جمعہ، 22 مارچ، 2024

اذان فجر کے شروع ہونے تک کھاتے پیتے رہنا سوال نمبر ٤٦٤

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب اگر کوئی شخص رمضان میں فجر کی اذان تک پانی پینے کا سلسلہ جاڑی رکھے یہ سمجھتے ہوئے کہ سحری کا وقت اذان تک رہتا ہے تو اس کے روزے کا کیا حکم ہے ؟

سائلہ: اللہ کی بندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سحری کے کھانے اور بند کرنے کا مدار وقت پر ہے اور سحری کا وقت صبح صادق تک ہوتا ہے اور صبح صادق کے ساتھ سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، اب اگر فجر کا وقت داخل ہوچکا ہے تو کھانا پینا جائز نہیں، اگرچہ فجر کی اذان نہ ہوئی ہو اور اگر فجر کا وقت داخل نہیں ہوا ہے تو کھانا پینا جائز ہے اور اذان فجر سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے، پس اگر کسی نے اس دوران جانے انجانے میں کھا پی لیا تو اس کا روزہ نہیں ہوگا بعد میں اس روزے کی قضا لازم ہوگی۔


صورت مسئولہ میں اذان فجر شروع ہوجائے اس دوران  پانی پینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔ جتنے دن ایسا کیا گیا ہے وہ روزے صحیح نہ ہوئے ان سب روزوں کو دوبارہ رکھنا ہوگا لیکن چونکہ یہاں روزہ توڑنا نہیں پایا گیا اس لئے صرف قضاء آئےگی کفارہ لازم نہیں ہوگا، ہاں جو ٹائم ٹیبل چھپے ہوئے ہیں اس وقت کے ختم کے ساتھ ہی یا اس سے پہلے اذان فجر ہوگئی اور پانی پی لیا تو چونکہ ٹائم ٹیبل میں جو ٹائم ہیں وہ تخمینی ہے اس لئے اس کا روزہ تو ہوجائے گا لیکن آئیندہ احتیاط لازم ہے لہذا ہرجگہ کا جو صحیح ٹائم ٹیبل چھپا ہوا ہے اسے دیکھ کر آخری وقت سے بھی ۵/ منٹ پہلے کھانا پینا بند کردینا چاہیے جیسے کہ مساجد میں اعلانات بھی گئے جاتے ہیں۔


فتاوی عالمگیری میں ہے

تسحر علی ظن أن الفجر لم یطلع وہو طالع أو أفطر علی ظن أن الشمس قد غربت ولم تغرب قضاہ ولا کفارۃ علیہ؛ لأنہ ما تعمد الإفطار۔ (فتاویٰ الھندیہ، ١/١٩٤ ط: رشیدیہ)

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

بدھ، 20 مارچ، 2024

عورتوں کے کفن پر خوشبو چھڑکنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٦٣

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کیا عورت کے کفن پر خوشبو لگا سکتے ہیں؟ یا پھر حیاتی میں جس طرح لگانا مکروہ ہے اسی طرح کفن پر بھی مکروہ ہوگا؟ مع حوالہ جواب دیں تو عین نوازش ہوگی۔

سائل: زبیر بن نورمحمد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فی نفسہ عورت کے لئے خوشبو لگانا مکروہ نہیں ہے وہ حیاتی میں بھی ایسی خوشبو استعمال کر سکتی ہے جس کی مہک کم اور رنگ غالب ہو، عورتوں کے لیے ایسی خوشبو  لگاکر  باہر نکلنا جو پھیلنے والی ہو اورجس سے نامحرم مرد متوجہ ہوں ناجائز ہے 

اسی طرح عورت  کے کفن کو بھی خوشبو  کی دھونی دینا اور خوشبو چھڑکنا جائز ہے مکروہ نہیں ہے۔


البحر الرائق میں ہے

و تجمر الأكفان أولًا وترًا لأنه عليه السلام أمر بإجمار أكفان امرأته و المراد به التطيب قبل أن يدرج فيها الميت (البحر الرائق، كتاب الجنائز ۲/۳۱۰ ط دار الكتب العلمية بيروت)


فتاوی عالمگیری میں ہے

و تجمر الأكفان قبل أن يدرج الميت فيها وترًا واحدةً أو ثلاثًا أو خمسًا (فتاوی عالمگیری ۱/۱۷۷ كتاب الصلاة باب في الجنائز ط دار الكتب العلمية  بيروت)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

روزے کی حالت میں صرف پانی کا بھاپ لینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٦٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ کیا سردی زكام کی صورت میں صرف پانی کی بھاپ لینا یعنی پانی گرم کر کے اس کی پھانپ لینے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں جواب مطلوب ہے۔

سائل عبدالحی سالک


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


روزے کی حالت میں بھاپ لینے سے روزہ فاسد ہوجائے گا چاہے صرف گرم پانی کا ہو یا اس میں دوا کی ملاوٹ ہو چاہے براہ راست لیاجائے یا مشین کے ذریعہ ہر صورت میں اس سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، اس لئے کہ بھاپ لینے کی وجہ سے پانی بخارات میں تبدیل ہوکر ناک کے راستے سے پیٹ کے اندر چلا جاتاہے اس وجہ سے روزہ کی حالت میں بھاپ لینے کی اجازت نہیں ہے اس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔ 


فتاوی شامی میں 

قوله أنه لو أدخل حلقه الدخان أي بأي صورة كان الإدخال، حتى لو تبخر ببخور وآواه إلى نفسه واشتمه ذاكراً لصومه أفطر لإمكان التحرز عنه، وهذا مما يغفل عنه كثير من الناس (رد المحتار ٣/٣٧٨ زكريا).


طحطاوي میں ہے 

وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه من أدخل بصنعه دخانا حلقه بأي صورة كان الإدخال فسد صومه سواء كان دخان عنبرا أو عودا أو غيرهما حتى من تبخر ببخور فآواه إلى نفسه واشتم دخانه ذاكرا لصومه أفطر لإمكان التحرز عن إدخال المفطر جوفه ودماغه وهذا مما يغفل عنه كثير من الناس فلينبه له (طحطاوی ص ٤٤٠)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

بدھ، 13 مارچ، 2024

شادی کے موقع پر دولہا اور دولہن پر پیسے ڈالنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٦١

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

 حضرت اگر کسی شخص کی شادی ھو رہی ھو تو کیا اسکے اوپر نوٹ نچھاور کرنا  جائز ھے شرعی اعتبار سے  اسکی کیا حیثیت ھے؟ کیسا ھے؟

سائل : سیف اللہ سندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شادی کے موقع پر کچھ بعض جگہوں میں خاص رسومات اسلامی معاشرے میں پنپ چکی ہے جو غیروں کا خاص وطیرہ رہا ہے جیسے دلہن اور دلہا کے سر پر تیل لگانا، دلہا کو ہار پہنانا اور اس پر پیسہ نچھاور کرنا یہ سب محض جاہلانہ رسمیں ہیں اور اس میں بعض اوقات دلہن کے پاس غیر محرم مردوں کا بھی آنا جانا ہوتا ہے جو اور زیادہ قبیح فعل اور بے حیائی کی بات ہے، شریعت مطہرہ میں ان رسومات کی کوئی حیثیت نہیں، اس لیے ان کا ترک لازم اور ضروری ہے اس میں تشبہ بالاغیار بھی لازم آتا ہے اس لئے کہ یہ غیروں کا طریقہ ہے اور اس سے شریعت نے من تشبہ بقوم فھو منہ کہ کر اس سے روکدیا ہے۔


لہذا جس طرح اور رسومات سے علماء کرام نے منع کیا ہے اسی طرح دولہا اور دلہن کے اوپر جو پیسے  نچھاور کرنے کا معمول ہے اس سے بھی علماء نے منع فرمایاہے کہ روپے پیسے کو اللہ عزوجل نے خلق (لوگوں) کی حاجت روائی کے لئے بنایا ہے تو اسے پھینکنا نہیں چاہئے اس طرح بلا کسی ضرورت کے پیسے ضائع کرنا اسراف ہے جس کو شریعت نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ہے وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔


اسی طرح دوسری جگہ ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے قرآن میں ہے إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِين بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں،


اسی طرح گلیوں میں محلے سے بارات گزرنے پر پیسے پھینکے جاتے ہیں جو اکثر نیچے گرتے اور گم ہوجاتےہیں یا نالیوں میں گر جاتے ہیں، یہ پیسوں کا ضائع کرنا اور اللہ کی نعمت کی بے حرمتی کرناہے اور ناشکری ہے قرآن میں شکرگزاری کا حکم ہے اور ناشکری پر وعید وارد ہے، لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ اس لئے ایسا کرنے سےمنع فرمایا گیاہے

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

پیر، 11 مارچ، 2024

ભાઈ બહેનોના દરમિયાન વારસા વહેંચણીનો મસઅલો સવાલ નંબર ૪૬૦

 સવાર

બાપ ની મિલકત પર છોકરા ના હિસ્સા....

અમારા ઘર માં 3 ભાઈ, 1 માં,  6 બહેનો છે બાપ ની મિલકત છે તો બહેનો કા હાથ માં કેટલો હિસ્સો લાગે અને ભાઈ ના હાથ માં કેટલો હિસ્સો લાગે, શરીઅત પ્રમાને. તથા બહેનો ભાઈઓ જેટલા હિસ્સા માગે છે તે હલાલ છે કે નહિ ......

પ્રશ્ન પૂછનાર:

 રહેબાન હયાત



જવાબ

જયારે કોઈ વ્યક્તિ મૃત્યુ પામે છે, ત્યારે કુલ વારસામાં થી કફન દફનનો ખર્ચ આપવામાં આવશે અને વસિયત કરી હોય તો કુલ માલમાંના ત્રીજા હિસ્સમાંથી આપવામાં આવશે અને તે પછી મૈયત પર કરજ હોય તો તેના કુલ માલમાંથી કરજ આપવામાં આવશે પછી બાકીની મિલકત શરિયત મુજબ વારસદારોમાં તેમના હિસ્સા પ્રમાણે વહેંચવામાં આવશે.


સવાલમાં પૂછેલ વિગતમાં જણાવ્યા મુજબ મરનાર ના વારસદારોમાં માત્ર પ્રશ્નમાં ઉલ્લેખિત વારસદારોજ છે, એટલે કે વિધવા અને 3 પુત્ર અને 6 પુત્રીઓ છે, અને તેના મૃત્યુ સમયે અન્ય કોઈ વારસદારો હયાત ન હતા, તેથી સમગ્ર રકમ  તેઓ ના વચ્ચે આ રીતે વહેંચવામાં આવશે કે પુત્રો ને પુત્રીઓ કરતા ડબલ હિસ્સો આપવામાં આવશે 


 તો આ મિલકતની વહેંચણી આ રીતે થશે કે કુલ માલના 84 હિસ્સા કરવામાં આવશે તેમાંથી વિધવા ને 12 હિસ્સા અને પુત્રોને (42) હિસ્સા આપવામાં આવશે અને પુત્રીઓને  (42) હિસ્સા આપવામાં આવશે. અને તેમના દરમિયાન આ રીતે તકસીમ થશે


માં ને 12 હિસ્સા

અને ભાઈઓ ને

(1) ભાઈ 14

(2) ભાઈ 14

(3) ભાઈ 14

અને બહેનોને

(1) બહેન 7

(2) બહેન 7

(3) બહેન 7

(4) બહેન 7

(5) બહેન 7

(6) બહેન 7


આ રીતે હિસ્સો કરી આપવામાં આવશે۔



તથા બહેનો ભાઈઓ જેટલા હિસ્સા માગે છે તે કુરાન અને હનીશમાં ફરમાવેલ મુજબ હુકમ ના ખિલાફ છે અને જો તેઓ લેશે તો તે ગુનેગાર થશે.


قرآن کریم میں ہے


( اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ (النساء: 11).


تبیین الحقائق میں ہے


إذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين لقوله تعالى ﴿يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين﴾ (تبيين الحقائق ٦/٢٢٤)


જવાબ લખી આપનાર:

 મુફ્તી આસીફ બિન મોહમ્મદ ગોધરવી 

پیر، 4 مارچ، 2024

کڑک اور نئی نوٹوں کے بدلے زیادہ قیمت وصول کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٥٨

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کیا کہتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ عید برات کے موقعہ پر اور شادی وغیرہ کے موقعہ پر بینک سے جو کڑک نوٹ نکالے جاتے ہیں تو وہ پیسوں پر پیسے کم کرکے دیتے ہیں آیا یہ سود تو نہیں ہے؟ وہ کہتے ہیں کے ہم اپنی محنت لیتے ہیں۔ براء مھربانی اسکا جواب بھی سمجھائیں کوئی حل بھی نکال کردیں۔

العارض: سیف اللہ سندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اصولی اعتبار سے موجودہ کرنسی کی حیثیت کو سمجھنے کے لئے اتنی بات ذہن نشین فرمالیں کہ ثمن کا تبادلہ جب ثمن سے ہو تو کمی زیادتی سود ہوگی، ثمن کی دو قسمیں ہے۔


(۱) ثمن خلقی، جیسے سونا، اور چاندی جو "حقیقی زر"  ہے، کیوں کہ ان کی قوت خرید فطری ہے، اگر زر کی حیثیت سے ان کا رواج ختم بھی ہوجائے،  تب بھی جنس کے اعتبار سے ان کی ذاتی مالیت برقرار رہتی ہے۔


(۲) ثمن عرفی جیسے عام کرنسی/نوٹ جو" اعتباری زر " ہے، اگر زر کی حیثیت سے ان کا رواج ختم ہوجائے تو سونے چاندی کی طرح ان کی افادیت باقی نہیں رہتی۔


لہذا آج کل نوٹوں کی حیثیت ثمن عرفی کی وجہ سے وہی ہے جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سونے اور چاندی کی ہوا کرتی تھی، اور سونے اور چاندی کے جو احکام ہیں وہی احکام نوٹوں کے بھی ہوں گے اور جس طرح سونا سونے کے بدلے میں چاندی چاندی کے بدلے میں کمی زیادتی سے جائز نہیں ہے اسی طرح موجودہ کرنسی بھی اگر ایک ہی ملک کی ہو تو کمی زیادتی کے ساتھ جائز نہیں ہے، کیونکہ اس کی شرعی حیثیت بدل چکی ہے۔


کرنسی نوٹوں کی شرعی حیثيت پر اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کا دوسرا فقہی سمینار ۸ تا ۱۱ دسمبر ۱۹۸۹ منعقد ہوا تھا. اس سمینار میں کرنسی نوٹوں کے متعلق جو تجاویز منظور ہوئی تھیں وہ درج ذیل ہیں۔


۱) کرنسی نوٹ سند وحوالہ نہیں بلکہ ثمن ہے.اور اسلامی شریعت کی نظر میں کرنسی نوٹوں کی حیثيت زر اصطلاحی و قانونی کی ہے۔


۲) عصر حاضر میں نوٹوں نے ذریعۂ تبادلہ ہونے میں مکمل طور پر زر خلقی(سونا چاندی) کی جگہ لے لی ہےاور باہمی لین دین نوٹوں کے ذریعہ انجام پاتا ہے.اسلئے کرنسی نوٹ بھی احکام میں ثمن حقیقی کے مشابہ ہے۔ (نئے مسائل اور علماء ہند کے فیصلے  ۱۱۰)


مسؤلہ صورت میں جب نوٹوں کا تبادلہ کرنا ہو اور ایک ہی ملک کی کرنسی ہو، تو اس میں برابری ضروری ہے، کمی یا زیادتی سود میں شمار ہوگی، چاہے نوٹ نئے ہوں یا پرانے ہوں، لہذا کڑک نوٹ کے بدلے میں اضافی رقم لینا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔


اگر ایسا عقد کرنا ضروری ہو تو جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نئے نوٹ دینے والا شخص نئے اور کڑک نوٹ کے ساتھ کوئی اور چیز بھی ملالے مثلاً ہزار روپے کی مالیت نوٹ کے ساتھ ایک قلم ساتھ  رکھ کر ایک ہی عقد میں فروخت کرے، چناں چہ ایک ہزار روپے کے عوض ایک ہزار روپے ہوجائیں گے، اور جو زائد رقم ہوگی وہ قلم کے عوض ہوجائے گی۔ 


ہدایہ میں ہے

الصرف هو البيع إذا كان كل واحد من عوضيه من جنس الأثمان۔۔۔قال: "فإن باع فضة بفضة أو ذهبا بذهب لا يجوز إلا مثلا بمثل وإن اختلفا في الجودة والصياغة" لقوله عليه الصلاة والسلام: "الذهب بالذهب مثلا بمثل وزنا بوزن يدا بيد والفضل ربا" الحديث وقال عليه الصلاة والسلام: "جيدها ورديئها سواء" وقد ذكرناه في البيوع۔ (الھدایۃ: ۳/۸۱ ط: دار احیاء التراث العربی)


تکملۃ فتح الملہم میں ہے 

وأما الأوراق النقدیۃ وھي التي تسمی نوت ….... فالذین یعتبرونھا سندات دین، ینبغي أن لا یجوز عندھم مبادلۃ بعضھا ببعض أصلا، لاستلزام بیع الدین بالدین، ولکن قدمنا ھناک أن المختار عندنا قول من یجعلھا أثمانا، وحینئذ تجري علیھا أحکام الفلوس النافقۃ سواء بسواء وقدمنا آنفا أن مبادلۃ الفلوس بجنسھا لا یجوز بالتفاضل عند محمد رحمہ اللہ، ینبغي أن یفتی بھذا القول في ھذا الزمان سدا لباب الربا، وعلیہ فلا یجوز مبادلۃ الأوراق النقدیۃ بجنسھا متفاضلا، ویجوز إذا کانت متماثلا......وأما العملۃ الأجنبیۃ من الأوراق فھي جنس آخر، فیجوز بالتفاضل، فیجوز بیع ثلاث ربیات باکستانیۃ بریال واحد سعودي (تکملۃ فتح الملہم۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، حکم الأوراق النقدیۃ ١/ ٥٨٩ ۔ ٥٩٠)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی