سوال
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَيۡتَهٗ ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ
اخزيته کی جگہ افزيته پڑھا تو نماز کا کیا حکم ہے مع حوالہ جواب دیں تو عین نوازش ہوگی
سائل: زبیر رائمہ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
فقہاء نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔
اسی طرح اگر قرأت میں لفظ اس طرح سے بدل جائے کہ جس سے ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد ہوجائے گی، اور اگر ایسا معنی پیدا نہ ہو جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔
صورت مسئولہ میں قاری نے اخزيته کی جگہ افزيته پڑھا جس سے معنی میں اعتقادی خرابی پیدا نہیں ہوئی ہے لہذا نماز درست ہوجائے گی۔
کتاب النوازل میں ہے
مفتی سلمان صاحب منصورپوری کتاب النوازل میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتےہیں کہ: نماز کے دوران اگر قرآنِ کریم پڑھتے ہوئے ایسی فحش غلطی ہوجائے جس سے معنی بالکل بدل جائیں اور تاویل کی کوئی صورت نہ رہے، تو اس فحش غلطی سے نماز فاسد ہوجائے گی، اگر قریب المخارج حروف میں اَدل بدل ہوجائے، مثلا: ’’ظا‘‘ اور ’’ضاد‘‘ ’’طا‘‘ اور ’’تا‘‘، یا ’’ہا‘‘ اور ’’حا‘‘ وغیرہ، تو متأخرین کے نزدیک مطلقاً نماز فاسد نہ ہو گی، الا یہ کہ کوئی شخص قصداً غلط پڑھے، تو پھر یقینا فساد کا حکم لگایا جائے گا۔
قال في الخانیۃ والخلاصۃ: الأصل فیما إذا ذکر حرفاً مکان حرف وغیر المعنی، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإلاَّ یمکن إلا بمشقۃٍ، کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین، والطاء مع التاء۔ قال أکثرہم: لا تفسد۔ وفي خزانۃ الأکمل، قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذٰلک تفسد۔ (شامي ۲؍۳۹۶ زکریا، طحطاوي ۱۸۶) کتاب النوازل ٣/٥٧٧)
إمداد المفتین میں ہے۔
قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)
عالمگیری میں ہے۔
ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ:وعداً علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة۔ (الفتاوی الهندیة، ١/٨٠ ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
فتاوی عالمگیری میں ہے
وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته۔ الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ١/١٦٨ ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں