سوال
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں، کہ میرے بھائی کئ وقت سے باہر ملک جوب کے لیے کوشش کر رہے ہیں اب جب انکا ویزا لگ چکا ہے، تو ایک اور پریشانی میں وہ مبتلا ہو گئے ہیں کہ انہوں نے جو رقم ایجنٹ کو دینے کے لیے رکھی تھی وہ رقم گھر کی ضروریات میں خرچ ہو گئی ہیں۔
اگر وہ رقم ادا نہیں کریں گے تو ایجنٹ آگے کے کام جیسے ٹکٹ نہیں بنائگا جس کی وجہ سے میرے بھائی کو جس کمپنی نے ویزا دیا ہے وہ انکا ویزا جلدی کمپنی نہ پہنچنے کی وجہ سے کینسل کر دیں گے اور میرے بھائی کے پیسے جو انہوں نے ایجنٹ کو ویزا لگوانے کے لیے پہلے دیے ہیں وہ بھی ضائع ہو جائینگے۔
اور میرے بھائی نے ہماری زمین بیچ کر رقم ادا کرنے کی بھی کوشش کی لیکن کوئی بھی ہماری زمین ابھی لینا نہیں چاہتا اور رشتہ داروں سے بھی مدد لینے کی کوشش کی لیکن انکا بھی کوئی جواب نہیں آیا تو کیا ان وجوہات کی بنا پر میرا بھائی بینک سے لون لے سکتا ہے؟ اس مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ ۔
سائل: عباس رفيق راجستھان
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
بینک والے مختلف کاموں کے لیے جو قرضہ دیتے ہیں وہ سودی قرضہ ہوتا ہے، جس طرح سودی قرضہ دینا حرام ہے اسی طرح سودی قرضہ لینا بھی قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے، اور احادیثِ مبارکہ میں بھی سودی لین دین کرنے والوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی معاملہ دنیا اور آخرت کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، عموماً جو لوگ سود پر قرض لے کر اپنے کام کرتے ہیں، ساری زندگی سود سے پیچھا چھڑانے میں گزرجاتی ہے بلکہ بکثرت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ اپنے اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتاہے اس لئے کہ یہ اس قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے اورسودی لین دین سے مکمل اجتناب نہ کرنے کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اسی طرح سود کے ایک درہم کو رسول اللہ نے ٣٦ مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے۔
اگر کوئی بندوبست نہ ہو تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے قناعت کرنا چاہیے، اور آدمی اگر حرام سے بچنے کے لیے بلند ہمتی سے کام لے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ایسی جگہ سے بندوبست کرتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔
شریعتِ مطہرہ نے شدید مجبوری کی صورت میں سودی قرض لینے کی اجازت دی ہے معمولی مجبوری میں یہ گنجائش نہیں ہے، اور مسؤلہ صورت میں چونکہ کاروبار کے لئے دوسرے ملک جانا یہ شریعت کی نگاہ میں شدید مجبوری نہیں ہے خود اپنے مقام پر بھی وہ حلال رزق کمانے کا بندوبست کرسکتا ہے لہذا بینک سے قرض لینا شرعًا جائز نہیں ہوگا۔
قرآن میں ہے
أحل اللہ البیع وحرّم الرّبوا ، (البقرة: ۲۷۵) ایضاً ۔۔۔۔۔ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه [البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]
ایضاً
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق: ۲، ۳)
مشكاة المصابيح میں ہے:
وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الربا سبعون جزءا أيسرها أن ینکح الرجل أمه۔ (١/٢٤٦ باب الربوا ، ط؛ قدیمی)
شامی میں ہے
وفي الأشباہ: کلّ قرض جرّ نفعاً حرامٌ ۔ (الدر المختار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة ، ۷/۳۹۵، زکریا دیوبند)
الاشباہ والنظائر میں ہے
وفي القنية والبغية يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔ (ص؛93، الفن الاول، القاعدة الخامسة، ط:قدیمی)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں