جمعرات، 31 اکتوبر، 2024

بیوی کو ایک دو تین چھوڑ دیا کہنے سے طلاق کاحکم سوال نمبر ٤٩٧

 سوال

بسم الله الرحمن الرحیم 

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے ہیں۔

کہ مورخہ ١٤ اگست ٢٠٢٤ کو بوقت ۱۱ بجے دن میری بات بیوی سے موبائل پر روپے بھیجنے کے سلسلہ میں ہو رہی تھی ۔ میں نے بیوی سے کہا تمہارے اکاؤنٹ پر بھیج دیتا ہوں ۔ اس نے مجھے بچوں کی قسم دے کر کہا کہ آپ اپنے والد کے اکاؤنٹ پر بھیج دیجئے ۔ اور اس کے بعد مجھ سے بحث کرنے لگی ۔

اس پر مجھے غصہ آگیا، اور میں نے اپنی بیوی سے کہا، ایک دو تین چھوڑ دیا " جبکہ اس جملہ سے میری نیت بیوی کو طلاق دینے یا چھوڑنے کی نہیں تھی ۔ تیری ہوئی چونکہ مجھ سے اور میرے گھر والوں سے ہمیشہ لڑائی جھگڑا کرتی رہتی ہے ۔ اس لئے اس کو ڈرانے دھمکانے کے لئے یہ جملہ بولا ہوں ۔ تا کہ وہ آئندہ اپنے منھ کو بند رکھے ۔ چھوڑنے کی نیت سے میں نے نہیں کہا۔ بتایا جائے کہ اس جملہ سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اسی طرح صریح اور کنایہ کا کیا مطلب ہے اس کو بھی بیان کریں اور اس میں طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کی کیا تفصیل ہے؟ اس کی بھی وضاحت مطلوب ہے۔

سائل: محمد نوشاد سہرسہ


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مذکورہ سوال میں ذکر کردہ صورت میں "ایک دو تین چھوڑ دیا" اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے (چھوڑدیا) کنایہ ہیں مگر عرف کی وجہ سے یہ طلاق کے وقوع کے لیے صریح بن چکے ہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ الفاظ عام طور پر طلاق کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں اس لئے ان الفاظ میں طلاق کی نیت کا ہونا ضروری نہیں، لہذا آپ کے یہ الفاظ ایک دو تین کہنے کے بعد چھوڑدیا یہ ماقبل کی وضاحت ہوگئی جس کی وجہ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائے گی۔


طلاق کی دو قسمیں ہے

طلاق صریح: یعنی لفظ طلاق استعمال کرنا اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا طلاقِ صریح بلا نیت وارادہ واقع ہوجاتی ہے۔


طلاق کنایہ: کنایہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنا جو حقیقت میں طلاق کے لئے وضع نہ ہوں بلکہ طلاق اور غیر طلاق دونوں معنوں کا احتمال رکھتے ہوں مثلا کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ "تیرا میرا کوئی تعلق نہیں" یا یہ کہے کہ توتیرے باپ کے گھر رہ اب تیری ضرورت نہیں ہے"تو ہمیشہ کے لئے تیرے گھر چلی جا وغیرہ وغیرہ"


کنائی الفاظ کا حکم یہ ہے کہ اس میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوگا یا دلالت حال سے یہ معلوم ہو کہ شوہر نے یہ لفظ طلاق کی نیت سے استعمال کئے ہے جیسے بیوی کہے کہ مجھے طلاق دیدو اور اس کے جواب میں یہ جملے استعمال کرے وغیرہ وغیرہ تو اس سے طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔


اور اگر کوئی خاص کنائی لفظ طلاق صریح میں بکثرت استعمال ہو تو فقہی عبارات سے اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔


(۱) اس کنائی لفظ میں حرمت یا مکمل علیحدگی کا معنی ہو جیسے لفظِ حرام اس سے طلاق بائن واقع ہوگی کیونکہ اس لفظ کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کے بعد جماع یا دواعی جماع دونوں حلال نہ رہیں اور یہ تب ہو سکتا ہے جب طلاق بائن واقع ہو۔


(۲) اوردوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کنائی لفظ عُرف کی وجہ سے صرف طلاق ہی میں متعارف ہو لیکن اس میں مکمل علیحدگی اور حرمت کا معنی نہ ہونیز وہ لفظ بولتے وقت ایسا کوئی لفظ یا جملہ بھی نہ بولا جائے جو اس کے معنی میں شدت اور سختی پیدا کرے تو صریح کے ساتھ لاحق ہوکر طلاق صریح کی طرح امس سے بھی ایک اور دو مرتبہ کہنے سے طلاق رجعی واقع ہوگی تیسری مرتبہ میں مغلظہ ہوجائے گی جیسے کہے میں نے تجھے چھوڑ دِیا یا میں نے تجھے آزاد کردیا وغیرہ وغیرہ۔


فتاوی شامی میں ہے

قال فی الشرنبلالیة: وقع السوٴال عن التطلیق بلغة الترک ھل ھو رجعي باعتبار القصد أو بائن باعتبار مدلول ”سن بوش“ أو ”بوش أول“ ؛ لأن معناہ خالیة أو خلیة؟ فینظر۔ قلت: وأفتی الرحمتي تلمیذ الخیر الرملي بأنہ رجعي، وقال: کما أفتی بہ شیخ الإسلام أبو السعود، ونقل مثلہ شیخ مشایخنا الترکماني عن فتاوی علی آفندي مفتی دار السلطنة وعن الحامدیة۔

ایضاً 

فإن ”سرحتک“ کنایة، لکنہ في عرف الفرس غلب استعمالہ فی الصریح، فإذا قال: ”رھا کردم“ أي: ”سرحتک“ یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضاً، وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الناس استعمالہ فی الطلاق، وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا فی الطلاق من أي لغة کانت۔ (فتاوی شامی کتاب الاطلاق باب الصریح ٤/٤۵۸ //باب الکنایات ٤/۵۳۰ مطبوعہ: دار عالم الکتب)

 

فتاوی عالمگیری میں ہے

والاصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية انه اذا كان فيھا لفظ لا يستعمل الافي الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غيرنية اذا أضيف إلى المرأة وما كان بالفارسية من الالفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الاحكام كذا في البدائع۔ (فتاوی عالمگیری ۱/۳۷۹ الفصل السابع في الطلاق بالالفاظ الفارسية مطبوعہ: مکتبہ دار الکتاب دیوبند)


اللباب في شرح الكتاب میں ہے

والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح۔ (اللباب في شرح الكتاب، كتاب الطلاق ۱/٤٤۵ مطبوعہ المکتبۃ العمریۃ دمشق)

واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

اتوار، 27 اکتوبر، 2024

عورتوں کا سواری پر محارم سے چِمَٹۡ کر بیٹھنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٩٦

سوال 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مفتی صاحب آج کل جوان لڑکیاں اپنے محرم رشتہ داروں کے ساتھ ٹو ویلر یعنی بائیک پر سفر کرتی ہے اور اپنے باپ، بھائی، بیٹے کے ساتھ اس طرح بے جھجک بیٹھ جاتی ہے کے جوان لڑکی کا پورا بدن بلکہ اس کا سینہ(چھاتی)بھی اپنے باپ بھائی بیٹے کے ساتھ لگ جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ چپکا ہوا رہتا ہے تو کیا اس طریقے سے بیٹھنا صحیح ہے ؟کیا لڑکی کے بیٹھنے کی وجہ سے باپ کے نکاح میں کوئی فرق ائے گا ؟قران اور حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائے !

سائل: محمد الیاس شیخ کالول گجرات انڈیا 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


شریعتِ مطہرہ نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے بلاضرورت شدیدہ کہ وہ گھروں سے باہر نہ جائیں جیسے  زمانۂ جاہلیت میں  بلا ضرورت بے پردگی گھومنے پھرنے کا دستور تھا۔


اور فی الحال تو فتنہ و فساد اور بے حیائی عام ہے اور مرد و زن میں دینی بے زاری  کا عنصر غالب ہے عورتوں میں فیشن اور بن سنور  کر باہر نکلنے کا رواج ہے اس لئے عام حالات  میں بلا ضرورت عورت گھر سے نہ  نکلے۔


البتہ شرعی وطبعی ضروریات جس کے بغیر عورت کے لئے چارۂ کار نہ ہو تو عورتوں کو گھر سے محارم کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت ہیں، لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ عورت مکمل پردہ میں ہو۔


اور فی زماننا ٹو ویلر اور فور ویلر یہ جدید سواریاں ہے جیسے پہلے زمانے میں اونٹ گاڑی گھوڑا گاڑی وغیرہ ہواکرتی تھی عورتیں اپنے محارم کے ساتھ اسی پر سواری کرتیں تھی اسی طرح خواتین کا پردہ کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے اپنے محارم یا شوہر کے ساتھ ضرورت کے موقع پر موٹرسائیکل پر بیٹھنا جائز ہے البتہ بیٹھنے کی جو ہئیت زیادہ پردہ والی اور محفوظ ہو اس کو اختیار کرنا ضروری ہے۔


اس لئے اگر ایک طرف دونوں پاؤں کرکے سِمَٹۡ کر بیٹھ سکتی ہو تو زیادہ مناسب ہے، اگر ایک طرف پاؤں کرکے بیٹھنا مشکل ہو تو دونوں طرف پیر رکھ کر بیٹھنا بھی جائزہے بشرطیکہ ان کے اعضاء مستورہ ظاہر نہ ہو جیسے کہ پیر اوپر کرنے میں پنڈلی وغیرہ کا کھل جانا اسی طرح شوہر کے علاوہ دوسرے محارم کے ساتھ اس طرح چِمَٹۡ کر بیٹھنا بھی درست نہیں ہے کہ جس سے مخصوص اعضاء کی حس محسوس ہو فتنے کے اندیشہ کی وجہ سے اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو بھی احتیاط بہتر ہے اور فتنے کا اندیشہ یا یقین ہو تو جائز نہیں ہے۔


جہاں تک باپ بیٹی کا مسئلہ ہے تو ان میں بھی اس طرح سے چِمَٹۡ کر بیٹھنا کہ مخصوص اعضاء کی حس محسوس ہو خوف فتنہ کی بناء پر احتیاط بہتر ہے البتہ چونکہ اس طرح سے چِمَٹۡ کر بیٹھںے سے نکاح کی حرمت کے جو شرائط ہے وہ نہیں پائے جاتے ہیں اس لئے اس کے نکاح میں کوئی فرق نہیں آئے گا ان کا نکاح برقرار رہے گا


قرآن کریم میں ہے

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔ (الأحزاب: ۳۳)


المحيط البرهاني ميں ہے

وقوله: ولا تركب امرأة مسلمة على سرج بظاهره، نهى النساء عن الركوب على السرج وبه نقول وإنه خرج موافقا لقوله عليه السلام لعن الله الفروج على السروج  والمعنى في النهي من وجهين أحدهما أن هذا تشبه بالرجال وقد نهين عن ذلك الثاني أن فيه إعلان الفتن وإظهارها للرجال وقد أمرن بالستر قالوا وهذا إذا كانت شابة وقد ركبت السرج والفرج فأما إذا كانت عجوزا أو كانت شابة إلا أنها ركبت مع زوجها بعذر بأن ركبت للجهاد وقد وقعت الحاجة إليهن للجهاد أو للحج أو للعمرة فلا بأس إن كانت مستترة فقد صح أن نساء المهاجرين كن يركبن الأفراس ويخرجن للجهاد فكان رسول الله عليه السلام يراهن و لا ينهاهن وكذلك بنات خالد بن الوليد كن يركبن ويخرجن للجهاد يسقين المجاهدين في الصفوف ويداوين الجرحى۔ (المحيط البرهاني فی فقہ النعمانی ۵/٣٨٤ كتاب الاستحسان والكراهية ط دار الكتب العلميه ، بيروت)


فتاوی شامی میں ہے

ولو لحاجۃ غزو … أي بشرط أنہ تکون متسترۃ، وأن تکون مع زوج أو محرم۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء ٩/٤٠٤ زکریا)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وما حل النظر إليه حل مسه ونظره وغمزه من غير حائل ولكن إنما يباح النظر إذا كان يأمن على نفسه الشهوة، فأما إذا كان يخاف على نفسه الشهوة فلا يحل له النظر، وكذلك المس إنما يباح له إذا أمن على نفسه وعليها الشهوة، وأما إذا خاف على نفسه أو عليها الشهوة فلا يحل المس له، ولا يحل أن ينظر إلى بطنها أو إلى ظهرها، ولا إلى جنبها، ولا يمس شيئا من ذلك، كذا في المحيط. وللابن أن يغمز بطن أمه وظهرها خدمة لها من وراء الثياب كذا في القنية۔ (فتاوی عالمگیری میں ہے ۵/۳۲۸)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


اتوار، 29 ستمبر، 2024

بیانات اور نعت خوانی پر اجرت لینا کیسا ہے سوال نمبر ٤٩٥

سوال 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ 

مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ قاری صاحب اور نعت خواں حضرات کو جلسے میں بلایا جاتا ہے پیسے متعین کرکے یا متعین نہ بھی کریں لیکن عرفا کچھ نہ کچھ رقم دینا متعین ہی ہے تو کیا ان حضرات کا اس پیسے کو لینا جائز ہے اگر جواب ہاں میں ہے تو کس دلیل سے ہیں یہ بھی بتلادیں جزاک اللہ خیرا

سائل: عبدالسلام خالد بلیلپوری


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


حنفیہ کا اصل موقف تو یہی ہے کہ کسی بھی طاعت وعبادت کو جو قرب الہٰی اور حصول ثواب کا ذریعہ ہو اس کو کسب معاش کا ذریعہ بنانا اور اس پہ اجرت وصول کرنا جائز نہیں ہے کتاب وسنت میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہے


البتہ پہلے زمانہ میں خدام دین کے لئے بیت المال سے وظائف کا انتظام تھا جن سے وہ اپنی ضروریات پوری کرلیا کرتے تھے بعد میں جب یہ سلسلہ ختم ہوگیا تو متاخرین علماء نے ضرورت کے پیش نظر اور خدام دین کے طلبِ معاش میں مصروف ہوکر خدمت دین میں غفلت کے خوف سے اور اور دینی شعائر کی حفاظت کے خاطر بتاویل وقت دینی تعلیم، امامت، اذان اور افتاء وغیرہ کی خدمات پہ معاوضہ لینے کی اجازت دی ہے جس کے نتیجہ میں دین اور دینی شعائر کو ضیاع سے محفوظ رکھا جاسکے۔


جہاں تک مقرر و نعت خواں کا مسئلہ ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔

(۱) مقرر یا نعت خواں کو بطور ہدیہ کچھ لوگ بطِیب خاطر بغیر کسی شرط کے دیں  یا ملازمت کے طور پر مقرر یا نعت خواں کو اگر کچھ دیا جائے اور متعین کردیا جائے کہ مثلاً روزانہ یا ہفتہ میں ایک گھنٹہ وعظ کرنا ہے یا نعت پڑھنا ہے اور اتنے وقت کی یہ تنخواہ ہوگی، تو یہ اجیر خاص کے حکم میں ہوجائے گا لہذا اس طرح کا اجارہ کرکے بقدرِ ضرورت تنخواہ یا ہدایہ لینے میں کچھ مضائقہ نہیں۔


(۲) بلا تعیین کے مقرر یا نعت خواں کہیں تقریر کرکے روپیہ طلب کریں اور اپنے انداز سے کم ہونے پر ناراضگی اور خفگی کا اظہار کرے تو یہ درست نہیں ہے اور یہ طریقہ پسندیدہ بھی نہیں ہے اس لئے کہ اس سے وعظ کا اثر بھی ختم ہوجاتا ہے اور بلانے والے بھی رسم کے طور پر بلاتے ہیں 

اس کا اعلیٰ معیار تو یہ ہے کہ متعین یا غیرمتعین طور پر کچھ بھی نہ لیا جائے بلکہ حسبة للہ وعظ کہا جائے وہ ان شاء اللہ زیادہ موٴثر ہوگا۔


فتاوی محمودیہ میں ہے 

فتاوی محمودیہ میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں حضرت تحریر بقلم ہے کہ: جس طرح تعلیم و تدریس کی ملازمت درست ہے اسی طرح تذکیر و تقریر کی ملازمت بھی درست ہے، کام متعین کر لیا جائے مثلاً ہر روز ایک گھنٹہ یا ہر جمعہ کو دو گھنٹے تقریر لازم ہوگی اور اتنا معاوضہ دیا جائے گا یا مقرر و مستقل ملازم تقریر کے لئے رکھ لیا جائے کہ جلسوں میں بلانے پر یا بغیر بلائے دیگر مقامات پر جا جا کرتقریر کرے۔

یہ طریقہ پسندیدہ نہیں ہے کہ کسی جگہ وعظ فرمایا اور روپیہ لے لئے پھر اگر اپنے انداز سے کچھ کم ہو جائے تو ناک بھوں چڑھانے لگے اس طرح وعظ کا اثر بھی ختم ہو جاتا ہے اور بلانے والے رسمی طور پر بلاتے ہیں اور بلانے سے پہلے ہی فقرے کسنے شروع کر دیتے ہیں کہ ان کو اتنا دیا گیا تھا اس سے ناخوش ہوئے تھے لہذا جب تک اس سے زیادہ کا انتظام نہ ہو جائے ان کو نہیں بلانا چاہیے وغیرہ وغیرہ:

ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه، والإمامة۔ در مختار ومثله في متن الملتقى و درالبحار وزاد بعضهم الأذان والإقامة والوعظ، اهـ . شامی ٣٤/٥ فقط واللہ اعلم۔ حرر العبد محمود غفر له، دارالعلوم دیو بند ، ۹۲/۶/۷ھ۔(فتاوی محمودیہ جدید ۱۷/۸۵)


فتاوی شامی میں ہے 

لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعلیم القرآن والفقہ) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامة والأذان. وزاد بعضہم الأذان والإقامة والوعظ (فتاوی شامی ۹/۷٦ زکریا)


ہاشیہ عالمگیری میں ہے 

قال الإمام الفضلي والمتأخرون على جوازه والحيلة أن يستأجر المعلم مدة معلومة، ثم يأمره بتعليم ولده (الفتاوى البزازية على هامش الفتاوى العالمكيرية۔ ۵/٣۵ نوع في تعليم القرآن والحرف كتاب الإجارة رشيديه) 


مجمع الانہر میں ہے 

وفي المحیط: إذا أخذ المال من غیر شرط یباح له لأنه عن طوع من غیرعقد۔ (مجمع الأنہر، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، دارالکتب العلمیة بیروت ۳/ ۵۳۳)


فتاوی عالمگیری ہے 

وعلی هذا الحداء وقراءۃ الشعر وغیرہ ولا أجر في ذلك، هذا کله عند أئمتنا الثلاثة۔ (فتاوی عالمگیری جدید کتاب الإجارۃ، الباب السادس عشر في مسائل الشیوع ۔۔۔ ٤/ ۵۰۸ ط دار الکتب العلمیہ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


منگل، 17 ستمبر، 2024

صفوں کے دونوں کناروں پر جگہ چھوڑنا کیسا ہے سوال نمبر ٤٩٤

 سوال 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

مسجد کی حدود کے دونوں طرف برابر میں جگہ باقی ہے(جو مسجد ہی کے اندر ہے) اس میں الگ صف بھی بچھی ہوئی ہے اس سے متعلق معلوم کرنا ہے کہ صف میں کھڑے ہونے کا جو حکم ہے کہ پہلے اگلی صف مکمل کی جائے اور اگلی صف میں جگہ چھوڑ کر پیچھے صف بناکر کھڑا ہونا مکروہ ہے تو کیا حدود والی جگہ کے پُر ہوجانے کے بعد اس سے ملی ہوئی حدود سے باہر والی جگہ پر صف لگائی جائے گی یا اس کو چھوڑ دیا جائے اور حدود کے اندر ہی پیچھے صف بنائی جائیں گی اس کی وضاحت فرما دیں جزاک اللہ خیرا

سائل عبد السلام خالد بلیل پوری


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مسجد میں بلا وجہ صفوں کے کناروں پر جگہ چھوڑنا درست نہیں ہے البتہ اگر مجبوری ہو تو درست ہے ورنہ دونوں طرف صف کو پورا کرنا ضروری ہے۔

جیسے مسجد میں توسیع کرنے کی وجہ سے مسجد کافی وسیع ہوجائے کہ جس کی وجہ سے باربار صفوں کا اٹھانا اور بچھانا دشوار ہو جس کی بناء پر دونوں کناروں پر جگہ چھوڑی جائے۔


مسجد کی صفوں کے کناروں پر دروازے نہیں ہے اور آگے کی صفوں کے نمازیوں کو بسااوقات ایمرجنسی امور کے لئے نکلنے کی ضرورت میں دشواری کا سامنا ہو جس کی بناء پر دونوں کناروں پر جگہ چھوڑی جائے۔


فرض نماز کے بعد جگہ تبدیل کر کے سنتیں وغیرہ ادا کرنا مستحب ہے اگر مقتدی اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں اور وہاں سے ہٹکر کسی اور جگہ نہیں جاسکتے جس کی بناء پر دونوں کناروں پر جگہ چھوڑی جائے۔


ان صورتوں میں انتظامی طور پر اگر صفوں کی ترتیب ایسی رکھی جائے کہ دونوں کناروں میں جگہ خالی رکھی گئی ہو تو ضرورت کی وجہ سے وہ اس حدیث (( ومن قطع صفًّا قطعه الله)) کی خلاف ورزی کرنے والوں میں شامل نہیں ہوگا۔



اس طرح کے سوال کے جواب میں فتاوی قاسمیہ میں حضرات مفتی شبیر احمد مرادآبادی نے جواب تحریر فرمایا ہے۔


سوال [۲۴۸۹] کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک مسجد ہے جس کی توسیع کی گئی ہے، تو کیا اس مسجد کے اندر دائیں بائیں جانب صفوں میں کچھ جگہ چھوڑ دی جائے اور بیچ بیچ میں صفوں کو بچھایا جائے ، کیا ایسا کرنے میں کوئی کراہت وغیرہ تو نہیں ؟

المستفتی: افتخار، ہری دواری


باسمہ سبحانہ وتعالیٰ 

الجواب وبالله التوفيق

دائیں بائیں سے حدود مسجد کے اندر صفوں کی جگہ چھوڑ کر کے بیچ و بیچ صفوں کو بچھا دینا اور دائیں بائیں جگہ کو خالی رکھنا مکروہ ہے یہ ایسا ہے جیسا کہ اگلی صف میں جگہ چھوڑ کر پچھلی صف میں کھڑے ہو کر نیت باندھنا؛ ہاں البتہ مسجد بہت بڑی ہے جیسے کہ دلی کی جامع مسجد کا صحن، بھوپال کی تاج المساجد کا صحن، ایسی مسجدوں میں جمعہ کے علاوہ نمازوں میں دائیں بائیں کی صفوں کا پر کرنا بہت مشکل ہے اس لئے ایسی مسجدوں میں اس بات کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ بیچ و بیچ صفیں بچھادی جائیں اور نمازیوں کو اس نمازی کے درجے میں قرار دیا جا سکتا ہے، جو نمازی امام کے رکوع کے وقت صفوں میں پہونچ رہا ہے اور اگر وہ صفوں کے دائیں اور بائیں جانب پہنچ کر نیت باندھے گا تو اس کی رکعت چھوٹ جائے گی ، تو اس کے لئے پیچھے کی صف میں کھڑے ہو کر نیت باندھنا بلا کراہت جائز ہے۔ نیز اتنی بڑی مسجد کی صفوں کو پانچوں وقت کے لئے بچھانا اور پھر صفوں کو اٹھانا خدام مسجد کے لئے بہت ہی دشوار کن ہے؛ اس لئے بیچ کے حصہ میں مشقت سے بچنے کے لئے گنجائش ہو سکتی ہے۔


عن زيد بن وهب، قال: خرجت مع عبد الله یعنی ابن مسعود من داره إلى المسجد، فلما توسطنا المسجد ركع الإمام، فكبر عبد الله وركع وركعت معه ، ثم مشينا راكعين، حتى انتهينا إلى الصف حين رفع القوم رؤوسهم. (السنن الكبرى ٤١١/٢ ، رقم: ٢٦٤١)


روي عنه عليه السلام أنه قال يكتب للذي خلف الإمام بحذائه مأة صلاة وللذي في الجانب الأيمن خمسة وسبعون صلاة وللذي في المحارب الايسر خمسون صلاة وللذي في سائر الصفوف خمسة وعشرون صلاة.(البحر الرائق، كتاب الصلوة، باب الإقامة زكريا ٦١٩/١، کراچی (٣٥٤/١)


لا تذروفرجات للشيطان من وصل صفا وصله الله. الحديث (ابو داؤد، کتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف النسخة الهندية ۹۷/۱ ، دار السلام رقم : ٦٦٦ ، بحر، كتاب الصلاة، باب الإمامة زكريا ٦١٨/١ ، كوئنة ٣٥٣/١)


وعن جابر بن سمرة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في حديث طويل، فقال ألا تصفون كما تصف الملائكة إلى قوله - يتمون الصفوف الأولى ويتراصون في الصف. (مسلم شريف، كتاب الصلاة، باب الأمر بالسكون في الصلاة، النسخة الهندية ۱۸۱/۱، بيت الأفكار رقم: ٤٣٠) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔ (فتاوی قاسمیہ ۷/۸۳)


اسی طرح فتاوی بنوریہ میں ہے

سوال: مفتی صاحب بعض مساجد میں یہ دیکھا گیا ہے کہ صف کے دونوں کناروں میں راستہ رکھا جاتا ہے، تاکہ جماعت کی نماز ختم ہونے پر اگر کسی نمازی کو جانا ہو، تو وہ کنارے سےگزر جائے، مسبوق کی وجہ سے انتظار نہ کرنا پڑے، اس طرح کناروں میں کچھ راستہ رکھ کر صف بنانا صحیح ہے ؟

جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء


جواب: واضح رہے کہ فرض نماز کے بعد جگہ تبدیل کر کے سنتیں وغیرہ ادا کرنا مستحب ہے، اگر مقتدی اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں، یا اسی طرح بعض اوقات کسی مقتدی کو فرض نماز کے فورا بعد جلدی میں کہیں جانا پڑ جاتا ہے اور مسجد کی تعمیر اس طرح ہوئی ہو کہ صفوں کے کناروں پر دروازے نہ ہوں، تو ایسی صورت میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد نمازیوں کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی سہولت کے لیے انتظامی طور پر اگر صفوں کی ترتیب ایسی رکھی جائے کہ دونوں کناروں میں گزرگاہ کے طور پر جگہ خالی رکھی گئی ہو تو اس سے نماز کی ادائیگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ امام صفوں کے درمیان میں کھڑا ہو اور صفوں کی دونوں جانب برابر ہوں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:


سنن أبي داود: (باب مقام الإمام من الصف دار السلام، رقم الحدیث: 681)

عن أبی ہریرۃ ؓ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: "وسطوا الإمام وسدوا الخلل".


مرقاة المفاتیح: (رقم الحدیث: 953، 757/2، ط: دار الفکر)

وعن عطاء الخراساني، عن المغيرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " «لا يصلي الإمام في الموضع الذي صلى فيه حتى يتحول» "، رواه أبو داود، وقال: عطاء الخراساني لم يدرك المغيرة.

وقوله: (" حتى يتحول ") ، أي: ينتقل إلى موضع، جاء للتأكيد، فإن قوله: لا يصلي في موضع صلى - فيه أفاد ما أفاده، وقال المظهر: ونهي عن ذلك ليشهد له الموضعان بالطاعة يوم القيامة، ولذلك يستحب تكثير العبادة في مواضع مختلفة.


نیل الاوطار: (235/3، ط: دار الحدیث)

وَالْعِلَّة فِي ذَلِكَ تَكْثِير مَوَاضِع الْعِبَادَة كَمَا قَالَ الْبُخَارِيُّ وَالْبَغَوِيِّ لِأَنَّ مَوَاضِع السُّجُود تَشْهَد لَهُ كَمَا فِي قَوْله تَعَالَى: {يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا} [الزلزلة: 4] أَيْ تُخْبِر بِمَا عُمِلَ عَلَيْهَا. وَوَرَدَ فِي تَفْسِير قَوْله تَعَالَى: {فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ} [الدخان: 29] " إنَّ الْمُؤْمِن إذَا مَاتَ بَكَى عَلَيْهِ مُصَلَّاهُ مِنْ الْأَرْض وَمِصْعَدُ عَمَلِهِ مِنْ السَّمَاءِ " وَهَذِهِ الْعِلَّة تَقْتَضِي أَيْضًا أَنْ يَنْتَقِل إلَى الْفَرْض مِنْ مَوْضِع نَفْلِهِ، وَأَنْ يَنْتَقِل لِكُلِّ صَلَاة يَفْتَتِحهَا مِنْ أَفْرَاد النَّوَافِل، فَإِنْ لَمْ يَنْتَقِل فَيَنْبَغِي أَنْ يَفْصِل بِالْكَلَامِ لِحَدِيثِ النَّهْي عَنْ أَنْ تُوصَل صَلَاة بِصَلَاةٍ حَتَّى يَتَكَلَّم الْمُصَلِّي أَوْ يَخْرُج، أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُد. آن لائن دارالافتاء الاخلاص،کراچی


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


جمعہ، 13 ستمبر، 2024

ٹوٹے ہوئے برتنوں کو استعمال کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤۹۳

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان کرام مسئلے ذیل کے بارے میں کہ ٹوٹی ہوئی چیزیں استعمال کرنے کی شریعت میں ہے کیا ہے تو کن چیزوں کی کون سی چیزیں ایسی ہیں ٹوٹی میں جن کا استعمال کرنا ناجائز ہے حدیث اور قران کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے۔ 

سائل محمد صادق رشیدی مہاراشٹر


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


احادیث مبارکہ میں برتنوں کے علاوہ دوسری ٹوٹی ہوئی اشیاء کے استعمال کی کراہت وارد نہیں ہے صرف ٹوٹے ہوئے برتنوں کی کراہت کی وضاحت ہے یعنی احادیث میں ٹوٹے ہوئے برتنوں کو کھانے پینے میں استعمال کرنا مکروہ فرمایا ہے، البتہ اہلِ علم حضرات اس حدیث کے تحت یہ وضاحت فرماتے ہیں کہ یہ نہی صرف شفقت و مہربانی کے لئے ہے، جس کو نہیٔ ارشادی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو امت پر بطور ترحم کے وار ہوئی ہے۔


 جس کی خاص وجوہات یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پانی پینے سے پانی گرنے کا اندیشہ ہے اور ٹوٹی ہوئی جگہ کے استعمال میں منہ یا ہاتھ میں چبھنے کا خطرہ ہے اسی طرح ٹوٹی ہوئی جگہ پر گندگی جم جانے کی وجہ سے منہ میں جانے کا امکان ہے نیز اس کا استعمال طبع سلیم کے بھی خلاف ہے۔


البتہ علماء کی تصریحات کے مطابق ٹوٹے ہوئے برتنوں کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ نقصان دہ نہ ہو اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے قابل ہو جیسے کہ پیالہ یا گلاس یا کوئی بھی برتن ہو اس کا جس طرف کا حصہ ٹوٹا نہیں ہے اس جگہ سے استعمال کرے تو گنجائش ہے۔


یا مجبوری کی صورت میں ہو جیسے کہ ٹوٹے ہوئے برتن کے علاوہ کوئی دوسرا برتن ہی نہ ہو تو اسے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔


یا ٹوٹی ہوئی جگہ کے استعمال کی ضرورت نہ ہو جیسے کہ برتن ایسا ہے جسے منہ لگائے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے  تو اس کے استعمال میں کراہت نہیں۔


احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ پیالے کی ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پینا مکروہ ہے۔

وجوہ کراہت یہ ہیں - پانی گرنے کا اندیشہ ہے - منہ میں چھنے کا خطرہ ہے - اس مقام پر میل وغیرہ جما ہوا ہوتا ہے - یہ طبع سلیم کے خلاف ہے۔

عن ابي سعيد الخدري رضى الله تعالى عنه انه قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من ثلمة القدح وان ينفخ في الشراب۔ (سنن ابی داؤد ۸۳/۲)

عن ابي هريرة رضى الله تعالى عنه انه كره ان يشرب الرجل من كسر القدح او يتوضأ منه (مصنف عبد الرزاق ١٠/٤٢٨) (احسن الفتاوی ۸/۱۲۸)


سنن أبي داؤد میں ہے 

عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الشرب من ثلمۃ القدح وأن ینفخ في الشراب۔ (سنن ابی داؤد باب في الشرب من ثلمۃ القدح، رقم الحدیث: ۲/۱٦٧ ط مکتبہ رحمانیہ)


العیون المعبود میں ہے

قال الخطابي إنما نهى عن الشراب من ثلمة القدح لأنه إذا شرب منه تصب الماء وسأل قطره على وجهه وثوبه لأن الثلمة لا يتماسك عليها شفة الشارب كما يتماسك على الموضع الصحيح من الكوز والقدح . وقد قيل إنه مقعد الشيطان فيحتمل أن يكون المعنى في ذلك أن موضع الثلمة لا يناله التنظيف التام إذا غسل الإناء ، فيكون شربه على غير نظافة ، وذلك من فعل الشيطان وتسويله ، وكذلك إذا خرج من الثلمة وأصاب وجهه وثوبه فإنما هو من إعنات الشيطان وإيذائه إياه واللہ أعلم (العیون المعبود ۱۰/۱۸۹)


مرقاۃ المفاتیح میں ہے 

قال نهى رسول الله عن الشرب من ثلمة القدح بضم المثلثة وسكون اللام هي موضع الكسر منه قال الخطابي إنما نهى عن الشرب من ثلمة القدح لأنها لا تتماسك عليها شفة الشارب فإنه إذا شرب منها ينصب الماء ويسيل على وجهه وثوبه زاد ابن الملك أو لأن موضعها لا يناله التنظيف التام عند غسل الإناء۔ (مرقاۃ المفاتیح ٨/١٧٤ ط دار الکتب العلمیہ)


بذل المجہود میں ہے 

نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الشرب من ثلمة القدح) ای عن فرجة منه قال فى المجمع لانه لايتماسك عليها فم الشارب وربما التنظیف الماء على ثوبه وبدنه وقيل لايناله التنظيف التام اذاغسل الاناء وورد انه مقعد الشيطان ولعله اراد به عدم النظافة۔ (بذل المجہود ١٦/۵٤ ط دار الکتب العلمیہ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


جمعہ، 6 ستمبر، 2024

سوتیلے نانا اور سوتیلے ماموں سے پردے کا حکم سوال نمبر ٤٩٢

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ 

امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہونگے ۔ایک مسئلہ تھا کہ مثلا زید کی ایک بیوی تھی عائشہ اور اسکی بیٹی ہے رقیہ زید سے ہی۔اور بعد میں زید نے دوسری شادی کی فاطمہ سے۔اور اسکی اولاد بھی زید سے ہی ہے تو اس صورت میں تو علاتی بھائی بہن کی وجہ سے پردہ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رقیہ زید کی دوسری بیوی کے بھائی اور باپ سے پردہ کرےگی؟؟

سائل: مولوی عبد الحسیب اسلام پوری


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


شریعت مطہرہ میں جس طرح ماں کے اصول وفروع محرم ہے اسی طرح باپ کی موطوءه (یعنی جس عورت سے باپ نے وطی کی ہے جیسے سوتیلی ماں) کے اصول وفروع محرم شمار ہوں گے لہذا سوتیلی نانی اور سوتیلے نانا سے اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو شرعاً پردہ ضروری نہیں ہے۔

صورت مسؤلہ میں رقیہ، زید کی دوسری بیوی کے باپ یعنی اپنے سوتیلے نانا سے (اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو) شرعاً پردہ کرنا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ وہ اس کے لئے محرم ہے البتہ رقیہ کے لئے زید کی دوسری بیوی کے بھائی یعنی سوتیلے ماموں سے شرعاً پردہ ضروری ہے اس لئے کہ وہ اس کا محرم نہیں ہے۔


قرآن کریم میں ہے

قال اللہ تعالیٰ : {وَ لَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَ مَقْتًا وَ سَاءَ سَبِيلًا} (النساء: ۲۲)


اسی آیت کے تحت تفسير مظہری میں ہے

المراد بالآباء الأصول بعموم المجاز اجماعا حتى يحرم منكوحة الجد و ان علا سواء كان الجد من قبل الأب او من قبل الام اھ


الھدایہ میں ہے

لا یحل للرجل ان یتزوج بامہ، ۔۔۔۔۔۔۔ ولا بامرأۃ ابیہ و اجدادہ، لقولہ تعالیٰ"ولا تنکحوا ما نکاح اٰبائکم۔ (ھدایہ ۲/۳۲۷ ط: مکتبہ رحمانیہ)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

و یجوز بین امرأۃ وبنت زوجہا فإن المرأۃ لو فرضت ذکرا حلت لہ تلک البنت بخلاف العکس۔ (فتاوی عالمگیری ۱/۲۷۷ ط رشیدیۃ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

زندگی میں وراثت کی تقسیم کا طریقہ سوال نمبر ٤٩١

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ 

جی حضرت ايك مسئلہ ہے کہ ایک شخص ہے وہ ابھی حیات ہے انکے ایک لڑکا ہے اور ایک لڑکی اور اُنہونے اپنی حیات میں ہی اپنی بیٹی کو ایک حصّہ اور بیٹے کوں دو حصّے دیدیے تو کیا یہ صحیح ہے 

اور اسکے علاوہ جو زیورات وغیرہ سب بیٹی کو دے دیئے اور بیٹے کے پاس صرف اینٹ وغیرہ میٹیریل آیا 

مال میں ایک کروڑ 5 لاکھ روپے تھے 35 لاکھ بہن کو دیئے باقی سب بیٹے کو تو کیا یے صحیح ہے

سائل مولوی اظہر میواتی


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 

 

باپ اپنی زندگی میں تن تنہا اپنی املاک کا مالک ہوتا ہے اس میں اولاد یا بیوی کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی وراثت کی تقسیم کا مسئلہ ہے باقی اگر باپ اپنی مرضی و خوشی سے اپنی جائداد وغیرہ زندگی ہی میں بچوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں جائز ہے لہذا باپ اپنی جائداد بچوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اسے وہ دو طرح سے تقسیم کرسکتے ہیں۔

 

(۱) سبھی اولاد میں مال کی برابر تقسیم

زندگی میں اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ ہوتا ہے میراث نہیں، اور اولاد کے درمیان ہبہ میں شرعاً برابری پسندیدہ ہے اس لیے میراث کے ضابطے کے مطابق تقسیم کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ برابری کے اصول کے مطابق تقسیم کریں، اس کی شکل یہ ہوگی کہ اپنے اور اپنی بیوی کے لیے بہ قدر ضرورت رکھ کر مابقیہ رقم اولاد میں برابر تقسیم کردیں۔


البتہ اگر اولاد میں سے کوئی زیادہ ضرورت مندہے یا والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہے یا اور کوئی وجہ ترجیح موجود ہے تووہ اسے نسبةً کچھ زیادہ بھی دے سکتے ہیں شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔


البتہ اولاد کے درمیان (میراث کے ضابطے کے مطابق یا برابری کے اصول پر) جس طرح بھی جائداد تقسیم کی جائے، تقسیم کے بعد ہر ایک اولاد کو اس کے حصے پر قبضہ و دخل بھی دینا ضروری ہے، ورنہ اولاد اس مال کی شرعاً مالک نہ ہوں گے، کیوں کہ بہر دو صورت والد کا زندگی میں اپنی جائیداد اپنی  اولاد کے درمیان تقسیم کرنا "ہبہ" (گفٹ) ہے، اور ہبہ کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے، جو جائیداد والد نے اپنی اولاد میں سے جس کو مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دی تو وہ جائیداد اس کی ملکیت میں آجائے گی۔


اور جو جائیداد والد نے صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہ دیا ہو تو وہ بدستور والد کی ملکیت میں رہے گی اور والد کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔


(۲) ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم 

میراث کے ضابطے کے مطابق تقسیم کریں، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ جائداد میں سے باپ اپنے اور اپنی بیوی کے لیے بہ قدر ضرورت رکھ کر مابقیہ حصے شرعی قانون وراثت کے اعتبار سے تقسیم کردیں۔


مسئولہ صورت میں چونکہ والد اپنے مال کا مالک ہوتا ہے اس لئے وہ جس طرح چاہیں تقسیم کرسکتا ہے البتہ بلا وجہ اولاد میں سے کسی کو کم کسی کو زیادہ دینے کی صورت میں وہ ماخوذ ہوگا لہذا تقسیم کی بہتر صورتیں وہی ہیں جو اوپر بیان کی ہیں اسی اعتبار سے تقسیم کریں فقہاء نے حیاتی کی تقسیم میں برابری کو ترجیح دی ہے اور اگر وہ نہ کریں تو امام محمد کے قول کے اعتبار سے تثلیث یعنی بہن کو ایک حصہ اور بھائی کو دو حصے کے اعتبار سے تقسیم کی جائے سوال میں مذکور تقسیم میں اوپر جو دوطریقے ذکر کئے ہیں اس اعتبار سے اس کو پرکھلیں۔


مشکاۃ المصابیح میں ہے 

و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال أكل ولدك نحلت مثله؟ قال لا قال فأرجعه و في رواية قال فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم (مشکاۃ المصابیح ١/٢٦١ باب العطایا ط قدیمی)۔


خلاصۃ الفتاوی میں ہے

رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما شیئاً فالأفضل ان یجعل للذکر مثل حظ الانثیین عند محمدؒ وعند ابی یوسفؒ بینھما سواء ھوالمختار لورود الاٰثار (الی قولہ) ولو اعطی بعض ولدہ شیئاً دون البعض لزیادۃ رشدہ لابأس بہ وإن کانا سواء لاینبغی أن یفضل اھ (خلاصۃ الفتاوی ٤/٤٠٠ رشیدیہ)


درمختار میں ہے

لا بأس بتفضیل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب وکذا في العطایا، إن لم یقصد بہ الإضرار وإن قصدہ فسوی یعطي البنت کالابن عند الثاني، وعلیہ الفتوی، وقال الشامي: قولہ ”وعلیہ الفتوی“ أي قول أبي یوسف من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذي ہو قول محمد ( درمختار مع الشامی ۸/۵۰۳ ط: زکریا)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے

لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية۔ (فتاویٰ عالمگیری ٤/٣٧٨  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، رشیدیہ)


ھدایۃ میں ہے 

الھبۃ عقد مشروع ۔۔۔۔ وتصح بالإیجاب والقبول والقبض ۔۔۔ والقبض لا بد منہ لثبوت الملک، ۔۔۔۔ ولنا قولہ علیہ الصلاۃ والسلام لا تجوز الھبۃ إلا مقبوضۃ (کتاب الھبۃ ٣/٢٨٥ رحمانیۃ)


فتاوی عالمگیری میں ہے

‌ولا ‌يتم ‌حكم ‌الهبة ‌إلا ‌مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا۔(فتاوی عالمگیری، كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ٤/٣٧٧)


تکملة فتح الملھم میں ہے

أن الوالد إن وھب لأحد أبنائہ ھبة أکثر من غیرہ اتفاقاً أو بسبب علمہ أو عملہ أو برہ بالوالدین من غیر أن یقصد بذلک إضرار الآخرین ولا الجور علیھم کان جائزا علی قول الجمہور، وھو محمل آثار الشیخین وعبد الرحمن بن عوف رضي اللہ عنھم۔(تکملة فتح الملھم، كتاب الهبات ٢/٦۵)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی




جمعہ، 30 اگست، 2024

مسجد کے نچلے منزلے کو چھوڑکر اوپر کے منزلے میں جمعہ قائم کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٩٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام مسلہ ذیل کے بارے میں ایک مسجد میں نیچے کے جمعہ اور نماز ہوتی آرہی ہے اب انہوں نے دوسرا منزلہ بنایا ہے نیچے کے حصے میں جگہ کم ہے اب وہ چاہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز اوپر کے حصے میں پڑھی جائے تو کیا ایسا کر سکتے ہیں مدلل جواب عنایت فرمائیے۔

سائل: محمد صادق رشیدی مہاراشٹر جالنہ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احناف کے یہاں صحتِ جمعہ کے لئے جو شرائط مذکور ہے ان میں تعیین مکان کی شرط نہیں ہے یہاں تک کہ جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد کا ہونا بھی شرط نہیں ہے میدان یا عیدگاہ میں یا کسی اور جگہ میں بھی نماز جمعہ ادا کی جائے تو درست ہے البتہ شریعت میں اذن عام کی شرط ہے یعنی وہاں پر ہر کسی کو نماز ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہئے کسی کے لئے روک ٹوک نہ ہو۔ 


صورت مسئولہ میں مسجد میں نیچے کے حصے میں جگہ کم ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز اوپر کے منزلے میں ادا کرنا چاہے تو ادا کرسکتے ہیں۔


حلبی کبیری میں ہے

وفي الفتاوی الغیاثیة لوصلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة کبیرة  لها قری وفیها وال وحاکم جازت الجمعة بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر۔  (حلبی کبیری ص ۵۵۱ فصل في صلاة الجمعة ط: سہیل اکیڈمی)


غنیة المستملي میں ہے 

وفي الفتاویٰ الغیاثیۃ: لو صلی الجمعۃ في قریۃ بغیر مسجد جامع والقریۃ کبیرۃ لہا قریً، وفیہا والٍِ وحاکمٍ جازت الجمعۃ بنو المسجد أو لم یبنوا وہٰذا أقرب الأقاویل إلی الصواب، والمسجد الجامع لیس بشرط، ولہٰذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلی في فناء المصر وہو مااتصل بالمصر معداً لمصالحہ من رکض الخیل وجمع العساکر والمناضلۃ ودفن الموتیٰ وصلوٰۃ الجنازۃ ونحو ذٰلک لان لہ حکم المصر باعتبار حاجۃ اہلہ الیہ وقدرہ محمدؒ بالغلوۃ۔ (غنیة المستملي ط: اشرفی)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

(ومنها: الإذن العام) و هو أن تفتح أبواب الجامع فيؤذن للناس كافةً حتى أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم و جمعوا لم يجز، و كذلك السلطان إذا أراد أن يجمع بحشمه في داره فإن فتح باب الدار و أذن إذنًا عامًّا جازت صلاته شهدها العامة أو لم يشهدوها، كذا في المحيط۔ (الفتاوی الھندیۃ: ١/١٤٨ ط: دار الفکر)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی