سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عرض یہ ہے کہ آسمان پر اڑنے والے جو حلال پرندے ہیں انکا شکار کرنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟ نیز کونسے جانور ایسے ہیں جن کا شکار کرنا اور کھانا جائز ہے؟ اور حلت و حرمت کے اعتبار سے اس میں شریعت نے کیا اصول مقرر کیا ہے؟ تفصیل سے جواب مرحمت فرماییں مہربانی ہوگی۔
العارض سیف اللہ سندی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اللہ نے پرندے بھی انسانوں کے نفع کے لئے بنائے ہیں اس لیے پرندوں کا شکار کرنا جائز ہے، اور شکار کئے ہوئے پرندے اگر حلال ہے تو اس کا کھانا بھی جائز ہے، شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، شکار کا جائز ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اللہ نے حلال پرندوں کو کھانا حلال کیا ہے بشرطیکہ شکار کرنے سے لہو ولعب مقصود نہ ہو اور شرعی حدود کا خیال رکھا جائے، اس کی وجہ سے عبادات میں غفلت نہ برتی جائے، اور شکار کے دوران انسانی حقوق کا پورا اہتمام کیاجائے۔
شکار کرنے میں اصولی اعتبار سے اتنی بات یاد رکھیں کہ جو اہلی یعنی مانوس جانور ہے یا وہ وحشی ہے لیکن وہ مانوس ہوگئے ہیں چاہے وہ چوپائے ہو یا پرندے ہو ان کا تو شکار کا مسئلہ نہیں ہے اگر وہ ماکول اللحم ہے تو ان میں شرعی ذبح کرنا ضروری ہے اور اگر وہ غیر مانوس ہے اور وہ جانور نوکیلے دانتوں والا درندہ یا پنجوں سے شکار کرنے والا پرندہ ہے ان کا کھانا جائز نہیں ہے، حرام ہے، اس کے علاوہ بِجّو، سنگ پشت اور حشرات الارض کا کھانا مکروہ تحریمی ہے
جانوروں کی حلت و حرمت کی تفصیل
جانوروں کی پانچ قسمیں ہیں (۱) سمندری جانور (۲) فضائی جانور (۳) زمین پر رہنے والے جانور (٤) وہ جانور جن میں خون نہیں ہوتا یا خون تو ہوتا ہے لیکن بہنے والا نہیں ہوتا (۵) وہ جانور جو حشرات الارض کی قبیل سے ہے۔
(۱) سمندری جانور
سمندری جانوروں میں فقہ حنفی کے مطابق صرف مچھلی اپنی تمام اقسام سمیت حلال ہے، اس کے علاوہ تمام سمندری جانور اور وہ جانور جو پانی میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں زندگی بسر کرتے ہیں، جیسے: کچھوا، مگرمچھ، مینڈک، کیکڑا وغیرہ، یہ تمام جانور مکروہ تحریمی ہے ان کا کھانا درست نہیں ہے۔
(۲) فضائی جانور یعنی پرندے
پرندوں کی چار قسمیں ہیں
(۱) وہ پرندے جو پنجوں سے اور چونچ سے شکار کرتے ہیں، جیسے چیل، الو، شاہین، شکرہ، باز وغیرہ، یہ سب حرام ہیں۔
(۲) وہ پرندے جو صرف مردار ہی کھاتے ہیں یہی ان کی غذا ہو جیسے گدھ کوا وغیرہ، یہ سب حرام ہیں۔
(۳) وہ پرندے جو صرف دانے وغیرہ ہی کھاتے ہیں جیسے کبوتر، فاختہ، بٹیر، چڑیا وغیرہ، ان کا کھانا جائز ہے۔
(٤) وہ پرندے جو دانے اور مردار دونوں کھاتے ہوں، لیکن مردار ان کی غذا نہ ہو ان کی عمومی غذا غلہ اور دانہ وغیرہ ہو جیسے سفید بگلا، وغیرہ ان کا کھانا بھی جائز ہے۔
(۳) زمین پر رہنے والے جانور
زمین پر رہنے والے جانور دو قسم کے ہیں
(۱) اہلی یعنی پالتو اور مانوس جانور: ان میں ایسے جانور جو مانوس ہیں اور جن میں بہنے والا خون ہوتا ہے، اور وہ گھانس پتے وغیرہ کھاتے ہیں اور اپنے دانتوں سے زخم اور شکار نہیں کرتے جیسے: اونٹ، بھینس، گائے، بیل، بکرا، بھیڑ، دنبہ وغیرہ، یہ سب حلال ہیں، البتہ گدھا خاص احادیث کی بنا پر حرام ہے، جبکہ گھوڑا امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے، اسی طرح ایسے مانوس جانور جو درندے ہوں اور چیر پھاڑ کرنے والے ہوں (یعنی وہ اپنے دانتوں سے زخم لگاتے ہوں اور شکار کرتے ہوں) جیسے: کتا، بلی وغیرہ، اس قسم کے تمام جانور حرام ہیں۔
(۲) وحشی یعنی غیر مانوس جانور وحشی غیر مانوس جانور جو چیر پھاڑ کرنے والے نہ ہوں جیسے: ہرن، خرگوش، نیل گائے وغیرہ، اس قسم کے تمام جانور حلال ہیں، اور ایسے وحشی جانور جو چیر پھاڑکرنے والے ہوں جیسے: شیر، چیتا، لومڑی، بندر، ریچھ وغیرہ، اس قسم کے تمام جانور حرام ہیں۔
(٤) وہ جانور جن میں خون نہیں ہوتا یا خون تو ہوتا ہے لیکن بہنے والا نہیں ہوتا۔
وہ جانور جو خشکی میں رہتے ہیں اور ان میں خون نہیں ہوتا جیسے: مچھر، بچھو، چیونٹی وغیرہ، (سوائے ٹڈی کے) وہ سب حرام ہیں، اسی طرح جن جانوروں میں خون تو ہوتا ہے، لیکن بہنے والا نہیں ہوتا جیسے چھپکلی، چوہا، سانپ، گرگٹ، نیولا وغیرہ، اس قسم کے تمام جانور حرام ہیں۔
(۵) وہ جانور جو حشرات الارض کی قبیل سے ہے۔
جو جانور حشرات الارض کی قبیل سے ہے بِجّو، جیسے سنگ پشت کیرے مکوڑے سانپ وغیرہ اور دیگر جتنے بھی زمین پر رینگنے والے جانور ہے ان سب کا کھانا مکروہ تحریمی ہے
خلاصہ
خشکی میں رہنے والے جانوروں اور پرندوں میں سے جو جانور یا پرندے دانت یا پنجوں سے شکار کرتے ہیں اور جن کی غذا صرف گندگی اور مردار وغیرہ ہوتی ہے اور جن میں خون بالکل نہیں ہوتا ہے اور جن میں بہنے والا خون نہیں ہوتا، اسی طرح تمام زمین کے اندر رہنے والے جانور اور کیڑے مکوڑے وغیرہ سب حرام ہیں، ا لبتہ ٹڈی میں خون نہیں ہوتا، پھر بھی وہ حلال ہے، مذکورہ اقسام کے علاوہ خشکی میں رہنے والے دیگر سب جانور (جیسے: اونٹ، بھینس، گائے، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، ہرن، نیل گائے،وغیرہ) اور پرندے (جیسے : مرغی، بطخ، مرغابی، کبوتر، طوطا، مینا، فاختہ بٹیر، بلبل، کوئل وغیرہ ) حلال ہیں۔ جب کہ پانی میں رہنے والے جانوروں میں سے مچھلی کے علاوہ کوئی بھی جانور حلال نہیں ہے اور جو مچھلی طبعی موت مرکر پانی میں الٹی تیرنے لگے اس کا کھانا بھی جائز نہیں۔
(مستفاد: متفرق فتاوی سے یہ لیا گیا ہے)
المبسوط للسرخسی میں ہے
( كتاب الصيد ) قال الشيخ الإمام الأجل الزاهد شمس الأئمة وفخر الإسلام أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي رحمه الله إملاءً: اعلم بأن الاصطياد مباح في الكتاب والسنة، أما الكتاب فقوله تعالى: {وإذا حللتم فاصطادوا} وأدنى درجات صفة الأمر الإباحة، وقال الله تعالى: {أحل لكم صيد البحر} الآية، والسنة قوله صلى الله عليه وسلم: {الصيد لمن أخذه}، فعلى هذا بيان أن الاصطياد مباح مشروع؛ لأن الملك حكم مشروع فسببه يكون مشروعاً، وهو نوع اكتساب وانتفاع بما هو مخلوق لذلك فكان مباحاً، ويستوي إن كان الصيد مأكول اللحم أو غير مأكول اللحم لما في اصطياده من تحصيل المنفعة بجلده أو دفع أذاه عن الناس۔ (المبسوط للسرخسی کتاب الصید ۱۱/۳۹۷ ط: دار الفکر)
فتاوی عالمگیری میں ہے
(الباب الثاني في بيان ما يؤكل من الحيوان وما لا يؤكل) الحيوان في الأصل نوعان نوع يعيش في البحر ونوع يعيش في البر، أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان يحرم أكله إلا السمك خاصة فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه، وأما الذي يعيش في البر فأنواع ثلاثة: ما ليس له دم أصلا وما ليس له دم سائل وما له دم سائل، فما لا دم له مثل الجراد والزنبور والذباب والعنكبوت والخنفساء والعقرب والببغاء ونحوها لا يحل أكله إلا الجراد خاصة، وكذلك ما ليس له دم سائل مثل الحية والوزغ وسام أبرص وجميع الحشرات وهو أم الأرض من الفأر والجراد والقنافذ والضب واليربوع وابن عرس ونحوها ولا خلاف في حرمة هذه الأشياء....
وما له دم سائل نوعان: مستأنس ومتوحش، أما المستأنس من البهائم فنحو الإبل والبقر والغنم يحل بالإجماع، وأما المتوحش نحو الظباء وبقر الوحش وحمر الوحش وإبل الوحش فحلال بإجماع المسلمين، وأما المستأنس من السباع وهو الكلب والفهد والسنور والأهلي فلا يحل، وكذلك المتوحش فمنها المسمى بسباع الوحش والطير، وهو كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير، فذو الناب من سباع الوحش مثل الأسد والذئب والضبع والنمر والفهد والثعلب والسنور البري والسنجاب والسمور والدلق والدب والقرد ونحوها فلا خلاف في هذه الجملة، وذو المخلب من الطير كالبازي والباشق والصقر والشاهين والحدأة والبغاث والنسر والعقاب وما أشبه ذلك، وما لا مخلب له من الطير، والمستأنس منه كالدجاج والبط، والمتوحش كالحمام والفاختة والعصافير والقبج والكركي والغراب الذي يأكل الحب والزرع ونحوها حلال بالإجماع، كذا في البدائع. ولا بأس بالقمري والسوداني والزرزور، كذا في فتاوى قاضي خان.
وأما الحمار الأهلي فلحمه حرام، وكذلك لبنه وشحمه، واختلف المشايخ في شحمه من غير وجه الأكل فحرمه بعضهم قياسا على الأكل وأباحه بعضهم وهو الصحيح، كذا في الذخيرة.
والحمار الوحشي إذا صار أهليا ووضع عليه الإكاف فإنه يؤكل والأهلي إذا توحش لا يؤكل، كذا في شرح الطحاوي.
يكره لحم الخيل في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - خلافا لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة والصحيح أنه أراد بها التحريم ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي ما قاله أبو حنيفة رحمه الله تعالى أحوط وما قالا أوسع، كذا في السراجية وأما البغل فعند أبي حنيفة رحمه الله تعالى لحمه مكروه على كل حال، وعندهما كذلك إن كان الفرس نزا على الأتان، وإن كان الحمار نزا على الرمكة فقد قيل لا يكره، كذا في الذخيرة.
(الفتاوی الھندیة کتاب الذبائح، الباب الثاني، ۵ /۲۸۹-۲۹۰ ط دار الفکر)
محیط برہانی میں ہے
الفصل الأول في بيان ما يؤكل من الحيوانات، وما لا يؤكل
يجب أن يعلم بأن الحيوانات على أنواع: منها ما لا دم له نحو الذباب والزنبور والسمك والجراد وغير ذلك، ولا يحل تناول شيء منها إلا السمك والجراد، غير أن الجراد يحل مات بعلة أو بغير علة، والسمك إذا مات بغير علة لا يحل، وإذا مات بعلة يحل، وسيأتي بيان ذلك بعد هذا؛ إن شاء الله.
وما له دم نوعان: مستأنس ومتوحش، فالذي يحل تناوله من المستأنس بالاتفاق هو الإبل والبقر والغنم والدجاج، وأما الحمار الأهلي، فلحمه حرام، وأما الفرس فلحمه مكروه عند أبي حنيفة كراهة تنزيه عند بعض المشايخ، وكراهة تحريم عند بعضهم هو الصحيح، وعندهما: لا كراهة في لحمه، وأما البغل، فعند أبي حنيفة لحمه مكروه على كل حال، وعندهما كذلك؛ إن كان الفرس نزا على الأتان، وإن كان الحمار نزا على الرمكة، فقد قيل: يكره، وقد قيل: لا يكره، وأما السنور، والكلب، فلحمهما حرام أهلياً كان أو وحشياً.
وأما المستوحش فنوعان: صيد البر، وصيد البحر.
أما صيد البحر: فلا يحل تناول شيء منها إلا السمك.
وأما صيد البر، فالذي لا يؤكل منه كل ذي ناب من السباع، وكل ذي مخلب من الطير، والمراد من الناب والمخلب الناب الذي هو سلاح، والمخلب الذي هو سلاح.
بيان الأول: الأسد والذئب والنمر والفهد والضبع والثعلب وما أشبه ذلك، وكرهوا أيضاً الفيل والدب والقرد والضب، وكرهوا أيضاً سباع الهوام، نحو اليربوع وابن عرس والسنجاب والسنور والفيل والدنق، وكرهوا أيضاً جميع الهوام الذي سُكناها في الأرض نحو الفأرة والوزغ والقنفذ وسام أبرص والحباب، وجميع هوام الأرض إلا الأرنب، فإنه يحل أكله.
وبيان الثاني: الصقر والبازي والشاهين والنسر والعقاب وما أشبه ذلك، وأما العقعق والسوداية وما أشبه ذلك مما لا مخلب له من الطير لا بأس بأكله، وعن محمد في «الرقيات» في العقعق: إذا أكل الجيف يكره أكله، وفإذا كان يلتقط الحب لا يكره، وفي «المنتقى» عن أبي حنيفة أنه قال: لا بأس بأكل العقعق؛ قال: لأنه يخلط الحب مع الجيف، وإنما يكره من الطير ما لا يأكل الجيف، وما له مخلب.
وأما الغراب الأبقع والأسود فهو أنواع ثلاثة: زرعي يلتقط الحب ولا يأكل الجيف، وإنه لا يكره، ونوع منه لا يأكل إلا الجيف، وهو مكروه، ونوع منه يخلط الحب بالجيف؛ يأكل الحب مرة ويأكل الجيف أخرى، وإنه غير مكروه عند أبي حنيفة، وعند أبي يوسف: يكره، و.... تؤكل، وكذلك.... وكذلك الخطاف، وأما الخفاش: فقد ذكر في بعض المواضع أنه لا يؤكل؛ لأن له ناباً۔ (المحيط البرهاني: ٦/٥٧ ط: دار الكتب العلمية)
بدائع الصنائع میں ہے
أما الأول فالحيوان في الأصل نوعان: نوع يعيش في البحر، ونوع يعيش في البر أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصة فإنه يحل أكله إلا ما ط فا منه وهذا قول أصحابنا - رضي الله عنهم - ... (وأما) الذي يعيش في البر فأنواع ثلاثة: ما ليس له دم أصلا، وما ليس له دم سائل، وما له دم سائل مثل الجراد والزنبور والذباب والعنكبوت والعضابة والخنفساء والبغاثة والعقرب. ونحوها لا يحل أكله إلا الجراد خاصة؛ لأنها من الخبائث لاستبعاد الطباع السليمة إياها وقد قال الله تبارك وتعالى {ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] إلا أن الجراد خص من هذه الجملة بقوله عليه الصلاة والسلام: «أحلت لنا ميتتان» فبقي على ظاهر العموم. وكذلك ما ليس له دم سائل مثل الحية والوزغ وسام أبرص وجميع الحشرات وهوام الأرض من الفأر والقراد والقنافذ والضب واليربوع وابن عرس ونحوها ... وما له دم سائل نوعان: مستأنس ومستوحش أما المستأنس من البهائم فنحو الإبل والبقر والغنم بالإجماع وبقوله تبارك وتعالى {والأنعام خلقها لكم فيها دفء ومنافع ومنها تأكلون} [النحل: 5] ، وقوله سبحانه وتعالى: {الله الذي جعل لكم الأنعام لتركبوا منها ومنها تأكلون} [غافر: 79] واسم الأنعام يقع على هذه الحيوانات بلا خلاف بين أهل اللغة و لاتحل البغال والحمير عند عامة العلماء - رحمهم الله تعالى -. ... وأما المتوحش منها نحو الظباء وبقر الوحش وحمر الوحش وإبل الوحش فحلال بإجماع المسلمين ولقوله تبارك وتعالى: {يسألونك ماذا أحل لهم قل أحل لكم الطيبات} [المائدة: 4] وقوله عز شأنه: {ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157]، وقوله سبحانه وتعالى: {كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 57] ولحوم هذه الأشياء من الطيبات فكان حلالا وروي أنه لما «سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر عن لحوم الحمر فقال: الأهلية؟ فقيل: نعم» فدل قول رسول الله صلى الله عليه وسلم على اختلاف حكم الأهلية والوحشية، وقد ثبت أن الحكم في الأهلية الحرمة لما ذكرنا من الدلائل فكان حكم الوحشية الحل ضرورة وروي «أن رجلًا من فهر جاء إلى النبي عليه الصلاة والسلام و هو بالروحاء ومع الرجل حمار وحشي عقره فقال: هذه رميتي يا رسول الله وهي لك فقبله النبي عليه الصلاة والسلام و أمر سيدنا أبا بكر -رضي الله عنه- فقسمه بين الرفاق»، والحديث وإن ورد في حمار الوحش لكن إحلال الحمار الوحشي إحلال للظبي والبقر الوحشي والإبل الوحشي من طريق الأولى؛ لأن الحمار الوحشي ليس من جنسه من الأهلي ما هو حلال بل هو حرام وهذه الأشياء من جنسها من الأهلي ما هو حلال فكانت أولى بالحل.
وأما المستأنس من السباع وهو الكلب والسنور الأهلي فلا يحل وكذلك المتوحش منها المسمى بسباع الوحش والطير وهو كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير لما روي في الخبر المشهور عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن أكل كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير» ، وعن الزهري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل ذي ناب من السباع حرام» فذو الناب من سباع الوحش مثل الأسد والذئب والضبع والنمر والفهد والثعلب والسنور البري والسنجاب والفنك والسمور والدلق والدب والقرد والفيل ونحوها ... وذو المخلب من الطير كالبازي والباشق والصقر والشاهين والحدأة والنعاب والنسر والعقاب وما أشبه ذلك فيدخل تحت نهي النبي عليه الصلاة والسلام عن كل ذي مخلب من الطير وروي أنه «نهى عن كل ذي خطفة ونهبة ومجثمة وعن كل ذي ناب من الطير والمجثمة» روي بكسر الثاء وفتحها من الجثوم وهو تلبد الطائر الذي من عادته الجثوم على غيره ليقتله وهو السباع من الطير فيكون نهيا على أكل كل طير هذا عادته وبالفتح هو الصيد الذي يجثم عليه طائر فيقتله فيكون نهيا عن أكل كل طير قتله طير آخر بجثومه عليه وقيل بالفتح هو الذي يرمى حتى يجثم فيموت، وما لا مخلب له من الطير فالمستأنس منه كالدجاج والبط والمتوحش كالحمام والفاختة والعصافير والقبج والكركي والغراب الذي يأكل الحب والزرع والعقعق ونحوها حلال بالإجماع۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ۵/۳۵)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی