بدھ، 21 فروری، 2024

شکار کرنے اور جانوروں کے حلت و حرمت کی تفصیل سوال نمبر ٤٥٨

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

عرض یہ ہے کہ آسمان پر اڑنے والے جو حلال پرندے ہیں انکا شکار کرنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟ نیز کونسے جانور ایسے ہیں جن کا شکار کرنا اور کھانا جائز ہے؟ اور حلت و حرمت کے اعتبار سے اس میں شریعت نے کیا اصول مقرر کیا ہے؟ تفصیل سے جواب مرحمت فرماییں مہربانی ہوگی۔

العارض سیف اللہ سندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اللہ نے پرندے بھی انسانوں کے نفع کے لئے بنائے ہیں اس لیے پرندوں کا شکار کرنا جائز ہے، اور شکار کئے ہوئے پرندے اگر حلال ہے تو اس کا کھانا بھی جائز ہے، شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، شکار کا جائز ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اللہ نے حلال پرندوں کو  کھانا حلال کیا ہے بشرطیکہ شکار کرنے سے لہو ولعب مقصود نہ ہو اور  شرعی حدود کا خیال رکھا جائے، اس کی وجہ سے عبادات میں غفلت نہ برتی جائے، اور شکار کے دوران انسانی حقوق کا پورا اہتمام کیاجائے۔


شکار کرنے میں اصولی اعتبار سے اتنی بات یاد رکھیں کہ جو اہلی یعنی مانوس جانور ہے یا وہ وحشی ہے لیکن وہ مانوس ہوگئے ہیں چاہے وہ چوپائے ہو یا پرندے ہو ان کا تو شکار کا مسئلہ نہیں ہے اگر وہ ماکول اللحم ہے تو ان میں شرعی ذبح کرنا ضروری ہے اور اگر وہ غیر مانوس ہے اور وہ جانور نوکیلے دانتوں والا درندہ یا پنجوں سے شکار کرنے والا پرندہ ہے ان کا کھانا جائز نہیں ہے، حرام ہے، اس کے علاوہ بِجّو، سنگ پشت اور حشرات الارض کا کھانا مکروہ تحریمی ہے


جانوروں کی حلت و حرمت کی تفصیل

جانوروں کی پانچ قسمیں ہیں (۱) سمندری جانور (۲) فضائی جانور (۳) زمین پر رہنے والے جانور (٤) وہ جانور جن میں خون نہیں ہوتا یا خون تو ہوتا ہے لیکن بہنے والا نہیں ہوتا (۵) وہ جانور جو حشرات الارض کی قبیل سے ہے۔ 


(۱) سمندری جانور

سمندری جانوروں میں فقہ حنفی کے مطابق صرف مچھلی اپنی تمام اقسام سمیت حلال ہے، اس کے علاوہ تمام سمندری جانور اور وہ جانور جو پانی میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں زندگی بسر کرتے ہیں، جیسے: کچھوا، مگرمچھ، مینڈک، کیکڑا وغیرہ، یہ تمام جانور مکروہ تحریمی ہے ان کا کھانا درست نہیں ہے۔


(۲) فضائی جانور یعنی پرندے

پرندوں کی چار قسمیں ہیں 

(۱) وہ پرندے جو پنجوں سے اور چونچ سے شکار کرتے ہیں، جیسے چیل، الو، شاہین، شکرہ، باز وغیرہ، یہ سب حرام ہیں۔

(۲) وہ پرندے جو صرف مردار ہی کھاتے ہیں یہی ان کی غذا ہو جیسے گدھ کوا وغیرہ، یہ سب حرام ہیں۔

(۳) وہ پرندے جو صرف دانے وغیرہ ہی کھاتے ہیں جیسے کبوتر، فاختہ، بٹیر، چڑیا وغیرہ، ان کا کھانا جائز ہے۔

(٤) وہ پرندے جو دانے اور مردار دونوں کھاتے ہوں، لیکن مردار ان کی غذا نہ ہو ان کی عمومی غذا غلہ اور دانہ وغیرہ ہو جیسے سفید بگلا، وغیرہ ان کا کھانا بھی جائز ہے۔


(۳) زمین پر رہنے والے جانور

زمین پر رہنے والے جانور دو قسم کے ہیں

(۱) اہلی یعنی پالتو اور مانوس جانور: ان میں ایسے جانور جو مانوس ہیں اور جن میں بہنے والا خون ہوتا ہے، اور وہ گھانس پتے وغیرہ کھاتے ہیں اور اپنے دانتوں سے زخم اور شکار نہیں کرتے جیسے: اونٹ، بھینس، گائے، بیل، بکرا، بھیڑ، دنبہ وغیرہ، یہ سب حلال ہیں، البتہ گدھا خاص احادیث کی بنا پر حرام ہے، جبکہ گھوڑا امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے، اسی طرح ایسے مانوس جانور جو درندے ہوں اور چیر پھاڑ کرنے والے ہوں (یعنی وہ اپنے دانتوں سے زخم لگاتے ہوں اور شکار کرتے ہوں) جیسے: کتا، بلی وغیرہ، اس قسم کے تمام جانور حرام ہیں۔

(۲) وحشی یعنی غیر مانوس جانور وحشی غیر مانوس جانور جو چیر پھاڑ کرنے والے نہ ہوں جیسے: ہرن، خرگوش، نیل گائے وغیرہ، اس قسم کے تمام جانور حلال ہیں، اور ایسے وحشی جانور جو چیر پھاڑکرنے والے ہوں جیسے: شیر، چیتا، لومڑی، بندر، ریچھ وغیرہ، اس قسم کے تمام جانور حرام ہیں۔


(٤) وہ جانور جن میں خون نہیں ہوتا یا خون تو ہوتا ہے لیکن بہنے والا نہیں ہوتا۔

وہ جانور جو خشکی میں رہتے ہیں اور ان میں خون نہیں ہوتا جیسے: مچھر، بچھو، چیونٹی وغیرہ، (سوائے ٹڈی کے) وہ سب حرام ہیں، اسی طرح جن جانوروں میں خون تو ہوتا ہے، لیکن بہنے والا نہیں ہوتا جیسے چھپکلی، چوہا، سانپ، گرگٹ، نیولا وغیرہ، اس قسم کے تمام جانور حرام ہیں۔


(۵) وہ جانور جو حشرات الارض کی قبیل سے ہے۔

جو جانور حشرات الارض کی قبیل سے ہے بِجّو، جیسے سنگ پشت کیرے مکوڑے سانپ وغیرہ اور دیگر جتنے بھی زمین پر رینگنے والے جانور ہے ان سب کا کھانا مکروہ تحریمی ہے


خلاصہ

خشکی میں رہنے والے جانوروں اور پرندوں میں سے جو جانور یا پرندے دانت یا پنجوں سے شکار کرتے ہیں اور جن کی غذا صرف گندگی اور مردار وغیرہ ہوتی ہے  اور جن میں خون بالکل نہیں ہوتا ہے اور جن  میں بہنے والا خون نہیں ہوتا، اسی طرح  تمام زمین کے اندر رہنے والے جانور اور کیڑے مکوڑے وغیرہ سب حرام ہیں، ا لبتہ ٹڈی میں خون نہیں ہوتا، پھر بھی وہ حلال ہے، مذکورہ اقسام کے علاوہ خشکی میں رہنے والے دیگر سب جانور (جیسے: اونٹ، بھینس، گائے، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، ہرن، نیل گائے،وغیرہ) اور پرندے (جیسے : مرغی، بطخ، مرغابی، کبوتر، طوطا، مینا، فاختہ بٹیر، بلبل، کوئل وغیرہ ) حلال ہیں۔  جب کہ پانی میں رہنے والے جانوروں میں سے مچھلی کے علاوہ کوئی بھی جانور حلال نہیں ہے اور  جو مچھلی طبعی موت مرکر پانی میں الٹی تیرنے لگے اس کا کھانا بھی جائز نہیں۔

(مستفاد: متفرق فتاوی سے یہ لیا گیا ہے)


المبسوط للسرخسی میں ہے 

( كتاب الصيد ) قال الشيخ الإمام الأجل الزاهد شمس الأئمة وفخر الإسلام أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي رحمه الله إملاءً: اعلم بأن الاصطياد مباح في الكتاب والسنة، أما الكتاب فقوله تعالى: {وإذا حللتم فاصطادوا} وأدنى درجات صفة الأمر الإباحة، وقال الله تعالى: {أحل لكم صيد البحر} الآية، والسنة قوله صلى الله عليه وسلم: {الصيد لمن أخذه}، فعلى هذا بيان أن الاصطياد مباح مشروع؛ لأن الملك حكم مشروع فسببه يكون مشروعاً، وهو نوع اكتساب وانتفاع بما هو مخلوق لذلك فكان مباحاً، ويستوي إن كان الصيد مأكول اللحم أو غير مأكول اللحم لما في اصطياده من تحصيل المنفعة بجلده أو دفع أذاه عن الناس۔ (المبسوط للسرخسی کتاب الصید ۱۱/۳۹۷ ط: دار الفکر)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

(الباب الثاني في بيان ما يؤكل من الحيوان وما لا يؤكل) الحيوان في الأصل نوعان نوع يعيش في البحر ونوع يعيش في البر، أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان يحرم أكله إلا السمك خاصة فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه، وأما الذي يعيش في البر فأنواع ثلاثة: ما ليس له دم أصلا وما ليس له دم سائل وما له دم سائل، فما لا دم له مثل الجراد والزنبور والذباب والعنكبوت والخنفساء والعقرب والببغاء ونحوها لا يحل أكله إلا الجراد خاصة، وكذلك ما ليس له دم سائل مثل الحية والوزغ وسام أبرص وجميع الحشرات وهو أم الأرض من الفأر والجراد والقنافذ والضب واليربوع وابن عرس ونحوها ولا خلاف في حرمة هذه الأشياء....

وما له دم سائل نوعان: مستأنس ومتوحش، أما المستأنس من البهائم فنحو الإبل والبقر والغنم يحل بالإجماع، وأما المتوحش نحو الظباء وبقر الوحش وحمر الوحش وإبل الوحش فحلال بإجماع المسلمين، وأما المستأنس من السباع وهو الكلب والفهد والسنور والأهلي فلا يحل، وكذلك المتوحش فمنها المسمى بسباع الوحش والطير، وهو كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير، فذو الناب من سباع الوحش مثل الأسد والذئب والضبع والنمر والفهد والثعلب والسنور البري والسنجاب والسمور والدلق والدب والقرد ونحوها فلا خلاف في هذه الجملة، وذو المخلب من الطير كالبازي والباشق والصقر والشاهين والحدأة والبغاث والنسر والعقاب وما أشبه ذلك، وما لا مخلب له من الطير، والمستأنس منه كالدجاج والبط، والمتوحش كالحمام والفاختة والعصافير والقبج والكركي والغراب الذي يأكل الحب والزرع ونحوها حلال بالإجماع، كذا في البدائع. ولا بأس بالقمري والسوداني والزرزور، كذا في فتاوى قاضي خان.

وأما الحمار الأهلي فلحمه حرام، وكذلك لبنه وشحمه، واختلف المشايخ في شحمه من غير وجه الأكل فحرمه بعضهم قياسا على الأكل وأباحه بعضهم وهو الصحيح، كذا في الذخيرة.

والحمار الوحشي إذا صار أهليا ووضع عليه الإكاف فإنه يؤكل والأهلي إذا توحش لا يؤكل، كذا في شرح الطحاوي.

يكره لحم الخيل في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - خلافا لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة والصحيح أنه أراد بها التحريم ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي ما قاله أبو حنيفة رحمه الله تعالى أحوط وما قالا أوسع، كذا في السراجية وأما البغل فعند أبي حنيفة رحمه الله تعالى لحمه مكروه على كل حال، وعندهما كذلك إن كان الفرس نزا على الأتان، وإن كان الحمار نزا على الرمكة فقد قيل لا يكره، كذا في الذخيرة.

(الفتاوی الھندیة کتاب الذبائح، الباب الثاني، ۵ /۲۸۹-۲۹۰ ط دار الفکر)


محیط برہانی میں ہے 

الفصل الأول في بيان ما يؤكل من الحيوانات، وما لا يؤكل

يجب أن يعلم بأن الحيوانات على أنواع: منها ما لا دم له نحو الذباب والزنبور والسمك والجراد وغير ذلك، ولا يحل تناول شيء منها إلا السمك والجراد، غير أن الجراد يحل مات بعلة أو بغير علة، والسمك إذا مات بغير علة لا يحل، وإذا مات بعلة يحل، وسيأتي بيان ذلك بعد هذا؛ إن شاء الله.

وما له دم نوعان: مستأنس ومتوحش، فالذي يحل تناوله من المستأنس بالاتفاق هو الإبل والبقر والغنم والدجاج، وأما الحمار الأهلي، فلحمه حرام، وأما الفرس فلحمه مكروه عند أبي حنيفة كراهة تنزيه عند بعض المشايخ، وكراهة تحريم عند بعضهم هو الصحيح، وعندهما: لا كراهة في لحمه، وأما البغل، فعند أبي حنيفة لحمه مكروه على كل حال، وعندهما كذلك؛ إن كان الفرس نزا على الأتان، وإن كان الحمار نزا على الرمكة، فقد قيل: يكره، وقد قيل: لا يكره، وأما السنور، والكلب، فلحمهما حرام أهلياً كان أو وحشياً.

وأما المستوحش فنوعان: صيد البر، وصيد البحر.

أما صيد البحر: فلا يحل تناول شيء منها إلا السمك.

وأما صيد البر، فالذي لا يؤكل منه كل ذي ناب من السباع، وكل ذي مخلب من الطير، والمراد من الناب والمخلب الناب الذي هو سلاح، والمخلب الذي هو سلاح.

بيان الأول: الأسد والذئب والنمر والفهد والضبع والثعلب وما أشبه ذلك، وكرهوا أيضاً الفيل والدب والقرد والضب، وكرهوا أيضاً سباع الهوام، نحو اليربوع وابن عرس والسنجاب والسنور والفيل والدنق، وكرهوا أيضاً جميع الهوام الذي سُكناها في الأرض نحو الفأرة والوزغ والقنفذ وسام أبرص والحباب، وجميع هوام الأرض إلا الأرنب، فإنه يحل أكله.

وبيان الثاني: الصقر والبازي والشاهين والنسر والعقاب وما أشبه ذلك، وأما العقعق والسوداية وما أشبه ذلك مما لا مخلب له من الطير لا بأس بأكله، وعن محمد في «الرقيات» في العقعق: إذا أكل الجيف يكره أكله، وفإذا كان يلتقط الحب لا يكره، وفي «المنتقى» عن أبي حنيفة أنه قال: لا بأس بأكل العقعق؛ قال: لأنه يخلط الحب مع الجيف، وإنما يكره من الطير ما لا يأكل الجيف، وما له مخلب.

وأما الغراب الأبقع والأسود فهو أنواع ثلاثة: زرعي يلتقط الحب ولا يأكل الجيف، وإنه لا يكره، ونوع منه لا يأكل إلا الجيف، وهو مكروه، ونوع منه يخلط الحب بالجيف؛ يأكل الحب مرة ويأكل الجيف أخرى، وإنه غير مكروه عند أبي حنيفة، وعند أبي يوسف: يكره، و.... تؤكل، وكذلك.... وكذلك الخطاف، وأما الخفاش: فقد ذكر في بعض المواضع أنه لا يؤكل؛ لأن له ناباً۔ (المحيط البرهاني: ٦/٥٧ ط: دار الكتب العلمية)


بدائع الصنائع میں ہے 

أما الأول فالحيوان في الأصل نوعان: نوع يعيش في البحر، ونوع يعيش في البر أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصة فإنه يحل أكله إلا ما ط فا منه وهذا قول أصحابنا - رضي الله عنهم - ... (وأما) الذي يعيش في البر فأنواع ثلاثة: ما ليس له دم أصلا، وما ليس له دم سائل، وما له دم سائل مثل الجراد والزنبور والذباب والعنكبوت والعضابة والخنفساء والبغاثة والعقرب. ونحوها لا يحل أكله إلا الجراد خاصة؛ لأنها من الخبائث لاستبعاد الطباع السليمة إياها وقد قال الله تبارك وتعالى {ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] إلا أن الجراد خص من هذه الجملة بقوله عليه الصلاة والسلام: «أحلت لنا ميتتان» فبقي على ظاهر العموم. وكذلك ما ليس له دم سائل مثل الحية والوزغ وسام أبرص وجميع الحشرات وهوام الأرض من الفأر والقراد والقنافذ والضب واليربوع وابن عرس ونحوها ... وما له دم سائل نوعان: مستأنس ومستوحش أما المستأنس من البهائم فنحو الإبل والبقر والغنم بالإجماع وبقوله تبارك وتعالى {والأنعام خلقها لكم فيها دفء ومنافع ومنها تأكلون} [النحل: 5] ، وقوله سبحانه وتعالى: {الله الذي جعل لكم الأنعام لتركبوا منها ومنها تأكلون} [غافر: 79] واسم الأنعام يقع على هذه الحيوانات بلا خلاف بين أهل اللغة و لاتحل البغال والحمير عند عامة العلماء - رحمهم الله تعالى -. ... وأما المتوحش منها نحو الظباء وبقر الوحش وحمر الوحش وإبل الوحش فحلال بإجماع المسلمين ولقوله تبارك وتعالى: {يسألونك ماذا أحل لهم قل أحل لكم الطيبات} [المائدة: 4] وقوله عز شأنه: {ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157]، وقوله سبحانه وتعالى: {كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 57] ولحوم هذه الأشياء من الطيبات فكان حلالا وروي أنه لما «سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر عن لحوم الحمر فقال: الأهلية؟ فقيل: نعم» فدل قول رسول الله صلى الله عليه وسلم على اختلاف حكم الأهلية والوحشية، وقد ثبت أن الحكم في الأهلية الحرمة لما ذكرنا من الدلائل فكان حكم الوحشية الحل ضرورة وروي «أن رجلًا من فهر جاء إلى النبي عليه الصلاة والسلام و هو بالروحاء ومع الرجل حمار وحشي عقره فقال: هذه رميتي يا رسول الله وهي لك فقبله النبي عليه الصلاة والسلام و أمر سيدنا أبا بكر -رضي الله عنه- فقسمه بين الرفاق»، والحديث وإن ورد في حمار الوحش لكن إحلال الحمار الوحشي إحلال للظبي والبقر الوحشي والإبل الوحشي من طريق الأولى؛ لأن الحمار الوحشي ليس من جنسه من الأهلي ما هو حلال بل هو حرام وهذه الأشياء من جنسها من الأهلي ما هو حلال فكانت أولى بالحل.

وأما المستأنس من السباع وهو الكلب والسنور الأهلي فلا يحل وكذلك المتوحش منها المسمى بسباع الوحش والطير وهو كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير لما روي في الخبر المشهور عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن أكل كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير» ، وعن الزهري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل ذي ناب من السباع حرام» فذو الناب من سباع الوحش مثل الأسد والذئب والضبع والنمر والفهد والثعلب والسنور البري والسنجاب والفنك والسمور والدلق والدب والقرد والفيل ونحوها ... وذو المخلب من الطير كالبازي والباشق والصقر والشاهين والحدأة والنعاب والنسر والعقاب وما أشبه ذلك فيدخل تحت نهي النبي عليه الصلاة والسلام عن كل ذي مخلب من الطير وروي أنه «نهى عن كل ذي خطفة ونهبة ومجثمة وعن كل ذي ناب من الطير والمجثمة» روي بكسر الثاء وفتحها من الجثوم وهو تلبد الطائر الذي من عادته الجثوم على غيره ليقتله وهو السباع من الطير فيكون نهيا على أكل كل طير هذا عادته وبالفتح هو الصيد الذي يجثم عليه طائر فيقتله فيكون نهيا عن أكل كل طير قتله طير آخر بجثومه عليه وقيل بالفتح هو الذي يرمى حتى يجثم فيموت، وما لا مخلب له من الطير فالمستأنس منه كالدجاج والبط والمتوحش كالحمام والفاختة والعصافير والقبج والكركي والغراب الذي يأكل الحب والزرع والعقعق ونحوها حلال بالإجماع۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ۵/۳۵)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 17 فروری، 2024

نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم سوال نمبر ٤٥٧

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد بسملہ پڑھ کر سورۃ یا کوئی آیت پڑھیں گے یا بغیر بسملہ کے پڑھیں گے؟ مدلل جواب مرحمت فرمائے۔

سائل محمّد طیّب پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نماز کی کسی بھی رکعت میں سورۂ  فاتحہ سے پہلے اور سورۂ  فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ واجب نہیں ہے البتہ سورہ فاتحہ پہلے مسنون اور فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا مستحب اور بہتر ہے۔


 حاشية الطحطاوی ہے

ثم أعلم أنه لا فرق في الإتيان بالبسملة بين الصلاة الجهرية والسرية، وفي حاشية المؤلف على الدرر: واتفقوا على عدم الكراهة في ذكرها بين الفاتحة والسورة، بل هو حسن، سواء كانت الصلاة سريةً أو جهريةً (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ص٢٦٠)

  

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 10 فروری، 2024

نماز میں اخزیتہ کی جگہ افزیتہ پڑھا تو نماز کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٤٥٦

 سوال

رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَيۡتَهٗ ‌ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ 

اخزيته کی جگہ افزيته پڑھا تو نماز کا کیا حکم ہے مع حوالہ جواب دیں تو عین نوازش ہوگی

سائل: زبیر رائمہ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فقہاء نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو  تو  اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔

اسی طرح اگر قرأت میں لفظ اس طرح سے بدل جائے کہ جس سے ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد ہوجائے گی، اور اگر ایسا معنی پیدا نہ ہو جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔

صورت مسئولہ میں قاری نے اخزيته کی جگہ افزيته پڑھا جس سے معنی میں اعتقادی خرابی پیدا نہیں ہوئی ہے لہذا نماز درست ہوجائے گی۔


کتاب النوازل میں ہے

مفتی سلمان صاحب منصورپوری کتاب النوازل میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتےہیں کہ: نماز کے دوران اگر قرآنِ کریم پڑھتے ہوئے ایسی فحش غلطی ہوجائے جس سے معنی بالکل بدل جائیں اور تاویل کی کوئی صورت نہ رہے، تو اس فحش غلطی سے نماز فاسد ہوجائے گی، اگر قریب المخارج حروف میں اَدل بدل ہوجائے، مثلا: ’’ظا‘‘ اور ’’ضاد‘‘ ’’طا‘‘ اور ’’تا‘‘، یا ’’ہا‘‘ اور ’’حا‘‘ وغیرہ، تو متأخرین کے نزدیک مطلقاً نماز فاسد نہ ہو گی، الا یہ کہ کوئی شخص قصداً غلط پڑھے، تو پھر یقینا فساد کا حکم لگایا جائے گا۔

قال في الخانیۃ والخلاصۃ: الأصل فیما إذا ذکر حرفاً مکان حرف وغیر المعنی، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإلاَّ یمکن إلا بمشقۃٍ، کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین، والطاء مع التاء۔ قال أکثرہم: لا تفسد۔ وفي خزانۃ الأکمل، قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذٰلک تفسد۔ (شامي ۲؍۳۹۶ زکریا، طحطاوي ۱۸۶) کتاب النوازل ٣/٥٧٧)


إمداد المفتین میں ہے۔

قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)


عالمگیری میں ہے۔

ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم  وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ:وعداً علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة۔ (الفتاوی الهندیة، ١/٨٠ ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته۔ الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ١/١٦٨ ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعرات، 8 فروری، 2024

سنگین گناہ کونسا ہے؟ سوال نمبر ٤۵۵

 سوال 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

وہ کونسا سب سے خطرناک گناہ ہے جو فجر سے قبل کی سنت چھوڑنے سے اور قرآن کی تلاوت نہ کرنے سے بڑھ کر ہے, اور جو آسانی سے معاف نہیں ہوتا, اور اللہ نے قرآن میں اس گناہ کا بدترین مثال کے ساتھ ذکر کیا ہے؟

سائل: امجد پتھان


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قرائن سے وہ گناہ غیبت معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اسلام میں غیبت کرنے کی سخت وعید آئی ہے اور قرآن میں اس کا بدترین مثال کے ساتھ تذکرہ ہے یعنی اپنے مرے ہوئے بھائی کے گوشت کھانے کے برا اس کو قرار دیا ہے۔


قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے۔

وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ۔ الحجرات، 12O


اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے

 

اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’غیبت گناہ میں بدکاری سے بڑھ کر ہے۔‘‘ غیبت ایک ایسا گناہ ہے جس کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ باوجود ندامت اور توبہ کے اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک کہ وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت میں غیبت کو تمام کبائر سے زیادہ مہلک اور سنگین گناہ قرار دیا گیا ہے۔


مشکاة المصابیح میں ہے

وعن أبی سعید وجابر -رضي اللہ عنہما- قالا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الغیبة أشد من الزنا․ قالوا: یا رسول اللہ وکیف الغیبة أشد من الزنا؟ قال: إن الرجل لیزنی فیتوب فیتوب اللہ علیہ - وفی روایة: فیتوب فیغفر اللہ لہ وإن صاحب الغیبة لا یغفر لہ حتی یغفرہا لہ صاحبہ․ (مشکاة: کتاب الآداب، باب حفظ اللسان)


مرقاة المفاتیح میں ہے 

قال الملا علي القاري: قولہ: ”الغیبة أشد من الزنا“ أی: أصعب منہ لتعلقہا بحق العباد البتة- إلخ (مرقاة المفاتیح: ۷/۳۰۵ ط دار الفکر)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


منگل، 6 فروری، 2024

چاندی کی انگوٹھی میں دوسری دھات بھی ملی ہوئی ہو تو اس کے پہننے کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٤٥٤

 سوال

السلامُ علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ اگر مرد ایسی انگوٹھی پہنے جسمیں چاندی بھی استعمال ہوئی ہو اور پلاٹینم بھی استعمال ہوا ہو یعنی دونوں ملا کہ انگوٹھی بنائی گئی ہو تو ایسی انگوٹھی مرد پہن سکتا ہے یا نہیں؟

سائل: عبد الحسیب اسلامپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


عورتوں کے لئے سونے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے اس کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے اور مرد کے لیے صرف چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے اس کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے۔

اور جو انگوٹھی ایسی ہو کہ اس میں دوسری دھات بھی ملائی جاتی ہے تو اس میں غلبہ کا اعتبار ہے یعنی اگر چاندی غالب ہے تو وہ خالص چاندی کی انگوٹھی شمار ہوگی اور اگر اس میں ملائی ہوئی دھات غالب ہے تو وہ چاندی کی انگوٹھی شمار نہیں ہوگی اس کا حکم عام انگوٹھی کا ہوگا جس کو پہننا جائز نہیں ہے۔


بدایة المبتدی میں ہے 

إِذا كَانَ الْغَالِب على الْوَرق الْفضة فَهُوَ فِي حكم الْفضة وَإِذا كَانَ الْغَالِب عَلَيْهَا الْغِشّ فَهُوَ فِي حكم الْعرُوض۔ (بدایة المبتدی ۱/٣٤)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

وفي الخجندي التختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجال والنساء جميعا...ولا بأس بأن يتخذ خاتم حديد قد لوي عليه فضة أو ألبس بفضة حتى لا يرى كذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ الباب العاشر في استعمال الذھب و الفضۃ، ۵/٣٣۵ ط دار الفکر)


بدائع الصنائع میں ہے 

ومنها الفضة لأن النص الوارد بتحريم الذهب على الرجال يكون واردا بتحريم الفضة دلالة فيكره للرجال استعمالها في جميع ما يكره استعمال الذهب فيه إلا التختم به إذا ضرب على صيغة ما يلبسه الرجال ولا يزيد على المثقال لما روينا من حديث النعمان بن بشير - رضي الله عنهما۔ (بدائع الصنائع: ۵/۱۳۳ط: دار الکتب العلمیۃ)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

શું સ્ત્રી પતિને તલાક આપી શકે છે?? સવાલ નંબર ૪૫૩

 સવાલ 

મુફતી સાહબ એક સવાલ છે શુ ઇસ્લામ મા ઓરત પોતાના શોહર ને તલાક આપી શકે છૈ? અને તલાક આપે તો કય રીત થી આપે તો શોહર થી તલાક થાય? એનો શુ હુકમ છૈ?  કીતાબ ના હવાલાથી જવાબ આલવા મેહરબાની

પ્રશ્ન પૂછનાર: તાહિર દાંત



જવાબ

શરિઅતે-મુતહરા માં પુરૂષને તલાક નો અધિકાર છે, સ્ત્રીને પુરુષની પરવાનગી વગર પોતાને તલાક આપવાનો અધિકાર આપવામાં આવ્યો નથી,

પણ અમુક પ્રસંગોએ સ્ત્રીને પરેશાન કરવામાં આવે છે, અને સાથે તલાક પણ નથી આપતા. આવી સ્થિતિમાં શરિયતે પતિને તેની પત્નીને છૂટાછેડાનો અધિકાર આપવાની છૂટ આપી છે અને જ્યારે જરૂરી હોય ત્યારે સ્ત્રીને તેનો ઉપયોગ કરવાની છૂટ આપી છે, પતિની અનોમતિ વગર પત્નીને છૂટાછેડા આપવાની મંજૂરી નથી. અને અધિકાર આપ્યા પછી, પતિનો છૂટાછેડા નો અધિકાર પણ સમાપ્ત થતો નથી, પત્નીને છૂટાછેડા લેવાના અધિકારનો ઉલ્લેખ કરવાના ત્રણ  નિયમો છે:


 1.  લગ્ન પહેલા લખાવી લેવું જોઈએ.


 2.  લગ્નના કરારમાં, તે છૂટાછેડા ના અધિકારનો ઉપચાર કરાવી લેવો જોઈએ.


 3.  લગ્ન પછી લખાવી લેવુ જોઈએ.

 

પહેલા અને બીજા નંબર માં એક એક  શર્ટ  છે.


 પહેલા નંબર માટે શરત એ છે કે તે લગ્ન સંબંધી ની કોઈ શરત હોવી જોઈએ, એટલે કે લગ્ન હોવાની શરત નો ઉલ્લેખ થાવો જોઈએ. ઉદાહરણ તરીકે, પતિ પર કોઈ અગત્યની શરતો રાખી લેવી, તે શરતો લખ્યા પછી લખાવી લેવૂ જોઈએ કે ફુલાણી સ્ત્રી સાથે મારો લગ્ન થયા પછી જો હું આ કબૂલાતમાં દર્શાવેલ શરતો માંથી કોઈપણ શરત ની વિરુદ્ધ જાઉં, તો મારી પત્નીને તે સમયે અથવા અન્ય કોઈપણ સમયે પોતેજ પોતાને તલાક આપી છૂટાછેડા મેળવીને લગન ને ખતમ કરવાનો હક ધરાવવાનો અધિકાર રહેશે. જો આ શરતમાં લગ્નનો ઉચ્ચાર ન હોય તો આ લખાણ અસરકારક રહેશે નહીં.


બીજી શરત મા, એટલે કે, ઇજાબ અને કુબુલ માં, પહેલા આ શરતોનો ભાષામાં ઉલ્લેખ કરવો જોઈએ. અને તે યોગ્ય અને માન્ય હોવા માટે, તે શરત છે કે ઇજાબ સ્ત્રી તરફથી હોવુ જોઈએ, એટલે કે, પ્રથમ ,સ્ત્રી પોતે અથવા તેણીના વાલીએ લગ્ન કરાર સમયે આ કહેવું જોઈએ કે મેં તમને આ શરતો સાથે આ દીકરીના લગ્ન કર્યા છે કે જો તમે આ અથવા તે કરો (લખેલી બધી શરતો માંથી) તો સ્ત્રી જાતેજ પોતાના ઉપર તલાક આપવાનો અધિકાર ધરાવશે. અને તેજ સમયે અથવા અન્ય કોઈપણ સમયે, જો સ્ત્રી ની ઈચ્છા હશે તો, તે તલાક આપીને આ લગ્નથી તેણી જાતને અલગ કરી શકે છે.


આના જવાબમાં, લગ્ન કરનાર વ્યક્તિએ આરીતે કહેવાનું રહશે: હું સ્વીકારું છું, પછી સ્ત્રીને આ પતિના લગ્નને તલાક-એ-બાઈન આપીને છોડી દેવાનો અધિકાર રહશે જ્યારે પતિ લખેલી શરતોના વિરુદ્ધ જશે, પછી સ્ત્રી આ રીતના શબ્દો ઉપચારીને લગ્નથી તેણી જાતને અલગ કરી શકે છે હું પોતાની જાત પર તલાક વાકે કરો છું. અધિકાર મળવા પછી આ રીતના શબ્દો ઉપચારશે તો તે તેના લગ્નથી અલગ થઈ જશે (અલ હીલતૂન નાજીઝા  પૃષ્ઠ 38 થી 42: મકતબા રજી દેવબંદ)


فتاوی شامی

قوله لم يكن له الأمر إلخ ذكر الشارح في آخر باب الأمر باليد نكحها على أن أمرها بيدها صح. اهـ. لكن ذكر في البحر هناك: أن هذا لو ابتدأت المرأة، فقالت: زوجت نفسي على أن أمري بيدي أطلق نفسي كلما أريد أو على أني طالق فقال: قبلت وقع الطلاق وصار الأمر بيدها، أما لو بدأ هو لاتطلق ولايصير الأمر بيدها. اهـ ۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٣/٢٧)


ઉત્તર આપનાર

મુફ્તી આસીફ બિન મોહમ્મદ ગોધરવી

پیر، 5 فروری، 2024

ایجنٹ کو دینے کے لئے بینک سے لون لینا کیسا ہے ؟ سوال نمبر ٤٥٢

 سوال

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔ 

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں، کہ میرے بھائی کئ وقت سے باہر ملک جوب کے لیے کوشش کر رہے ہیں اب جب انکا ویزا لگ چکا ہے، تو ایک اور پریشانی میں وہ مبتلا ہو گئے ہیں کہ انہوں نے جو رقم ایجنٹ کو دینے کے لیے رکھی تھی وہ رقم گھر کی ضروریات میں خرچ ہو گئی ہیں۔

اگر وہ رقم ادا نہیں کریں گے تو ایجنٹ آگے کے کام جیسے ٹکٹ نہیں بنائگا جس کی وجہ سے میرے بھائی کو جس کمپنی نے ویزا دیا ہے وہ انکا ویزا جلدی  کمپنی نہ پہنچنے کی وجہ سے کینسل کر دیں گے اور میرے بھائی کے پیسے جو انہوں نے ایجنٹ کو ویزا لگوانے کے لیے پہلے دیے ہیں وہ بھی ضائع ہو جائینگے۔

اور میرے بھائی نے ہماری زمین بیچ کر رقم ادا کرنے کی بھی کوشش کی لیکن کوئی بھی ہماری زمین ابھی لینا نہیں چاہتا اور رشتہ داروں سے بھی مدد لینے کی کوشش کی لیکن انکا بھی کوئی جواب نہیں آیا تو کیا ان وجوہات کی بنا پر میرا بھائی بینک سے لون لے سکتا ہے؟ اس مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ ۔

سائل: عباس رفيق  راجستھان


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


بینک والے مختلف کاموں کے لیے جو قرضہ دیتے ہیں وہ سودی قرضہ ہوتا ہے، جس طرح سودی قرضہ دینا حرام ہے اسی طرح سودی قرضہ لینا بھی قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے، اور احادیثِ  مبارکہ میں بھی سودی لین دین کرنے والوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی معاملہ دنیا اور آخرت  کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، عموماً جو لوگ سود پر قرض لے کر اپنے کام کرتے ہیں، ساری زندگی سود سے پیچھا چھڑانے میں گزرجاتی ہے بلکہ بکثرت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ اپنے اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتاہے اس لئے کہ یہ اس قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے اورسودی لین دین سے مکمل اجتناب نہ کرنے کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اسی طرح سود کے ایک درہم کو رسول اللہ نے ٣٦ مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے۔

اگر کوئی بندوبست نہ ہو تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے قناعت کرنا چاہیے، اور آدمی  اگر حرام سے بچنے  کے لیے بلند ہمتی سے کام لے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ایسی جگہ سے بندوبست کرتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔


شریعتِ مطہرہ نے شدید مجبوری کی صورت میں سودی قرض لینے کی اجازت دی ہے معمولی مجبوری میں یہ گنجائش نہیں ہے، اور مسؤلہ صورت میں چونکہ کاروبار کے لئے دوسرے ملک جانا یہ شریعت کی نگاہ میں شدید مجبوری نہیں ہے خود اپنے مقام پر بھی وہ حلال رزق کمانے کا بندوبست کرسکتا ہے لہذا بینک سے قرض  لینا شرعًا جائز نہیں ہوگا۔


قرآن میں ہے 

أحل اللہ البیع وحرّم الرّبوا ، (البقرة: ۲۷۵) ایضاً ۔۔۔۔۔ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه [البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ] 

ایضاً 

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا  (الطلاق: ۲، ۳)


مشكاة المصابيح  میں ہے:

وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الربا سبعون جزءا أيسرها أن ینکح الرجل أمه۔ (١/٢٤٦ باب الربوا ، ط؛ قدیمی)


شامی میں ہے 

وفي الأشباہ: کلّ قرض جرّ نفعاً حرامٌ ۔ (الدر المختار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة ، ۷/۳۹۵، زکریا دیوبند)


الاشباہ والنظائر میں ہے

وفي القنية والبغية يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔ (ص؛93، الفن الاول، القاعدة الخامسة، ط:قدیمی)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی