنكسران والأذنان والعضدان مع المرفقين والذراعان مع الرسغين ٢/٨٣) لہذا کلائی کا چوتھائی حصہ یا اس سے زیادہ نماز کی حالت میں تین مرتبہ تسبیح پڑھنے کے بقدرکھلا رہا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين

ویمنع حتی انعقادہا کشف ربع عضوٍ قدر أداء رکن بلاصنعہ- وذلک قدر ثلث تسبیحات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله قدر أداء ركن) أي بسنته منية قال شارحها وذلك قدر ثلاث تسبيحات اه وكأنه قيد بذلك حملا للركن على القصير منه للاحتياط وإلا فالقعود الأخير والقيام المشتمل على القراءة المسنونة أكثر من ذلك، ثم ما ذكره الشارح قول أبي يوسف واعتبر محمد أداء الركن حقيقة والأول المختار للاحتياط كما في شرح المنية واحترز عما إذا انكشف ربع عضوأقل من قدر أداء ركن فلا يفسد اتفاقا لأن الانكشاف الكثير في الزمان القليل عفو كالانكشاف القليل في الزمن الكثير، وعما إذا أدى مع الانكشاف ركنا فإنها تفسد اتفاقا قال ح: واعلم أن هذا التفصيل في الانكشاف الحادث في أثناء الصلاة، أما المقارن لابتدائها فإنه يمنع انعقادها مطلقا اتفاقا بعد أن يكون المكشوف ربع العضو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلى هذا التفصيل أعني اعتبار ربع أدنى الأعضاء المنكشفة لا ربع مجموعها مشى في القنية والحلية وشرح الوهبانية والإمداد وشرح زاد الفقير للمصنف، خلافاً للزيلعي وإن تبعه في الفتح والبحر فتدبر، وقد أوضحنا ذلك فيما علقناه على البحر۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ۲/۸۲ ٢/٨٣)۔


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

بدھ، 16 نومبر، 2022

داڑھی کتروانے یا منڈوانے والے کی امامت کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٩٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

داڑھی رکھنا سنت ہے یا واجب؟ اگر کوئی شخص داڑھی کٹواتا ہے اور وہ امامت کراتا ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے 

سائل محمد طیب پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


داڑھی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث مروی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو تفصیلات منقول ہیں نیز داڑھی بڑھانے اور کاٹنے کے متعلق صحابہ کرام کا جو عمل روایات میں آیا ہے ان سب کی روشنی میں جمہور علمائے اہل سنت والجماعت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کی شرعی اور وجوبی مقدار ایک مشت ہے، جو داڑھی ایک مشت سے کم کردی جائے وہ شرعی داڑھی نہیں ہے اور داڑھی کا کتروانا یا منڈوانا حرام ہے۔


داڑھی کے نہ ہونے کی دوصورتیں ہے ایک تو یہ کہ وہ حضرات جن کو پہلے سے داڑھی کے بال نکلے ہی نہیں وہ یا تو امرد ہوگا یا پھر کسی اور وجہ سے اس کو قدرتی طور پر داڑھی کے بال نہیں نکلے ہوں گے اب جس بالغ کی عمر اتنی ہے کہ ابھی اسے داڑھی مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم نہیں ہوا ہے تو اسے امرد کہتے ہیں جس کی اما مت بعض نے مکروہ تنزیہی لکھی ہے اور جس کے داڑھی مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اور اب تک نہیں نکلی ایسے شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے


دوسرے نمبر پر وہ حضرات جن کو داڑھی کے بال نکلے ہیں لیکن وہ اس کو منڈوا دیتا ہے یا ایک مشت سے کم کترواتا ہے تو چونکہ داڑھی رکھوانا واجب ہے اور اس کو منڈوانا یا کترواکر ایک مشت سےکم کرنا ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے، اور ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے، اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔


لہذا جب داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم کرنا گناہ کبیرہ ہے، تو اپنے اختیار سے ایسے شخص کو امام بنانا (خواہ وہ حافظ قرآن ہی ہو) مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر کوئی شرعی مجبوری ہو مثلاً: کوئی ایسی جگہ ہو، جہاں ایسا امام مقرر ہے اور قریب میں کہیں متّبعِ سنّت امام میسّر نہ ہو یا سب داڑھی منڈے ہوں، تو ایسی صورت میں ایسے امام کی اقتداء میں مسجد میں باجماعت نماز پڑھ لینا اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔


حلبی کبیر میں ہے

و لو قدّموا فاسقاً يأثمون بناء علی أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لعدم اعتنائه بأمور دينه، و تساهله في الإتيان بلوازمه… الخ ( كتاب الصلوة، الأولی بالإمامة، ص: ٥١٣، ٥١٤ ط: سهيل اكيدمي)


تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے

ان الاخذ من اللحیۃ وہی دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال لم یبحہ احد واخذ کلہا فعل الیہود والہنود ومجوس الاعاجم اہ فحیث ادمن علی فعل ہذا المحرم یفسق۔ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ ١/٣۵۱)


فتاوی شامی میں ہے

وکذا تکرہ خلف أمرد، وفي ردالمحتار: الظاھر أنھا تنز یھیۃ أیضاً، والظاھر أیضاًکما قال الرحمتی: إن المراد بہ صبیح الو جہ؛ لأنہ محل الفتنۃ، وھل یقال ھھنا أیضًا إذاکان أعلم القوم تنتفی الکراھۃ، فإن کانت علۃ الکر اھۃ خشیۃ الشھوۃ وھو الأظھر فلا، وإن کانت غلبۃ الجھل أونفرۃ الناس من الصلوٰۃ خلفہ فنعم فتامل،

وفیہ ایضاً عن حاشیۃ المدني شخص بلغ من السن عشرین سنۃ وتجاوز حد الإنبات ولم ینبت عذارہ، فھل یخرج بذلک عن حد الأمردیۃ إلی قولہ فأجاب بالجواز من غیر کراھۃ۔ (فتاوی شامی کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/ ۳۰۱)۔


ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 


داڑھی کے وجوب کے سلسلہ میں ایک مفید مضمون مفتی محمد راشد ڈسکوی رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی کا پیش نظر ہے ملاحظہ فرمائیں۔


داڑھی سنت ہے یا واجب؟

امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”وکان من عادة الفرس: قص اللحیة، فنھی الشرع عن ذلک“․(شرح مسلم،ص:129)

ترجمہ: … ”فارسیوں (مجوسیوں) کی عادت تھی کہ وہ داڑھی کے بال کاٹ کر کم کر دیا کرتے تھے، لہٰذا شریعت نے اس سے منع کیا“۔


ان میں کچھ لوگ اپنی داڑھیاں منڈوانے بھی لگے تھے، جیسا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ”لأنھم کانوا یقصرون لحاھم، ومنھم من کان یحلقھا“․

ترجمہ:”اس لیے وہ لوگ اپنی داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے اور ان میں کچھ لوگ مونڈ ڈالتے تھے“۔


اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث نے اعفائے لحیہ کے حکم کی علت کے ساتھ یہ واضح اشارہ بھی دیا ہے کہ داڑھی کی مقدار کتنی چھوٹی ہونی چاہیے اور اعفائے لحیہ کے حکم کا منشا کب پورا ہو گا؟ مجوسی جب اپنی داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے اور مسلمانوں کو ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا تو اتنی بات تو معلوم ہو گئی کہ ان کی داڑھیاں مجوسیوں کی داڑھیوں سے لمبی ہونی چاہییں، لیکن بات پھر بھی مجمل ہے، اس اجمال کی تبیین نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ہوئی ۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم، ضمیمہ:3، داڑھی کی مقدار کا مسئلہ:1/238تا 240، مکتبہ لدھیانوی، کراچی)


داڑھی منڈوانے میں یہود ونصاریٰ کی مشابہت ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ داڑھی بڑھاوٴ اور مونچھیں کٹواوٴ اوراپنے سفید بالوں کو (سیاہ رنگ کے سوا)کسی رنگ سے رنگ لو، اس میں یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔


عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ قال: ”أعفوا اللِحیٰ، وخذوا الشوارب، وغیِّروا شَیْْبَکم، ولا تشبَّھوا بالیھود والنصاریٰ“․ (مسند الإمام أحمد بن حنبل، مسند أبي ھریرة، 8672، 14/ 306، موٴسسة الرسالة)


داڑھی منڈوانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :”أکرم الرجال باللحیٰ، والنساء بالذوائب“․کہ مردوں کو داڑھیوں کے ذریعے شرف بخشا گیا اور عورتوں کو مینڈھیوں کے ذریعے سے۔ (الجامع لأحکام القرآن، سورة الإسراء، رقم الآیة:70، 13/126، موٴسسة الرسالة )


اللہ کی جانب سے ہی عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی اور مردوں کی ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کی جانب سے ہی عورتوں کو مینڈھیاں عطا کی گئیں اور مردوں کو یہ چیز عطا نہیں کی گئی۔داڑھی کو اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان امتیازی شرف کی چیز بنایا ہے۔


عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے

چناں چہ ! اللہ رب العزت کی طرف سے ملنے والی صورت کو ہی برقرار رکھنا ضروری ہے، شکل وصورت میں ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے،یعنی: اگر مرد اپنی داڑھی منڈواتے ہیں تو یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہے ۔ ایسے افراد پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے لعنت کی گئی ہے، ملاحظہ ہو:


عن ابن عباس رضي اللہ عنھما قال: ”لعن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء، والمتشبھات من النساء بالرجال“․ (صحیح البخاري، کتاب الباس، باب المتشبہون بالنساء والمتشبہات بالرجال، رقم الحدیث:5885، 7/159، دار طوق النجاة)


عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والا نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں

مردوں میں سے جو شخص عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والا ہے ، یا عورتوں میں سے جو عورت مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی ہے، اس کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”وہ ہم میں سے نہیں“۔ غور کر لیا جائے کہ جب وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ملت میں سے نہیں یا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں ، تو وہ کن میں سے ہو گا؟؟!! ملاحظہ ہو:


عن عطاء، عن رجل من ھذیل، قال: رأیت عبد اللہ بن عمرو بن العاص، ومنزلہ في الحِلِّ، ومسجدہ في الحَرَم، قال: فبینا أنا عندہ، رأیٰ أُمَّ سعید ابنة أبي جھل متقلدة قوساً، وھي تمشي مِشیَةَ الرجل، فقال عبداللہ: من ھٰذہ؟ قال الھُذَلي: فقلت: ھٰذہ أم سعید بنت أبي جھل، فقال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: ”لیس منَّا مَن تشبَّہ بالرجال مِن النساء، ولا مَن تشبَّہ بالنساء مِن الرجال“․(مسندُ الإمام أحمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضي اللہ عنہ، رقم الحدیث:6575، 11/461، 462، موٴسسة الرسالة)


داڑھی منڈوانے میں ہیجڑوں کے ساتھ مشابہت

علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ کی عبارت سے یہ بات معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی منڈوانا مخنثین (ہیجڑوں )کا فعل ہے، ملاحظہ ہو:

”قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض:”إن الأخذ من اللحیة وھي دون القبضة کما یفعلہ بعضُ المغارِبة ومُخَنَّثةِ الرجالِ، لَم یُبِحْہ أحدٌ، وأَخْذُ کلِّہا فعلُ یھودَ والہُنودِ ومَجوسِ الأعاجِم․اھ“،…إلخ“․(تنقیح الفتاویٰ الحامدیة، کتاب الشھادة: 4/238، مکتبة رشیدیة، کوئٹة)


علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”بے شک ایک مشت سے کم داڑھی کروانے کو، جیسا کہ بعض مغربی اور مخنث لوگ کرتے ہیں ، کسی نے بھی جائز قرار نہیں دیا اور ساری داڑھی کو مونڈ لینا یہودیوں ، ہند کے رہنے والوں اور عجم کے رہنے والے مجوسیوں کا فعل ہے“۔


اور ایسے افراد پر جو مخنثوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، ملاحظہ ہو:

عن ابن عباس رضي اللہ عنھما لعن النبيصلی الله علیہ وسلم المخنثین من الرجال، والمترجلات من النساء، وقال: أخرجوھم من بیوتکم“․ (صحیح البخاري، کتاب الباس، باب إخراج المتشبہین بالنساء من البیوت، رقم الحدیث:5886، 7/159، دار طوق النجاة)


ایک اور روایت میں ہے:

عن ابن عباس رضي اللہ عنھما، قال: لعن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم المخنثین من الرجال، والمترجلات من النساء، قال: فقلت: ما المترجلات من النساء؟ قال: ”المتشبھات من النساء بالرجال“․ (مسندُ الإمام أحمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنھما، رقم الحدیث: 2291، 4/ 431، موٴسسة الرسالة)


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے مخنث (ہیجڑہ)بننے والے مردوں پر اور مرد بننے والی عورتوں پر ۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ مرد بننے والی عورتیں کون ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔


اب احناف میں سے اکابر علمائے دیوبند رحمہم اللہ کے کچھ فتاویٰ بھی ملاحظہ فرما لیں:

کفایت المفتی میں ہے:

”داڑھی کٹوانا یا منڈوانا حرام ہے، کتروانے سے یہ مراد ہے کہ اتنی کتروائے کہ ایک مشت سے کم رہ جائے، ایک مشت کی مقدار حدیث سے ثابت ہے“۔ (کفایت المفتی، کتاب الحظروالا باحة، داڑھی منڈانا اور یکمشت سے کم کرنا گناہ ہے: 9/ 175، دار الاشاعت)


”فقہائے کرام نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیا ہے اور اس سے کم رکھنے والے کو تارک الواجب ہونے کی بنا پر فاسق کہا ہے“۔ (کفایت المفتی، کتاب الحظر والاباحہ، یکمشت داڑھی رکھنا واجب ہے: 9/176، دار الاشاعت،کراچی)


امداد الفتاویٰ میں ہے:

” داڑھی رکھنا واجب اور قبضہ سے زائد کٹانا حرام ہے۔“ (امداد الفتاویٰ، بالوں کے حلق وقصر وخضاب اور ختنہ وغیرہ کے احکام، داڑھی کا حکم اور مقدار: 4/223، مکتبہ دارالعلوم کراچی)


حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے اس فتوے میں مذکور ” قبضہ سے زائد کٹانا حرام ہے“ کی یہ تشریح کرتے ہیں:

” یہاں قبضے سے زائد کٹانے سے مراد یہ ہے کہ جس کی داڑھی قبضے سے زائد ہو اس کو قبضے سے زائد حصے کا کٹانا تو جائز ہے اور (کاٹتے کاٹتے)اتنا کاٹنا کہ جس کی وجہ سے داڑھی قبضے سے کم رہ جائے، یہ حرام ہے“۔ (داڑھی کی شرعی حیثیت، ص:35، مکتبہ رشیدیہ، کراچی)


جواہر الفقہ میں ہے:

”باجماع امت داڑھی منڈانا حرام ہے، اسی طرح ایک قبضہ (مٹھی) سے کم ہونے کی صورت میں کتروانا بھی حرام ہے، ائمہ اربعہ حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ کا اس پر اتفاق ہے“۔ (جواہر الفقہ، احکام الخطاب في بعض أحکام اللحیٰ والخضاب، 7/159،160، مکتبہ دارالعلوم، کراچی)


فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

”مردوں کے لیے داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کی مقدار شرعی ایک قبضہ یعنی ایک مشت ہے…لہٰذا داڑھی رکھنا واجب اور ضروری ہے، منڈانا حرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے“۔ (فتاویٰ رحیمیہ، کتاب الحظر والاباحہ، داڑھی کا وجوب اور ملازمت کی وجہ سے اس کا منڈانا: 10/106، دار الاشاعت، کراچی)


فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

”داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کا منڈانا حرام ہے، ایک مشت تک پہنچنے سے پہلے پہلے کٹوانا بالاتفاق ناجائز ہے“۔ (فتاویٰ محمودیہ، باب خصال الفطرة ، الفصل الأول فی اللحیہ والشوارب: 19/ 392، ادارہ الفاروق کراچی)


احسن الفتاویٰ میں ہے:

”داڑھی قبضہ سے کم کرنا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بد تر ہے، اس لیے کہ اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اللہ ورسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بغاوت کا اظہار واعلان ہے، اسی لیے فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے فیصلہ تحریر فرمایا ہے کہ جو شخص رمضان میں اعلانیہ کھائے پیے، وہ واجب القتل ہے، کیوں کہ وہ کھلے طور پر شریعت کی مخالفت کر رہا ہے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”کل أمتي معافی إلا المجاھرین“․ میری پوری امت لائق ِ عفو ہے، مگر اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں۔


دوسرا فرق یہ ہے کہ دوسرے گناہ کسی خاص وقت میں ہوتے ہیں، مگر داڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے، سو رہا ہو تو بھی گناہ ساتھ ہے، حتیٰ کہ نماز وغیرہ عبادت میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلیٰ ہے، قومِ لوط کے اسباب ِ عذاب میں داڑھی کٹانا بھی ہے، غرضیکہ داڑھی کٹانے یا منڈانے والا فاسق ہے…إلخ“۔ (احسن الفتاویٰ، کتاب الصلاة، باب الامامة والجماعة، داڑھی کٹانے والے کی امامت: 3/260، ایچ ایم سعید)


”ایک مشت داڑھی رکھنا فرض ہے، اس سے کم کرنا منڈانا بالاجماع حرام ہے اور اس کی علامت ہے کہ ایسے شخص کے دل میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صورتِ مبارکہ سے نفرت ہے“۔ (تتمہ احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد، داڑھی کی توہین موجبِ کفر ہے، سوال مثلِ بالا:10/19، مکتبہ الحجاز، کراچی)


فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

”داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، نہ رکھنے والا فاسق مردود الشہادة ہے“۔( فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامة، داڑھی کی شرعی حیثیت: 2/175، جمعیة پبلیکیشنز)


” درمختار میں ہے کہ چار انگشت سے کم داڑھی کا قطع کرنا حرام ہے:”وأما الأخذ منھا وھي دون ذٰلک، فلم یبحہ أحد“․ اور نیز درمختار میں ہے:”والسنة فیھا القبضة…إلخ، وکذا قال یحرم علیٰ الرجل قطع لحیتہ“․لہٰذا جو شخص داڑھی منڈوائے یا ایک مشت سے کم کتروائے وہ فاسق ہے…إلخ۔ ( فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامة، داڑھی کترانے والے کی امامت میں ادا کی گئی نمازوں کا حکم:2/184، جمعیة پبلیکیشنز)


ایک مشت داڑھی سے زائد بڑھانے کے بارے میں ایک غلو والا نظریہٴ

مذکورہ بحث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کچھ علماء (جن میں جماعت اہل حدیث کے ساتھ تعلق رکھنے والے حضرات بھی شامل ہیں)اس معاملے میں غلو کا شکا ر ہیں، ان کے نزدیک داڑھی کو بڑھانا ہی بڑھانا ہے، کٹوانا جائز نہیں ہے، چاہے ایک مشت کے بعد ہو یا پہلے۔


ان حضرات کی اتنی بات تو درست ہے کہ ایک مشت سے پہلے کٹوانا جائز نہیں ہے، لیکن ایک مشت کے بعد بھی نہ کٹوانا، یہ تسلیم نہیں ہے، یہ غلو ہے، اس لیے کہ صحیح روایات کے مطابق حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا ثابت ہے اور اسی پر قرنِ اول سے لے کر اب تک امت کا عمل چلا آرہا ہے، عمل کی حد تک ایسا ہو (یعنی داڑھی ایک مشت کے بعد نہ کٹوائی جائے)تو کوئی حرج نہیں ، اہل سنت والجماعت کے نزدیک بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا واجب نہیں ہے، جائز ہے۔ لیکن نظریةً اس بات (کہ ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا جائز نہیں ہے)کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔


اس بارے میں سب سے پہلے اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ کا مذہب لکھا جائے گا ، پھر اہل حدیث علماء کے اقوال :

ایک مشت سے زائد کٹوانے میں اہل سنت والجماعت کا مذہب

اس بارے میں نہایت جامع خلاصہ”الموسوعة الفقہیة الکویتیة“سے نقل کیا جاتا ہے:

”بعض فقہاء ،جن میں امام نووی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ، اس بات کی طرف گئے ہیں کہ داڑھی کے درپے نہ ہوا جائے، نہ اس کی لمبائی کی طرف سے کچھ کاٹا جائے گا اور اس کی چوڑائی کی طرف سے کچھ کاٹا جائے گا، اس لیے کہ اس بارے میں جو حدیث ہے اس کا ظاہر یہی تقاضا کرتا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”داڑھی کٹوانے کے بارے میں مختار مذہب داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دینا ہے، اس طور پر کہ کاٹنے کے ساتھ یا اس کے علاوہ کسی اور طریقے کے ساتھ داڑھی کے درپے نہ ہوا جائے“۔


اور دوسرے فقہاء، جن میں حنفیہ اور حنابلہ ہیں، اس بات کی طرف گئے ہیں کہ جب داڑھی ایک مشت سے زائد ہو جائے تو اس کا کاٹنا جائز ہے، بوجہ اس کے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بات ثابت ہے کہ جب حج یا عمرے کے موقع پر جب سر منڈواتے تھے تو ساتھ ہی داڑھی کے زائد بال اور مونچھیں بھی کتروا لیتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑتے تھے اور مٹھی سے زائد بالوں کو کاٹ دیتے تھے۔


حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ:”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایسا صرف حج کے موقع پر ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ حدیث کے حکم ”إعفاء اللحیہ“ کو اس حالت کے علاوہ پر محمول کرتے تھے ، جس میں داڑھی اپنے طول وعرض میں بہت زیادہ بڑھنے کے ساتھ چہرہ کو بدنما بنا دیتی ہے“۔ یعنی حج کے علاوہ بھی اپنی داڑھی کوایک مشت کے بعد کاٹ دیتے تھے۔


احناف کا مذہب اس بارے میں یہ ہے کہ ایک مشت کے بعد داڑھی کوکاٹ دینا مسنون ہے، جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے کہ:” داڑھی کو کاٹنا سنت ہے، وہ اس طرح کہ مرد اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں لے ، پھر اگر کچھ بال داڑھی سے زائدہوں تو ان کو کاٹ دے، امام محمد رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ االلہ سے اسی طرح نقل کیا ہے اور ہم اسی قول کو لیتے ہیں“۔


حنفیہ کا ایک قول وجوب کا بھی ہے (لیکن یہ صرف قول ہی ہے، فتویٰ اس پر نہیں ہے)اور وہ قول امام حصفکی رحمہ اللہ کے قول :” الإثم بترکہ“․ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایک مشت سے زائد بالوں کو کاٹ دینا واجب ہے۔


حنابلہ کا قول ہے کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کے بالوں کو کاٹنا مکروہ نہیں ہے، فقہاء نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنی داڑھی کے بڑھے ہوئے بالوں کا کاٹا۔


فقہاء کی ایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ داڑھی کے بالوں کو بالکل نہیں کاٹا جائے گا، إلا یہ کہ جب داڑھی کے بڑھے ہوئے بال چہرے کو بدنما بنا دیں۔امام طبری رحمہ الله نے حضرت حسن بصری اور حضرت عطاء بن رباح رحمہما اللہ کا یہی مذہب نقل کیا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل کو اسی پر محمول کیا ہے اور فرمایا ہے : اگر کوئی شخص اپنی داڑھی کو چھوڑ دے، اس کی اصلاح بالکل نہ کرے، یہاں تک کہ اس کی داڑھی لمبائی اور چوڑائی میں بہت ہی زیادہ بڑھ جائے (کہ چہرے کو بدنما لگنے لگے)تو وہ اپنے آپ کو مسخرہ کرنے والوں کے سپرد کر دے۔


قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا: داڑھی بہت زیادہ بڑھ جائے تو کچھ کاٹ دینا اچھا ہے اور اس کو بڑھانے میں بہت زیادہ مبالغہ کرنا مکروہ ہے، جیسا کہ ایک مشت سے کم کر دینا مکروہ ہے۔اور اس جماعت کے مذکورہ قول کی دلیل وہ حدیث (ضعیف)ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنی داڑھی کی لمبائی اور چوڑائی میں سے (ایک مشت سے زائد بڑھ جانے کی صورت میں )کاٹ دیا کرتے تھے۔(الموسوعة الفقہیة الکویتیة، حرف اللام، اللحیة، أخذ اللحیة، 35/224، 225، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامیة، الکویت)


یہ (اہل حدیث )حضرات ویسے تو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے، لیکن عملی طور پر حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے، اپنے مطلب کا قول جہاں اور جس سے مل جائے ، یہ حضرات اسی کی تقلید کرتے ہیں ، لیکن ظاہر اپنے آپ کو یہی کرتے ہیں کہ ہم تقلید نہیں کر رہے، بلکہ اپنی خداداد اجتہادانہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے عمل کر رہے ہیں۔ اور عام طور پر موجودہ دور کے یہ حضرات اصحاب ِ ظواہر، علامہ ابن تیمیہ ، علامہ شوکانی اور شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہم اللہ کے اقوال کو بہت زیادہ اعتماد کے ساتھ لیتے ہیں، ذیل میں علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں موٴقف ذکر کیا جاتا ہے، جو خود ان کے قلم سے مولانا حفظ الرحمن اعظمی ندوی رحمہ اللہ کے نام لکھا گیا:


”وإنما أذھب إلی ما اشرتم إلیہ من الأخذ ما زاد علی القبضة، وذالک لأمرین:

(۱)تتابع الأخبار عن السلف صحابة وتابعین وائمة مجتھدین، وبخاصة إمام السنة أحمد علی الأخذ، وفي الصحابة ابن عمر وأبوھریرة، وھما من رواة الأمر بإعفاء اللحیة، فلو کان الحدیث علیٰ إطلاقہ ما خالفوا إطلاقہ، کما یزعم بعض المتأخرین․

(۲) عدم ورود ما ینافيذالک عن النبي صلی الله علیہ وسلم وأصحابہ فعلاً وقولاً․ وما یقول بعضھم أن النبي صلی الله علیہ وسلم کان لا یأخذ من لحیتہ، إن یظنون إلا ظنا، وما ھم بمستیقنین، وبعبارة أخریٰ لاأصل لہ لذالک روایة“․


میرا مسلک وہی ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا کہ داڑھی میں زائد از قبضہ حصہ لے لیا جائے اور اس مسلک کی دو دلیلیں ہیں: (۱) سلف صالحین ، حضرات صحابہ وتابعین، ائمہ مجتہدین اور خاص طور سے امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور صحابہ میں سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو حدیث اعفاء اللحیہ (داڑھی بڑھانے) کے راوی ہیں، زائد از قبضہ کے لینے کی متواتر روایات اگر حدیث اعفاء اللحیہ اپنے اطلاق پر ہوتی ، جیسا کہ بعض متأخرین کا خیال ہے ، تو یہ حضرات اس کے اطلاق کی مخالفت نہ کرتے۔


(۲) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ سے فعلاً بلکہ قولاً بھی اس کے منافی کسی ہدایت کا منقول نہ ہونا اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی داڑھی کے بال نہ لیتے تھے، محض ان کا گمان ہے، جس کا خود ان کو بھی یقین نہیں۔ دوسرے لفظوں میں روایت کی رو سے اس کی کوئی اصل نہیں“۔(إعلام الفتیة بأحکام اللحیة، ص: 63، بحوالہ ”اسلام میں داڑھی کا مقام“، ص:44، کتاب گھر،کراچی)


اسی طرح موجودہ دور کے اہل حدیث حضرات کے اکابرعلمائے کرام کے فتاویٰ میں بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانے کی صراحت مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو:


فتاویٰ نذیریہ میں شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا محمد نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:

”داڑھی کا دراز کرنا بقدر ایک مشت کے واجب ہے، بدلیل حدیثِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے،کما سنتلوا علیکاور داڑھی کا منڈوانا، ایک مشت سے کم رکھنا یا خشخشی بنانا حرام ہے اورموجبِ وعید ہے۔“ (آگے احادیث تحریر ہیں اور آخر میں چار علماء کے دستخط ہیں)۔ (فتاویٰ نذیریہ، کتاب اللباس والزینة:3/359،اہل حدیث اکادمی، لاہور، طبع دوم:1971ء)


فتاویٰ ثنائیہ میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب  لکھتے ہیں:

سوال: داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟

جواب: حدیث میں آیا ہے کہ ”داڑھی بڑھاوٴ“ جس قدر خود بڑھے، ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر رکھ کر زائد کٹوا دینا جائز ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک قدرتی گول تھی، تاہم اطراف وجوانب طول وعرض سے کسی قدر کانٹ چھانٹ کر دیتے تھے۔(2/ذی قعدہ 31ھ )

(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کس قدر لمبی رکھنی ضروری ہے؟ :2/123،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)


اسی کتاب میں کچھ آگے تو ایک مشت کے بعد کٹوانے کو واجب لکھا ہے، ملاحظہ ہو:

”حاصل یہ کہ سلف صالحین، جمہور صحابہ وتابعین وائمہ محدثین کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی کو بڑھنے دینا، حلق وقصر وغیرہ سے تعرض نہ کرنا واجب ہے کہ اس میں اتباعِ سنت اور مشرکوں کی مخالفت ہے اور ایک مشت سے زائد کی اصلاح جائز ہے اور بافراط شعر لحیہ وتشوّہ وجہ وصورت وتشبہ بہ بعض اقوام مشرکین ہندو، سادھو وسکھ وغیرہ، جن کا شعار باوجود افراطِ شعر لحیہ عدمِ اخذ ہے، قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے، ورنہ مشرکوں کی موافقت سے خلافِ سنت، بلکہ بدعت ثابت ہو گی، جس کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں“۔(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کا رکھنا کہاں تک ثابت ہے؟ :2/138،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)


شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور انہی کے اکابر کے فتاویٰ نقل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ شاید اپنے بڑوں کی تحقیق اور فتاویٰ دیکھ کر یہ حضرات اپنے نظریہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اصلاح فرمالیں۔اور اس مسئلہ میں غلواور تشدد سے بچ سکیں۔ (ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1435ھ)